HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

دجال اکبر کا فتنہ

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

دجال کی حقیقت اُس کے لفظ سے ظاہر ہے۔خود اُس کے نام (دجال) میں اُس کے فتنوں کا اصل سراغ چھپا ہوا ہے۔ ’دَجَّال‘ ’دَجْل‘ کا مبالغہ ہے، یعنی انتہائی مکر و فریب اور حق و باطل کے مابین آخری حد تک کذب و تلبیس کا طریقہ اختیار کرنے والا۔ یہی وجہ ہے کہ تانبے اور پیتل وغیرہ کے برتن پر سونے کا ملمع (پالش) کرکے اُسے سونا ظاہر کرنے کو ’دَجَّلَ الْإِناء‘ کہا جاتا ہے، یعنی کسی دوسرے معدنی برتن پر ملمع کرکے اُسے سونا   ظاہر کرنے کی کوشش کرنا (القاموس المحیط: ۹۱۸) ۔ [1]

دور آخر میں ظاہر ہونے والے ’شخص‘کو دجال کہنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ چیزوں کے ساتھ دجل کا معاملہ کرے گا، وہ پر فریب تعبیر کے ذریعے سے حقائق کو غلط صورت میں پیش کرکے لوگوں کو منحرف کرنے کی کوشش کرے گا۔اِس طرح یہ ہو گا کہ کسی چیزکی غیر واقعی توجیہ کرکے اُس کی اصل حقیقت لوگوں کی نگاہوں سے مستور کردی جائے  تاکہ آدمی اُس سے بے خبر رہ کر سر اب (mirage) کو حقیقت اور حقیقت کو سراب، نیز سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ تصور کرے۔ وہ ظاہر بینی کو حقیقت بینی کے مترادف سمجھے۔وہ بصارت کو بصیرت اورمحض آنکھوں سے نظر آنے والی چیزکو اصل حقیقت کے ہم معنی قرار دے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوال رسول میں ’دجال‘کو ’اعور ‘ بتایا گیا ہے، جس کا ایک استعمالی مفہوم ہے: انتہائی غلط رہنمائی کرنے والا ’الدلیلُ السیّیٔ الدلالة‘ ( القاموس المحیط: ۴۱۵)۔

فتنۂ دجال اکبر کی اِس صورت حال کے لیے ایک رہنما قول رسول میں ارشادہو اہے: ’إنّ معه ماءًا ونارًا، فنارُہ باردٌ وماؤہ نارٌ‘ (فتح الباری ۱۳/۱۱۳، رقم ۱۳۰)،[2] یعنی دجال کے ساتھ آگ اور پانی ہوگا، مگر اُس کی آگ درحقیقت ٹھنڈا پانی اور اُس کا پانی درحقیقت آگ ہوگی۔

مادی فراوانی اور مادی بحران کا ایک استعارہ

اِس روایت میں ’’آگ‘‘ اور ’’پانی‘‘کے الفاظ دراصل ایک دوطرفہ ظاہرے کا استعارہ ہیں، یعنی ایک طرف مادی فراوانی، وسائل کی کثرت اور دوسری طرف مادی بحران ۔اِسی بنا پر اِس کے لیے مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں۔چنانچہ حافظ ا بن حجر عسقلانی (۸۵۲ ھ) ایک قول کے تحت، اِس روایت میں ’’پانی‘‘ کو نعمت اور ’’آگ‘‘ کو حالات کی شدت اور آزمایش سے کنایہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’و إمّا أن یکون ذلک کنایة عن النّعمة والرّحمة بالجنة، وعن المحنة والنَّقمة بالنار. فمن أطاعه، أنعم علیه بجنته، یؤوْل أمرہ إلٰی دخول نار الآخرة وبالعکس‘ (فتح الباری ۱۳  /۱۲۴)، یعنی یا یہ کہ اِس روایت میں ’جنت‘ خوش حالی سے اور ’آگ‘ مشقت وآزمایش سے کنایہ ہے۔ چنانچہ جو لوگ دجال کی اطاعت کریں گے، وہ اُنھیں اِس دنیا میں اپنی ’جنت ‘ سے نوازے گا، جس کا انجام بالآخر جہنم کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ یہی دجال کے ’جہنم ‘  کا حال بھی ہوگا۔

