HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘: توضیحی مطالعہ: قانون معیشت (۱)

حرمت ربا

’’سود بھی ایک ایسی ہی اخلاقی نجاست ہے جس میں ملوث افراد اور ادارے دوسرے کے نفع و نقصان سے قطع نظر ہر حال میں منافع بٹانے کے لیے اپنے مقروض کے سر پر سوار رہتے ہیں۔ عربی زبان میں اِس کے لیے  ’ربٰوا‘ کا لفظ مستعمل ہے۔قرآن نے اِس کے لیے یہی لفظ استعمال کیا ہے۔ عربی زبان سے واقف ہرشخص جانتا ہے کہ اِس سے مراد وہ اضافہ ہے جو قرض دینے والا اپنے مقروض سے محض اِس بنا پر وصول کرتا ہے کہ اُس نے ایک خاص مدت کے لیے اُس کو روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔‘‘ (میزان ۵۰۵-  ۵۰۶)
’’ قرض کسی غریب اور نادار کو دیا گیا ہے یا کسی کاروباری یا رفاہی اسکیم کے لیے، اِس چیز کو ربا کی حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ بات بالکل مسلم ہے کہ عربی زبان میں ربا کا اطلاق قرض دینے والے کے مقصد اور مقروض کی نوعیت و حیثیت سے قطع نظر محض اُس اضافے پر ہوتا ہے جو کسی قرض کی رقم پر لیا جائے۔ ‘‘ (میزان ۵۰۹)

مصنف کی یہ وضاحت ربا   کی حرمت کے حوالے سے پیدا ہونے والی  اس عمومی بحث  کے تناظر  میں ہے جو دور جدید میں عالم اسلام  کے مختلف فکری حلقوں میں پیدا ہوئی۔ جدید سرمایہ دارانہ معیشت  میں  قرض کی بنیاد پر سرمایے کا حصول چونکہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے جس کو  ایک منظم شکل دینا سود  کے بغیر   بظاہر مشکل ہے، اس لیے  بہت سے حلقوں کی طرف سے یہ نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے کہ  قرآن مجید میں  جس ربا کو حرام قرار دیا گیا ہے، اس کی نوعیت  موجودہ دور کے  سود  سے مختلف ہے اور اس کو حرام قرار دینا درست نہیں۔ اس ضمن میں جو مختلف استدلالات پیش کیے گئے ہیں، ان میں سے اہم  ترین یہ ہے کہ قرآن مجید میں  ربا کی حرمت کا ذکر  مہاجنی یا صرفی قرضوں کے تناظر میں ہوا ہے  جو ضرورت مند افراد شخصی  ضرورتوں کے تحت لیتے تھے اور ان کو صرف کر دینے کے بعد   اصل  زر  کی واپسی بھی ان کے لیے مشکل ہوتی تھی، چہ جائیکہ وہ اس پر سود بھی ادا کریں۔   اس نقطۂ نظر کے مطابق  اس معاملے میں پائے جانے والے ظلم کے اسی پہلو   کی وجہ سے قرآن نے ا س کو حرام قرار دیا۔ تاہم   تجارتی مقاصد کے لیے  حاصل کیے گئے قرض کی نوعیت یہ نہیں ہوتی اور قرض لینے والا  اسے  تجارت میں استعمال کر کے اپنے سرمایے میں اضافہ کرتا ہے۔ چونکہ  اس منافع کا حصول  سرمایہ اور محنت، دونوں کے اشتراک سے ممکن ہوا ہے،  اس لیے  سرمایہ فراہم کرنے والا  اگر اس میں   سے اپنے حصے کا مطالبہ کرنا چاہے تو  یہ قرین انصاف بھی ہے اور اس میں ظلم کا وہ پہلو بھی نہیں پایا جاتا جو صرفی قرض پر سود لینے کی صورت میں پایا جاتا ہے۔

عالم اسلام کے جمہور اہل علم نے اس نقطۂ نظر کو قبول نہیں کیا اور اس حوالے سے    علمی مباحثوں کا  ایک وسیع سلسلہ  گذشتہ صدی کے  نصف آخر میں  مختلف سطحوں پر جاری رہا ہے۔ جمہور اہل علم کی طرف سےمذکورہ استدلال کے جواب میں یہ واضح کرنے کے لیے کہ قرآن مجید  میں  حرمت ربا کا حکم ہر طرح کے قرض  کو شامل ہے، مختلف نوعیت کے تاریخی  شواہد    پیش کیے گئے   ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں  اہل عرب میں صرفی کے ساتھ ساتھ تجارتی مقاصد کے لیے بھی قرض لینے کا رواج تھا اور  قرآن کے مخاطبین  قرض کی ان دونوں صورتوں سے واقف تھے۔ چونکہ قرآن نے   ربا کو حرام قرار دیتے ہوئے  ان میں کوئی فرق نہیں کیا اور مطلقا ً سود کو ممنوع ٹھیرایا ہے، اس لیے  اس کا  مطلب یہی ہے کہ قرض کسی بھی مقصد سے لیا گیا ہو، اس پر  سود کا مطالبہ کرنا قرض خواہ کے لیے جائز نہیں ہے۔[1]

