HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۸)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

 

حضرت حارث بن عبد قیس رضی اللہ عنہ

نام ونسب

حضرت حارث قریش كی شاخ بنوفہر سے تعلق ركھتے تھے،فہر بن مالك ان كے ساتویں جد تھے۔ ابو نعیم نے ان كے والد كا نام قیس،ابن اسحاق،ابن عبدالبر اور ابن اثیرنے عبد قیس  بتایا۔ ان كے دادا كا نام لقیط بن عامرتھا۔ابن اثیر كہتے ہیں:ابن منده نے حارث بن قیس اورحارث  بن عبد قیس كو الگ الگ شخصیت سمجھا، حالاں كہ دونوں ایك ہیں۔ ابن حجرنے ان كی یوں تائید كی:حارث بن عبدقیس ہی كو حارث بن قیس كہا جاتا ہے۔ حضرت سعید بن عبد قیس اورحضرت نافع بن عبدقیس ان كے بھائی تھے۔مصر اور سوڈان كے كچھ علاقے فتح كرنے والے اور قیروان كا شہر بسانے والے  مشہور جرنیل عقبہ بن نافع ان كے بھتیجے تھے۔

قبول اسلام

حضرت حارث بن عبد قیس اسلام كے ابتدائی دور میں نعمت ایمان سے سر فراز ہوئے۔

الله كی راه میں ہجرت

حضرت حارث بن عبد قیس حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں حبشہ كی ہجرت ثانیہ میں شامل ہوئے۔ بلاذری كہتے ہیں:كچھ اہل تاریخ حضرت حارث بن عبد قیس كو مہاجرین حبشہ میں شمار نہیں كرتے۔ واقدی نے بھی مہاجرین كی فہرست میں ان كا نام شامل نہیں كیا۔

حبشہ سے مدینہ

ابن اسحاق نے ’’السیرة النبویۃ‘‘ میں عازمین حبشہ كی فہرست میں حضرت حا رث بن عبد قیس كا نام نہیں دیا،  تاہم یہ بتایا ہے كہ  ۷ ھ میں حضرت عمرو بن امیہ ضمری كے ساتھ كشتیوں میں مدینہ آنے والے مہاجرین میں وه بنوفہر كے واحد فرد تھے۔ابن ہشام نے حبشہ جانے والے اوروہاں سے حضرت عمرو  بن امیہ كے ساتھ واپس آنے والے اصحاب  میں حضرت حا رث بن عبد قیس كا نام شمار كیا ہے۔

باقی زندگی

حضرت حارث بن عبد قیس كی بقیہ زندگی اوران كی وفات كی تفصیل نہیں ملتی۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،السیرة النبویۃ (ابن کثیر)، انساب الاشراف(بلاذری)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر) ۔

ـــــــــــــــــــــــــ


حضرت عیاض بن زہیر رضی الله عنہ

نام ونسب

حضرت عیاض بن زہیر كے دادا كا نام ابو شداد بن ربیعہ تھا۔قریش كا بطن بنو فہر ان كے آٹھویں جد فہر بن مالك سے منسوب ہے۔ابن حجر نے ان كے چھٹے جد وہب بن ضبہ كا ذكر نہیں كیا۔حضرت عیاض كی والده سلمی ٰ بنت عامر بھی بنوفہر سے تعلق ركھتی تھیں۔ابوسعید  حضرت عیاض  كی کنیت تھی، قرشی،فہری اسماے نسبت ہیں۔

قبول اسلام

حضرت عیاض بن زہیر كے قبول اسلام كی تفصیل نہیں ملتی، تاہم اتنا كہا جا سكتا ہے كہ وه بعثت نبوی كے ابتدائی سالوں میں نعمت ایمان سے سرفراز ہو چكے تھے۔

حبشہ كی طرف ہجرت

ابن اسحاق نے حبشہ ہجرت كرنے والے اصحاب رسول  كی جو فہرست مرتب كی ہے،وہ نامكمل ہے۔اس میں بنوحارث بن فہر كے اصحاب حضرت سعید بن عبد قیس، حضرت حارث بن عبد قیس اور حضرت عیاض  بن زہیر كے نام شمار نہیں كیے گئے۔ ابن ہشام نے اپنی ’’السیرة النبویۃ‘‘ میں اس فہرست كو مكمل كیا ہے۔ حضرت عیاض  بن زہیر نے اپنے ہم قبیلہ صحابہ كے ساتھ حبشہ كی طرف ہجرت ثانیہ میں حصہ لیا۔