ظہور  دجال کے وقت دنیا میں برپا اِس صورت حال کے لیے یہاں چند مزید اقوالِ رسول ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ ’معه جبلٌ من خبزٍ، ونھرٌ من ماءٍ‘(دجال کے پاس روٹی کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہوگا)۔

۲۔ ’إنّ معه الطعامُ  والشرابُ‘(دجال کے ساتھ کھانا اور پانی ہوگا)۔

۳۔ ’معه مثل الجنة والنار، فالتي یقول إنھا الجنة، ھي النار‘(دجال ظاہر ہوگا تو اُس کے ساتھ جنت اور جہنم جیسی چیزیں ہوں گی؛ مگر جسے وہ جنت بتائے گا، وہ جنت نہیں، بلکہ آگ ہوگی )۔

۴۔ ’معه جبالٌ من خبزٍ، والناسُ في جَھْدٍ إلّا مَن تبعه‘(دجال کے پاس روٹی کا پہاڑ ہوگا۔ اِس کے برعکس، دوسری طرف لوگ تنگ حالی کے دور سے گزر رہے ہوں گے، سوا اُن لوگوں کے جو دجال کے پیرو اور اُس کے وفادار ساتھی بن جائیں)(فتح الباری۱۳ / ۱۱۶-۱۲۴ )۔

۵۔ ’معه نھران یجریان: أحدُ ھما رأيَ العین ماءٌ أبیض، والآخَرُ رأيَ العین نارٌ تأجّجُ. فإمّا أدرکن[3]  أحدٌ، فلیأتِ النھرَ الذيْ یراہ نارًا ولْیُغَمِّضْ، ثمَّ لْیُطأْطِیْٔ رأسَه فیشربَ منه...‘،  ’’دجال کے ساتھ دو بہتے دریا ہوں گے۔ایک بہ ظاہر صاف پانی ہوگا، اور دوسرا بہ ظاہر بھڑکتی ہوئی آگ۔ تم میں سے جو اِسے پائے، اُسے چاہیے کہ وہ اُس دریا کے پاس جائے جو اُس کو آگ نظر آرہا ہے، اور اپنی آنکھیں بند کرے، پھر اپنا سر جھکائے اور اُس دریا میں سے پی لے، کیونکہ در حقیقت وہ بھڑکتی ہوئی آگ نہیں، بلکہ ٹھنڈا پانی ہوگا‘‘ [4]( مسلم، رقم ۲۹۳۴ )۔

اِس روایت کا اسلوب بہت عجیب ہے۔اِس سے معلوم ہوتاہے کہ دجالی مادیت اور فتنوں کا یہ سیلاب اِس قدر شدید اورایک ایسے عمومی طوفان کی صورت اختیار کرلے گا کہ ایک سچا مومن بھی اُس کی دل فریب کشش کے اثر سے بادل نخواستہ ہی اپنے آپ کو محفوظ اور اُس سے صرف نظر کرسکے گا۔

تاہم مذکورہ روایات میں دجال کے ساتھ ’’پانی‘‘ اور ’’آگ‘‘ کے دریا کاظاہرہ اپنے حقیقی معنوں میں بھی، نوبل انعام (۱۹۷۱ء)پانے والے یہودی سائنس داں ڈینس گیبر ( Dennis Gabbor) کے ذریعے سے دریافت کردہ ’ ہومو گریفی‘(Homography) کے اِس دور میں قابل فہم بن چکا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے بندوں کو صرا ط  مستقیم سے بھٹکا کر اپناگرویدہ بنانے کے لیے دجال لوگوں کے سامنے عملاً بھی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے اِس طرح کے سحر انگیز مظاہرے پیش کر ے گا۔

