[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت جابر بن سفیان انصار كے قبیلہ بنوجشم بن خزرج كی شاخ بنوزریق سے تعلق ركھتے تھے۔ قریش كے بطن بنو جمح كے معمر بن حبیب نے ان كے والد حضرت سفیان كو متبنیٰ بنا لیا تو وه مكہ میں آباد ہو گئے،وه اور ان كی اولاد اسی قبیلہ سے منسوب ہونے لگی۔ یہ وہی معمر ہیں جنھوں نے عام الفیل کے بیس برس بعدحرام مہینوں میں لڑی جانے والی چوتھی جنگ فجار( فجار اکبر) میں اپنے قبیلے بنو جمح كی طرف سےلڑتے ہوئے جان دی تھی۔
حضرت حسنہ معمر بن حبیب كی باندی تھیں جو بحرین کے قصبہ عدول(یا عدولی) سے ان كے پاس آئی تھیں۔ معمر نے حضرت حسنہ كو آزاد كر كے ان كا بیاه اپنے منہ بولے بیٹےحضرت سفیان سے کر دیاجو جاہلیت کے رواج کے مطابق سفیان بن معمرجمحی کہلاتے تھے۔حضرت حسنہ سے حضرت سفیان کے بیٹے حضرت جنادہ اور حضرت جابر ہوئے۔ ابن عبدالبر اور ابن اثیرنے حبشہ میں ان كے تیسرے بیٹے حارث بن سفیان كی ولادت كی خبر دی ہے، جب كہ ابن ہشام نے حبشہ میں پیدا ہونے والے بچوں كی فہرست میں حارث بن سفیان كا نام شامل نہیں كیا۔ اس طرح حضرت جنادہ اور حضرت حارث حضرت جابر كے سگے بھائی ہوئے، جب كہ حضرت شرحبیل بن حسنہ ان كے ماں جایے تھے۔ زبیر کی روایت کے مطابق حضرت حسنہ حضرت شرحبیل کی حقیقی ماں نہ تھیں، بلکہ انھوں نے شرحبیل کو منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ شرحبیل کے والد کا نام عبداللہ اوردادا کا مطاع بن عمروتھا۔ان کا شجرۂ نسب کندہ (ثور)بن عفیرسے جا ملتا ہے، اس لیے کندی ان كی نسبت ہے۔
ابن سعد نے نام حضرت جابر كے بجاے حضرت خالد بن سفیان نقل كیا ہے۔
۵/نبوی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قریش كے ستائے ہوئے مسلمانوں كو حبشہ ہجرت كرنے كی ہدایت فرمائی تو حضرت جابر بن سفیان اپنی والدہ حضرت حسنہ ،والد حضرت سفيان بن معمر اوربھائی حضرت جنادہ بن سفيان كے ساتھ حبشہ روانہ ہوگئے۔
حضرت جابر بن سفیان اور ان كا حبشہ جانے والا كنبہ جنگ بدر كے بعد كسی وقت مدینہ پہنچا۔ابن اسحاق نے بتایا ہے كہ وه حضرت جعفر بن ابوطالب كی واپسی كے قافلےكی كشتیوں میں سوار نہ تھے۔بلاذری نے وضاحت كی كہ وہ حضرت جعفر كی آمد سے پہلے شہر نبی پہنچے۔ ابن عبدالبر اور ابن اثیر كا ابن اسحاق كے حوالےسے كہنا كہ یہ كنبہ حضرت جعفر بن ابوطالب كے ساتھ سمندری سفر میں شریك تھا،درست نہیں، اگرچہ بنو جمح كے دوسرے افراد حضرت حاطب بن حارث كی بیوه اور بچے اور حضرت حطاب بن حارث كی بیوہ حضرت فاطمہ بنت مجلل ابن اسحاق ہی كی صراحت كے مطابق كشتیوں كے سوار رہے۔
مدینہ میں حضرت جابر بن سفیان اپنے آبائی قبیلے بنوزریق میں قیام پذیرہوئے۔
