HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: لقمان ۳۱: ۱ - ۱۹ (۱)

لقمان – السجدة

۳۱  -  ۳۲

 

     یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ پہلی سورہ حکیم لقمان کے حوالے سے دین فطرت کے جن حقائق کا اثبات کرتی ہے، دوسری میں اُنھی کے متعلق لوگوں کے اُن شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو اُس وقت پیش کیے جا رہے تھے۔

     دونوں کا موضوع وہی انذار و بشارت ہے جو پچھلی سورتوں سے چلا آرہا ہے اور دونوں کے مخاطب قریش مکہ ہیں۔

     اِن سورتوں کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ اتمام حجت میں اُس وقت نازل ہوئی ہیں، جب ہجرت و براء ت اور فتح و نصرت کا مرحلہ قریب آگیا ہے۔

__________

_____ ۱ _____

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الٓمّٓ ١ﶔ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ ٢ﶫ هُدًي وَّرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِيْنَ ٣ﶫ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ ٤ﶠ اُولٰٓئِكَ عَلٰي هُدًي مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٥

 اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔

یہ سورۂ ’الٓمّٓ‘[1]ہے۔یہ پر حکمت کتاب کی آیتیں ہیں۔ اُن کے لیے جو خوبی سے عمل کرنے والے ہیں[2]ہدایت اور رحمت[3] بن کر نازل ہوئی ہیں۔ یہ جو نماز کا اہتمام کر رہے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اوریہی ہیں جو آخرت پر سچا یقین رکھتے ہیں۔[4] یہی اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہوں گے۔۱ - ۵

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍﵲ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًاﵧ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ ٦ وَاِذَا تُتْلٰي عَلَيْهِ اٰيٰتُنَا وَلّٰي مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْهَا كَاَنَّ فِيْ٘ اُذُنَيْهِ وَقْرًاﵐ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ٧ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتُ النَّعِيْمِ ٨ﶫ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاﵧ وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّاﵧ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٩

اِس کے برخلاف لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو فضولیات[5] کے خریدار بنتے ہیں[6] تاکہ اللہ کی راہ سے بغیر کسی علم کے[7] گم راہ کریں اور اُس کی آیتوں کا مذاق اڑائیں۔ یہی ہیں کہ جن کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔[8] اِن میں سے کسی کو جب ہماری یہ آیتیں سنائی جاتی ہیں تو بڑے تکبرکے ساتھ اِس طرح منہ پھیر کر چل دیتا ہے، جیسے اُن کو سناہی نہیں، جیسے کانوں سے بہرا ہے۔ سو اِسے ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے، اُن کے لیے راحت کے باغ ہیں کہ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کے رہے گا[9] اور وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔[10]۶- ۹

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَاَلْقٰي فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍﵧ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْۣبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ ١٠

اُس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بنا دیا ہے جو تمھیں نظر آئیں اور زمین میں پہاڑ جما دیے ہیں کہ وہ تمھیں لے کر جھک نہ پڑے[11] اور اُس میں ہر طرح کے جان دار پھیلا دیے ہیں۔(دیکھتے نہیں ہو کہ) ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اِسی زمین میں ہر قسم کی فیض بخش چیزیں پیدا کر دی ہیں۔ ۱۰

هٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ فَاَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖﵧ بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ١١

یہ سب تو اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے، اب مجھے دکھاؤ کہ (تمھارے زعم کے مطابق) جو اُس کے سوا ہیں، اُنھوں نے کیا پیدا کیا ہے؟ کچھ نہیں، بلکہ یہ ظالم صریح گم راہی میں ہیں۔۱۱

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِﵧ وَمَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖﵐ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ ١٢

ہم نے یہی حکمت[12] لقمان[13] کو بھی دی اور ہدایت فرمائی تھی کہ اللہ کا شکر ادا کرو[14]  ــــ  اور جو شکر کرے گا تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرے گا اور جو ناشکری کرے گا تو اللہ کو اُس کی کچھ پروا نہیں، اِس لیے کہ اللہ بے نیاز ہے، وہ اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔۱۲

