رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت جن مقدمات پر استوار تھی، وہ اہل عرب اور اہل کتاب کے نزدیک تسلیم شدہ تھے۔ یہ ان مقدمات کے بدیہی تقاضوں کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔مشرکین اور اہل کتاب خود کو دین ابراہیم کا پیرو کہتے تھے۔ اس بنا پر ان پر دین ابراہیم کے مسلمہ مقدمات کی روشنی میں اتما م حجت ہوا۔
مشرکین کو تسلیم تھا کہ خدا ہی خالق اور رب اور معبود ہے۔ پھر یہ دوسرے خدا کہاں سے آئے؟ اس کا کوئی جواب ان کے پاس اس کے سوا نہیں تھا کہ ان کے آبا و اجداد نے ارد گرد کی اقوام کی تقلید میں شرک کے عالم گیر فیشن کو اختیار کر لیا تھا۔ جیسے الحاد آج کے دور کا فیشن ہے، ایک وقت میں شرک فیشن تھا۔ جیسے آج بھی بہت سے لوگ الحاد کے مقدمات سے واقفیت حاصل کیے بنا ہی ملحد ہوجاتے ہیں، ایسے ہی لوگ مشرک ہو جاتے تھے۔ اس کے جواز میں وحدت الوجود جیسے فلسفیانہ نظریات اہل عرب پیش نہیں کرتے تھے کہ اس پر ان سے بحث ہوتی، جیسے نصاریٰ کے ساتھ ہوئی۔
وہ مانتے تھے کہ اللہ نے پہلی بار خلق کیا، لیکن اس بارے میں سوال اٹھاتے تھے کہ دوسری بار پیدا کرنا مستبعد معلوم ہوتا ہے۔اس بات کی بھی کوئی عقلی وجہ نہیں تھی۔ جس نے پہلی بار پیدا کیا، وہ دوسری بار کیوں پیدا نہیں کر پائے گا؟ اس کا کوئی جواب انھیں نہیں سوجھتا تھا، مگر اس کے باوجود وہ تسلیم کرنے سے انکارکرتے تھے۔ آخرت کی جواب دہی کا تصور ان کی آزاد منشی اور بے فکری کا لطف غارت کر دیتا تھا۔ یہ غیر عقلی اور جاہلانہ رویہ تھا ، نہ کہ دو مساوی، مگر متضاد تصورات میں سے ایک کے عقلی انتخاب کا معاملہ ۔
دین ابراہیم میں نماز، قربانی، حج جیسی عبادات میں انھوں نے جو بدعات اختیار کر لی تھیں، اس کی کوئی سند بھی ان کے پاس اس کے سوا نہیں تھی کہ ہم نے یہ چلن اختیار کیا ہے، اس لیے یہی چلے گا۔ حوالہ دین نہ ہوتا تو یہ بحث نہ ہوتی کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سب کا حکم دیا؟ کیا خدا کی طرف سے کوئی سند نازل ہوئی؟ اس کا کوئی جواب نہیں تھا، اس لیے ان کے اعمال خود ان کے خلاف حجت تھے جسے تسلیم کیے بنا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔
تاریخ نبوت سے واقف اور اسے تسلیم کرتے تھے۔یہ بھی جانتے تھے کہ جن اقوام نے اپنے رسولوں کو تسلیم نہیں کیا، ان کے ساتھ خدا نے کیا کیا۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کو نبی مانتے تھے۔ یہود کے انبیا کو تسلیم کرتے تھے۔ ان کے لیے یہ روا نہ تھا کہ کوئی بھی شخص اگر اٹھ کر یہ دعویٰ کرے کہ وہ نبی ہے تو اسے بغیر جانچ پڑتال کے رد کر دیں۔ بعینہٖ یہی مقدمہ اہل کتاب کے لیے تھا،بلکہ اہل کتاب تو اپنی کتب اور زبانی روایت کے مطابق پہلے سے ایک نبی کی آمد کے منتظر تھے۔ مشرکین نے رسول کا انکار اس لیے کر دیا کہ دین ابراہیم میں ان کی پیدا کردہ شرک اور بدعت کی کلچرل روایت کی محبت اس خدا کے پیغام پر غالب تھی جس خدا کو وہ تسلیم کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالفرض نعوذ باللہ سچے نبی نہ بھی ہوتے، تب بھی ان کا پیغام بدیہی طور پر درست تسلیم کیے بنا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔مشرکین کے سلیم الفطرت لوگ ان حقائق سے واقف تھے، وہ نہ بتوں کی پوجا کرتے اور نہ قربانی کے ان جانوروں کا گوشت کھاتے جن پر خدا کے سوا کسی دوسرے خدا کا نام لیا گیا تھا، بلکہ وہ گوشت بھی نہیں کھاتے تھے جس پر کسی کا نام بھی نہیں لیا گیا۔یہی اصلی دین ابراہیم تھا جس کی دعوت رسول اللہ دے رہے تھے۔
