ہمارے مضمون ’’ارتقاے حیات اور قرآن مجید ‘‘کی دوسری قسط’اشراق ‘ کے اپریل ۲۰۲۲ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔اس طباعت میں کچھ اغلاط رہ گئی ہیں۔وہ درج ذیل ہیں:
صحیح غلط
وَخَلَقَ مِنْ نَفْسِهَا زَوْجَهَا وَخَلَقَ مِنْهَا نَفْسِهَا زَوْجَهَا(ص ۶۴)
يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ اَسَاوِرَ خُلِقَتْ مِنْ ذَهَبٍ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ خُلِقَتْ مِنْ ذَهَبٍ(ص۷۰)
معذرت کہ ان دو اغلاط کی وجہ سے میری بات سمجھنے میں قارئین کو یقیناً دشواری ہوئی ہوگی۔ میں نے جو مضمون’’اشراق ‘‘میں طباعت کے لیے بھیجا تھا، اس میں یہ غلطیاں نہیں تھیں۔المورد کے شعبۂ نشر و اشاعت سے استفسار پر پتا چلا کہ ’’اعراب کے لیے کاپی پیسٹ کرتے وقت کچھ معاملہ خراب ہوا ہے‘‘۔ یعنی اعراب لگانے کے لیے قرآن کی آیات کا اصل متن مع اعراب دوبارہ پیسٹ کیا گیا، پھر جو عبارتیں میں نے لکھی تھیں ، وہ درج کی گئیں، مگر وہ صحیح طرح سے درج نہیں ہو سکیں۔رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا۔
اسی طرح ذیل کی عبارت (اشراق، مارچ ۲۰۲۲ء ص۵۲)کا ایک حاشیہ رہ گیا ہے:
یہی وجہ ہے کہ جہاں ’عَلَقَة‘ وغیرہ کا ذکر ہوا ہے، وہاں ’تسویہ‘ کا ذکر نہیں ہوا ، اور جہاں ’تسویہ‘ کا ذکر ہوا ہے، وہاں ’عَلَقَة‘ وغیرہ کا ذکر نہیں ہوا۔[1] (غیر طبع شدہ حاشیہ نیچے فٹ نوٹ میں دیکھیے)
دو ایک اور بھی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، لیکن ، وہ فہم مدعا میں رکاوٹ نہیں ہیں، اس لیے ان کےبیان کی یہاں ضرورت نہیں۔مثلاً ’’حروف فی نفسہا معنی نہیں دیتے‘‘۔اس میں ’’ فی نفسہا ‘‘ عربی عبارت سمجھتے ہوئے خط نسخ اور اعراب لگا دیے گئے اور یوں طبع ہوا ہے: ’’حروف ’فِيْ نِفْسِهَا‘معنی نہیں دیتے‘‘ (اشراق اپريل ۲۲،ص۶۹)۔ اس اشتباہ کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ اس مضمون میں ’مِنْ نَفْسِهَا‘ وغیرہ بہت استعمال ہوا ہے۔
اس ماہ مجھ سے کچھ احباب نے مزید کچھ سوالات کیے ہیں، ان میں سے دو قابل اشاعت تھے۔ اس تصحیحی نوٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ بھی پیش خدمت ہیں۔
سوال۱: ’كُنْ فَيَكُوْنُ‘ کا اسلوب
’كُنْ فَيَكُوْنُ‘ کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ’’ہو جا تو وہ ہو گیا‘‘۔ حالاں کہ یہاں ’فَيَكُوْنُ‘ میں مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ بعض علما نے ’’ہو جاتا ہے ‘‘کا ترجمہ کیا ہے۔عام اسلوب کے مطابق ’كن فكان‘ کیوں نہیں آیا؟اور آیا مضارع استمرار کے معنی نہیں دیتا؟