دجال: ایک شخصیت، نہ کہ دور

 ارشاد رسول کے مطابق، دجال ایک شخص ہے، نہ کہ محض ایک دور یا فتنہ ’إنّ مسیحَ الدجّالِ رَجُلٌ قصیرٌ... ‘ (ابوداؤد، رقم  ۴۳۲۰)،[5]r یعنی مسیح دجال ایک کوتاہ قامت آدمی ہوگا ۔تاہم مطالعہ بتاتا ہے کہ غالباً دجال مابعد الطبیعیاتی نوعیت کا ایک ایسا ظاہرہ ہے جس کی اجمالی تفہیم ممکن ہے، مگرمعروف طبیعی اصولوں کے تحت قبل از ظہور اُس کی تعیین ناممکن نظر آ تی ہے۔ایسی حالت میں اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ ثابت شدہ پیغمبرانہ مشاہدات (مبنی بر رؤیا اخبار النبی) کے ذریعے سے ملنے والی تنبیہات سے عبرت حاصل کریں اور اِن فتنوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔ چنانچہ ظہو ر  دجال کے وقت برپا اِس بحران میں سچے اہل ایمان کو اِن الفاظ میں پیغمبرانہ رہنمائی دی گئی ہے: ’فمَنْ أدرک ذلكَ منْکم فلْیقَعْ فيْ الذيْ یَراه نارًا، فإنّه ماءٌ عذْبٌ طیّبٌ‘، (تم میں سے جو شخص اِس صورتِ حال سے دوچار ہو ، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے لیے اُس چیز کا انتخاب کرے جو بہ ظاہر آگ نظر آئے، کیونکہ درحقیقت وہ آگ نہیں، بلکہ میٹھا اور خوش گوار پانی ہوگا)۔ اِسی طرح آپ نے فرمایا: ’فمَنِ ابْتُليَ بِنَارِہ، فلْیَسْتغِثْ باللہ، ولْیَقرأْ فَواتِحَ الکھف، فتکون علیه بَردًا وسَلامًا‘ ، ’’جو شخص نارِ دجال کے فتنے سے دوچار ہو، اُسے چاہیے کہ وہ اللہ سے مدد طلب کرے اور سورۂ کہف کی ابتدائی آیات (۱-۱۰) پڑھے، تو وہ آگ اُس کے لیے سلامتی اور ٹھنڈک ثابت ہوگی‘‘ (فتح الباری ۱۳/ ۱۲۴)۔

یہ پیغمبرانہ ارشادگویااُسی حقیقت کا ایک تمثیلی بیان ہے جسے قرآن مجید میں اولین اسرائیلی بادشاہ طالوت  (BC  1021-100 Saul c. ) کے ذکر کے تحت اِس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’ (بنی اسرائیل کی حکومت سنبھالنے کے بعد ) پھر جب طالوت فوجیں لے کر نکلے تو اُنھوں نے لوگوں کو بتایا کہ اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک دریا کے ذریعے سے تمھیں آزمائے گا ۔ اِس کی صورت یہ ہوگی کہ جو اِ س کا پانی پیے گا ، وہ میرا ساتھی نہیں ہے اور جس نے اِس دریاسے کچھ نہیں چکھا ، وہ میرا ساتھی ہے۔ مگر یہ کہ اپنے ہاتھ سے کوئی شخص ایک چلو پانی پی لے ۔ لیکن اِس کے برعکس ہوایہ کہ اُن میں سے تھوڑے لوگوں کے سوا ، باقی سب نے خوب سیر ہوکر اُس دریا کا پانی پیا۔ پھر جب طالوت دریا کے پار اترے اور اُن کے وہ ساتھی بھی جو اپنے ایمان پر قائم رہے، (اوردشمن کی فوجیں دیکھیں) تو (جو لوگ آزمایش میں پور ے نہیں اترے تھے )، اُنھوں نے کہہ دیا کہ ہم تو آج جالوت اوراُس کے لشکر وں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اِس پر وہ لوگ جنھیں خیال تھا کہ اُن کو اللہ سے ملنا ہے، بول اُٹھے کہ (حوصلہ کرو ، اِس لیے کہ ) بہت جگہ ایسا ہو ا ہے کہ ایک چھوٹا گروہ اللہ کے حکم سے بڑے گروہوں پر غالب آیا ہے ، اور اللہ تو ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہوتاہے۔‘‘(البقرہ ۲: ۲۴۹)