چچا بھتیجا،ناموں كا التباس

 حضرت عیاض بن غنم بن زہیر حضرت عیاض بن زہیر كے بھتیجے تھے۔ صلح حدیبیہ سے پہلے ایمان لائے، عہدفاروقی میں الجزیره ا ور رقہ انھی كے ہاتھوں فتح ہوا۔خلیفہ بن خیاط نے حضرت عیاض بن غنم كا الگ بیان نہیں كیا، حضرت عیاض بن زہیر كا انتہائی مختصر ذكر كرتے ہوئےلكھتے ہیں:انھیں عیاض بن غنم بھی كہا جاتا ہے(طبقات خلیفہ۳۰۰)۔ابن عساكركا رجحان بھی یہی ہے۔ گویا ان كے نزدیك یہ ایك ہی شخصیت ہیں اور حضرت عیاض كوایك بار  اپنے والد غنم اور دوسری بار اپنے دادا زہیر كی طرف منسوب كیا گیا ہے۔یہ بات دوسرے تذكره نگاروں نے قبول نہیں كی، اس لیے اصل بات یہی ہے كہ یہ دونوں چچا بھتیجا ہیں۔ حضرت عیاض بن زہیر مہاجرین حبشہ میں شامل تھے، جب كہ حضرت عیاض بن  غنم موخرالاسلام تھے اور حبشہ نہیں گئے۔

سوے مدینہ

حضرت عیاض بن زہیر  جنگ بدر سے قبل مدینہ چلے آئے اورحضرت کلثوم بن ہدم کے ہاں ٹھیرے۔ ابن اسحاق نے ان ا صحاب  كی فہرست میں، جو جنگ بدركے بعدمدینہ لوٹے، لیكن حضرت جعفر بن ابوطالب كے ہم سفر نہ تھے،حضرت عیاض بن زہیر كا نام شامل كیا ہے۔

جہاد و غزوات

حضرت عیاض  بن زہیرنے غزوۂ بدر،غزوۂ احد، غزوۂ احزاب اور دیگر معركوں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا  بھرپور ساتھ دیا۔ابن اسحاق نے اصحاب بدر میں حضرت عیاض بن زہیر كا ذكر نہیں كیا، تاہم ابن ہشام نے بدری صحابہ كے اسما بیان كرنے كے بعد اس نوٹ كا اضافہ كیا : كئی اہل علم نے بنو حارث بن فہر كے حضرت عیاض بن زہیر اور بنو  عامر بن لؤی كے حضرت وہب بن سعد اور حضرت حاطب بن عمرو كو جنگ بد ر میں شریك مہاجرین صحابہ میں شمار كیا ہے۔

وفات

حضرت عیاض  بن زہیرکا انتقال خلافت عثمانی ۳۰ھ  میں شام میں ہوا۔

اولاد

حضرت عیاض كی كوئی اولاد نہ ہوئی۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، السیرة النبویۃ (ابن کثیر)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،انساب الاشراف(بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)، اصحاب بدر(قاضی سلیمان منصورپوری)،Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــ


حضرت عثمان بن عبد غنم رضی الله عنہ

نسب

حضرت عثمان  بن عبد غنم كے دادا كا نام زہیر بن ابو شداد تھا۔قریش كا بطن بنو فہر ان كے نویں جد فہر بن ما لك سے منسوب ہے۔ ان كی والده عبد عوف بن عبد كی بیٹی اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف كی پھوپھی تھیں۔ ابونافع حضرت عثمان بن عبد غنم كی کنیت تھی، قرشی، فہری ان كےاسماے نسبت ہیں۔