مولانا امین احسن اصلاحی نے  تجارتی قرضوں کے حرمت ربا  کے دائرے میں شامل ہونے کے حوالے سے، یہ استدلال پیش کیا ہے کہ  تاریخی  شواہد  سے قطع نظر کرتے ہوئے  خود قرآن مجید کے داخلی   قرائن سے  یہ معلوم ہوتا ہے کہ  تجارتی قرض اہل عرب کے ہاں معروف اور رائج تھا اور  قرآن نے  حرمت ربا کا ذکر کرتے ہوئے اصلاً  تجارتی  قرض ہی کو موضوع بنایا ہے۔   مولانا  نے اس ضمن میں  سورۂ روم کی آیت ۳۹ اور سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸۰ سے  استدلال کیا ہے۔  سورۂ روم کی محولہ آیت میں  سودی قرض دینے کا محرک یہ بتایا گیا ہے کہ ’لِيَرْبُوَا۠ فِيْ٘ اَمْوَالِ النَّاسِ‘،یعنی  یہ کہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہو کر  بڑھے۔  یہ تعبیر  غریبوں کو دیے گئے قرض کے بجاے، جن میں اصل زر کی وصولی بھی    بسا اوقات مشتبہ ہوتی ہے،   تجارتی  قرضوں  کے لیے زیادہ موزوں ہے۔  سورۂ بقرہ کی آیت۲۸۰ میں  مقروض کے تنگ دست ہونے کی صورت میں اسے مزید مہلت  دینے کی ہدایت کی گئی اور اس صورت کے لیے ’وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ ‘ (اور اگر مقروض تنگ دست ہو) کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔  مولانا یہاں  لفظ ’اِنْ‘ کے استعمال سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ  مجبور اور نادار  لوگوں کا سود پر قرض لینا  ایک نادر اور شاذ صورت حال ہوتی تھی، کیونکہ عربی زبان میں  عام حالات کے بیان کے لیے  ’اِذَا ‘، جب کہ نادر  صورتوں کے بیان کے لیے ’اِنْ‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔  یوں آیت سے  یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اس زمانے میں قرض دار عام طور پر  خوش حال ہوتے تھے، البتہ  بعض اوقات ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی کہ  قرض دار غریب ہو یا  قرض لینے کے بعد  تنگ دست ہو گیا ہو، اور اس صورت میں یہ ہدایت کی گئی کہ اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤکیا جائے (تدبر قرآن ۱/   ۶۳۸)۔

اِنْ‘ اور ’اِذَا ‘ کے محل استعمال  سے متعلق مولانا نے جو  نکتہ ذکر کیا ہے، اس کی وضاحت قرآن مجید  کے مختلف مقامات سے ہوتی ہے۔  مثلاً‌ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں اللہ تعالیٰ نے روز مرہ لین دین کے احکام بیان کرنے کے لیے ’اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ‘ کے الفاظ، جب کہ اگلی آیت میں اسی ضمن کی ایک نادر صورت، یعنی سفر میں لین دین کی صورت میں رہن کا حکم بیان کرنے کے لیے ’وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اسی طرح سورۂ مائدہ(۵)  کی آیت ۶ میں عام حالات میں نماز سے پہلے وضو کا حکم بیان کرنے کے لیے ’اِذَا قُمْتُمْ اِلَي الصَّلٰوةِ‘ کے الفاظ آئے ہیں، جب کہ غیر معمولی صورت احوال میں تیمم کا حکم بیان کرنے کے لیے  ’وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰ٘ي اَوْ عَلٰي سَفَرٍ ‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ 

مصنف نے بھی زیربحث سوال  کے حوالے سے یہی طرز استدلال  اختیار کیا ہے   اور مذکورہ دو آیات کا حوالہ دیتے ہوئے  یہ واضح کیا  ہے کہ  اس زمانے میں  سودی قرض بالعموم تجارتی مقاصد کے لیے  دیا جاتا تھا اور یہ کہ  قرض کسی غریب اور نادار کو دیا گیا ہو یا کسی کاروباری  یا رفاہی اسکیم کے لیے، حرمت ربا کا حکم ان سب صورتوں کو محیط ہے۔  البتہ  ’’مقامات‘‘ میں  اس سوال پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے یہ راے ظاہر کی ہے کہ اگر بنکاری کے موجودہ نظام میں قرض  پر منافع وصول کرنے کے طریقے میں درج ذیل دو   تبدیلیاں شامل کر لی جائیں تو    یہ کہنا ممکن ہے کہ سود کی ممانعت کی علت اس میں سے ختم  ہو گئی ہے:

’’اولاً، جس کاروبار کے لیے روپیہ دیا گیا ہے، وہ اگر کسی وجہ سے بند کرنا پڑے تو منفعت کا مطالبہ بھی اُسی دن سے بند کر دیا جائے۔ بنک اِس کے بعد صرف اصل زر کا مطالبہ کرے۔اِس سے یہ معاملہ قرض کے بجاے اصل زر محفوظ سرمایہ کاری (principal-secured financing) کا ہوجائے گا، جس پر، ظاہر ہے کہ کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
ثانیاً، روپیہ اگر غیر کاروباری ضرورتوں کے لیے قرض دیا گیا ہے تو افراط زر سے جو کمی واقع ہوتی ہے، اُس کی تلافی کے سوا کسی زائد رقم کا مطالبہ نہ کیا جائے۔‘‘ (۲۷۲)