دیکھیے، مضارع کا صیغہ ان جملوں میں اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ ذہن ’’فوری ہو جانے ‘‘کی طرف نہ جائے کہ اِدھر کہا کہ ہو جا اور اُدھر وہ چیز ہو گئی۔اگر اللہ تعالیٰ جملہ یوں بولتے کہ ’ثمّ قال له كن فكان‘، تو اس سے فوری بن جانے کا مفہوم متبادر ہوتا، گو یہاں بھی لازم نہیں ہے۔ ’كُنْ فَيَكُوْنُ‘ کا اچھا ترجمہ یہی ہے کہ ’’ ہو جا، تو وہ ہو جاتا ہے‘‘۔
البتہ، ہمارے اس مضمون میں جو آیت زیر بحث آئی، وہ ان آیات سے مختلف ہے جن میں ’يقول‘ اور ’يكون‘ دونوں کے لیے مضارع کے صیغے آئے ہیں۔مثلاً سورۂ بقرہ کی یہ آیت: ’وَاِذَا قَضٰ٘ي اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ‘ (۲: ۱۱۷)۔ ان جملوں میں دونوں مضارع بالکل درست ہیں۔ یہاں عادت یا استمرار کے معنی لینے بالکل صحیح ہوں گے، کیونکہ ’يقول‘ کے جواب میں ’يكون‘ بھی مضارع میں ہے۔مراد یہ ہوئی کہ جب بھی کوئی چیز بنانی ہو تو بس اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ بن جا ، تو وہ بن جاتی ہے۔
لیکن قابل لحاظ بات یہ ہے کہ تخلیق آدم کی مثال میں ’فَيَكُوْنُ‘ سے پہلے ’قَالَ‘ ماضی میں آیا ہے: ’اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰي عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَﵧ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ‘ (آل عمران ۳: ۵۹)۔ اس وجہ سے ’فَيَكُوْنُ‘ كامضارع ماضی کے حیّز (سیاق و سباق) میں آیا ہے، اس لیے اس کے معنی ماضی میں ہوجانے کے لیے جائیں گے، جسے اردو میں بیان کرنا مشکل ہے۔ مثلاً ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ’’ اللہ نے آدم سے کہا تھا کہ ہو جاتو وہ ہوجاتا ہے(ماضی میں)‘‘۔اس وجہ سے میں نے ایک مقام پر ’’ہو گیا ‘‘کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ یہاں معنی یہ ہیں کہ آدم بتدریج بن گئے تھے۔
سوال کے دوسرے حصے میں، مضارع کے ساتھ استمرار کو لازم سمجھا گیا ہے، ایسا نہیں ہے۔مضارع اِلف و عادت، قوت و قدرت، مناسبت، غرض کئی پہلو کو بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔مثالیں اردو میں دے رہا ہوں تاکہ اردو دان طبقہ کو بھی آسانی سے سمجھ آجائیں۔ ’’وہ صبح صبح اٹھتا ہے‘‘، الف و عادت کا بیان ہے۔’’یہ پنکھا ٹھیک ہی چلتا ہے‘‘، صحت و قدرت کا بیان ہے۔’’یہ کُرتا اسے پورا آتا ہے‘‘، یا ’’یہ رنگ اسے جچتا ہے‘‘، مناسبت کا بیان ہے، وغیرہ۔اب یہ مثال دیکھیے :’’آدمی محنت کرے تو کام ہو جاتا ہے‘‘۔اس میں بالآخرکام ہو جانے کے معنی ہیں۔’’میں نے اسے کہا کہ چلا جا، وہ روتے ہوئے چلا جاتا ہے۔‘‘اس میں حکم کی چارو ناچار تعمیل کے معنی ہیں۔ غرض یہ کہ ’كُنْ فَيَكُوْنُ‘ میں آیا مضارع بھی استمرار نہیں، بلکہ بیان وقوع اور بالتدریج تعمیل ارشاد کا مفہوم ادا کررہاہے۔
