HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

رمضان اور تجدید ایمان

مہلک وباؤں اور جنگی حشر سامانیوں کے بلاخیز طوفان کے باوجود پروردگار عالم کی طرف سے ایک بار پھر ہمارے لیے آمد  رمضان کی عظیم بشارت ہے۔رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے۔یہ ایمان کی تجدید کا مہینا ہے۔یہ آدمی کے لیے مادی علائق اور کھانے پینے جیسے فطری اور لازمی تقاضوں سے رک کر اپنے اندر ربانی شخصیت اور ایمانی و اخلاقی اقدار کی پرور ش کا سالانہ موقع ہے۔

رمضان کے اِن مبارک لمحات سے حقیقی فائدہ اٹھانے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی گہری طلب اور رجوع و انابت کے سچے جذبات کے ساتھ رمضان کا استقبال کرے ۔اِس ذہنی تیاری کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدائی ہدایت کو اخذ کرنے کے لیے آدمی کا دل ودماغ آمادہ ہو گا اور آدمی سچائی کا ایک مسافر بن کر خدا کی صراط مستقیم پر چلنے کے لیے کمر بستہ ہوجائے گا۔چنانچہ تزکیۂ نفس کی اِس ربانی مہم کے لیے وہ دن کے ہنگاموں میں روزہ دارانہ زندگی گزار کر رات کی تنہائیوں میں خدا کے سامنے کھڑا ہوگا ۔اِس طرح وہ اپنی جلوت وخلوت میں ذکرواحتساب،اپنی نمازوں کے دوران میں تلاوت اور سحرکے پرسکون لمحات میں مناجات واستغفار کے ذریعے سے اپنے اندر تزکیۂ نفس کی آب یاری کرے گا۔

نتیجتاً،ایساشخص قرآن سے مانوس ہوگااوراُسے معروف معنوں میں، صرف ایک قومی اور ’مذہبی‘ کتاب کا درجہ دینے کے بجاے ایک رہنماکتاب (guide book)کی حیثیت سے وہ قرآن کے ساتھ تمسک اختیار کرلے گا۔ اِس طرح پورے ماہ کے ذکر ودعا، تذکیر وتلاوت اور صدقہ و انفاق کے دوران میں اُس کے اندر تزکیۂ نفس کا عمل جاری رہے گا ۔ اِس سفر میں قرآن اُس کے شب و روز کا مرشدبن کر اُس کے اندر اللہ کا ڈر اور آخرت کی تیاری کا جذبہ بیدار کرے گا۔اُس کے دل ودماغ میں جنت کا شوق اور جہنم کا خوف پیداہو گا۔قرآن اُسے بتائے گا کہ تم خالق نہیں، بلکہ صرف مخلوق اور اللہ کے ایک بندے ہو۔ لہٰذا تم کو اللہ کا شکر گزار اور انسانوں کاخیر خواہ بن کر رہنا چاہیے۔چنانچہ اُس کی زندگی خدا کے رنگ (البقرہ ۲: ۱۳۸) میں رنگ جائے گی، اُس کا پورا وجود ایک ربانی نور میں نہا اٹھے گا۔

 پیغمبرانہ زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن آپ کی سیرت اور آپ کا اُسوہ تھا: ’کان خُلُقُ رسُولِ اللہِ صلی اللہُ علیه وسلّم القرآن‘ (تخریج المسند، الا رنؤوط:۲۵۸۱۳)،یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآنی ہدایات کے عین مطابق تھے۔ قرآن ہی آپ کی پسند و ناپسند ’یَغضَبُ لِغضبه، ویَرْضیٰ لِرِضاه‘(المعجم الاوسط، رقم  ۷۲ ) اور آپ کے قول و عمل کا معیار بن گیا تھا۔ آپ عملاً قرآنی تعلیمات کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھے۔آپ صرف قرآن کے قاری نہیں، بلکہ خود ایک زندہ قرآن تھے۔ گویا وہی چیز جس کو اقبال نے اپنے فکرانگیز اسلوب کے تحت اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!