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَهُوَ يَعِظُهٗ يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِﵫ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ١٣

(اِس کا لازمی تقاضا ہے کہ کسی کو خدا کا شریک نہ ٹھیرایا جائے)۔ یاد کرو، جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا[15]کہ بیٹا، اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھیرانا۔ حقیقت یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔۱۳

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِﵐ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَﵧ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ ١٤ وَاِنْ جٰهَدٰكَ عَلٰ٘ي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًاﵟ وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّﵐ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٥

(اِس میں شبہ نہیں کہ)ہم[16] نے انسان کو اُس کے والدین کے بارے میں بھی نصیحت کی ہے۔[17] اُس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اُس کو پیٹ میں رکھا اور (پیدایش کے بعد) کہیں دو سال میں جا کر اُس کا دودھ چھڑانا ہوا۔[18] (ہم نے اُس کو نصیحت کی ہے) کہ میرے شکرگزار رہو اور اپنے والدین کے،[19] (اور یاد رکھو کہ بالآخر) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ لیکن اگر وہ تم پر زور ڈالیں کہ کسی کو میرا شریک ٹھیراؤ جس کے بارے میں تمھارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو اُن کی بات نہ ماننا۔[20] دنیا میں، البتہ اُن کے ساتھ نیک برتاؤ رکھنا[21] اور پیروی اُنھی کے طریقے کی کرنا جو میری طرف متوجہ ہیں۔[22] پھر تم کو میری ہی طرف پلٹنا ہے۔ پھر میں تمھیں بتا دوں گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔[23]۱۴- ۱۵

يٰبُنَيَّ اِنَّهَا٘ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُﵧ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ ١٦

(لقمان نے کہا تھا):بیٹا، بات یہ ہے[24] کہ کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو خواہ وہ کسی گھاٹی میں[25] ہو یا آسمانوں میں یازمین میں، اللہ اُسے نکال لائے گا۔ بے شک، اللہ باریک بین ہے، وہ ہر چیز سے با خبر ہے۔[26] ۱۶

يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَا٘ اَصَابَكَﵧ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ١٧ﶔ

بیٹے، نماز کا اہتمام رکھو،[27] بھلائی کی تلقین کرو اور برائی سے روکو ،[28] اور (اِس راہ میں) جو مصیبت تمھیں پہنچے، اُس پر صبر کرو۔[29]اِس لیے کہ یہی کام ہیں جن کی تاکید کی گئی ہے۔ ۱۷

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًاﵧ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ١٨ﶔ وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَﵧ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ ١٩

 اور لوگوں سے بے رخی نہ کرو[30] اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، اِس لیے کہ اللہ کسی اکڑنے اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔[31] اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو، حقیقت یہ ہے کہ سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔[32] ۱۸- ۱۹

[1]۔ یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔

[2]۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی طرف اشارہ ہے جنھوں نے اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کی ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے صحیح کام لیا، پوری بصیرت کے ساتھ حقائق کو تسلیم کیا اور اُن کے جو تقاضے بھی سامنے آئے، پورے اخلاص کے ساتھ اُن کے مطابق عمل کرنے لگے۔

[3]۔ یعنی دنیا میں ہدایت اور آخرت میں فضل و رحمت جو اِس ہدایت کو اختیار کرنے کا لازمی نتیجہ ہے۔

[4]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ آخرت پر سچا یقین ہو تو آدمی نماز اور زکوٰۃ سے غافل نہیں ہو سکتا اور اپنی اِس غفلت کے باوجود اگر وہ اِس کا مدعی ہے کہ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اپنے اِس دعوے میں بالکل جھوٹا ہے۔