ربا الفضل

’’مبادلۂ  اشیا کی صورت میں ادھار کے معاملات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی ہر آلایش سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے :
الذھب بالذھب وزنًا بوزن مثلاً بمثل، والفضة بالفضة وزنًا بوزن مثلاً بمثل، فمن زاد واستزاد فھو ربًا. (مسلم، رقم ۴۰۶۸)
’’تم سونا ادھار بیچو تو اُس کے بدلے میں وہی سونا لو، اُسی وزن اور اُسی قسم میں، اور چاندی ادھار بیچو تو اُس کے بدلے میں وہی چاندی لو، اُسی وزن اور اُسی قسم میں، اِس لیے کہ جس نے زیادہ دیا اور زیادہ چاہا تو یہی سود ہے۔‘‘
الورق بالذھب ربًا إلا ھاء وھاء، والبر بالبر ربًا إلا ھاء وھاء، والشعیر بالشعیر ربًا إلا ھاء وھاء والتمر بالتمر ربًا إلا ھاء وھاء. (مسلم،رقم ۴۰۵۹ )     
’’سونے کے بدلے میں چاندی ادھار بیچوگے تو اُس میں سود آ جائے گا۔گندم کے بدلے میں دوسری قسم کی گندم،جو کے بدلے میں دوسری قسم کے جو اور کھجور کے بدلے میں دوسری قسم کی کھجور میں بھی یہی صورت ہو گی۔ ہاں، البتہ یہ معاملہ نقدا نقد ہو تو کوئی حرج نہیں۔‘‘
اِن روایتوں کا صحیح مفہوم وہی ہے جو ہم نے اوپر اپنے ترجمہ میں واضح کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا، وہ یہی تھا۔ روایتیں اگر اِسی صورت میں رہتیں تو لوگ اِن کا یہ مدعا سمجھنے میں غلطی نہ کرتے، لیکن بعض دوسرے طریقوں میں راویوں کے سوء فہم نے اِن میں سے دوسری روایت سے ’ھاء وھاء‘ کا مفہوم پہلی روایت میں،اور پہلی روایت سے ’الذھب بالذھب ‘ کے الفاظ دوسری روایت میں ’الورق بالذھب‘  کی جگہ داخل کر کے اِنھیں اِس طرح خلط ملط کر دیا ہے کہ اِن کا حکم اب لوگوں کے لیے ایک لاینحل معما ہے۔ ہماری فقہ میں ’ربٰو الفضل‘ کا مسئلہ اِسی غتربود کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے،ورنہ حقیقت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اِس ارشاد میں واضح کر دی ہے کہ ’إنما الربٰوا في النسیئة‘ (سود صرف ادھار ہی کے معاملات میں ہوتاہے )۔ ‘‘ (میزان ۵۰۸)

اس اقتباس میں مصنف نے  اشیا کے باہمی مبادلہ کی اس خاص صورت کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر واضح کیا ہے جس کو فقہی اصطلاح میں ربا الفضل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔  یہ تعبیر ’ربا النسیئة‘ کے مقابلے میں ہے جو  سود کی معروف  صورت، یعنی قرض دے کر مدت کے عوض میں اس پر اضافہ   وصول کرنے کے  لیے استعمال کی جاتی ہے۔  اس کے تقابل میں ربا الفضل کا مطلب یہ ہے کہ دو ہم جنس چیزوں، مثلاً‌ سونے کا سونے کے ساتھ یا گندم کا گندم کے ساتھ اس طرح تبادلہ کیا جائے کہ ایک طرف سے مقدار   زیادہ ہو۔    متعدد احادیث کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں  اشیا کے مبادلے کا یہ طریقہ رائج تھا،  تاہم یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے علم میں آیا تو آپ نے اس کی ممانعت فرما دی   اور   ہم جنس  اشیا کے تبادلے کے لیے ضروری قرار دیا کہ  دونوں طرف سے  مقدار  ایک جیسی  ہو اور   تبادلہ نقد کیا جائے، یعنی اس میں  ادھار  کی صورت نہ ہو۔ جمہور فقہا  انھی کی روشنی میں یہ قرار دیتے ہیں کہ دونوں میں سے کسی شرط کو بھی اگر   ملحوظ نہ رکھا جائے، مثلاً‌  مقدار میں کمی بیشی  کی جائے یا مقدار مساوی ہوتے ہوئے ادھار   کا معاملہ کیا جائے تو یہ  ربا الفضل کا مصداق ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ مصنف کا نقطۂ نظر، جیسا کہ واضح کیا جائے گا، اس باب میں  جمہور اہل علم سے جوہری طور پر مختلف ہے۔

ان احادیث کی تفہیم وتحدید کے حوالے سے  کئی اہم سوالات فقہی روایت میں زیر بحث چلے آ رہے ہیں۔

پہلا اہم اختلاف عہد صحابہ میں اس ممانعت کے ثبوت یا  عدم ثبوت سے متعلق  پیدا ہوا۔   بعض اکابر صحابہ  نے اس بنیاد پر اس کی صحت سے متعلق تردد ظاہر کیا کہ ہم جنس چیزوں کے باہمی تبادلہ کا یہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عام طور پر رائج تھا اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ممنوع قرار دیا ہوتا تو اس کی عمومی اطلاع لوگوں تک پہنچی ہوتی اور ان کی اکثریت اس سے بے خبر نہ ہوتی۔ گویا ان کے نزدیک ان روایات کی حیثیت، فقہی اصطلاح کے مطابق، خبر واحد کی تھی جو عموم بلویٰ میں وارد ہوئی ہے اور اسے قبول کرنا خلاف احتیاط ہے۔ ان صحابہ میں عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن مسعود اور  سیدنا معاویہ  شامل تھے۔

چنانچہ سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ وہاں آئے۔ ان کی موجودگی میں ایک شخص آیا اور اس نے ابن عباس سے پوچھا کہ سونے اور چاندی کا کمی بیشی کے ساتھ باہم نقد تبادلہ کرنے کے متعلق آپ کی کیا راے ہے؟ ابن عباس نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر ابو سعید خدری نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، لیکن ابن عباس نے کہا: ہم اس کے متعلق آپ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ سود ہمارے ہی یہاں تھا (الرامہرمزی، ذم الکلام واہلہ۲/ ۳۳۱)۔  ابن عباس اس ضمن میں اسامہ بن زید کی روایت کردہ اس حدیث کا حوالہ بھی دیتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’إنما الربا في النسیئة‘،’’سود صرف ادھار کے معاملات میں ہوتا ہے‘‘(بخاری، رقم  ۲۱۷۸)۔