رمضان کے ذریعے سے یہ مطلوب ہے کہ آدمی اسوۂ رسول کے مطابق اِس طرح قرآن کا قاری بنے کہ وہ قرآنی سانچے میں ڈھل کر خودایک زندہ قرآن بن جائے۔اُس کا قول وعمل قرآنی تعلیمات پر مبنی ہو۔ وہ قرآنی ہدایات کے مطابق چلنے والا اور قرآنی ہدایات کے مطابق رکنے والا بن جائے۔ وہ اپنے اندر قرآنی شخصیت کی تعمیر کرے۔وہ واقعی معنوں میں متقی اور خدا شناس بنے ۔وہ تقویٰ اور اخلاق جیسے بلند ایمانی اور انسانی اقدار سے بہرہ ور ہوکر زندگی گزارنے والا بن جائے۔اُس کا جینا اور مرنا خدائی ہدایات کے مطابق ہو، نہ کہ محض سماجی روایات اور ذاتی خواہشات کے مطابق۔

 رمضان میں اصلاً جو چیز مطلوب ہے، وہ یہ کہ آدمی قرآن سے اپنے حصے (المائدہ ۵: ۱۳)کی ہدایت حاصل کرے۔ ’وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ‘ (القمر۵۴: ۱۷، ۲۲، ۳۲، ۴۰)کے مژدۂ الٰہی میں مذکور اِس قند مکرر کا مقصدیہی ہے کہ ہر آدمی اپنی صلاحیت اور اپنے حالات کے مطابق کتاب اللہ سے اپنے تعلق کی تجدید کے ذریعے سے اُس سے اپنے حصے کا رزق(طٰہ۲۰: ۱۳۱) حاصل کرے ۔

لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا‘(البقرہ ۲: ۲۸۶)اور ’فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘ (التغابن ۶۴: ۱۶) کے مطابق ہر شخص سے یہ ہرگز مطلوب نہیں کہ وہ معروف معنوں میں پورے قرآن کا حافظ، عالم اور مفسر بنے۔ البتہ کتاب و سنت کے ارشاد کے مطابق ہر عورت اور مرد کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ’وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ‘ کی صداے مکرر پر لبیک کہتے ہوئے قرآن سے اپنے حصے کا ذکر اور یاددہانی ضرور حاصل کریں اوراِس طرح وہ تقویٰ اور حسن اخلاق کے ایما نی اوصاف سے متصف ہوکر خداکی مطلوب زندگی گزاریں ۔ایک طرف وہ اللہ سے ڈرنے والے ہوں اور دوسری طرف وہ انسانوں کے درمیان نفع بخش اور بے ضرربن کر عملاً اُن کے سچے خیر خواہ اور ہم درد ثابت ہوں۔

یہ تقویٰ اور حسن اخلاق قرآنی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔تقویٰ سے مراد اللہ کی نسبت سے مطلوب روش ہے، اور اخلاق سے مراد انسانوں کی نسبت سے مطلوب روش ، یعنی اللہ کو اپنا خالق اور مالک مان کر اُس کا مومن اور شکرگزار بن کر رہنا، اور انسانوں کے درمیان اُن کا سچا خیر خواہ بن کر زندگی گزارنا   ـــــــ   ماہ  رمضان کا سب سے بڑا عمل اور سب سے بڑا وظیفہ یہی ہے کہ آدمی اِس میں گہرائی کے ساتھ قرآن سے وابستہ ہوجائے۔ وہ تذکیر و تلاوت اورتدبر کے ذریعے سے قرآن سے اپنے فکری اور ایمانی تعلق کی تجدید کرے۔وہ کتاب اللہ کو اِس طرح مضبوطی کے ساتھ پکڑ ے کہ اپنے قول و عمل سے وہ خود ایک زندہ قرآن بن جائے۔اِس طرح رمضان کا مہینا گویا اُس کے لیے قرآن کے ذریعے سے خود پروردگار عالم کے ہاتھوں پر تجدید  بیعت اور تجدید  ایمان کا ایک عظیم مہینا ثابت ہوگا ۔

[لکھنؤ، یکم  مارچ ۲۰۲۲ء]

ـــــــــــــــــــــــــ

B