[5]۔ اصل میں ’لَهْوَ الْحَدِيْثِ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ اُسی طرح کی ترکیب ہے، جیسے دوسرے مقام میں ’زُخْرُفَ الْقَوْلِ‘کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ یہاں یہ لفظ کتاب حکیم کی آیتوں کے مقابل میں ہے، اِس وجہ سے اِس سے مراد وہ فضولیات و خرافات ہوں گی جو مفسدین لوگوں کو آیات الٰہی سے برگشتہ کرنے کے لیے پھیلاتے تھے۔

[6]۔ یعنی اُن کو ترجیح دیتے اور اُن کے طلب گار بنتے ہیں۔ لفظ ’اِشْتِرَاء‘ جب معنوی چیزوں کے لیے استعمال کیا جائے تو اِسی مفہوم میں آتا ہے۔

[7]۔ یعنی بغیر کسی دلیل و برہان کے۔

[8]۔ آگے وضاحت فرما دی ہے کہ اِن کا اصلی جرم استکبار ہے اوراستکبار کے بارے میں قرآن اور دوسرے الہامی صحائف میں جگہ جگہ واضح کیا گیاہے کہ اُس کی سزا ذلت اور رسوائی ہے۔

[9]۔ اِس جملے میں تاکید درتاکید کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

’’... اِس تاکید کی ضرورت اِس وجہ سے تھی کہ اوپر آیت ۶ میں ذکر ہو چکا ہے کہ مستکبرین اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اُن کے استہزا کا خاص ہدف وہ آیتیں تھیں جن میں اُس دور کے بے بس اور غریب مسلمانوں کو ایک ابدی بادشاہی کی خوش خبری سنائی جاتی تھی۔ معاملے کا یہ پہلو مقتضی ہوا کہ یہ بات یہاں پورے زور اور تاکید سے کہی جائے کہ مذاق اڑانے والے اگر اِس کا مذاق اڑاتے ہیں تو اڑائیں، لیکن اہل ایمان اطمینان رکھیں کہ اللہ کا یہ وعدہ پورا ہو کے رہے گا۔‘‘(تدبرقرآن۶/  ۱۲۳)

[10]۔ یعنی نہ ظالموں اورمستکبروں کے مقابلے میں کوئی بے بس ہستی ہے کہ عاجز ہو کر بیٹھا رہے اور نہ یہ دنیااُس نے کھیل تماشے کے طور پر بنائی ہے کہ اُسے کسی انجام حق تک پہنچائے بغیر ختم کر دے۔ وہ یہ لازماً کرے گا، اِس لیے کہ عزیز و حکیم ہے۔

[11]۔ اصل الفاظ ہیں:’اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ‘۔ اِن میں ’اَنْ‘سے پہلے لام علت عربیت کے اسلوب پر مقدر ہے۔یہ غالباً وہی چیز ہے جسے جدید سائنس میں ’isostasy‘کہا جاتا ہے۔ قرآن کے اِس بیان سے پہاڑوں کے بارے میں یہ نظریہ درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمندروں کے نیچے کے کثیف مادے کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر ابھرے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو زمین اُسی طرح ہلتی رہتی، جس طرح اب زلزلہ آجائے تو ہلتی ہے۔

[12]۔ یعنی جو اِس کتاب حکیم میں بیان کی جا رہی ہے۔ سورہ کی ابتدا میں کتاب کے ساتھ حکیم کی صفت اِسی رعایت سے آئی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ لقمان جسے تم اپنی قوم کا سقراط و فلاطوں سمجھتے ہو، اُس کی تعلیمات بھی وہی تھیں جو آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں۔

