HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

ارتقاے حیات اور قرآن مجید (۲)

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

دوسری  اور تیسری آیت

مراحل تخلیق

اب ان آیات کو سمجھتے ہیں جن میں تخلیق کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔اس ضمن میں قرآن کے دو مقام اہم ہیں۔ان دونوں کو موازنہ کرتے ہوئے سمجھنا ضروری ہے، اس لیے کہ ان کو ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے،در اں حالیکہ وہ ہم معنی نہیں ہیں۔وہ آیات یہ ہیں:

سطر سورۂ مومنون ۲۳ سورۂ حج۲۲

۱ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ (۱۲) فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ(۵)

۲ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ (۱۳) ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ(۵)

۳ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا(۱۴) ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْﵧ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي

(۵)

۴ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ(۱۴) ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا (۵)

سورۂ سجدہ (۳۲) کی آیت ۷ کی طرح ، ان دونوں کا موضوع بھی آخرت میں دوبارہ جی اٹھنے پر استدلال ہے۔ان کا رخ بھی وہی ہے، لیکن ان کا اسلوب وہ نہیں ہے ، جو مثلاً  سورۂ سجدہ کی آیت میں ہے، اس لیے مراحل کا ایک حد تک بیان یہاں ، بالخصوص سورۂ مومنون میں مانا جاسکتا ہے۔ البتہ سورۂ حج میں ’ثُمَّ ویسے ہی آیا ہے، جیسے سورۂ سجدہ کی آیات میں آیا ہے۔

بلاشبہ دونوں آیات ہماری روز مرہ پیدایش پر منطبق ہو سکتی ہیں ،لیکن ہمارے خیال میں المومنون کی آیات آدم کی تخلیق کے مراحل کو بیان کرتی ہیں اور سورۂ حج کی آیت ہم سب انسانوں کی روز مرہ ولادت کے بعض پہلوؤں کو بیان کرتی ہے، بلکہ انسانی تخلیق کے ــــــ آدم سے آج تک ــــــ مجموعی عمل (phenomenon) کو بیان کرتی ہے ۔ البتہ اگر الفاظ کو ان کے کڑے معنی میں لیے بغیر دیکھا جائے تو المومنون کی آیات بھی ہماری روز مرہ کی پیدایش کے معنی میں لی جاسکتی ہیں، لیکن اگر لفظوں کے انتخاب اور کلام کی بنت کا پورا خیال رکھا جائے تو تخلیق آدم کا پہلو غالب نظر آتا ہے۔

پہلی سطر

سطر سورۂ مومنون ۲۳ سورۂ حج۲۲

۱ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ (۱۲) فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ(۵)

میں دیکھیے کہ سورۂ مومنون میں ’سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی مٹی کی کشید[22] سے انسان کو بنایا۔یہ ہماری روز مرہ کی ولادت کے لیے موزوں اورمناسب تعبیر نہیں ہے، اس لیے کہ ہماری ولادت غذائی اجزا سے ہوتی ہے، اس پر ’سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘ کا اطلاق صریح نہیں۔ یہ الفاظ مٹی سے براہ راست کشید کرنے پر زیادہ قوی الدلالت ہیں ۔سورۂ حج میں یہ الفاظ نہیں ہیں ، وہاں محض ’مِنْ تُرَابٍ‘ کا ذکر ہے،اس سے کشید کرنے کی طرف ذہن مبذول نہیں ہوتا، بس ہماری مادی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ مثلاً  ہم جنات کی طرح آگ سے نہیں بنے، جب کہ المومنون میں واضح لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ مٹی سے کچھ چیزیں کشید کی گئی تھیں۔ بلاشبہ آج بھی ہم مٹی سے کشیدہ اجزا ہی سے بنتے ہیں۔ ہماری ولادت میں ’طین ‘سے عناصر حیات کی کشید تین مراحل میں ہوتی ہے: پہلے پودے جڑیں، شاخیں ، پتے ، پھول اور پھل پیدا کرتے وقت مٹی سے کچھ اجزا کشید کرتے ہیں، جن کو ہم اور ہمارے چوپایے کھاتے ہیں۔ پھر ہمارا جسم ان میں سے بعض اجزا کو دوران ہضم کشید کرتا ہے، پھر ان اجزا کو ہمارا نظام تولید کشید کرتا ہے، جس سے وہ مرد و زن کے مادہ ہاے تولید بناتا ہے،اس لیے یہاں ’سُلٰلَةٍ‘ کے لفظ کا ہمارے نظام ولادت پر اطلاق کھینچ تان کر منطبق تو کیا جاسکتا ہے ،مگر صریح نہیں ہے۔اس لیے ’سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘ کا جملہ اس عمل کو بیان کررہا ہے جو زمین پر تخلیق آدم کے وقت ہوا۔مختصراً یہ کہ ’سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘کے الفاظ قرینہ ہیں، جو ہمارے ذہن کو مٹی[23] پر ہونے والے ایک عمل کی طرف مبذول کر دیتے ہیں، یہ عمل ہماری ولادت میں ہرگز نہیں ہوتا۔

دوسری سطر میں پہلے سورۂ مومنون کی آیت دیکھیے:

سطر سورۂ مومنون ۲۳ سورۂ حج۲۲

۲ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ(۱۳) ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ(۵)

اس میں کہا گیا ہے کہ ’جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً‘،اس کو ’ نُطْفَةً‘ میں تبدیل کیا گیا۔ جَعَلْنٰهُ ‘میں ضمیر منصوب کا مرجع یاانسان ہو سکتا ہےیا ’سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘،[24]دونوں صورتوں میں یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ ’سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘ کو نطفہ کی شکل دی گئی۔ یہ بات بھی ان الفاظ میں ہماری ولادت پر بعینہٖ صادق نہیں آتی،اس لیے کہ ہماری ولادت میں ’طین ‘ کے ’سلالة ‘ کو ’نطفة ‘نہیں بنایا جاتا۔ یہ وہ مقام ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ آدم کی تخلیق کے وقت ہی مٹی سے نطفہ بنایا گیا تھا، جب کہ اس کے مقابل میں سورۂ حج کی آیت دیکھیے کہ ’ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ‘میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ہماری ولادت پر چسپاں ہونے میں مانع ہو،لیکن سورۂ مومنون کی آیت کے اس جملے کو ہماری ولادت پر تبھی منطبق کیا جاسکتا ہےجب وہ پہلو فراموش کردیے جائیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔

تیسری سطر میں دیکھیے:

سطر سورۂ مومنون ۲۳ سورۂ حج۲۲

۳ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا(۱۴) ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْﵧ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي

(۵)

سورