HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۷)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

 

حضرت ابو الروم  بن عمیر رضی اللہ عنہ

حسب و نسب

حضرت ابوالروم كا اصل نام منصورتھا، لیكن اپنی كنیت سے مشہور ہیں۔ ا ن كی ولادت مكہ میں عمیر بن ہاشم كے ہاں ہوئی، والدہ  رومی باندی تھیں۔ قریش كی شاخ بنو عبدالدار كے بانی عبدالدار بن قصی ان كے سكڑدادا تھے۔قصی بن كلاب ان كے اور نبی صلی الله علیہ وسلم كے پانچویں جد تھے، اس طرح قریش كی دونوں شاخیں بنوہاشم بن عبدمناف اور بنو عبدالدار آپس میں مل جاتی ہیں۔ بلاذری كہتے ہیں: حضرت ابوالروم كا نام عبد مناف تھا،اسلام قبول كرنے كے بعد انھوں نے بدل دیا۔حضرت مصعب بن عمیر ان كے باپ شریك بھائی تھے،ان كی والدہ كا نام ام خناس بنت مالك تھا۔حضرت زرارہ بن عمیر جو اپنی كنیت ابوعزیز سے مشہور ہیں، حضرت ابوالروم كے سوتیلے اور حضرت مصعب  كے سگے بھائی تھے۔وه جنگ بدر  میں مشرك فوج كی طرف سے لڑے، مسلمانوں كی قید میں آئے اور بعد میں اسلام قبول كیا۔  ایك بھائی یزید بن عمیر جنگ احد میں كفار مكہ كی فوج میں شامل ہوا اور لڑتے ہوئے مارا گیا۔

بیعت ایمان

آفتاب اسلام طلوع ہوئےكچھ ہی دیر گزری تھی كہ حضرت ابو الروم  نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے دست مبارك پر بیعت ایمان كی۔

سوے حبشہ

ابن عبد البر كہتے ہیں:  حضرت ابو الروم  اپنے بھائی حضرت مصعب بن عمیر كے ساتھ ہجرت حبشہ كے سفر پر نكلے،حالاں كہ حضرت مصعب  ان  سولہ مہاجرین اولین  میں شامل تھے جو سب سے پہلے حضرت عثمان بن مظعون كی قیادت میں حبشہ روانہ ہوئے،تب حضرت ابوالروم مكہ میں مقیم تھے۔وه بعد میں اس بڑے قافلۂ ہجرت كا حصہ بنے جو حضرت جعفر بن ابو طالب كی سربراہی میں حبشہ گیا۔ یہ اشكال بلاذری كی وضاحت سے حل ہو جاتا ہے، جو كہتے ہیں كہ حضرت مصعب بن عمیر نے حبشہ كی پہلی اور دوسری، دونوں ہجرتوں میں حصہ لیا۔اس طرح حضرت ابوالروم ہجرت ثانیہ میں اپنے بھائی حضرت مصعب كے رفیق سفر بن جاتے ہیں۔واقدی كا كہناہےكہ تمام مؤرخین اس بات پر متفق نہیں كہ حضرت ابوالروم نے حبشہ ہجرت كی تھی۔ابن جوزی نے مہاجرین حبشہ كی فہرست میں حضرت ابوالروم بن عمیر كا نام شامل نہیں كیا۔

شہر نبوی میں آمد

جنگ بدر كے بعد مدینہ پہنچے۔دوسری روایت كے مطابق وه غزوۂ بدر سے پہلے مدینہ آئے، لیكن غزوہ میں شریك نہ ہو سكے۔

