HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: لقمان ۳۱: ۲۰ - ۳۴ (۲)

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةًﵧ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًي وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ ٢٠ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَاﵧ اَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطٰنُ يَدْعُوْهُمْ اِلٰي عَذَابِ السَّعِيْرِ ٢١

 (تم نے اِسے بھلا دیا[33])۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ ہی ہے جس نے زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، سب تمھارے کام میں لگا دیا ہے اور اپنی ہر قسم کی ظاہری اور باطنی[34] نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں؟[35] اِس کے باوجود لوگوں میں ایسے بھی ہیں جواللہ کے بارے میں[36] بغیر کسی دلیل،[37] بغیر کسی ہدایت[38] اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑتے ہیں اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ اُس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے اتاری ہے تو کہتے ہیں کہ نہیں، بلکہ ہم اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔[39]  کیا اُس صورت میں بھی، جب کہ شیطان اُنھیں آگ کے عذاب کی طرف بلا رہا ہو؟ ۲۰ -۲۱

وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْهَهٗ٘ اِلَي اللّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰيﵧ وَاِلَي اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ ٢٢ وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهٗﵧ اِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْاﵧ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۣ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ٢٣ نُمَتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰي عَذَابٍ غَلِيْظٍ ٢٤

 (نہیں، یہ کچھ نہیں، البتہ) جو اپنا رخ فرماں بردارانہ اللہ کی طرف کرے گا[40] اور وہ خوبی سے عمل کرنے والا بھی ہے تو اُس نے مضبوط رسی تھام لی ہے اور انجام کار تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔[41] اور جس نے انکار کیا ہے تو اُس کا انکار تمھارے لیے باعث غم نہ ہو،(اے پیغمبر)۔ اِن سب کی واپسی ہماری ہی طرف ہے، پھر ہم اِنھیں بتا دیں گے جو کچھ یہ کرتے رہے۔ یقیناً اللہ دلوں کے بھید بھی جانتا ہے۔ ہم اِن کو تھوڑے دن برومند کریں گے، پھر اِنھیں سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔[42]   ۲۲ -۲۴

وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُﵧ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِﵧ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ٢٥ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵧ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ٢٦

اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو، شکر کا سزاوار بھی اللہ ہے۔[43] (یہ جو کچھ مانتے ہیں، خود اُسی کو جھٹلا رہے ہیں)۔ نہیں، بلکہ اِن میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں۔[44] زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اللہ ہی کا ہے۔ (وہ اِن کی شکرگزاری کا محتاج نہیں ہے)۔بے شک، اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے۔ ۲۵ -۲۶

وَلَوْ اَنَّمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۣ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِﵧ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ٢٧

(حقیقت یہ ہے کہ) زمین میں جتنے درخت ہیں، اگر وہ سارے قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی بن جائے، اِس طرح کہ اِس کے بعد اُسے سات سمندر اور روشنائی مہیا کریں، اللہ کی باتیں[45] تب بھی لکھی نہیں جا سکتیں۔[46] بے شک، اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔ ۲۷

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍﵧ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۣ بَصِيْرٌ ٢٨ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَﵟ كُلٌّ يَّجْرِيْ٘ اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي وَّاَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ ٢٩ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُﶈ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ ٣٠

تم سب کو پیدا کر دینا اور(مرنے کے بعد) تمھارا اٹھا کھڑا کرنا (اُس کے لیے) ایسا ہی ہے، جیسے ایک شخص کا پیدا کرنا اور اٹھا کھڑا کرنا۔ بے شک، اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔[47]تم نے دیکھا نہیں[48] کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور سورج اور چاند کو اُس نے تمھارے لیے مسخر کر رکھا ہے۔ سب ایک مقرر وقت تک چلے جا رہے ہیں۔ اور دیکھا نہیں کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے باخبر ہے؟ یہ سب اِس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے[49] اور جن کو یہ اُس کے سوا پکارتے ہیں، وہ باطل ہیں[50] اور اِس وجہ سے کہ اللہ ہی برتر ہے، وہی بڑا ہے۔[51] ۲۸ -۳۰

اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ لِيُرِيَكُمْ مِّنْ اٰيٰتِهٖﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ٣١ وَاِذَا غَشِيَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَﵼ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَي الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌﵧ وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَا٘ اِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُوْرٍ ٣٢

تم نے دیکھا نہیں کہ کشتی اللہ ہی کے فضل سے دریا میں چلتی ہے[52] تاکہ وہ تمھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس میں ہر اُس شخص کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو صبر کرنے والا اور شکر کرنے والا ہو۔ اور جب موج سائبانوں کی طرح اُس کے مسافروں کو ڈھانک لیتی ہے تو خالص اُسی کی اطاعت کا عہد کرتے ہوئے، وہ اللہ کو پکارتے ہیں۔ پھر جب وہ اُنھیں نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو اُن میں کچھ راہ پر رہتے ہیں[53] اور زیادہ بے راہ ہو جاتے ہیں۔[54]اور ہماری نشانیوں کا انکار تو وہی سب کرتے ہیں جو نہایت بد عہد اور نا شکرے ہیں۔[55]۳۱ -۳۲

يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖﵟ وَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَيْـًٔاﵧ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاﶋ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ ٣٣ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِﵐ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَﵐ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِﵧ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًاﵧ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۣ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُﵧ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ٣٤

 لوگو، اپنے پروردگار کی گرفت سے بچو اور اُس دن سے ڈرو، جس دن نہ کوئی باپ اپنی اولاد کے کام آئے گا اور نہ کوئی اولاد اپنے باپ کے کچھ کام آنے والی بن سکے گی۔[56] بے شک، اللہ کا وعدہ سچا ہے۔سو دنیا کی زندگی تمھیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے[57] اور نہ وہ دھوکے باز[58] تمھیں اللہ کے معاملے میں[59] کبھی دھوکا دینے پائے۔ (پوچھتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ کہو)، اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ (دیکھتے نہیں ہو کہ) وہی بارش برساتا ہے[60] اور جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہوتا ہے۔[61] کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں مرے گا۔ (لیکن کوئی عاقل کیا اِن سب باتوں کا انکار کر سکتا ہے)؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی علیم و خبیر ہے۔[62] ۳۳ -۳۴

ـــــــــــــــــــــــــ

[33]۔یعنی لقمان کی اِس حکمت کو ۔ یہاں سے سلسلۂ کلام پھر اُسی مضمون سے مربوط ہو گیا ہے جس کی تائید میں لقمان کی حکمت کا حوالہ دیا گیا ہے۔

[34]۔یعنی مادی بھی اور عقلی اورروحانی بھی۔

[35]۔اِس جملے میں استفہام کا اسلوب زجر اور اظہار تعجب کے لیے ہے۔

[36]۔یعنی اُس کی توحید کے بارے میں۔ اِس فقرے میں مضاف محذوف ہے۔

[37]۔اصل میں لفظ ’عِلْم‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد یہاں کوئی ایسی چیز ہے، خواہ وہ عقلی ہو یا نقلی، جو آدمی کے اندر یقین و اعتماد پیدا کر سکے۔

[38]۔یہ خاص سے پہلے عام کا ذکر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اللہ تعالیٰ کی ہدایت خلق کو انبیا علیہم السلام کی زبانی تعلیم کے ذریعے سے بھی پہنچی ہے اور روشن صحیفوں کے ذریعے سے بھی، مثلاً تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید کے ذریعے سے۔ میرا خیال ہے کہ ’هُدًي‘ سے یہاں پہلی قسم کی دلیل مراد ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ دلیل کی یہ نفی اصل حقیقت کے اعتبار سے ہے۔ مشرکین اپنے موقف کی تائید میں جو کچھ کہتے تھے، اُس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اُس کی نوعیت مجرد تقلید کی ہے اور مجرد تقلید کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۳۹)

