رمضان المبارک کی رات تھی۔ ہمارے علاقے میں ایک مسجد میں نمازِ تراویح ادا کی جا رہی تھی۔ نماز پڑھانے والے امام صاحب کی قراءت صرف مقتدی حضرات ہی کو نہیں بلکہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے پورے محلے کو بھی سنائی جا رہی تھی۔ اس مسجد کی ہم سایگی میں میرے ایک دوست رہتے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ میرے والد صاحب بہت دور ملازمت کرنے جاتے ہیں اس لیے وہ صبح سویرے گھر سے چلے جاتے ہیں اور شام ڈھلنے کے بعد گھر لوٹتے ہیں۔ اس لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ عشا کے بعد جلد سو جائیں۔ لیکن اس مسجد کے اسپیکر کی وجہ سے وہ ایسا کر نہیں پاتے، جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ اتنے غصے میں آ جاتے ہیں کہ مسجد کی انتظامیہ کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔
میں اس دوست کو لے کر مسجد میں گیا۔ مسجد کی انتظامیہ کے ایک صاحب کو ایک گوشے میں لے گیا اور انھیں مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ اور انھیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ نمازِ تروایح فرض نماز نہیں ہے، جو اسے ادا نہیں کرتا خدا اس پر گرفت نہیں کرے گا۔ یہ طریقہ تو فرض نماز میں بھی اختیار نہیں کرنا چاہیے اور آپ ایک نفلی نماز کی قراءت زبردستی محلے کے لوگوں کو سنا رہے ہیں۔ آپ کے ہمسائے آپ کی وجہ سے بہت پریشان ہیں اور دینی اعتبار سے یہ آپ کے لیے بڑی سنگین بات ہے۔ پھر میں نے انھیں وہ حدیث سنائی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ خدا کی قسم کھا کر اس شخص کو ایمان سے خارج قرار دیا تھا جو اپنے ہمسایے کو ایذا پہنچاتا ہے۔ ان صاحب نے معمولی سی بحث کی لیکن تھوڑی دیر کے بعد مثبت رویہ ظاہر کر کے چلے گئے۔
چند دنوں کے بعد مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ اس مسجد کی انتظامیہ کے ایک دوسرے رکن نے میرے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ شخص تو قرآنِ مجید کا مخالف ہے۔ قرآن کی قرا ء ت کرنے کے خلاف بولتا ہے۔
اسی طرح ہمارے ہاں ایک مکتبِ فکر کی مساجد میں اذان سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جاتا ہے۔ ان حضرات کے اس عمل پر تنقید کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو دین دیا، وہ مکمل دین ہے۔ اگر کوئی شخص اس میں اضافہ کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اسے نامکمل سمجھتا ہے۔ اور یہ بڑی جسارت ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں اضافے کو بدعت قرار دیا، بدعت کے مرتکب کو جہنمی کہا اور اس گناہ کی سنگینی کو ایک دوسرے پہلو سے واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ بدعتی کی تمام عبادات یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، انفاق قبول نہیں ہوتیں۔ بدعتی اسلام سے ایسے خارج ہو جاتا ہے جیسے گندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے۔ تو آپ اذان سے پہلے درود نہ پڑھیں اس لیے کہ یہ دین میں ثابت نہیں ہے۔ اب اس مکتبِ فکر کے حامل جب کہیں ان تنقید کرنے والوں کو ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ لوگ تو درود کے منکر ہیں۔