سوال ۲: تم نے تو کلمۂ کن کے معنی ہی تبدیل کرکے رکھ دیے ہیں۔ہم تو ساری زندگی یہ سمجھتے رہے ہیں کہ ہر کام کلمۂ کن سے ہوتا ہے۔امام غزالی جیسے محرم راز نے لکھا ہے کہ ہر کام حکم الٰہی کے صادر ہونے کے بعد ہوتا ہے، خواہ دیا سلائی جلانے جیسا عمل ہی کیوں نہ ہو۔
جی، آپ نے بالکل صحیح سمجھا ہے۔ اللہ کے حکم ہی سے سارے کام ہوتے ہیں،لیکن ایک تصور یہ ہے کہ ہر ہر کام کے لیے تازہ بہ تازہ کلمۂ کن عین اس وقت صادر ہوتا ہے، جب وہ کام ہونے لگتا ہے۔مثلاً ابھی فجر کی اذان ہوئی تو مؤذن صاحب کو کلمۂ کن نے جگایا، انھوں نے اٹھنے کے لیے الارم لگایا ہوا تھا،اس کے بجنے کے لیے بھی کلمۂ کن جاری ہوا تھا، پھر انھوں نے لاؤڈ اسپیکر آن(on) کیا، وہ ان کے بٹن دبانے سے نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ہی کلمۂ کن کے اجرا سے چلا۔پھر انھوں نے اذان دینے کے لیے منہ سے کلمات نکالنے شروع کیے تو وہ بھی کلمۂ کن کے صادر ہونے کے بعد ادا ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ارب ہا ارب کام ہورہے ہیں، سب کے لیے اللہ تعالیٰ الگ الگ حکم ہر وقت جاری کرتے رہتے ہیں۔یہ تصور قرآن کے بہت سے بیانات سے ٹکراتا ہے، مثلاً ان بیانات سے: ’قَدَّرَ فَهَدٰي‘ (الاعلیٰ۸۷: ۳)، ’اَجَلٌ مُّسَمًّي‘، (الانعام۶: ۶۰)، ’كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّي‘ (الرعد۱۳: ۲) ، ’يُدَبِّرُ الْاَمْرَ‘ (الرعد۱۳: ۲)، ’كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ‘ (طٰہٰ۲۰: ۱۲۹)، ’قَدَّرْنَا‘ (سبا۳۴: ۱۸)، ’فَقَدَرْنَاﵲ فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ‘ (المرسلات۷۷: ۲۳) ۔
دوسرا تصور یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دنیا بنائی تو ان تمام کاموں کے لیے تقدیر، لائحۂ عمل، خصائص ، نتائج و عواقب، علت و معلول، مواقفت ومخالفت، اذن و مہلت،پھر ان کے آغاز اور ان کے مکمل یا نامکمل اختتام کا حکم وغیرہ ،روز ازل ہی کو صادر کردیا تھا۔مثلاً اوپر والے مؤذن صاحب کے لیے سارے حکم اس وقت ہی جاری ہو چکے تھے جب اس زمین و آسمان کے بننے کے لیے کلمۂ کن صادر ہوا تھا۔اس تصور کی تائید اوپر دیے گئے نصوص سے ہوتی ہے ۔ یہی وہ بات ہے جو ایک روایت میں نبی کریم سے منقول[2] ہے کہ میں اس وقت بھی اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) میں بہ حیثیت خاتم النبیین تھا ، جب آدم ابھی مٹی کی حالت میں تھے(احمد، رقم۱۷۱۶۳)۔ اگر امام غزالی رحمہ اللہ والا تصور مانا جائے تو پھر تو آپ کے خاتم الانبیا ہونے کا فیصلہ شاید اس رمضان میں ہوا ہوگا جس میں قرآن نازل ہوا تھا!