[13]۔ یہ عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے مشہور تھے۔ شعراے جاہلیت اپنے شعروں میں اِن کا اور اِن کے قبیلے کا ذکر کرتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یمن میں اِن کو اور اِن کی قوم کو بڑی شان و شوکت حاصل تھی اور یہ قوم عاد کے بقایا میں سے تھے۔ اِسی طرح یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اپنے قبیلے پر اِن کو ایک پدرسرانہ قسم کی سرداری حاصل تھی۔ آگے جو نصیحتیں نقل ہوئی ہیں، اُن سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ غالباً بیٹے کو سرداری کی ذمہ داریاں سونپتے ہوئے کی گئی ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ لقمان کی یہ نصیحتیں اگرچہ ہر شخص کے لیے اپنے اندر یکساں خیروبرکت رکھتی ہیں، لیکن اُن لوگوں کے لیے یہ خاص اہمیت رکھنے والی ہیں جن کو قیادت و سربراہی اور امارت و حکومت کا مقام حاصل ہو۔ اِس وجہ سے ہمارے نزدیک، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، لقمان صرف ایک حکیم نہیں، بلکہ ایک حکمران حکیم تھے۔ اُن کو اپنی قوم کی سربراہی حاصل تھی اور یہ نصیحتیں اپنے بیٹے کو اُنھوں نے سرداری و قیادت کی ذمہ داریاں سمجھانے کے لیے کی ہیں۔ یہ اگرچہ نبی نہیں تھے، لیکن اُن کو حضرت داؤد سے فی الجملہ مشابہت ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۱۳۳)

[14]۔ یہ حکمت کا اولین ثمر ہے۔ تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد کی معرفت اِسی سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ کی کتاب جس حکمت کو لے کر نازل ہوئی ہے، اُس کی بنیاد یہی شکر گزاری ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتو انسان کے اندر اُن صفات میں سے کوئی صفت بھی پیدا نہیں ہو سکتی جن کا ذکر سورہ کی ابتدا میں ہوا ہے۔

[15]۔ یعنی یونہی راہ چلتے کچھ باتیں نہیں کہہ دی تھیں، بلکہ بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہی تھیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اِس سے موقع اور بات، دونوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی سرسری بات نہیں ہے جو راہ چلتے کہہ دی گئی ہو، بلکہ لقمان نے خاص اپنے بیٹے کو، ایک اہم موقع پر، خاص اہتمام کے ساتھ بطور ایک موعظت کے بتائیں اور اِن پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے کی تاکید کی۔ اِس سے مقصود قرآن کے مخاطبوں کو توجہ دلانا ہے کہ ایک دانش مند باپ اپنے بیٹے کو کیا تعلیم دیتا تھا اور آج اُس کے احمق نام لیوا اپنی اولاد کے ساتھ کیا معاملہ کر رہے ہیں!‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۲۸)

[16]۔ یہاں سے آگے آیت ۱۵ تک تضمین ہے۔ لقمان نے اللہ تعالیٰ کے حق کے پہلو بہ پہلو اپنے حق کا ذکر غالباً اِس لیے نہیں کیا کہ اُنھوں نے اِسے خلاف ادب خیال کیا ہے۔ چنانچہ اِس کو چھوڑ کر وہ قیامت کے ذکر کی طرف بڑھ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیات اِسی خلا کو بھرنے کے لیے ارشاد ہوئی ہیں۔

[17]۔ یہ نصیحت تمام الہامی صحائف میں بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید نے بھی ایک سے زیادہ مقامات پر اِس کی تلقین فرمائی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین ہی کا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے بعد وہی اُس کے وجود میں آنے اور پرورش پانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

[18]۔ آیت میں ولادت کا ذکر نہیں ہوا۔ اِس کی وجہ غایت وضاحت ہے۔ قرآن میں اِسی کے پیش نظر بعض چیزیں لفظاً محذوف ہو جاتی ہیں۔ بچے کی پرورش کے معاملے میں باپ کی شفقت بھی کچھ کم نہیں ہوتی، لیکن حمل، ولادت اور رضاعت کے مختلف مراحل میں جو مشقت بچے کی ماں اٹھاتی ہے، اُس میں یقیناً اُس کا کوئی شریک و سہیم نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی بنا پر ماں کاحق باپ کے مقابل میں تین درجے زیادہ قرار دیاہے۔*