یہ واقعات ہماری مذہبی دنیا میں ایک معمول کی بات ہے۔ یعنی اختلاف کرنے والے کے نقطۂ نظر کو ٹھیک طرح سے سمجھا نہیں جاتا، اصل اختلافی نکتے کو سامنے رکھا نہیں جاتا، استدلال پر غور کیا نہیں جاتا اور بات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر بالکل ایک نیا مفہوم پہنا دیا جاتا ہے۔ اور اظہارِ خیال کرتے ہوئے ایسے اسالیب اور الفاظ اختیار کیے جاتے ہیں کہ سننے والے اختلاف کرنے والے سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ اور اس معاملے میں صورتِ حال اس وقت اور زیادہ سنگین ہو جاتی ہے جب عام لوگوں کے علاوہ علماے دین بھی ایسی ہی روش اختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
تصوف کے بارے میں اہلِ ’’اشراق‘‘ کی رائے افسوس ہے کہ عوام و خواص نے ٹھیک طرح سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ اس معاملے میں ہم پر جو حضرات تنقید کرتے ہیں وہ ہمارے اصل اختلافی نکتے کو نظرانداز کر دیتے ہیں جس سے ہمارے بارے میں بعض حلقوں میں بے جواز گریز پیدا ہو جاتا ہے۔
اس وقت جاوید احمد صاحب غامدی کا ایک تفصیلی مضمون ’’دین و دانش‘‘ کے ذیل میں، بعنوان ’’اسلام اور تصوف‘‘ شائع کیا جا رہا ہے۔ جاوید صاحب نے اپنی اس تحریر میں تصوف کے فکر و فلسفہ پر اپنے اعتراضات بڑی صراحت کے ساتھ بیان کر دیے ہیں۔ ہم جب بھی تصوف پر تنقید کرتے ہیں تو تصوف کے قائل ہمیں صوفیہ حضرات کی وسیع القلبی، نرم مزاجی اور اخوت و محبت کے واقعات سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اہلِ تصوف کے یہ وہ اوصاف ہیں جن کے ہم بھی معترف ہیں۔ مذکورہ تحریر تصوف پر ہمارے اعتراض کے اصل نکتے پر مبنی ہے۔ ہم اختلاف کرنے والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں جب کہیں ہمارا ذکر کریں یا کوئی جواب دیں تو ازراہِ کرم ہمارے اس نکتے کو پیشِ نظر رکھیں۔
’’التزامِ جماعت‘‘ کے عنوان سے معز امجد صاحب کی ایک تحریر ’’اشراق‘‘ ۱۹۹۸ میں قسط وار شائع ہو چکی ہے۔ اس تحریر میں معز صاحب نے التزامِ جماعت کے بارے میں اپنا موقف مثبت طور پر واضح کیا ہے۔ التزامِ جماعت کے بارے میں بعض حضرات ہمارے موقف پر اعتراض کرتے ہیں۔ ’’التزامِ جماعت ــــــ اعتراضات کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے معز صاحب نے ایک تنقیدی مضمون لکھا ہے جس میں ان اعتراض کرنے والے حضرات کے علمی نکات کی کمزوری واضح کی ہے۔ اس مضمون کی پہلی قسط اس وقت شاملِ اشاعت ہے۔
بعض لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ’’اشراق‘‘ میں ’’التزامِ جماعت‘‘ کے مسئلے پر اتنا کیوں لکھا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ التزامِ جماعت کا مسئلہ موجودہ حالات میں ہمارے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ اس کے بارے میں کسی غلط رائے سے بڑے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ افسوس ہے کہ التزامِ جماعت سے متعلق روایات کو سمجھنے میں ہمارے ہاں لوگوں کو بڑی غلطی لگی ہے۔ مختلف مذہبی جماعتوں کے بانی اور لیڈر اپنی جماعت کا تعلق التزامِ جماعت کے بارے میں احادیث سے قائم کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم وہی جماعت ہیں جس کے التزام کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ اور پھر وہ تمام حقوق جو شریعت کی رو سے اس جماعت کے امیر کو حاصل ہوتے ہیں، اپنی ذات کے ساتھ خاص کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے باعث سادہ لوح افراد ان جماعتوں میں عدم شمولیت کو جاہلیت (کفر) سمجھنے لگتے ہیں۔ اور ایسی جماعتوں کے لیے اپنا تن من دھن وارنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ایک ریاست میں مزید ’’ریاستیں‘‘ وجود میں آ رہی ہیں اور ایک امیر المومنین کے ہوتے ہوئے کئی ’’امیر المومنین‘‘ بن رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ اس مسئلے کے بطن سے کل وطنِ عزیز میں انارکی اور طوائف الملوکی جنم لے سکتی ہے۔ اور جہاد کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں ہی کے خلاف خون ریزی شروع ہو سکتی ہے۔ اس صورتِ حال میں التزامِ جماعت سے متعلق صحیح نقطۂ نظر کی وضاحت اور اس ضمن میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ بے حد ضروری ہے۔
’’معارفِ نبوی‘‘ میں مشکوٰۃ المصابیح کی ترتیب وار شرح اور ’’مناجات‘‘ میں دعاؤں اور اذکار میں ’’اشراق‘‘ دسمبر ۱۹۹۸ کے خصوصی شمارے کے باعث تعطل آ گیا تھا۔ اس وقت یہ سلسلے حسبِ روایت موجود ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عید سے متعلق دو احادیث اور لیلتہ القدر کے بارے میں ایک دعا کا انتخاب موقع کی مناسبت سے خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔
’’ادبیات‘‘ کے ذیل میں دو تحریریں ایک نثری ادبی صنف رپور تاژ کے ضمن میں شاملِ اشاعت ہیں۔ تنقید نگار بتاتے ہیں کہ رپورتاژ، رپورٹنگ ہی کی ایک قسم ہے۔ رپورٹنگ کا تعلق صحافت سے ہے لیکن رپورتاژ کا تعلق صحافت کی نسبت ادب سے زیادہ ہے۔ رپورتاژ درحقیقت اپنے مشاہدات، تجربات اور حادثات کی ایسی روداد ہے جس میں خارجی اور داخلی دونوں عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ یعنی رپورتاژ لکھنے والا ایک تو ان واقعات کو بیان کرتا ہے جو اس نے خود دیکھے ہوں یا اس کی ذات پر بیتے ہوں، دوسرے اس واقعہ کا اس کے دل و دماغ پر کیا اثر ہوا، اس کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح اس تحریر میں لکھنے والے کی اپنی شخصیت کا پرتو بھی نظر آتا ہے اور تیسرے اس واقعہ سے متعلق دوسرے افراد کے تاثرات لکھتا ہے اس کے علاوہ اس صنف میں لکھنے والا اپنے اظہار میں تخیل کے زور پر ایک حد تک رنگ آمیزی بھی کر سکتا ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو اسے ایک ادبی صنف بناتی ہیں۔
یہاں روداد نویسی اور رپورتاژ میں موجود باریک فرق واضح کرنا ضروری معلوم ہو رہا ہے۔ اس کے لیے ہم روداد کے بارے میں اہلِ فن کے مقرر کر دہ کچھ آداب بیان کرتے ہیں جن سے مذکورہ فرق آپ سے آپ واضح ہو جائے گا۔ روداد کسی جلسے یا کسی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال یا کسی اجلاس کی کارروائی بیان کرنا ہے۔ روداد کی زبان سادہ اور منطقی ہوتی ہے۔ وہ رپورتاژ کی زبان کی طرح پر تکلف ادبی اسلوب کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہاں لکھنے والے کے لیے کسی مسئلے میں اختلاف کے باوجود اپنا ذاتی نقطۂ نظر، تاثر یا تبصرہ شامل کرنا، شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
’’قرآنیات‘‘ کا سلسلہ حسبِ روایت موجود ہے البتہ ’’یسئلون‘‘ اور ’’افاداتِ اصلاحی‘‘ کے سلسلے ’’دین و دانش‘‘ کے بعض طویل مضامین کے باعث شائع نہیں کیے جا سکے۔
ـــــــــ محمد بلال
___________