[39]۔یہ اُن کے مجادلۂ بلا علم کی تفصیل ہے۔

[40]۔یعنی شرک اور منافقت کو چھوڑ کر پورے اخلاص کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ آیت میں ’اَسْلَمَ‘ کے ساتھ ’اِلٰي‘ ہے۔ اِس صلے کے ساتھ یہ اِسی مفہوم میں آتا ہے۔

[41]۔مطلب یہ ہے کہ کوئی اِس غلط فہمی میں نہ رہے کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا سہارا بھی اُس کے کام آ سکتا ہے۔ ہرگز نہیں، تمام معاملات بالآخر خدا ہی کے آگے پیش ہوں گے اور اُسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا۔

[42]۔اصل الفاظ ہیں:’نَضْطَرُّهُمْ اِلٰي عَذَابٍ غَلِيْظٍ‘۔اِن میں ’اِلٰي‘ کا صلہ دلیل ہے کہ ’اِضْطَرَّ‘ یہاں کشاں کشاں لے جانے کے مفہوم پر متضمن ہو گیا ہے۔

[43]۔لہٰذا کوئی دوسرا اِس کا حق دار کیسے ہو سکتا ہے کہ اُسے معبود بنا یا جائے اور اپنا آقا و مالک سمجھا جائے؟

[44]۔یعنی اِس بات کو نہیں جانتے کہ اِن کے خود اپنے تسلیم کردہ مقدمات کے بدیہی نتائج و لوازم کیا ہیں۔

[45]۔یعنی وہ باتیں جن کا ظہور اُس کی قدرت و حکمت کی نشانیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔

[46]۔یہ کوئی مبالغے کا اسلوب نہیں ہے، بلکہ بیان حقیقت ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اگر سمندر روشنائی بن جائے تو یہ روشنائی خود سمندر ہی کے عجائب کو قلم بند کرنے کے لیے کافی نہیں ہو گی، چہ جائیکہ اِس پوری کائنات کے عجائب۔ یہ زمین جو ہمارے قدموں کے نیچے ہے، خدا کی لامتناہی کائنات کا ایک نہایت ہی حقیر حصہ ہے، لیکن سائنس کی تمام ترقیوں کے باوجود اب تک انسان اِس کے جو عجائب دریافت کر سکا ہے، اُس کی حیثیت سمندر کے ایک قطرے سے زیادہ نہیں ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۱۴۲)

[47]۔یعنی اپنی مخلوقات سے بے خبر نہیں ہے، اُن کی باتوں کو سنتا اور اُن کے اعمال کو دیکھتا ہے۔ لہٰذا جزا و سزا کا فیصلہ کرے گا تو لوگوں کا حساب کرنے میں اُسے کوئی زحمت پیش نہیں آئے گی۔

[48]۔اِس سے پہلے جمع کا صیغہ تھا۔ آگے واحد کے صیغے سے اپنی آیات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اِن میں اِس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ واحد کے صیغے سے مخاطبین کے گویا ایک ایک شخص کو فرداً فرداً توجہ دلائی جاتی ہے جس سے کلام میں زیادہ زور پیدا ہو جاتا ہے۔

[49]۔یعنی معبود کی حیثیت سے، اِس لیے کہ وہی حقیقی فاعل مختار اور خلق و تدبیر کے تمام اختیارات کا اصل مالک ہے۔ چنانچہ کائنات کے اندر جو قدرت وحکمت اور افادیت و ربوبیت کاظہور دیکھتے ہو، یہ اِس لیے ہے کہ تمام کائنات کی باگ تنہا اُسی کے ہاتھ میں ہے۔

[50]۔یعنی اُن کی کوئی حقیقت نہیں ہے، وہ سب تمھارے تخیلات کے آفریدہ خدا ہیں۔

[51]۔اِس لیے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ عظیم کائنات نہ وجود میں آسکتی تھی اور نہ اِس نظم اور باقاعدگی کے ساتھ چل سکتی تھی، جس طرح اِسے چلتے ہوئے دیکھ رہے ہو۔

[52]۔یعنی انسان اِسے جس قدر چاہے، اپنے ہنر کا کرشمہ سمجھے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ کشتی خدا ہی کے فضل سے دریا میں چلتی ہے۔ یہ فضل شامل حال نہ ہو اور خدا کی نگاہ کرم پھر جائے تو آدمی کو لمحوں میں معلوم ہو جاتا ہے کہ اُس کے ذرائع و وسائل اور کمالات علم و فن کتنے پانی میں ہیں۔

[53]۔اصل میں لفظ ’مُقْتَصِد‘ آیا ہے، یعنی حق و عدل کی راہ پر چلنے والا۔

[54]۔یہ فقرہ اصل میں محذوف ہے۔ اِسے بعد کے جملے نے کھول دیا ہے۔

[55]۔یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ آپ پریشان نہ ہوں۔ اِس طرح کے لوگ کسی نشانی سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اِس میں، ظاہر ہے کہ قریش کے متمردین کو بھی نہایت سخت تنبیہ ہے، اِس لیے کہ یہ بات اُنھی کے بارے میں کہی گئی ہے۔

[56]۔یہ آخری تنبیہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ یہاں اسلوب بیان کی یہ ندرت ملحوظ رہے کہ بیٹے کے کام نہ آ سکنے کی نفی میں شدت پائی جاتی ہے۔ فرمایا ہے: ’وَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَيْئًا‘۔ زبان کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ مبتدا کے اعادے اور فعل کی جگہ اسم کے استعمال نے اِس جملے میں بڑا زور پیدا کر دیا ہے۔ اِس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اول تو ہر باپ کو فطری طور پر اپنے بیٹے سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ پیری میں اُس کا سہارا بنے گا، دوسری یہ کہ بیٹا اپنی عمر اور صلاحیت کے اعتبار سے باپ کے مقابل میں زیادہ اِس بات کا اہل ہوتا ہے کہ اپنے ناتواں باپ کی مدد کر سکے، تیسری یہ کہ بیٹے کے اندر جوانی کے سبب سے فتوت و حمیت کا جذبہ بھی زیادہ قوی ہوتا ہے، لیکن اِن تمام باتوں کے باوجود اُس دن نفسی نفسی کا یہ عالم ہو گا کہ بیٹا بھی اپنے باپ کے کام آنے والا نہ بن سکے گا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۴۶)

[57]۔دنیا کا نظام چونکہ مجازات کے اصول پر نہیں، بلکہ امتحان کے اصول پر قائم کیا گیا ہے، اِس لیے بالعموم فریب نظر کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ اِسی کی طرف توجہ دلائی ہے۔

[58]۔یعنی شیطان جس نے اِسی کا عہد کر رکھا ہے۔

[59]۔یعنی اِس معاملے میں کہ خدا نے یہ دنیا کسی مقصد کے پیش نظر نہیں بنائی اور اِس میں جو کچھ ہو رہا ہے، اُس سے اب خدا کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے، لہٰذا یہ اِسی طرح چلتی رہے گی یا بغیر کسی نتیجے کے ایک دن ختم ہو جائے گی۔ شیطان نے انسان کو جس دھوکے میں ڈال رکھا ہے، وہ اصلاً یہی ہے۔

[60]۔لیکن تمھیں بتا کر نہیں برساتا کہ ٹھیک کس وقت اورکتنی مقدار میں اورکہاں کہاں برساؤں گا؟

[61]۔لیکن تمھیں اِس پر مطلع نہیں کرتا کہ رحموں میں کیا ہے اور اپنا وقت پورا کرے گا یا وقت سے پہلے باہر آجائے گا اور اگر پورا کرے گا تو اُس کے وضع کاٹھیک ٹھیک وقت کیا ہو گا؟

[62]۔مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کا آخری اور قطعی علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ تم اتنی قریب کی اور ایسی واضح حقیقتوں سے بھی بارہا بے خبر رکھے جاتے ہو، لیکن اُن کا انکار نہیں کر دیتے۔ پھر قیامت کے بارے میں اگر یہ نہیں بتایا جا رہا کہ کب آئے گی تو اُسے کیوں مشتبہ ٹھیرایا جائے؟

B