غزوۂ احد

جنگ کے آغاز میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:مشرکوں کا پرچم کس نے اٹھایا ہوا ہے؟ بنوعبدالدار نے،آپ کو بتایا گیا۔ فرمایا: ہم ان سے زیادہ حق وفا رکھتے ہیں۔ چنانچہ مہاجرین كا علم جو آپ نے حضرت علی كو عطا كر ركھا تھا، حضرت مصعب بن عمیر عبدری كو بلا كران كے سپرد فرمادیا۔سعد بن ابو طلحہ عبدری قریش کا جھنڈا لے کر بڑھا اور حضرت سعد بن ابی وقاص كے ہاتھوں قتل ہوا،یکے بعد دیگرے مشرکوں کے پانچ رایت بردار مسلمانوں کے ہاتھوں جہنم رسید ہو چکے تو پرچم حضرت مصعب کے چچا زاد ارطاۃ بن شرحبیل نے تھام لیا۔حضرت مصعب  (دوسری روایت :حضرت حمزہ ) نے اسےانجام تک پہنچایا۔ ایک بار فتح حاصل کرلینے کے بعد مسلم فوج کفار کے اچانک حملے سے منتشر ہوئی توگھوڑے پر سوار ابن قمئہ(:ابن ہشام، قمیئہ: ابن سعد) لیثی نعرہ لگاتے ہوئے بڑھا، مجھے محمد کا پتا بتاؤ، اگر وہ بچ گئے تو میں نہ بچ پاؤں گا۔حضرت مصعب نے جو علم مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے، اس کا راستہ روکا۔ اس نےآپ کے شبہ میں ان کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا تو انھوں نے پرچم بائیں  ہاتھ میں لے لیا۔ اس نے بایاں ہاتھ بھی کاٹا توحضرت مصعب نے علم بازوؤں میں لے کرسینے سے چمٹا لیا۔ بد بخت ابن قمئہ(قمیئہ) نے تیرسے تیسرا وار کیاتو حضرت مصعب گر پڑے۔ بنوعبدالدار کے دو افراد حضرت سویبط بن سعداورحضرت مصعب کے بھائی حضرت ابوالروم  بن عمیرلپکے اور حضرت ابوالروم نے پرچم اٹھا لیا (الطبقات الكبریٰ، ابن سعد۲/۱۲۵)۔حضرت مصعب کو شہید کرنے کے بعد ابن قمئہ اپنے لشکر میں لوٹا اور مشہور کر دیا کہ میں نے محمد کو (معاذ الله) قتل کر دیا ہے۔ دوسری روایت كے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضر ت مصعب كی شہادت كے بعد علم  دوباره حضرت علی كو سونپ دیا۔تیسری روایت كے مطابق اسے ایك فرشتے نے حضرت مصعب كا روپ دھار كرتھام لیا۔

شہادت

حضرت ابوالروم نے ۱۵ھ میں عہد فاروقی میں جنگ یرموك میں جام شہادت نوش كیا۔

اولاد

حضرت ابو الروم كی كوئی اولاد نہ ہوئی۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــ


حضرت خزیمہ بن جہم رضی الله عنہ

 نسب نامہ

حضرت خزیمہ بن جہم حضرت جہم بن قیس اورحضرت خولہ بنت عبد الاسود كے بیٹے تھے۔ اپنے ساتویں جد عبدالدار بن قصی كی نسبت سے عبدری كہلاتے ہیں۔حضرت عمرو بن جہم اورحضرت حرملہ  بنت جہم ان كے بھائی بہن تھے۔ ابن حجر نے حضرت خزیمہ كے پردادا كا نام عبد بن شرحبیل بتایا، حالاں كہ ان كے والد حضرت جہم كے ترجمہ میں وه عبد شرحبیل لكھ چكے تھے۔ا س سے معلوم ہوا كہ جہاں عبد بن شرحبیل كے بجاے عبدشرحبیل  لكھا ہے، كتابت كی غلطی ہے۔

قبول اسلام

یہ نہیں معلوم كہ بعثت نبوی كے وقت حضرت خزیمہ كی عمر كیا تھی۔تاہم وه ہوش سنبھالنے كے وقت مسلمان تھے۔

ہجرت حبشہ

 حبشہ كی طرف دوسری ہجرت میں اپنے گھرانےكے ساتھ سفر كیا۔ ان كے والدین حضرت جہم ،حضرت ام  حرملہ اوربھائی حضرت عمرو بن جہم ہم راہ تھے۔

مدینہ كی طرف رجوع

حضرت خزیمہ بن جہم اپنے والد اور بھائی كے ساتھ اس كشتی میں سوار ہو كر مدینہ آئے جونجاشی نے حضرت امیہ بن عمرو ضمری كو مہاجرین واپس لے جانے كے لیے دی تھی۔  

وفات

حضرت خزیمہ بن جہم كا سن وفات معلوم نہیں۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، انساب الاشراف(بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، السیرة النبویۃ (ابن كثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔

ـــــــــــــــــــــــــ


حضرت جہم بن قیس رضی الله عنہ

نسب و نسبت

نبی صلی الله علیہ وسلم كے پانچویں جد قصی بن كلاب پانچویں صدی عیسوی میں خانہ كعبہ كے متولی بنے۔ عبدالدار،عبد مناف، عبدالعزیٰ اور عبد، ان كے چار بیٹے تھے۔ وه بوڑھے ہوئے تو بڑے بیٹے عبدالدار کو کعبہ کی کنجیاں دیں اور کہا کہ تم حاجیوں کو کھلانے پلانے کے ذمہ دار ہو۔قریش کوئی صلاح مشورہ کرنا چاہیں تو تمھارے گھر میں کریں گے۔جنگ ہوئی تو قریش کا پرچم بھی تمھی اٹھاؤ گے۔عبدالدار اور عبدمناف دنیا سے رخصت ہوئے تو دونوں بھائیوں کی اولاد کے مابین كعبہ کے مناصب پر شدید تنازع کھڑا ہوگیا۔قریب تھا كہ جنگ كی آگ بھڑك اٹھتی، لیکن كچھ ثالثوں نے صلح کرا كر بیت الله كے مناصب کو اس طرح تقسیم کر دیا:كعبہ كی كلید برداری، دارالندوہ (قریش کی اسمبلی) كے اہتمام اور جنگ میں علم برداری کے فرائض عبدالدار کو ملے،  جب کہ حاجیوں کو پانی پلانے اور ان کی ضیافت و میزبانی کی ذمہ داری عبد مناف کو حاصل ہو گئی۔حضرت جہم بن قیس عبدالدار كے دوسرے بیٹے عبد مناف كی اولاد میں سے تھے۔ عبد بن شرحبیل(:ابن سعد،ابن اسحاق۔ عبد شرحبیل: كلبی، ابن ہشام،ابن حجر) ان كے دادا،جب كہ عبد مناف بن عبدالدار پانچویں(چوتھے: ابن ہشام، ابن حجر) جد تھے۔ ساتویں(چھٹے:ابن ہشام،ابن حجر) جد قصی پر ان كا شجره نبی صلی الله علیہ وسلم كے  شجرے سے جا ملتا ہے۔ حضرت جہم كی والدہ كا نام رُہیمہ تھا۔ شاذ روایت میں ان كانام جہیم نقل كیا گیا ہے، جب كہ جہیم بن الصلت ان كے ماں شریك بھائی تھے۔ ابوخزیمہ حضرت جہم كی كنیت تھی۔اپنے آبائی قبیلے عبدالدار كی نسبت سے عبدری اور قریش سے تعلق ركھنے كی بنا پر قرشی كہلاتے ہیں۔

ازدواج واولاد

بنوخزاعہ كی  حضرت خولہ حضرت جہم كی اہلیہ تھیں، لیكن وه اپنی كنیت ام حرملہ، (دوسری روایت: ام حریملہ) سے مشہور ہیں۔ان كے والد كا نام عبدالاسود تھا۔عمرو بن عبد شمس كی باندی ان كی والدہ تھیں۔ ان كے تین بچے عمرو، خزیمہ اور حرملہ مكہ ہی میں پیدا ہوئے۔

ایمان و اسلام

مكہ میں رسالت محمدی  كی روشنی پھیلی تو حضرت جہم بن قیس نے آپ پر ایمان لانے میں دیر نہ  لگائی۔

ہجرت حبشہ

 حضرت جہم بن قیس نے اپنی اہلیہ حضرت ام حرملہ بنت عبدالاسود كے ساتھ حبشہ كی ہجرت ثانیہ میں حصہ لیا۔ان كے بیٹے حضرت عمرو بن جہم اور حضرت خزیمہ بن جہم بھی شریك سفر تھے۔مہاجرین كی فہرست میں ان كی بیٹی حضرت  حرملہ كا نام شامل نہیں۔حضرت ام حرملہ بنت عبد نے آخری سانس سرزمین حبشہ میں لی۔

 ہجرت مدینہ

حضرت جہم بن قیس  ۷ ھ میں حبشہ سے  اپنے گھرانے كو لے كر مدینہ كی طرف روانہ ہوئے۔ یہ راه حق میں ان كی دوسری ہجرت تھی۔اب ان كی اہلیہ حضرت ام حرملہ  ان كے ساتھ نہ تھیں۔ابن كثیر كےبیان كے مطابق حضرت عمرو بن جہم بھی حبشہ كی خاك ہو چكے تھے۔ صحابہ كے تمام سوانح نگاروں كا كہنا ہے كہ حضرت ام حرملہ وفات پا چكی تھیں، البتہ  حضرت عمرو اور حضرت خزیمہ اس وقت زنده تھے اور اپنے والد كے ساتھ حضرت جعفر بن ابوطالب كے واپسی كے قافلے میں شامل ہو كر مدینہ پہنچے۔ حبشہ كے بادشاه نجاشی بن اصحمہ نے ان كے لیے اور حبشہ میں ره جانے والے دوسرے اصحاب كے لیے كشتیوں كا انتظام كیا تھا۔