قبول اسلام

حضرت عثمان  بن عبد غنم اسلام كے ابتدائی زمانےمیں ایمان لائے۔

حبشہ كی طرف ہجرت

حضرت عثمان  بن عبد غنم نے حبشہ كی طرف ہجرت ثانیہ میں حصہ لیا۔ حضرت عمرو بن حارث،حضرت سعید بن عبد قیس، حضرت حارث بن عبد قیس اور حضرت عیاض  بن زہیر ان كے ساتھ تھے۔ابن اسحاق نے حبشہ ہجرت كرنے والے اصحاب رسول  كی نا مكمل فہرست میں بنوحارث بن فہر كے اصحاب حضرت عثمان بن عبد غنم،حضرت سعید بن عبد قیس، حضرت حارث بن عبد قیس اور حضرت عیاض  بن زہیر كے نام شامل نہیں كیے۔ابن ہشام نے اپنی ’’السیرة النبویۃ‘‘ میں ان اصحاب كے نام شامل كر كے اس فہرست كو مكمل كر دیا، تاہم حضرت عثمان كا نام عمرو بن عبد غنم تحریر كیا۔

حضرت عثمان  بن عبد غنم كا نام عامر بن عبد غنم بھی نقل كیا گیا ہے۔ ابن حجر كہتے ہیں : ہو سكتا ہے،یہ ان كے بھائی ہوں۔ابن كلبی نے حضرت عامر كو الگ شخصیت قرار دے كر مہاجرین حبشہ میں شامل كیاہے،جب كہ سیر صحابہ كی كتب میں انھیں حبشہ ہجرت كرنے والے صحابہ میں شما ر نہیں كیا گیا۔

مدینہ آمد

حضرت عثمان بن عبد غنم جنگ بدر كے بعد،حضرت جعفر بن ابوطالب كی آمد سے پہلے مدینۃ النبی  درود پہنچ گئے۔ ابن اسحاق نے حبشہ سے لوٹنےوالے صحابہ كی اس فہرست میں حضرت عثمان بن غنم  (عبد غنم)،حضرت سعد (سعید )بن قیس اور حضرت عیاض بن زہیر كے نام شامل كیےہیں۔ابن ہشام نے انھیں اسی طرح نقل كردیا ہے۔

عائلی زندگی

حضرت عثمان  بن عبد غنم كا بیاه بنو زہرہ كی حضرت برزه بنت مالك سے ہوا ۔نافع اور سعید ان كے بیٹے تھے۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، السیرة النبویۃ (ابن کثیر)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، انساب الاشراف(بلاذری)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــ


حضرت حارث بن حاطب رضی اللہ عنہ

كنبہ اور قبیلہ

حضرت حارث بن حاطب كے دادا كا نام حارث بن معمر تھا۔حبیب بن وہب ان كے سكڑدادا تھے۔بنو جمح كے مورث جمح بن عمر و ان كے ساتویں جد تھے۔كعب بن لؤی پر ان كاسلسلۂ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجره سے جا ملتا ہے۔ مره بن كعب آپ كے ساتویں، جب كہ ان كے بھائی ہصیص بن كعب حضرت حارث بن حاطب كے نویں جد تھے۔حضرت حارث  كی والدہ کا نام حضرت فاطمہ بنت مجلل تھاجو اپنے آٹھویں جد عامر بن لؤی كی نسبت سے عامریہ كہلاتی ہیں۔ام جمیل ان كی كنیت تھی۔حضرت محمد بن حاطب ان كے چھوٹے بھائی تھے۔سعید بن حاطب تیسرے بھائی تھےجن كی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات نہ ہو سكی۔ حضرت معمر بن حارث اور حضرت حطاب بن حارث حضرت حارث کے چچا تھے۔حضرت عثمان بن مظعون ان كی دادی قتیلہ بنت مظعون کے بھائی تھے۔

ولادت

زہری اور ابن عبدالبركا كہنا ہے كہ حضرت حارث بن حاطب  اور ان کےچھوٹے بھائی حضرت محمد بن حاطب، دونوں حبشہ میں پیدا ہوئے،جب كہ حضرت عبدالله بن زبیر كے سكڑ پوتے  مصعب زبیری كے خیال میں حضرت حارث كی پیدایش مكہ میں اور حضرت محمد كی حبشہ میں ہوئی۔ابن حجر كہتے ہیں كہ مكہ سے حبشہ جانے والے مہاجرین میں حضرت حارث بن حاطب كا نام شامل كرنا ابن مندہ كی غلطی ہے( الاصابہ ۱/  ۳۱۵)۔

اسلام

حضرت حارث  کے والدین السابقون الاولون میں سے تھے۔اسلام كی طرف سبقت كرنے والوں كی فہرست میں حضرت حاطب بن حارث كا چونتیسواں اور حضرت فاطمہ بنت مجلل كا پینتیسواں نمبر تھا۔