اِس وقت دنیا میں مادی فراوانی کا یہ سیلاب پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ لوگوں کا ایک بڑا طبقہ فتنۂ دجال اکبر کے اِس سیلاب میں پوری طرح غرق ہے۔ اِس مدہو شانہ آسودگی نے آدمی کی پرواز کو اِس خطرناک حد تک کو تاہ کردیا ہے کہ اُن کی اکثریت اب حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تقریباً نااہل ثابت ہوچکی ہے۔

دوسری طرف یہ حال ہے کہ دنیا کے بڑے حصے میں سخت قسم کا معاشی اور غذائی بحران برپا ہے، حتیٰ کہ بعض مقامات پر اشیاے خورو نوش کا یہ بحران ’فوڈ ایمرجنسی ‘ کی نازک ترین صورت حال تک پہنچ گیا ہے۔ آج عالمی سطح پر علمی، فکری، سیاسی ا ور معاشرتی، ہر میدان میں دجل کا یہ طوفان پوری شدت کے ساتھ جاری ہے  ـــــ کبھی غلط توجیہ کرکے، کبھی غلط نام دے کر، نیز کبھی کسی اور طریقے سے چیزوں کو کچھ کاکچھ دکھانے اور باور کرانے کے ذریعے سے دجل کا یہ پرفریب کاروبار جاری ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس پرفریب نقشے کے مطابق زندگی گزار نے پر مجبور ہوجائے۔ قرآن نے انتہائی بلیغ اسلوب میں مذکورہ پرفریب صورت حال کی طرف اِن الفاظ میں توجہ دلا ئی ہے:

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا. اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا. اُولٰٓئِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَآئِهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا. ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْ٘ا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا .  (الکہف ۱۸:  ۱۰۳- ۱۰۶)
’’یعنی اِن سے کہو، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارے میں کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی تمام سعی و جہدصرف دنیا کی زندگی میں اکارت ہوکر رہ گئی اور وہ اِسی خیال خام میں رہے کہ وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار کی آیات اور اُس سے ملاقات کا انکار کیا۔ سو اُن کے اعمال ضائع ہوئے۔ اب قیامت کے دن ہم اُن کو کوئی وزن نہیں دیں گے۔ اُن کا بدلہ یہی جہنم ہے، اِس لیے کہ اُنھوں نے انکار کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا۔‘‘

دنیا پرستانہ ذہن کا اصل سبب

مذکورہ مادی طرز حیات ، جو محض دنیا اور لذائذ ِدنیاکے حصول پر مبنی ہے ، زیر بحث آیات کے آخر میں اُس کا اصل سبب بالکل واضح کردیا گیا ہے، اور وہ ہے: ’آیات  رب اور لقاے رب ‘ سے کفر وسرتابی۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے : ’اُولٰٓئِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَآئِهٖ‘۔مفسرابن جریر طبری (وفات: ۳۱۰ھ) نے یہاں ’آیات رب ‘کی تشریح اِن الفاظ میں کی ہے: ’الذینَ کفرُوا بِحُجَجِ رَبِّھمْ وَأدِلَّته‘ (تفسیر طبری ۱۸/ ۱۲۹)، [6]  یعنی ’انکار آیات‘ کا مطلب ہے: انفس وآفاق میں کھولے گئے بے شمار دلائل ونشانات پر غورکرنے کے بجاے اُس سے غفلت اور اُس کو یکسر نظر انداز کردینا۔