مدنی زندگی

 ایك روایت میں ہے كہ بنو لخم كے بطن دار بن ہانی سے تعلق ركھنے والے حضرت ابوہند داری اپنے سوتیلے بھائیوں حضرت تمیم داری اورحضرت نعیم داری كے ساتھ نبی صلی الله علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوئے اور شام میں ایك قطعۂ زمین دینے كی درخواست كی۔آپ نے ان بھائیوں كوایك تحریر دلوائی جس پر حضرت جہم بن قیس، حضرت عباس اورحضرت شرحبیل بن حسنہ نے گواہی ثبت كی۔ حضرت ابوبكر كے عہد خلافت میں فتوحات شام كا سلسلہ شروع ہوا تو ان داری بھائیوں نے حضرت ابوبكر كو آپ كی تحریر دكھائی تو انھوں نے جیش اسلامی كے كمانڈر ان چیف حضرت ابوعبیدہ بن الجراح كو اس فرمان نبوی كی تعمیل كرنے كا حكم بھیجا۔ انھیں عینون كی بستی دی گئی (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ۱/ ۲۰۷)۔ ابن حجر نے حضرت جہم كی گواہی پر شبہ ظاہر كیا ہے (الاصابہ۱/ ۲۹۱)۔

وفات

حضرت جہم كی بقیہ زندگی كے بارے میں تفصیل نہیں ملتی۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، انساب الاشراف(بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ  (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔

ـــــــــــــــــــــــــ


حضرت سعید بن عبد قیس رضی اللہ عنہ

اختلاف اسما

حضرت سعید بن عبد قیس مكہ میں پیدا ہوئے۔ ان كا تعلق قریش كی شاخ بنو فہر سے تھا جو ان كے ساتویں جد فہر بن مالك سے منسوب ہے۔حضرت سعید اور ان كے والد كے ناموں میں بہت اختلاف كیا گیا ہے۔ابن اسحاق اور ابن ہشام نے انھیں سعد كے نام سےپكارا ہے۔ ابن سعد،ابن عبدالبر اور ابن اثیر نے ان كے والد كا نام عبدبن قیس لكھا، ایك شاذ روایت میں ان كا نام عبید بن قیس بتایا گیاہے۔حضرت حارث بن عبد قیس اور حضرت نافع بن عبد قیس حضرت سعید بن عبدقیس كے بھائی اور مراكش و افریقہ كے فاتح عقبہ بن نافع ان كے بھتیجےتھے۔

 ملت اسلامیہ میں شمولیت

وادی بطحا میں اسلام كا سورج طلوع ہوا تو حضرت سعید بن عبد قیس فوراً ایمان لے آئے۔

 راه دین میں ہجرت

حضرت سعید بن عبد قیس نےحبشہ كی طرف ہجرت ثانیہ میں حصہ لیا۔ابن اسحاق نے حبشہ ہجرت كرنے والے اصحاب رسول كی جو فہرست مرتب كی،نامكمل ہے۔اس میں بنوحارث بن فہر كے اصحاب حضرت سعید بن عبد قیس، حضرت حارث بن عبد قیس اور حضرت عیاض بن زہیر كے نام شمار نہیں كیے گئے۔ ان كے خوشہ چیں ابن ہشام نے اس فہرست كی تكمیل كی۔

دیار نبی میں آمد

حضرت سعید بن عبد قیس جنگ خندق تك حبشہ میں مقیم رہے اور حضرت جعفر بن ابو طالب كی واپسی سے پہلے دیار نبی پہنچ گئے۔ عازمین حبشہ كی فہرست كے برعكس ابن اسحاق كی حبشہ سے لوٹنے والے صحابہ كی فہرست جامع ہے۔انھوں نے حضرت سعد (سعید )بن قیس كو صحابہ كے اس زمرے میں شامل كیا ہے، جو حبشہ سے مكہ جانے كے بجاے براه راست مدینہ آئے۔ان كی واپسی جنگ بدر كے بعد ہوئی، وه ۷ھ میں شاه نجاشی كی فراہم كردہ كشتیوں میں لوٹنے والے مہاجرین كے آخری قافلے سے پہلے مدینہ پہنچے۔ ابن سعد نے خیال ظاہر كیا ہے كہ حضرت سعید بن عبدبن قیس حضرت جعفر بن ابو طالب كی قیادت میں سفر كرنے والےاس قافلے كے ہم راه مدینہ آئے۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، السیرة النبویۃ (ابن کثیر)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،انساب الاشراف(بلاذری)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)، ویکیبیدیا۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B