یہ دعوت اپنے مقدمات میں از خود ثابت تھی، مگر بات کو آخری درجے تک پہنچانے کے لیے وہ تمام شواہد اور دلائل پیش کیے گئے کہ مشرکین کے پاس کوئی عذر نہ رہا۔ قرآن کے ذریعے سے یہ پیغام دیا گیا، جس کی مثل وہ چیلنج دینے کے باوجود نہ لا سکے، حالاں کہ یہ قرآن اس شخص کی طرف سے پیش ہورہا تھا جس کا نہ شاعری کا کوئی ہنر تھا نہ کوئی علمی پس منظر۔ اس کلام کی معجز بیانی کے آگے وہ گنگ ہو گئے۔ یہ تاریخی مسلمہ ہے۔ اور اہل زبان اسے باور کرتے ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی طرف سے کی گئی پیشین گوئیاں حرف بہ حرف ثابت ہوئیں جو کافی ثبوت تھا کہ یہ شخص اسی خدا کا فرستادہ ہے جسے وہ بھی مانتے ہیں۔ گذشتہ اقوام کے قصے انھیں سنائے گئے جواسی رویے کا شکار ہو کر خدا کے غضب کا شکار ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں، جن کی تاریخ سے وہ واقف تھے اور تسلیم کرتے تھے۔
یہ سب اتما م حجت کے لیے بہت کافی تھا۔ اس پر برسوں تک انھیں سمجھایا گیا تھا۔ بار بار وارننگ دی گئی تھی کہ درست رویہ اختیار نہ کیا تو خدا کا غضب ان پر نازل ہوگا۔
ادھر اہل کتاب کے ساتھ بھی ان خطوط پر معاملہ چلا۔ ان سے کہا گیا کہ نبوت و رسالت کے تم امین و علم بردار ہو۔ جانتے ہو کہ خدا اپنا کلام اپنے منتخب بندوں پر نازل کرتا ہے۔ اس نبی امی کی پیشین گوئی تم اپنی کتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہو، اب تمھی اس کے پہلے منکر مت بنو، مگر انھوں نے اپنی نسلی عصبیت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکار کیا۔ اس پر انھیں بھی برسوں سمجھایا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خدا کی معیت کے ثبوت بارہا انھیں ملتے رہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انبیا میں جو رسول ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ اپنے مخالفین پر غالب آتے ہیں۔ اہل کتاب خصوصاً یہود اس روایت سے اچھی طرح واقف تھے۔ محمد رسول اللہ کا غلبہ جزیرہ نماے عرب میں اسی سنت کے مطابق ہو رہا تھا۔ انھیں چیلنج کیا جا رہا تھا کہ ان کے ساتھ جو معاملہ حضرت مسیح علیہ السلام کے انکار کے بعد ہوا، وہی اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار پر ہوگا، اور یہی ہوا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد بھی انھیں مسیح کے پیروکاروں کے ماتحت محکوم کر دیا گیا تھا، اور اب رسول اللہ کے پیروکاروں کے ماتحت محکوم کر دیا گیا۔ ایک ہی پیٹرن ہے جو مسلمہ واقعات کی صور ت میں نہ صرف اس دور کے مخاطبین، بلکہ قیامت تک لوگوں کے لیے اسلام کے حق و صداقت ہونے کی دلیل بن کر دعوت فکر دے رہا ہے۔
یہ تھا وہ اتمام حجت جس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین خدا کی نظر میں مجرم ٹھیرے اور سزا کے مستحق قرار پائے۔ اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ یہ محض دو انتخابوں میں سے ایک چن لینے کا معاملہ نہ تھا۔ بلکہ درحقیقت اپنے ہی مقدمات کے بدیہی نتائج کی روشنی میں حق و باطل کے درمیان انتخاب کا معاملہ تھا ۔