ابو الاشعث کہتے ہیں کہ ایک موقع پر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کے بدلے میں سونا خریدا جائے تو دونوں کی مقدار برابر ہونی چاہیے۔ اس میں نہ کمی بیشی ہو اور نہ ادھار کیا جائے۔ سیدنا معاویہ وہاں موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ: اے ابو الولید، میری راے میں سود نقد لین دین میں نہیں، صرف ادھار میں ہوتا ہے۔ پھر انھوں نے باقاعدہ ایک خطبہ دیا اور کہا کہ: ان لوگوں کا کیا معاملہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو ہم نے آپ کے پاس اور آپ کی صحبت میں رہتے ہوئے آپ سے نہیں سنیں۔ ان کی اس راے پر عبادہ بن صامت نے شدید رد عمل ظاہر کیا اور سیدنا عمر کو اس کی شکایت کی جس پر انھوں نے سیدنا معاویہ کو لکھا کہ عبادہ جو بات کہہ رہے ہیں، وہی درست ہے اور لوگوں کو اسی کا پابند بناؤ (مسلم، رقم ۱۵۸۷۔ ابن ماجہ، رقم ۱۸

مذکورہ صحابہ میں سے ابن عباس اور ابن عمر کے متعلق تو  یہ منقول ہے کہ بعد میں   وہ ممانعت کی روایات علم میں آنے کے بعد  اس کے قائل ہوگئے تھے اور اسی کے مطابق فتوی ٰ دیتے تھے، البتہ  سیدنا معاویہ  اور غالباً‌ کچھ دیگر  اہل علم اس راے پر قائم رہے۔ یہی اختلاف صحابہ کے بعد تابعین  اور اتباع تابعین میں بھی منتقل ہوا  اور خاص طور پر مکہ مکرمہ کے بعض تابعی  فقہا ابن عباس کے   پہلے قول کے مطابق اس کے جواز کا فتوی ٰ دیتے رہے۔  یہ اختلاف  دوسری صدی ہجری کے آخر تک برقرار رہا، چنانچہ امام شافعی نے  اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

وهکذا المستحل الدینار بالدینارین والدرهم بالدرهمین یدًا بید والعامل به لأنا نجد من أعلام الناس من یفتي به ویعمل به ویرویه ... وإن خالفنا الناس فیه فرغبنا عن قولهم ولم یدعنا هذا إلی أن نجرحهم ونقول لهم أنکم حللتم ما حرم اللہ وأخطأتم لأنهم یدعون علینا الخطأ کما ندعیه علیهم وینسبون من قال قولنا إلی أنه حرم ما أحل اللہ عز وجل. (الام ۶/ ۲۰۶)
’’ جو شخص نقد تبادلے میں ایک دینار کے بدلے میں دو دینار اور ایک درہم کے بدلے میں دو درہم لینے کو حلال سمجھتا ہو (اس کی بھی گواہی قبول کی جائے گی)، کیونکہ ہم بعض ممتاز اہل علم کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس کا فتویٰ دیتے، اس پر عمل کرتے اور اس مسلک کو (سلف سے) روایت کرتے ہیں۔ ...اگرچہ اس میں ہم ان لوگوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان کی بات کو قبول نہیں کرتے، لیکن یہ چیز ہمارے لیے اس بات کا باعث نہیں بنتی کہ ہم ان کی ذات پر جرح کریں اور ان سے کہیں کہ تم لوگوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دیا ہے اور خطا کے مرتکب ہوئے ہو، کیونکہ جس طرح ہم ان کے خطا میں مبتلا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ بھی ہمارے متعلق خطا میں مبتلا ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور ہماری راے کو اختیار کرنے والوں کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دے دیا ہے۔‘‘

تاہم بعد کی فقہی روایت میں جمہور صحابہ وتابعین کے نقطۂ نظر کے مطابق اسی موقف کو قبول عام حاصل  ہوا کہ ربا الفضل کی ممانعت ایک مستند شرعی حکم ہے۔  (اس مسئلے پر  اختلاف واتفاق  کے حوالے سے  تفصیلی بحث شافعی فقیہ علامہ تقی الدین السبکی کے ہاں ’’المجموع شرح المہذب‘‘ ( ۱۰ /  ۲۵- ۶۸)کے تکملہ میں  دیکھی جا سکتی ہے۔

اس ممانعت کے حوالے سے  فقہی روایت میں  دوسرا اہم سوال یہ زیربحث رہا ہے کہ  اس کے دائرۂ اطلاق میں کون کون سی صورتیں شامل ہیں؟ اتنی بات احادیث   سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ  ہم جنس اشیا کے تبادلے میں  مقدار کی برابری کی شرط ہر  چیز پر لاگو نہیں ہوتی، چنانچہ  احادیث سے ثابت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے  ایک جانور کا تبادلہ دو جانوروں سے اور ایک غلام کا تبادلہ  دو غلاموں سے کیا (مسلم، رقم  ۱۶۰۲۔ ترمذی، رقم ۱۲۳۹)۔  تاہم احادیث میں  جن چھ چیزوں، یعنی سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک کا ذکر ہے،  ان تک ممانعت کو محدود رکھنے یا اس کی توسیع کرنے سے متعلق فقہا کے مابین  کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔

تابعین کی ایک جماعت جس میں  طاؤس، قتادہ، شعبی، مسروق اور عثمان البتی شامل ہیں،  نیز ظاہری فقہا اس کو ایک تعبدی ہدایت قرار دیتے ہوئے  صرف ان چھ چیزوں تک محدود کرتے  ہیں جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ کسی بھی چیز کے  ہم جنس اشیا کے ساتھ باہمی تبادلے  پر اس ممانعت کا اطلاق نہیں ہوتا۔    تاہم جمہور فقہا  اس ممانعت کو  معلل اور  قابل قیاس قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ کمی بیشی کی ممانعت صرف ان چھ اشیا تک محدود نہیں، بلکہ ان سے مماثلت رکھنے والی دوسری چیزوں پر بھی اس کا اطلاق ہوگا۔  البتہ جمہور اہل علم بھی  کسی نہ کسی نوعیت کی تحدید    حکم میں شامل کرتے ہیں۔

مثلاً‌ احناف کے نزدیک اس کا اطلاق صرف ان چیزوں پر ہوتا ہے جو تول کر یا ماپ کر بیچی جاتی ہوں، یعنی گن کر بیچی جانے والی اشیا کا باہمی تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔  شوافع اور مالکیہ کے نزدیک  سونا چاندی   کے باہمی مبادلہ پر ممانعت کا اطلاق ان کے ثمن، یعنی ذریعۂ مبادلہ ہونے کے پہلو سے ہے، چنانچہ کوئی بھی اور دھات جو ذریعۂ مبادلہ کے طور پر  استعمال ہوتی ہو،  اس ممانعت کے تحت آتی ہے۔  اس کے علاوہ باقی چار چیزیں غذائی اجناس ہیں اور  مالکیہ اور شوافع اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ   ان کے علاوہ باقی غذائی اجناس کا بھی یہی حکم ہے، جب کہ باقی تمام اجناس جو خوراک کے طور پر استعمال نہیں ہوتیں،  اس حکم کے تحت نہیں آتیں۔ البتہ مالکیہ،  اس کے ساتھ یہ شرط بھی شامل کرتے ہیں کہ وہ  ایسی غذائی اجناس ہونی چاہییں جن کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہو۔ یوں پھل اور سبزیاں وغیرہ  جو  ذخیرہ نہیں کی جا سکتیں،  مالکیہ کے نزدیک  اس ممانعت کے دائرۂ اطلاق سے خارج ہیں  (المجموع شرح المہذب ۹/  ۴۸۹-  ۴۹۰)۔

بعض دیگر اہل علم اس ممانعت میں کچھ مزید قیاسی تخصیصات   بھی شامل کرتے ہیں۔ مثلاً‌ ابن القیم کی راے میں سونا چاندی کا ہم جنس مبادلہ اگر خام شکل میں ہو تو کمی بیشی ممنوع ہے، لیکن اگر  ایک طرف  خام دھات اور دوسری طرف  اس سے بنائی گئی  کوئی چیز، مثلاً‌ برتن یا زیورات ہوں تو  اس صورت میں  وزن میں برابری  ضروری نہیں، کیونکہ  برتن یا زیور کی تیاری میں کچھ اضافی محنت شامل  ہوئی ہے جس کے عوض میں وزن سے زائد   مقدار وصول کرنا  قیاساً‌ بالکل جائز ہے   (اعلام الموقعین ۳/ ۴۰۵- ۴۰۷)۔ یہ راے  بعض روایات میں امام احمد اور امام مالک سے بھی نقل کی گئی ہے (المجموع شرح المہذب ۱۰/ ۸۳)۔

مولانا مودودی  نے ابن القیم کی اس راے سے اتفاق کیا ہے کہ سونے چاندی کی مصنوعات اور خام سونا چاندی  کے باہمی مبادلے میں کمی بیشی جائز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا کی راے یہ ہے کہ ربا الفضل کی ممانعت کا تعلق    ان چیزوں سے ہے  جن کی مختلف  اقسام میں  قیمت کے اعتبار سے معمولی فرق ہو۔  اگر  قیمت میں فرق زیادہ ہو تو  ایسی صورت میں  مقدار میں برابری کا مطالبہ درست نہیں ہوگا، بلکہ یہ چیز اس کو سود بنا دے گی، کیونکہ  اس میں    ایک فریق زیادہ قیمتی چیز کسی عوض کے بغیر     حاصل کر لے گا۔  مولانا کے نزدیک   جن چیزوں کی مختلف اقسام میں قیمت کا  معمولی فرق ہے، ان میں بھی برابری کی شرط تب ہے جب تھوڑی مقدار میں اشیا کا تبادلہ  کیا جا رہا ہو جس میں  قیمت کا فرق ہونے کے باوجود   مقدار کو  برابر رکھنا قابل تحمل ہو، لیکن اگر  بڑے پیمانے پر اجناس کا تبادلہ کیا جا رہا ہو جس میں  قیمت کا فرق غیر معمولی ہو جائے تو  اس صورت میں  کمی بیشی نہ صرف جائز، بلکہ ضروری ہوگی اور  اس کے برخلاف مساوات، سود کو مستلزم ہوگی (مکاتیب سید ابو الاعلیٰ مودودی، مرتبہ: محمد عاصم نعمانی۲/  ۱۷-  ۱۸)۔

ربا الفضل سے متعلق ایک اہم اصولی سوال یہ بھی   علماے اصول کے ہاں زیر بحث ہے کہ یہ ممانعت اس ربا سے کیسے متعلق ہوتی ہے جس کی حرمت کا ذکر قرآن مجید میں    کیا گیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں علماے اصول نے  درج ذیل چار توجیہات پیش کی ہیں:

حنفی اصولیین میں سے جصاص اور سرخسی وغیرہ نے ربا الفضل کو  قرآن مجید  میں زیربحث ’الربا‘ سے متعلق  کرنے کے لیے  یہ طریق استدلال اختیار کیا ہے کہ ’الربا‘ ایک شرعی  اصطلاح ہے جس کو شریعت نے  ایک مخصوص مفہوم میں استعمال کیا ہے جو اس کے معروف لغوی مفہوم سے مختلف ہے۔  دوسرے لفظوں میں جصاص کے نزدیک  یہ قرآن مجید میں ’الصلوٰة‘ اور ’الزکوٰة‘ کی طرح ایک مجمل  تعبیر کے طور پر وارد ہوا ہے جو محتاج تفسیر ہے اور اس کا مصداق خود شارع  کی تشریح کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔  یوں ’الربا‘ کے مفہوم کو زمانۂ جاہلیت کے لسانی عرف  سے  منقطع کرتے ہوئے جصاص   اس کو ایک شرعی اصطلاح قرار دیتے ہیں  جس میں  قرض دے کر زائد رقم وصول کرنے اور  ہم جنس اشیا کے نقد تبادلے میں کمی بیشی کی دونوں صورتیں شامل ہیں  (جصاص، احکام القرآن ۱/۴۶۴،  ۵۶۴)۔ یہی راے بعض شافعی اہل علم سے بھی منقول ہے (نووی، المجموع شرح المہذب ۹ /  ۴۸۷)۔ اس توجیہ کے مطابق  قرآن مجید میں  جہاں ’الربا‘ کا ذکر ہوا ہے،  اس میں ربا الفضل کے تحت  آنے والی صورتیں بھی شامل ہیں اور قرآن کا حکم گویا   نصاً‌ اس پر دلالت کرتا ہے۔[2] 

دوسری توجیہ امام شافعی کی ہے جو  مذکورہ واضح داخلی قرائن کی وجہ سے ربا الفضل کو قرآن مجید میں مذکور  ’الربا‘ کا مصداق  یا اس کا مدلول قرار نہیں دیتے۔ ان کے فہم کے مطابق یہ ممانعت نہ ’الربا‘ کے براہ راست مصداق میں شامل ہے اور نہ اس کی قیاسی توسیع کا نتیجہ ہے۔ قرآن کے ’الربا‘ کو وہ قرض ہی سے متعلق سمجھتے ہیں جو اہل جاہلیت میں معروف تھا، جب کہ سنت میں مذکور ربا الفضل   ایک مستقل حکم ہے اور  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  جہاں بیع کی بہت سی دوسری ممنوعہ صورتوں کی وضاحت فرمائی ہے، وہاں یہ بھی  بتایا ہے کہ سونے کے ساتھ سونے کے تبادلے میں کمی بیشی یا سونے اور چاندی کے باہمی تبادلے میں ادھار  کا معاملہ درست نہیں (الام ۱/ ۷۳-  ۷۴۔  ۴/ ۵)

مالکی فقہا  نے عموماً‌ اس ممانعت کو قرآن مجید کے حکم کی  توسیع قرار دیا ہے  جس میں  قرض دے کر سود وصول کرنے  کی ممانعت کی بنیادی علت کو پیش نظر رکھتے ہوئے  نقد خرید وفروخت کے بعض معاملات کو  بھی  الربا میں شامل  قرار دیا گیا ہے۔  شاطبی لکھتے ہیں کہ سود کی ممانعت کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس میں  زائد  رقم وصول کی جاتی ہے جس کے مقابلے میں کوئی عوض موجود نہیں ہوتا۔ چونکہ ہم جنس اشیا  کی منفعت عموما ً‌ ایک جیسی ہوتی ہے، اس لیے  شارع نے  ایسی اشیا کے باہمی تبادلے میں  ایک طرف سے مقدار  کے زائد ہونے کو     ربا شمار کیا ہے، کیونکہ اس کے مقابلے میں کوئی عوض موجود نہیں۔   اسی طرح  ہم جنس اشیا کے تبادلے میں ادھار   عموماً‌ اس صورت میں کیا  جاتا ہے جب   نقد دی جانے والی چیز کی قیمت کے مقابلے میں ادھار   چیز کی قیمت زیادہ ہو، چنانچہ  قیمت کے اس فرق کو بھی   خالی عن العوض شمار کرتے ہوئے اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے  (الموافقات ۴/ ۱۴، ۲۴) ۔

قاضی ابوبکر ابن العربی  نے ربا النسیئۃ اور ربا الفضل میں پائے جانے والے اشتراک  کو یوں واضح کیا ہے کہ’الربا‘ کا مطلب عوض سے زائد کوئی چیز لینا ہے۔ اہل عرب  قرض دے کر   کسی عوض کے بغیر اس سے زائد رقم وصول کرتے اور اس کو جائز سمجھتے تھے، لیکن شریعت نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔   تاہم عوض سے زائد ہونے کا تعین   تبھی ہو سکتا ہے جب پہلے یہ معلوم ہو کہ کسی چیز کا حقیقی عوض کیا ہے۔   یہاں شریعت نے بعض اموال کے عوض کو  خود طے کر دیا ہے جن کو اموال ربویہ کہا جاتا ہے، یعنی  سونا چاندی اور   ایسی غذائی اجناس جنھیں ذخیرہ کیا جا سکتا ہو۔ ان کے علاوہ باقی اموال کا عوض طے کرنے کا اختیار  معاملے کے فریقین کو دے دیا گیا ہے۔    گویا ابن العربی کے نقطۂ نظر سے  قرآن نے جس  ربا کا ذکر  کیا ہے، وہ تو  اہل عرب کو پہلے سے معلوم تھا،  جب کہ اس کی بنیادی علت کو سامنے رکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  ان چیزوں کو بھی   اسی دائرے میں شمار  فرمایا ہے  جو حدیث میں مذکور ہیں (احکام القرآن ۱ / ۳۲۱- ۳۲۳)۔