مادی طرز فکر کا یک رخا پہلو

دجالی فتنے کے تحت برپا زندگی اور کائنات کی خالص مادی توجیہ کا غالباً یہی وہ یک رخا انداز one-sided) (approachہے جسے فتنۂ دجال اکبر کے تحت، اُس کے ’اعور‘، ’أعْوَرُ العَیْنِ الیُمْنٰی‘   (مسلم، رقم  ۱۶۹) ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ اللہ ’اعور‘ نہیں ہے ’وَإنّ اللہ تعالٰی لیسَ بِأعْوَرَ ‘، یعنی ابتداء ً اپنے دعواے نبوت اورآخرکار دعواے اُلوہیت(فتح الباری ۱۳/۱۱۴)کے باوجود دجال یک چشم اور ’’داہنی آنکھ کااندھا ‘‘ہوگا   ـــــ  اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ مادی طرز فکراور خالص مادی طرز حیات گویا فتنۂ دجال اکبر کے اصل مظاہر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

واضح ہو کہ مذکورہ ارشاد رسول میں، دجال کے لیے ’اعور‘(one-eyed)کی تعبیر مجرد نہیں، بلکہ اللہ کے مقابل میں آئی ہے۔ ’’دجال اعو رہے، مگر اللہ اعو ر نہیں‘‘۔ زبان کا یہ مخصوص اسلوب بتارہاہے کہ فتنۂ دجال اکبر کی نسبت سے ’اعور‘ یہاں اپنے حقیقی معنی کے ساتھ مجازی معنی کی طرف بھی اشارہ کررہا ہے، یعنی بصارت کے باوجود بصیرت سے کامل محرومی(الحج۲۲: ۴۶)۔ چنانچہ بعض دیگر روایات کے مطابق دجال کے اندر یہ عیب موجود ہوگاکہ وہ ایک آنکھ سے عملاً اور دوسری آنکھ کی روشنی سے حقیقتاً محروم ہوگا  تاکہ ایک سچا مومن دجال کو قطعی طورپر پہچان سکے(فتح الباری ۱۳/ ۱۲۰)۔

فتنۂ دجال اکبر کے اِس یک رخے طرز فکر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مادی سیلاب کے باوجود روحانی اور  اخلاقی افلاس، اُس کی طرف سے مکمل چشم پوشی اور ’عَليٰ عِلْمٍ‘(الجاثیہ ۴۵ : ۲۳ ) اندھا پن ایک عام روش بن جائے گی۔ اِس کے بعد آدمی انسانیت کے بلند مقام سے گر کر حیوانیت کے پست ترین مقام پر پہنچ جائے گا۔ وہ اب ا نسان نہیں، بلکہ محض دو پیروں پر چلنے والا ایک ایسا حیوان بن کر رہ جائے گا جس میں حیوانیت کے سوا، انسان کے ساتھ دوسری اور کوئی مشابہت باقی نہ ہوگی ۔چنانچہ بہ ظاہر تمام ترمادی ترقی کے باوجود دنیا اعلیٰ انسانی اور اخلاقی اقدار سے محروم ہو جائے گی ۔اُس کے پاس حصول مادیت کے سوا اور کوئی اعلیٰ مقصد باقی نہیں رہے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ جتنا زیادہ اِس مادہ پرستانہ اور یک رخے طرز فکر میں مبتلا ہوگا ، وہ اتنا ہی زیادہ فتنۂ دجال اکبر سے متاثر اور اُس کے لیے آسان نشانہ (soft target) ہوگا۔ اِس قسم کا یک رخا طرز فکر انسانیت کے لیے، کوئی تحفہ نہیں، بلکہ اپنی تمام تر ظاہری چمک دمک کے باوجود وہ اُس کے اخلاقی اور روحانی و جود کے لیے، بلاشبہ ایک زہر ہلاہل کی حیثیت رکھتا ہے۔