سزا کا یہ فیصلہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ نہیں کیا تھا اور نہ اس کا کریڈٹ انھوں نے لیا۔
خدا نے انھیں دنیا میں سزا دینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ایک تو اس لیے کہ اتمام حجت کے بعد سزاکا مستحق ہو جانے کے بعد انھیں دنیا میں سزا دینے کا جواز موجود تھا، دوسرا اس لیے کہ اس سے خدا لوگوں کے سامنے یہ نمونہ پیش کرنا چاہتا تھا کہ خدا نے جو عدالت یہاں لگا کر سزا دی ہے، وہی عدالت قیامت کے دن بھی لگے گی اور اسی طرح سزا و جزا برپا کی جائے گی۔ یہ واقعات محض خدا اور رسول کی صداقت کے شواہدہی نہیں، بلکہ روزآخرت کے شواہدبھی ہیں۔
خداکی رحمت کا وہ تصور درست نہیں جس میں خدا کو ایک جذباتی ماں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے؛ جو لوگوں کو دوزخ کے حوالے کرنے کا حوصلہ نہ رکھتا ہوگا۔ خدا نے اپنا تعارف لوگوں کے رب، ان کے بادشاہ اور ان کے معبود کی حیثیت سے کرایا ہے۔ اس کی بنیادی صفات عزیزو حکیم ہیں۔ اس کی رحمت اس کی صفات عزیز و حکیم کے تحت ہے۔دنیا اس نے عبث پیدا نہیں کی۔ سزا اور جزا کے تصور کے بغیر دنیا بے کارکا کام ہے۔
اس کے نزدیک مجرم صرف وہی نہیں جو انسانیت کے مجرم اور سزا کے مستحق ہیں، انسانیت کا مجرم بھی درحقیقت اسی رویے کا شکار ہوتا ہے جو حق کے مقابلے میں باطل کا رویہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ قتل کرنا، جھوٹ بولنا غلط ہے ؛ ملاوٹ کرنا، کم تولنا درست نہیں ہو سکتا، وہ پھر بھی کرتا ہے۔ اسی طرح خدا کے حق میں جب وہ یہی رویہ اختیار کرتا ہے، وہ اسی طرح سزا کا مستحق بنتا ہے، جیسے انسان کا استحصال کرنے پر سزا کا مستحق ٹھیرتا ہے۔ ایک ہی رویے کی ایک ہی سزا بنتی ہے۔
یہ فاشزم نہیں ہے، البتہ مذہب کے نا م پر فاشزم کا کھیل کھیلا جا سکتا ہے، وہ یوں کہ خدا نے جس اختیار کے ساتھ اپنے منکروں کو اپنے رسول کے ذریعے سے برسوں کے اتما م حجت کے بعد سزا دی، سزا کے اس اختیار کو مذہب کے پیروکار اپنے لیے بھی تسلیم کرتے ہوئے اسے غیر مسلموں پر نافذ کر دیں۔ یہ سوچ پائی جاتی ہے اور ایسا کیا بھی جاتا رہا ہے۔ یہ مذہب کے پیروکاروں کی غلط فہمی ہے۔ جس طرح مسیحیت میں بندوں کے گناہوں کے معاف کرنے کا اختیار پادری صاحب کو مل گیا، اسی طرح اسلام میں بندوں کو سزا دینے کا اختیار بندوں نے اپنے لیے بھی ثابت سمجھ لیا۔ یہ دونوں ہی خدا کے اختیار میں مداخلت ہے ۔
دنیا میں خدا کی طرف سے سزا کے اختیار کے معلوم ہونے کا ذریعہ رسول تھے۔ ان کے بعد اب کسی کا اختیار نہیں کہ خدا سے خبر پائے بغیر کسی پر سزا کا نفاذ کرے ، اس کے لیے کسی پر حملہ کرے یا اپنا محکوم بنائے۔
تاریخ کے ایک دور میں خدا کی عملی مداخلت کے یہ ثبوت پیش کیے گئے تاکہ تاریخ کا حصہ بن کر یہ لوگوں کے لیے ایک زندہ خدا کے وجود پر اتما م حجت کر یں۔ ایسے ہی جیسے بنی اسرائیل کی دو ہزار سالہ تاریخ انبیا اور اور ان کے ساتھ خدا کی معیت کی داستان بن کر قیامت تک انسانوں پر ایک زندہ خدا کے وجود پر اتمام حجت کرتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