اس ضمن میں  چوتھا نقطۂ نظر  ابن القیم کا ہے جو  اس ممانعت کی توجیہ سد ذریعہ کے اصول  پر کرتے ہیں۔  ان کی راے میں ’ربا‘ کا اطلاق اصلاً اسی پر ہوتا ہے جو اہل عرب کے ہاں معروف تھا، یعنی قرض دے کر زائد وصول کرنا۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اشیا کے نقد تبادلے میں کمی بیشی یا ادھار کو اس لیے ممنوع قرار دیا کہ وہ  ربا النسیئۃ کا ذریعہ بن سکتے تھے، یعنی  خرید وفروخت کی اس صورت کو سود  لینے کے لیے ایک حیلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ابن قیم کے نزدیک اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے قرآن مجید نے  کسی انسان کو قتل کرنے کو حرام قرار دیا ہے، جب کہ احادیث میں   ان بہت سی چیزوں  کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جو  بے احتیاطی پر مبنی ہونے کی وجہ سے کسی انسان کی جان لینے کا موجب بن سکتی ہیں، مثلا ً‌ ہتھیار کو مناسب طریقے سے ڈھانپے بغیر    ہجوم کے اندر سے گزرنا وغیرہ (اعلام الموقعین ۳/ ۳۹۸-۴۰۵)۔ دور جدید میں  اسلامی مالیات کے ماہرین،  مثلاً‌ علامہ ابو زہرہ، ڈاکٹر معروف الدوالیبی، الدکتور وہبہ الزحیلی،  الدکتور قرہ داغی، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی  اور ڈاکٹر محمود احمد غازی  وغیرہ کی عمومی راے  بھی یہی ہے۔

مصنف کی راے  اس بحث میں   ان اہل علم کے نقطۂ نظر سے متفق  ہے کہ  ربا الفضل کی ممانعت  بنیادی طور پر سد ذریعہ کے اصول پر مبنی ہے۔  چنانچہ قرآن مجید نے جس ’الربا‘ کو حرام کہا ہے، وہ صرف ادھار کے معاملات میں ہوتا ہے اور بعض احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہےکہ ’إنما الربا في النسیئة‘، یعنی سود صرف ادھار کے معاملات میں ہوتا ہے۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سد ذریعہ کے طور پر، یعنی  سود کے ساتھ ظاہری مشابہت سے بچنے یا اس کے جواز کے ایک ممکنہ حیلے کو روکنے کے لیے،  نقد خرید و فروخت کی کچھ صورتوں کو بھی  ممنوع قرار دیا۔ تاہم اس ممنوعہ صورت کی تعیین کے حوالے سے مصنف کی راے  اہل علم کے عمومی فہم سے بالکل مختلف ہے۔  ان کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ صورت وہ نہیں    تھی جو روایات میں عمومی طور  پر نقل ہوئی ہے، بلکہ  اس کی درست صورت  وہ تھی جس کا ذکر مصنف کی نقل کردہ روایات میں کیا گیا ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس موضوع سے متعلق وارد احادیث  میں یہ مضمون مختلف    طریقوں سے بیان ہوا ہے۔  بعض احادیث میں  صرف یہ ذکر ہے کہ  سونا چاندی کا تبادلہ سونا چاندی  کے ساتھ یا کسی زرعی جنس، مثلاً‌ گندم، جو اور کھجور کا تبادلہ اسی جنس کے ساتھ ادھار نہ کیا جائے  (بخاری، رقم  ۲۰۶۰، ۲۱۳۴۔ مسلم، رقم  ۱۵۸۹)۔  ان روایات میں  مقدار کی کمی بیشی کا ذکر نہیں ہے۔   دوسری قسم کی  روایات میں   ہم جنس اشیا کی مقدار کے مساوی ہونے کا ذکر ہے، لیکن   معاملہ نقد ہونے کی شرط بیان نہیں کی گئی (بخاری، رقم  ۲۰۸۰، ۲۱۷۵)۔

تیسری قسم کی روایات میں  دونوں طرف سے  مقدار  کے مساوی ہونے کے ساتھ ساتھ  ادھار  کی ممانعت کا بھی ذکر کیا گیا ہے  (بخاری،  رقم ۲۱۷۷)۔ احادیث میں یہ وضاحت  بھی ملتی  ہے کہ اگر   اجناس مختلف ہوں، مثلاً‌ ایک طرف سے سونا اور دوسری طرف سے چاندی یا ایک طرف سے گندم اور دوسری طرف سے کھجور ہو تو پھر کمی بیشی  درست ہے، البتہ   معاملہ نقد ہونا چاہیے (مسلم، رقم  ۱۵۸۷) ۔ بعض واقعات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ اگر ہم جنس اشیا کی  قیمت کے باہمی فرق کی وجہ سے یکساں مقدار میں ان کا  تبادلہ  نہ کیا جاسکے تو پھر  براہ راست تبادلہ سے گریز کیا جائے اور ایک جنس کو  بازار میں  فروخت کر کے حاصل شدہ رقم سے   مطلوبہ جنس خرید لی جائے تاکہ ہم جنس اشیا کے براہ راست تبادلے میں کمی بیشی سے بچا جا سکے (مسلم، رقم  ۱۵۹۳)۔ اس مضمون کی احادیث کی معنوی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں مزابنہ اور محاقلہ وغیرہ سے منع کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ درخت پر لگے ہوئے پھل یا کھیت میں کھڑی فصل کی مقدار کا اندازہ کر کے اس کا تبادلہ اسی جنس کے کٹے ہوئے  پھل یا کٹی ہوئی فصل سے کیا جائے، کیونکہ اس صورت میں  مقدار میں کمی بیشی کا امکان ہے (مسلم، رقم  ۱۵۳۹)۔