ہجرت حبشہ

۵ ؍ نبوی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قریش كا جور وستم سہنے والے مسلمانوں كو حبشہ ہجرت كرنے كا اذن دیا تو صحابہ نے ملك حبشہ كا رخ كیا۔رجب كے مہینے میں گیاره مردوں اور چار خواتین پر مشتمل قافلہ حضرت عثمان بن عفان كی سربراہی میں حبشہ روانہ ہوا۔ ماه شوال میں حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں ایك سو نو مرد،عورتیں اور بچے حبشہ كے سمندری سفر پر نكلے۔  حضرت حارث  کے والد حضرت حاطب بن حارث اوروالدہ حضرت فاطمہ بنت مجلل اسی ہجرت ثانیہ میں حبشہ گئے۔

 ایك مغالطہ

كچھ لوگوں كا خیال ہے كہ یہی حضرت حارث بن حاطب تھے جنھیں جنگ بدر كے موقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بدر كےراستے میں واقع مقام روحا سے واپس فرما دیا تھا، حالاں كہ وه ان كے ہم نام حضرت حارث بن حاطب انصاری تھے۔ حضرت حارث جمحی  اس وقت تك حبشہ سے نہ لوٹے تھے۔

حبشہ سے واپسی

حضرت حارث كے والد حضرت  حاطب نے حبشہ میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاك ہوئے۔ ۷ ھ (۶۲۶ء) میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو حبشہ بھیجا تاکہ وہ نجاشی کو اسلام کی دعوت دیں، حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان سے آپ کا نکاح کرائیں اور سرزمین حبشہ میں رہ جانے والےصحابہ کو واپس لے آئیں۔ شاه حبشہ نجاشی نے مہاجرین کو واپس لے جانے كے لیے انھیں  دو کشتیاں فراہم كیں۔ حضرت حارث بن حاطب اپنی والدہ حضرت فاطمہ بنت مجلل اور بھائی حضرت محمد بن حاطب كے ساتھ حضرت عمرو بن امیہ اور حضرت جعفر بن ابوطالب كے اس قافلے میں شامل ہو كرعازم  مدینہ ہوئے۔ ان كی چچی حضرت فكیہہ بنت یسار اور بنو جمح كے دیگر اصحاب شریك سفر تھے۔كشتیاں بحر قلزم (Red Sea)كے ساحلی شہر الجار كی بندرگاه قراف(بولا:ابن سعد) پر اتریں، آج كل اسے  الرایس (Ar Rayis)كہا جاتاہے۔ مہاجرین نے وہاں سے مدینہ كی دو دنوں كی مسافت اونٹوں پر طے كی۔

دور اموی

حضرت حارث بن حاطب اموی گورنر مدینہ مروان بن حکم کی حكومت میں صدقات كی وصولی پر مامور (tax collector) تھے۔ ۶۶ھ میں اس كے بیٹے عبد الملک بن مروان نے اقتدار سنبھالا توحضرت حارث  كو مكہ كا گورنر مقرر كیا۔دوسری روایت كے مطابق انھیں حضرت عبدالله بن زبیر نے مكہ كی ولایت سونپی (اسد الغابہ ۱/۳۲۲۔ الاستیعاب ۱/۲۸۵)۔

 وفات

حضرت حارث بن حاطب نے ۶۶ھ کے بعد مكہ میں وفات پائی۔

روایت حدیث

حضرت حارث بن حاطب  كی نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات اس روایت سے ثابت ہوتی ہے جو انھوں نے بطور گورنر مكہ خطاب كرتے ہوئے بیان كی۔ حسین بن حارث بیان كرتے ہیں کہ گورنر مكہ نے خطبہ دیتے ہوئے كہا:رسول الله صلی الله علیہ وسلم نےہمیں ہدایت فرمائی:ہم چاند دیكھ كر (عید الاضحیٰ كی) قربانی كریں۔اگر چاند نہ دیكھ پائیں اور دو عادل گواه چاند نظر آنے كی گواہی دے دیں تو ان كی شہادت پر عبادت و قربانی كر لیں۔حدیث كے راوی سے پوچھا گیا،وه امیر مكہ كون تھے ؟ جواب ملا:حارث  بن حاطب،محمد بن حاطب كے بھائی (ابوداؤد، رقم ۲۳۳۸۔ دارقطنی، رقم ۲۱۶۶۔السنن الصغریٰ، بیہقی، رقم ۱۲۴۴)۔