[19]۔ یہ شکر محض زبان سے ادا نہیں ہوتا، اِس کا لازمی تقاضا ہے کہ آدمی اُن کے ساتھ انتہائی احترام سے پیش آئے، اُن کے خلاف دل میں کوئی بے زاری نہ پیدا ہونے دے، اُن کے سامنے سوء ادب کا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالے،بلکہ نرمی ، محبت، شرافت اور سعادت مندی کا اسلوب اختیار کرے۔ اُن کی بات مانے اور بڑھاپے کی ناتوانیوں میں اُن کی دل داری اور تسلی کرتا رہے۔

[20]۔ والدین کی اِس حیثیت کے باوجود یہ حق اُن کو حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو بے دلیل اللہ تعالیٰ کا شریک بنانے کے لیے اولاد پر دباؤ ڈالیں۔ چنانچہ خدا سے انحراف کی دعوت والدین بھی دیں تو قبول نہیں کی جا سکتی۔ یہاں صرف شرک کا ذکر ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکام و ہدایات بھی اِسی کے تحت سمجھے جا ئیں گے اور والدین کے کہنے سے اُن کی خلاف ورزی بھی کسی کے لیے جائز نہیں ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی کوئی اطاعت نہیں ہے، اطاعت تو صرف بھلائی کے کاموں میں ہے۔** 

[21]۔ مطلب یہ ہے کہ شرک جیسے گناہ پراصرار کے باوجود دنیا کے معاملات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ دستور کے مطابق اُسی طرح قائم رہنا چاہیے ۔ اُن کی ضروریات حتی المقدور پوری کرنے کی کوشش کی جائے اور اُن کے لیے ہدایت کی دعا بھی برابر جاری رہے۔ دین و شریعت کا معاملہ الگ ہے، مگر اِس طرح کی چیزوں میں اولاد سے ہرگز کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔

[22]۔ یعنی خدا سے منحرف کسی شخص کی راہ اختیار نہیں کی جا سکتی، اگرچہ وہ آدمی کے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔ خدا کے دین میں اِس کی گنجایش نہیں ہے۔ انسان کو اگر پیروی کرنی ہو تو اِس کے لیے اُنھی لوگوں کی طرف دیکھنا چاہیے جو خدا کی راہ پر ہیں۔

[23]۔ یہ آخرمیں اولاد اور والدین، دونوں کو توجہ دلائی ہے کہ اعمال کی جواب دہی کے لیے ایک دن پلٹنا میری ہی طرف ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

 ’’... یہ خطاب والدین اور اولاد، دونوں سے یکساں ہے اور اِس میں تنبیہ بھی ہے اور اطمینان دہانی بھی۔ مطلب یہ ہے کہ ایک دن سب کی واپسی میری ہی طرف ہونی ہے اور اُس دن جو کچھ جس نے کیا ہو گا، میں اُس کے سامنے رکھ دوں گا۔ اگر کسی کے والدین نے میرے بخشے ہوئے حق سے غلط فائدہ اٹھا کر اولاد کو مجھ سے منحرف کرنے کی کوشش کی تو وہ اُس کی سزا بھگتیں گے اور اگر اولاد نے والدین کے حق کے ساتھ ساتھ میرے حق کو بھی کما حقہ ٗپہچانا اور اِس حق پر قائم رہنے میں استقامت دکھائی تو وہ اپنی اِس عزیمت کا بھرپور صلہ پائے گی۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۳۰)

[24]۔ آیت میں ’اِنَّهَا‘ کی ضمیر مونث ہے۔ یہ ضمیر قصہ ہے جو متکلم اپنے معہود ذہنی کے لحاظ سے استعمال کرتا ہے۔یہاں یہ لفظ ’حَبَّة‘ کی رعایت سے استعمال ہوئی ہے۔