مصنف کے نزدیک  ان میں سے پہلی دو قسم کی روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد درست طریقے سے نقل ہوا ہے، جب کہ تیسری قسم کی روایات کا مضمون راویوں کے سوء فہم کا نتیجہ ہے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل دو الگ الگ ہدایات بیان فرمائی تھیں۔ ایک یہ کہ اگر سونے یا چاندی کا ادھار تبادلہ کیا جائے تو ایسی صورت میں مقدار میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے، اور دوسری یہ کہ اگر مبادلہ مقدار کی کمی بیشی کے ساتھ کیا جارہا ہو تو پھر اس میں ادھار نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں، آپ کی مراد یہ تھی کہ ایک ہی معاملے میں کمی بیشی اور ادھار کو جمع نہ کیا جائے، بلکہ ادھار کی صورت ہو تو کمی بیشی سے گریز کیا جائے اور اگر کمی بیشی مقصود ہو تو ادھار کی صورت اختیار نہ کی جائے۔  مصنف کی تحقیق یہ ہے کہ اس  غلطی  کا منبع روایات کو نقل کرنے میں راویوں کا سوء فہم ہے جنھوں نے دو الگ الگ باتوں کو خلط ملط کر کے حکم کو ایسی شکل دے دی   جو فقہی طور پر ایک لاینحل معما کی صورت اختیار  کر گئی ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ تفصیل کے لیے دیکھیے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، سود،  اسلامک پبلی کیشنز لاہور۔ مولانا محمد تقی عثمانی،  سود کے خلاف تاریخی فیصلہ،  مکتبہ دار العلوم کراچی۔   ڈاکٹر محمود احمد غازی، محاضرات معیشت وتجارت۔

[2]۔ اس توجیہ میں   اس پہلو  پر توجہ نہیں دی گئی کہ  قرآن مجید میں ہر جگہ اور خاص طور پر سورۂ بقرہ میں ربا کی ممانعت کے سیاق وسباق میں  ایسی واضح دلالتیں موجود ہیں جو  یہ بتاتی ہیں کہ  قرآن  کی مراد خاص طور پر قرض پر وصول کیے جانے والا سود  ہے۔  مثلاً سورۂ روم (۳۰: ۳۹)میں ’وَمَا٘ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۠ فِيْ٘ اَمْوَالِ النَّاسِ‘اور سورۂ آل عمران (۳: ۱۳۰) میں ’لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰ٘وا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً‘کی تعبیرات کا مصداق ربا الفضل نہیں ہو سکتا۔  سورۂ بقرہ (۲: ۲۷۸ - ۲۷۹) میں      بھی متعدد تصریحات  اس امکان کی نفی کرتی  ہیں۔ مثلاً ’اِتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰ٘وا، وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ‘اور ’وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰي مَيْسَرَةٍ‘ (۲: ۲۸۰)، یہ تمام  تعبیرات  واضح طور پر صرف  قرض پر  لیے جانے والے سود کو موضوع بناتی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ   ’وحرم الربوا‘ میں ’ربا‘ کوئی مجمل اور محتاج  وضاحت اصطلاح نہیں ہے۔ اسی طرح  ان آیات سے ربا کا جو مفہوم واضح ہوتا ہے، وہ  بھی اس کا متحمل نہیں کہ ربا الفضل   کو زبان وبیان کے اعتبار سے اس کے مصداق میں شامل کیا جائے ۔

شافعی فقیہ امام تقی الدین السبکی نے اس  نکتے کو یوں واضح کیا ہے:

إن القرآن وقوله تعالىٰ:  ﴿وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰ٘وا﴾  يبين أن الذي نهى عنه ما كان دينًا وكذلك كانت العرب تعتقد في لغتها وقد دل النبي صلى الله عليه وسلم على أن النقد ليس الربا المتعارف عند أهل اللسان بقوله: ’’ولا تبيعوا الذهب بالذهب‘‘ الحديث فسماه بيعًا وقد قال تعالىٰ ذلك بأنهم قالوا: إنما البيع مثل الربا وأحل الله البيع وحرم الربا فذم من قال: إنما البيع مثل الربا ففى تسمية النبي صلى الله عليه وسلم الزيادة في الأصناف بيعًا دليل على أن الربا في النساء لا في غيره.  (المجموع شرح المہذب  ۱۰/ ۴۵-  ۴۶)
’’قرآن مجید کا یہ ارشاد کہ ’’باقی ماندہ سود چھوڑ دو‘‘ یہ بتاتا ہے کہ جس سود سے منع کیا گیا، وہ قرض کا معاملہ تھا۔  اہل عرب بھی اپنی زبان میں ربا کا یہی مفہوم سمجھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  بھی اپنی احادیث میں  سونے کے ساتھ سونے کے تبادلے کو بیع کہہ کر  یہی بتایا ہے کہ  نقد تبادلے میں کمی بیشی کو  اہل عرب کے ہاں ربا نہیں کہا جاتا تھا۔   قرآن مجید نے بھی  اہل عرب کے اس قول کی مذمت فرمائی ہے کہ بیع سود ہی کی طرح کی چیز ہے۔  چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اصناف کے ہم جنس تبادلے میں کمی بیشی کو بیع سے موسوم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سود صرف ادھار کے معاملے میں ہوتا ہے۔‘‘

B