’اعور‘ کا مفہوم

’اعور‘ کا لفظ اپنے استعمالی مفہوم کے اعتبار سے، یک چشم ہونے کے جسمانی نقص کے علاوہ، زبان کے محاورے میں’حق وصواب سے محروم‘ ہو جانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک قدیم لغت میں لفظ ’عَوِرٌ ‘  (مؤنث:  ’عَوِرَةٌ‘  ) کی تشریح درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے   ــــــ  اِس سے مراد ایک آنکھ کا اندھا، حق وصواب سے محرو م، بد عنوان اور بد ضمیر[7] ہونا ہے:

The being blind of an eye. Corrupted; abandoning which is right; having a bad conscience. (p.661) [8]

چنانچہ بعض دوسرے اہل علم نے بھی ’’ نیکی کی قوتوں سے محرومی ‘‘ کو دجال کے ’اعور‘ ہونے ہی کا ایک ظاہرہ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: تفسیر ماجدی (۱/۵۸۹)[9]، نیز مفردات،راغب اصفہانی[10] (مادہ: ’مسح‘: ... ’بِأنّ الدجّالَ قد مُسِحَتْ عنهُ القوّةُ المَحْمُودةُ من العلمِ والعقلِ والحِلْمِ والأخلاقِ الجمیْلة‘)یعنی دجال کو ’مسیح‘کہنے کا سبب اُس کا اصلاً علم و حلم اور حسن اخلاق کی اعلیٰ اور مثبت صلاحیتوں سے محروم ہونا ہے(۴۷۰)۔

دجل سے حفاظت کا راستہ: سچا ایمان اورگہرا تدبر

کائنات میں ہر طرف بکھرے ہوئے دلائل و معجزات پر غور وفکر کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے آدمی اِس دنیا کی معنویت اور حقائق کو دریافت کرسکتا ہے۔ اِس حقیقت کو سورۂ کہف کی مذکورہ بالا آیت میں  ’لِقَآءَ رَبِّ‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ’لقاے رب‘ یا’ایمان بالآخرت ‘کے بغیر نہ آدمی کے اندر مطلوب سنجیدگی پیدا ہوسکتی ہے اور نہ وہ اِس زندگی اور کائنات کی کوئی بامعنی توجیہ دریافت کرسکتا ہے۔

یہی حکمت کا وہ سرا ہے جس کو دریافت کرنے کے بعد آدمی کے اندر وہ بصیرت پیدا ہوتی ہے جو اِس دنیا میں اُسے ہر قسم کے ’دجل‘ اور فریب سے بلند ہوکر چیزوں کو دیکھنے کا ذوق اور اُسے اللہ کی خوش نودی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔اِسی حقیقت کو ایک قولِ رسول میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: ’إیّاکُم وفِراسَةَ المُؤمن، فإنّه ینظربنُورِ اللہ‘ (جامع معمر بن راشد ۱۹۶۷۴ )،[11] یعنی خبردار، تم مومن کی فراست سے بچو، کیونکہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔چنانچہ ایک روایت میں دجال کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ اُس کی پیشانی پراِس طرح ’کافر‘ لکھا ہوگاکہ اُسے ہر سچا مومن پڑھ لے گا، خواہ وہ خواندہ ہویا ناخواندہ ’مکتوبٌ بین عینیه کافرٌ، یقرؤہ کُلُّ مؤمنٍ، کاتبٍ وغیرِ کاتب‘ (مسلم، رقم ۲۹۳۴)۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے عطاکردہ فراست ہی ہے جس کے ذریعے سے ایک سچے مومن کو دجال اور اُس کے فتنوں کا ادراک حاصل ہوگا۔