حضرت جابر بن سفیان كی وفات عہد فاروقی میں ہوئی۔ان كی كوئی اولاد نہ ہوئی۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،جمل من انساب الاشراف(بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبد البر)،المنتظم فی تواریخ الملوك والامم(ابن جوزی)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)،البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت حسنہ مكہ میں پیدا ہوئیں۔ان كی ولدیت كے بارے میں ہمیں كچھ معلوم نہیں۔ویكیبیدیا كے مضمون نگار نے بنو عدی كے حضرت معمر بن عبدالله كو ان كا والد بتایا ہے،لیكن ہمیں اس كا كوئی ماخذ ملا ہے نہ سند معلوم ہو سكی۔یہ بتایا جاتا ہے كہ وه بحرین کے قصبہ عدول(یا عدولی) سے تعلق رکھتی تھیں۔اگر انھوں نے مكہ میں جنم لیا تو بحرین كیسے پہنچ گئیں،ہم بتانے سے قاصرہیں۔شاید كسی غارت گری میں ان كو باندی بنا لیا گیا ہو۔ بحرین سے وه كس طرح بنوجمح کے معمر بن حبیب کی غلامی میں آگئیں، درمیانی كڑیاں مفقود ہیں۔
معمر بن حبیب وه بطل جری ہیں جنھوں نے عام الفیل کے بیس برس بعدلڑی جانے والی چوتھی جنگ فجار (فجار البراض یا فجار اکبر)میں اپنے قبیلے کی نمایندگی کرتے ہوئے جان نثار كر دی۔حجاز كے مشہور لٹیرے براض بن قیس کنانی نے اوارہ كے مقام پر شاہ حیرہ نعمان بن منذر کا بازار عکاظ جانے والا قافلہ لوٹا،اس كی نگہبانی پر متعین عروہ بن عتبہ،اسد بن جوین اور مساور بن مالک كو قتل كیا تو عروہ کے قبیلےقیس عیلان نےبراض كے قبیلے كنانہ كے بطن قریش سے خون بہا طلب کیا۔ اس پر تمام متعلقہ قبیلوںمیں شدید جنگ چھڑ گئی، اسے فجاریاگناہ کی جنگ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ ان ایام میں لڑی گئی جنھیں زمانۂ جاہلیت میں بھی قتال كے لیے حرام سمجھا جاتا تھا۔ قریش اور بقیہ كنانی قبائل کی قیادت حضرت ابو سفیان کے والد حرب بن امیہ نے کی۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عمر پندر ه یابیس برس تھی۔ آپ دشمن کی طرف سے آنے والے تیر اٹھا کرجنگ میں شریک اپنے چچاؤں کو پکڑاتے جاتے تھے۔
حضرت حسنہ ابتداے اسلام ہی میں مكہ میں اپنے شوہر حضرت سفیان بن معمر كے ساتھ ایمان لے آئیں۔ ان كا شمار صحابیات میں ہوتا ہے۔
حضرت حسنہ كے پہلے شوہر عبدالله بن مطاع(مطاح:ابن سعد) تھے، جو بنوكنده سے تعلق ركھتے تھے۔تمیم بن مر كے بھائی غوث بن مر كے حلیف ہونے كی وجہ سے غوثی یا تمیمی كہلاتے تھے۔ان سے حضرت شرحبیل بن عبدالله اور عبدالرحمٰن بن عبدالله پیدا ہوئے۔پہلے شوہر عبدالله کی وفات کے بعد معمربن حبیب نے حضرت حسنہ کا بیاہ اپنے منہ بولے بیٹے،انصاری قبیلہ بنوزریق کے حضرت سفیان سے کیاجو جاہلیت کے رواج کے مطابق سفیان بن معمرجمحی کہلاتے تھے۔مكہ میں حضرت حسنہ سے حضرت سفیان كے دو بیٹے حضرت جناد ہ اور حضرت جابر ہوئے جو ہجرت حبشہ كے وقت نوجوان تھے۔ ابن حزم،ابن عبدالبر اور ابن اثیرنے حبشہ میں ان كے تیسرے بیٹے حارث بن سفیان كی ولادت كی خبر دی ہے، جب كہ ابن اسحاق اور ان كے تتبع میں ابن ہشام نے حبشہ میں پیدا ہونے والے بچوں كی فہرست میں حارث بن سفیان كا نام درج نہیں كیا۔ابن سعد نےحضرت حسنہ كے بیٹے جابر بن سفیان كا نام خالد لكھا(الطبقات الكبریٰ ۳/ ۱۴۳)۔ابن اثیر نے ایك جگہ خالد بتایا (اسد الغابۃ ۵/ ۴۲۵) اور دوسرے مقام پر جابر بن سفیان تحریر كیا(اسد الغابۃ ۱/ ۲۵۳)۔