  حضرت حارث بن حاطب نے براه راست نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت كرنے كے علاوه حضرت ابوبكر، حضرت عبدالله بن زبیر ، حضرت عبدالله بن جعفر  سے بھی حدیث نقل كی۔ان كی روایتیں ابوداؤد اور نسائی میں ہیں۔ان سے روایت كرنے والوں میں شامل ہیں:حسین بن حارث، یوسف بن سعد۔حضرت حارث بن حاطب نے حضرت عبدالله بن جعفر سے حلیمہ سعدیہ كی وه روایت نقل كی جس میں انھوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم كی دودھ پلائی كا ذكر كیا ہے(السیرة النبویۃ،ابن ہشام۱ /۱۳۲)۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، انساب الاشراف(بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الكمال فی اسماء الرجال(مزی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر) ۔

ـــــــــــــــــــــــــ


حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ

نسب

حضرت عمرو بن حارث كا نام عامر بھی نقل كیا گیا ہے، ایك مورخ نے عامر ان كے والد كا نام بتایا ہے۔ ابن اثیر كہتے ہیں: ناموں میں اختلاف كرنا ابن اسحاق كے شاگردوں كا معمول ہے۔ فہر بن مالك  جن كے نام سے قریش كی شاخ بنوفہر منسوب ہے، حضرت عمرو  كے نویں جد تھے۔حضرت عیاض بن زہیر ان كے چچا اورزہیر بن ابو شداد دادا تھے۔ بنوعامر بن لؤی سے تعلق ركھنے والی ہند بنت مضرب ان كی والده تھیں۔ ابو نافع حضرت عمرو كی كنیت تھی۔قریش كی نسبت سےوه قرشی اوراس كی شاخ بنو فہرسے تعلق ركھنے كی وجہ سے فہری كہلاتے ہیں۔

قبول دین حق

الله تعالیٰ نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كو آخری نبی كے طور پر مبعوث كیا تو حضرت عمرو بن حارث نے آپ كی دعوت ایمان پر لبیك كہنے پر ذرا دیر نہ كی۔

حبشہ كی طرف ہجرت

حضرت عمرو بن حارث حبشہ جانے والے دوسرے قافلۂ ہجرت میں شامل ہوئے۔ابن اسحاق نے عازمین حبشہ كی فہرست میں بنو حارث بن فہر كے چار اصحاب حضرت ابوعبیده بن الجراح، حضرت سہیل بن بیضا، حضرت عمرو بن ابو سرح( ابوشریح:ابن اسحاق)اور  حضرت عمرو بن حارث كے نام بیان كیے۔ ابن ہشام نے حضرت عیاض بن زہیر، حضرت عثمان بن عبد غنم،حضرت سعد  (سعید ) بن عبد قیس اور حضرت حارث بن عبد قیس كے ناموں كا اضافہ كیا۔

مكہ آمد اور حبشہ كو واپسی

حبشہ جانے كے دو ماه بعد یہ افواه پھیلی كہ مشركین قریش نے اسلام قبول كر كے غریب مسلمانوں پر ظلم و ستم بند كر دیا ہے تو مہاجرین نے یہ كہہ كر  مكہ كا رخ كیا كہ ہمارے كنبے ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔وہاں جا كر معلوم ہوا كہ تعذیب كا سلسلہ جاری وساری ہے تو ان میں سے كچھ نے اسی ماه حضرت جعفر بن ابو طالب كی قیادت میں دوباره حبشہ كا رخ كیا۔ اس باردیگراصحاب  بھی ان كے ساتھ چلے۔اس طرح حبشہ میں موجود صحابہ،صحابیات اور بچوں كی مجموعی تعداد ایك سو نو ہو گئی۔

ابن ہشام نے حبشہ سے لوٹ كر مكہ میں داخل ہونے والے مہاجرین كی تعداد تینتیس بتائی ہے، حالاں كہ ان كی  اصل گنتی  اڑتیس ہے۔حضرت عمرو بن حارث ان میں شامل تھے۔ حضرت عثمان بن مظعون ولید بن مغیره اور حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد ابو طالب بن عبدالمطلب كی پناه لے كر مكہ میں مقیم ہو گئے، جب كہ حضرت عمرو بن حارث نے كسی كی پناه نہیں ڈھونڈی۔ وه حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں حبشہ كو ہجرت ثانیہ كرنے والے  قافلے میں شامل ہو گئے۔