روز ازل جواحکام دیے گئے، وہ کئی قسموں میں بانٹے جاسکتے ہیں۔ان میں سے بے شمار احکام طبعی وحیاتی قوانین کی شکل اختیار کرگئے، (مثلاً دیکھیے سورۂ یونس ۱۰: ۲۲ - ۲۴ اور النحل ۱۶: ۵ - ۱۴وغیرہ)۔ان سب قوانین کے لیے حُسبان ، تقدیر(الانعام۶: ۹۶)، خلق (البقرہ۲: ۱۶۴)تسخیر، امر(ابراہیم ۱۴: ۳۲) وغیرہ کے الفاظ بولے گئے ہیں۔ کچھ حیوانات و نباتات کی جبلت میں رکھ دیے گئے (النحل ۱۶: ۶۸- ۶۹)، کچھ اشیا کے خصائص بن گئے (النحل ۱۶: ۶۶- ۶۷، ۶۹)، کچھ حیوانات اور انسانوں کے ارادہ و اختیار کے تحت رکھ دیے گئے (الکہف ۱۸: ۲۹، الدہر۷۶: ۳، النجم ۵۳ : ۳۹ - ۴۰ وغیرہ)،کچھ احکام ہماری فطرت بن گئے، اور پھر انھی پر دین قیم کا دارو مدار ہوا(الروم ۳۰: ۳۰)، کچھ احکام خیر وشر کے لیے ہمارے اخلاق کی بنیاد بن گئے(البلد۹۰: ۱۰ - ۱۷، الدہر ۷۶: ۳، الشمس۹۱: ۷ - ۱۰)، کچھ علت و معلول(cause & effect)، اصل و فرع (proof & corollary) اور مانع و معاون اصولوں کی شکل میں ڈھل گئے(الاعراف۷: ۵۷)۔اس صورت میں ہر وقت تازہ کلمۂ کن صادر نہیں ہوتا،بلکہ دنیا ان احکام کے تحت چلتی رہتی ہے۔ ان احکام کو ہم پرانا یا ازلی کلمۂ کن کہہ سکتے ہیں۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کلمۂ کن کی دو قسمیں ہیں:
ایک وہ ازلی اور پرانے احکام ہیں جو قانون و ضابطے اور علت و معلول وغیرہ کی شکل اختیار کرگئے ہیں، جن کی تعمیل پر ہماری دنیا کا نظام چل رہا ہے: مثلاً آفتاب کا طلوع و غروب، ہواؤں کاچلنا، بادلوں کا بننا اور برسنا،علت کا معلول پر اثر وغیرہ ۔
دوسرے وہ جب کلمۂ کن تازہ تازہ جاری ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کلمۂ کن کے متعلق تمام مقامات کے بہ نظر غائر مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تازہ کلمۂ کن یا اس وقت استعمال ہوتا ہے جب عدم سے کوئی چیز وجود میں لائی جائے ۔مثلاً عدم سے کائنات کی تخلیق (البقرہ۲: ۱۱۷)۔ یا اب یہ ہماری کائنات میں اس وقت تازہ تازہ صادر ہوتا ہے، جب چلتے ہوئے نظام کی جبلت سے ہٹ کر کوئی کام کرنا ہو۔ جیسے بے جان مٹی سے حیات کی تخلیق(المومن ۴۰: ۶۸)، مٹی سے آدم کی تخلیق (آل عمران ۳: ۶۵)، بن باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت(آل عمران ۳: ۴۷)، قیامت کا آغاز(الانعام ۶: ۷۳)، ایک قوم کو ہلاک کر کے ان کے مثل قوم کو پیدا کرنا (یٰس۳۶: ۸۲)، مردوں کو دوبارہ زندگی دینا(النحل ۱۶: ۴۰) وغیرہ۔
میری نگاہ میں کلمۂ کن کی حقیقت یہ ہے۔بہرحال یہ میرا فہم نصوص ہے، اس میں خطا کا امکان پوری طرح تسلیم ہے۔
’رب زدني علمًا صحيحًا نافعًا باركًا فيه‘۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ سورۂ قیامہ میں ’عَلَقَة‘ کے ساتھ ’تسویہ‘ کا ذکر ہوا ہے: ’اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰي. ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰي‘ (۷۵: ۳۷ - ۳۸)۔ اس سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے، اس لیے کہ علقۃ کے بعد مضغہ وغیرہ کے مراحل اس میں بیان نہیں ہوئے۔ یہاں ’تسویہ‘ سے ’عَلَقَة‘ کے بعد کے مراحل مرادہیں ،یعنی مغضہ ، ہڈیاں اور گوشت بننا: یعنی ’ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا‘ (المؤمنون۲۳: ۱۴)۔
[2]۔ اس کی صحت پر اختلاف ہے، ذہبی وغیرہ کے نزدیک صحیح ہے، لیکن شعیب ارنؤوط وغیرہ کے نزدیک صحیح لغیرہ ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: ’إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ‘ (رقم۱۷۱۶۳)۔