ایك شاذ روایت كے مطابق حضرت حسنہ حضرت سفیان بن معمر كی زوجہ نہیں، بلكہ والده تھیں اور حضرت شرحبیل ان كے ماں شریك بھائی تھے۔ زبیر کی روایت کے مطابق حضرت شرحبیل حضرت حسنہ كے حقیقی نہیں، بلکہ منہ بولے بیٹے تھے۔ حضرت شرحبیل کا شجرۂ نسب کنده (ثور) بن عفیرسے جا ملتا ہے، اس لیے انھیں کندی کہا جاتا ہے۔
بعثت نبوی کے تیسرے سال نبی صلی الله علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کیجیے۔‘‘ (الشعراء۲۶: ۲۱۴)اور ’’(اے نبی) آپ کو جو حکم نبوت ملا ہے، اسے ہانکے پکارے کہہ دیجیے (الحجر۱۵: ۹۴) دعوت حق عام ہونے لگی تو مشرکوں کو اپنے بتوں کی خدائی خطرے میں نظر آنے لگی۔ انھوں نے نو مسلم کم زوروں اور غلاموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے۔ 5؍ نبوی میں یہ سلسلہ عروج کو پہنچ گیا تونبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم الله کی سرزمین میں بکھر جاؤ۔ صحابہ نے پوچھا:یا رسول الله ،ہم کہاں جائیں؟ آپ نے فرمایا : حبشہ میں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے، (وہاں اس وقت تک قیام کرنا) جب تک الله تمھاری سختیوں سے چھٹکارے کی راہ نہیں نکال دیتا۔ چنانچہ رجب ۵/نبوی (۵۱۶ء) میں سولہ اہل ایمان حبشہ روانہ ہوئے۔شوال ۵ ؍نبوی میں قریش کے قبول اسلام کی افواہ حبشہ میں موجود مسلمانوں تک پہنچی توان میں سے کچھ یہ کہہ کر مکہ کی طرف واپس روانہ ہو گئے کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔یہ مہاجرین مکہ میں داخل ہوئے توقوم کی طرف سے اذیت رسانی کا سلسلہ پہلے سے زیادہ شدید ہوگیا۔تب آپ نے انھیں بار دگر حبشہ جانے کی اجازت دے دی۔ دیگر کئی مسلمان بھی ساتھ جانے کو تیار ہو گئے۔اس ہجرت ثانیہ میں اڑتیس مرد، گیارہ عورتیں اور سات غیر قریشی افراد شامل ہوئے۔
حضرت حسنہ اپنے شوہر حضرت سفیان بن معمر، بیٹوں حضرت جنادہ،حضرت جابر اور ان كے سوتیلے بھائی حضرت شرحبیل كے ساتھ دوسرے قافلۂ ہجرت میں شامل ہو گئیں۔ ایك غیر مستند روایت كے مطابق انھوں نے اپنے والد حضرت معمر بن عبدالله كے ساتھ حبشہ كا سفر كیا (ویكیبیدیا)۔ كسی ذریعہ سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔ سیر صحابہ كے تمام مصنفین نے بالاتفاق یہی لكھا كہ وه اپنے شوہر حضرت سفیان اور بیٹوں حضرت جنادہ، حضرت جابر اور حضرت شرحبیل كے ساتھ عازم حبشہ ہوئیں۔ابن اسحاق كی مرتبہ مہاجرین حبشہ كی فہرست مكمل نہیں، حضرت حسنہ اور ان كے كنبے كے اسما اس میں بیان نہیں ہوئے ،البتہ ابن ہشام نے اپنی ’’السیرة النبویۃ‘‘ میں ان كے نام شامل كر كے اس فہرست كو مكمل كیا۔
نبی صلی الله علیہ وسلم اپنا شہر مكہ چھوڑ كر مدینہ تشریف لے آئے تو حضرت حسنہ اپنے شوہر حضرت سفیان بن معمر اور بیٹوں حضرت جنادہ ،حضرت جابر كے ساتھ مدینہ چلی آئیں۔اس وقت تك حضرت جعفر بن ابو طالب اور دوسرے اصحاب حبشہ ہی میں مقیم تھے۔ابن اسحاق نے وضاحت كی ہے كہ یہ گھرانا جنگ بدر كے بعد مدینہ آیا اور اس نے نجاشی كی بھیجی ہوئی دو كشتیوں میں سفر نہ كیا۔۷ھ میں حضرت عمرو بن امیہ ضمری حبشہ آئے اوریہاں پر موجود ابوسفیان کی بیٹی حضرت ام حبیبہ كو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے نكاح کا پیغام دیا۔ شاه حبشہ نجاشی نے خطبۂ نكاح پڑھا اور چار ہزار درہم بہ طورمہر ادا کرنے كے بعددلہن کو حضرت شرحبیل بن حسنہ کے ساتھ مدینہ روانہ کر دیا (ابوداؤد، رقم ۷۰۱۲۔ نسائی، رقم ۲۵۳۳)۔ اس طرح حضرت شرحبیل نے الگ سفر كیا۔