دیار نبی میں آمد

ابن سعد كہتے ہیں: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كے مدینہ ہجرت كرنےكی خبر سن كر تینتیس مہاجرین حبشہ اور آٹھ صحابیات  نے مكہ كا رخ كیا۔ ان میں سے دو صحابیوں  كا مكہ میں انتقال ہو گیا،سات كو مشركوں نے قید كر لیا اور چوده اصحاب ہجرت كر کے مدینہ پہنچے اور جنگ بدر میں شركت كی (الطبقات الكبریٰ۱/ ۱۴۱)۔ حضرت عمرو بن حارث ان چوده بدری صحابہ میں شامل تھے۔بلاذری نے اس امر كی تائید كی ہے كہ حضرت عمرو بن حارث حبشہ سے  مكہ آئے اور وہاں سے مدینہ ہجرت كی (انساب الاشراف۱/ ۲۶۱)۔ابن اسحاق نے حضرت عمرو كی واپسی كے بارے میں كچھ نہیں بتایا۔

غزوات

غزوۂ بدر میں تین سو چودہ اصحاب رسول نے حصہ لیا،تراسی صحابہ كا تعلق قریش سے تھا۔قریش كی شاخ بنوحارث بن فہر كے پانچ جاں نثاروں نے اس معركۂ فرقان میں دین حق كا بول بالا كیا۔ ان میں سے ایك حضرت عمرو بن حارث تھے۔دوسرے اصحاب كے نام یہ ہیں : حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت سہیل بن بیضا،حضرت صفوان بن بیضا اور حضرت عمرو بن ا بو سرح۔باقی غزوات و سرایا میں حضرت عمرو بن حارث كی شركت كی كوئی اطلاع نہیں۔a

جنگ قادسیہ      

۱۴ھ میں حضرت سعد بن ابی وقاص كی كمان میں جنگ قادسیہ ہوئی۔ سپاہیوں كے پاس گندم، جو اور كھجوروں كا وافر ذخیرہ تھا۔گوشت حاصل كرنے كے لیے انھیں اردگرد كے علاقوں میں چھاپے مارنا پڑتے۔ایسا ہی ایك چھاپا حضرت عمرو بن حارث نےكوفہ كے نواح میں دو نہروں والے علاقے،نہرین پر مارا۔باب ثورامیں انھیں بے شمار مویشی ملے۔انھیں ہانك كروه شیلی كی سرزمین سے گزرتے ہوئے جیش سعد میں پہنچ گئے۔طبری نے حضرت عمرو بن حارث كا نسب اور ان كی نسبت بتائے بغیر یہ واقعہ بیان كیا ہے،اس لیے ہم كہہ نہیں سكتے كہ یہاں حضرت  عمرو بن حارث بن زہیر فہری مراد ہیں یا یہ واقعہ ام المومنین حضرت جویریہ كے بھائی حضرت عمرو بن حارث بن ابوضرارخزاعی سے متعلق ہے یا ان دونوں اصحاب كے علاوہ كسی تیسرے صحابی یا تابعی نے یہ كارروائی كی  ۔

وفات

 شہداے بدر كی فہرست میں حضرت عمرو بن حارث كا نام شامل نہیں۔ بعد كے معركوں میں ان كی شركت ثابت نہیں۔ہم قیاس كر سكتے ہیں كہ صحت و حیات كی شرط پائی جاتی تو جنگ بدر كے بعد ہونے والے غزوات میں ان كا شامل ہونا لازم تھا، اس لیے كہا نہیں جا سكتا كہ انھوں نے  عہد نبوی  میں وفات پائی یا جنگ قادسیہ میں شمولیت كی روایت درست ہونے كی صورت میں ان كا انتقال عہد فاروقی میں ہوا۔

روایت حدیث

حضرت عمرو بن حارث سے كوئی روایت مروی نہیں۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، السیرة النبویۃ (ابن کثیر)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، انساب الاشراف(بلاذری)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)، اصحاب بدر(قاضی سلیمان منصور پوری)،Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B