حافظ ابن تیمیہ (وفات: ۷۲۸ ھ) نے اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’فدلّ علٰی أنّ المؤمن یتبیّن له مالا یتبیّن لغیره، ولا سِیّما في الفتن...وکلّما قوي الإیمانُ في القلب، قوي انکشافُ الأمور له‘(فتا ویٰ ابن تیمیہ ۲۰/ ۴۵)،[12]یعنی ایک مومن پر وہ چیز کھل جاتی ہے جو اُس کے علاوہ کسی اور شخص پر نہیں کھلتی، اور فتنوں کے معاملے میں تو خاص طورپر ایسا ہوتا ہے۔آدمی کے دل میں جس قدر ایمان پختہ ہوگا، اُسی قدر اُس پر اِن حقائق کا انکشاف ہوتا چلا جائے گا۔

تاہم مذکورہ ارشاد رسول ’یقرؤہ کُلُّ مؤمن‘ کا مطلب معروف معنوں میں ، صرف چند لکھے ہوئے الفاظ کو پڑھ لینا نہیں، بلکہ اِس سے مراد دجال اور اُس کے فتنوں کا حقیقی ادراک ہے۔ حافظ ا بن حجر عسقلانی نے اِس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’أن لا تکون الکتابةُ حقیقة، بل یقدر اللہ علٰی غیر الکاتب علم الإدراك، فیقرؤ ذلك، وإن لم یكن سبق له معرفة الکتابة‘(فتح الباری ۱۳ / ۱۲۵)، یعنی مذکورہ روایت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دجال کی پیشانی پر ’کافر‘ جیسے الفاظ نہ لکھے ہوئے ہوں، بلکہ اصل یہ ہے کہ اسے ایک ایسا مومن ہی پڑھ سکے گا جس کو اللہ اس کا خصوصی علم و ادراک عطا کردے، خواہ بہ ظاہر وہ ایک ناخواندہ انسان ہی کیوں نہ ہو۔ گویا سچے اہل ایمان کے لیے دجال کا دجل اِس قدر مبرہن ہوگا کہ عیاناً وہ اُس کی پیشانی پر ’کفر‘ لکھا ہوا دیکھ لیں گے ـــــــ فتنۂ دجال اکبر کوئی معمولی فتنہ نہیں۔ یہ اِس دنیا میں برپا ہونے والا وہ تاریک ترین فتنہ ہے جس میں انسان ’اللہ‘ اور’روز آخرت‘ پر ایمان تو کجا؟ خود اپنے آپ پر اعتماد کی صلاحیت سے بھی محروم ہوکر رہ جائے گا۔

[لکھنؤ، ۱۵ ؍ ستمبر ۲۰۲۱ء]

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ دار  ا حیاء التراث العربی، بیروت،طبع ۳ ، ۱۴۲۴ھ۔

[2]۔ دارالسلام، الریاض،طبع ۱، ۱۴۲۱ھ۔

[3]۔ اِس روایت میں ’أدرکنّ‘ کے بجاے ’أدرکه‘ درست ہو گا(محمد فواد عبد الباقی، محقق صحیح مسلم)۔

[4]۔ دار  ا حیاء التراث العربی، بیروت،طبع ۲، ۱۹۷۲ء۔

[5]۔ المکتبۃ العصریۃ، بیروت(بدون تاریخ)۔

[6]۔ مؤسسۃ الرسالۃ،طبع ۱، ۱۴۲۱ ھ۔

[7]۔ ’ضمیر‘ سے مراد ایک شخص کے اندر موجود صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت اور اُس کا اخلاقی شعور (a person's moral sense of right and wrong)ہے۔

[8]. A Dictionary: Persian, Arabic And English, By John Richardson, ESQ., F.S.A, Vol. 1, London-.1806

[9]۔ مجلس تحقیقات و نشریات  اسلام، لکھنؤ، طبع ۷، ۲۰۱۶ء۔

[10]۔ دارالمعرفۃ، بیروت،طبع ۲، ۱۴۲۲ ھ۔

[11]۔ المکتب الاسلامی، بیروت،طبع ۲، ۱۴۰۳ ھ۔

[12]۔ وزارۃ الشؤون الا سلامیۃ، السعودیۃ،۱۴۲۵ ھ۔

B