حضرت حسنہ نے مدینہ پہنچنے كے بعد اپنے كنبے كے ساتھ بنوزریق میں سكونت اختیار كی،جب كہ حضرت شرحبیل بنوزہرہ كے حلیف بن كر ان كے ہاں منتقل ہو گئے۔
حضرت حسنہ كا سن وفات معلوم نہیں۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن اسحاق)، السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ(ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت عمرو بن جہم حضرت جہم بن قيس كے بیٹے تھے۔ قریش كی شاخ بنو عبدالدار سے ان كا تعلق تھا۔حضرت ام حرملہ (خولہ ) بنت عبد الاسود ان كی والده،حضرت خزیمہ بن جہم بھائی اورحضرت حرملہ بنت جہم بہن تھیں۔
حبشہ كی طرف كی جانے والی ہجرت ثانیہ میں شامل ہوئے۔ ان كے والدین اوربھائی حضرت حزیمہ بن جہم شریك سفر تھے۔
حضرت عمرو بن جہم ،ان كے والد حضرت جہم بن قیس اور بھائی حضرت خزیمہ بن جہم حضرت جعفر بن ابوطالب اور حضرت عمرو بن امیہ ضمری كے ساتھ نجاشی كی فراہم كردہ كشتیوں پر سوار ہوكر بولا كے ساحل پر پہنچے اور مدینہ جانے كے لیے اونٹوں كا سفر كیا۔
ابن كثیر واحد مورخ ہیں جن كا كہنا ہے كہ حضرت عمرو بن جہم قیام حبشہ كے دوران میں خالق حقیقی سے جاملے (البدایۃ والنہایۃ ۴/ ۴۳۰۔السیرة النبویۃ ،ابن كثیر ۳/ ۳۹۱)۔ كسی دوسرے تذكرہ نگار نے ان كی وفات كے بارے میں كوئی خبر نہیں دی۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ (ابن اسحاق )،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، انساب الاشراف (بلاذری)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)،البدايۃ والنہايۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، Wikipedia۔
ـــــــــــــــــــــــــ
اصل نام :حضرت خولہ بنت عبدالاسود، اپنی كنیت ام حرملہ سے جانی جاتی ہیں۔ابن سعد نے ان كا نام حرملہ بنت عبد لكھا ہے اور اسود بن جزیمہ كو ان كا دادا بتایا ہے۔ ان كا تعلق عرب كے شہر جده كے قریب آبادقحطانی قبیلے بنو خزاعہ سےتھا۔ ام حریملہ ان كی دوسری كنیت تھی۔ابن جوزی نے حرملہ بنت عبدالاسود اور ابن حجر نے حریملہ بنت عبد كو ان كا اصل نام قرار دیا ہے۔ ان كی والدہ عمرو بن عبد شمس كی باندی تھیں۔
بنو عبدالدار كے حضرت جہم بن قیس سے ان كا بیاه ہوا۔ ان كے تین بچےحرملہ (یاحریملہ)،عبدالله اور عمرو ہوئے۔
اسلام كے ابتدائی دور میں ایمان لائیں۔
اپنے شوہر حضرت جہم بن قیس اور بیٹوں كے ساتھ حبشہ كی طرف ہجرت ثانیہ میں شامل ہوئیں۔ ان كی بیٹی كا حبشہ جانے اور واپس آنے والوں میں كوئی ذكر نہیں۔ابن كثیر نے مبہم عبارت لكھی ہے :حضرت ابو جہم كا بیٹا عمرو اور بیٹی خزیمہ حبشہ میں انتقال كر گئے(البدایۃ والنہایۃ ۴/ ۴۳۰)۔
حضرت ام حرملہ بنت عبدالاسود كی وفات حبشہ ہی میں ہو گئی۔
مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