[25]۔ اصل میں لفظ ’صَخْرَة‘ آیا ہے۔ عربی زبان میں یہ پہاڑی اور گھاٹی کے لیے بھی آتا ہے۔

[26]۔ توحید کے بعد یہ لقمان نے قیامت کے بارے میں بھی ہر اُس مغالطے کو دور کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علم سے نا آشنائی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

[27]۔ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا سب سے بڑا مظہر نماز ہے،چنانچہ اعمال میں سب سے پہلے اِسی کی تلقین کی ہے۔

[28]۔ یعنی انسانی فطرت میں جو باتیں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں، اُن کی تلقین کرو اور جن کو فطرت ناپسند کرتی اور پوری انسانیت برائی سمجھتی ہے، اُن سے لوگوں کو منع کرتے رہو۔ قرآن کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایمان کے بنیادی تقاضوں میں سے ہے اور ہر مسلمان اپنے ماحول میں اِس کا مکلف ٹھیرایا گیا ہے۔ خدا نے جو ہدایت ہمیں دی ہے، یہ اُس کی شکر گزاری کا اظہار ہے۔

[29]۔ اِس لیے کہ یہی عزم و ہمت کا سرچشمہ اور تمام سیرت و کردار کا جمال و کمال ہے ۔ اِسی سے انسان میں یہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے ناخوش گوار تجربات پر شکایت یا فریاد کرنے کے بجاے وہ اُنھیں رضا مندی کے ساتھ قبول کرے اور خدا کی طرف سے مان کر اُن کا استقبال کرے۔ اِس کی جتنی ضرورت خود بھلائی کے راستے پر چلنے کے لیے ہے، اُس سے زیادہ دوسروں کو بھلائی کی تلقین کرنے اور برائی سے روکنے کے لیے ہے۔

[30]۔ اِس میں خاص طور پر اشارہ اُن غربا کی طرف ہے جن کو امرا و اغنیا حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

[31]۔ یعنی اُس سے نفرت کرتا ہے۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کیسی سخت تنبیہ ہے۔

[32]۔ یعنی چال میں اکڑ کے بجاے فروتنی و تواضع اور آواز میں کرختگی اور خشونت کے بجاے نرمی اورلینت پیدا کرو۔ اخلاق کے رذائل میں سب سے بری چیز تکبر ہے اور یہ انسان کے چہرے، اُس کی گردن اور اُس کی چال اور انداز گفتگو، ہر چیز سے ظاہر ہوتا ہے۔ لقمان نے بیٹے کو یہ اُسی سے بچنے کی نصیحت کی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...’اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ‘ کا ٹکڑا یہاں کرخت اور سخت لب و لہجہ سے نفرت دلانے کے لیے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اُس کو حسن بیان اور حسن کلام کی نعمت سے نوازا ہے تو وہ اِس مقام کو چھوڑ کر گدھوں کی صف میں شامل ہونے کی کوشش کیوں کرے؟ یہ بلبل کی بدقسمتی ہے کہ وہ زاغ و زغن کی ہم نوائی کرے!‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۳۳)

اِسی طرح آیت میں ’وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ‘ کے ’مِنْ‘ کے بارے میں اُنھوں نے لکھا ہے:

’’...(یہ) اِس بات پر دلیل ہے کہ جب خالق نے انسان کو ایک ہی قسم کی آواز پر نہیں پیدا کیا ہے، بلکہ اُس کے اندر یہ صلاحیت رکھی ہے کہ اُس کو وہ پست بھی کر سکتا ہے اور بلند بھی تو موقع و محل کے مطابق وہ اِس صلاحیت کو استعمال کرے، گدھے کی طرح ہمیشہ اپنا حلق اور لوگوں کے کان پھاڑنے ہی کی کوشش نہ کرے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۳۳)

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

   *   بخاری، رقم ۵۹۷۱۔مسلم، رقم ۶۵۰۰۔

**  بخاری، رقم ۷۱۴۵۔ مسلم، رقم ۴۷۶۶۔

B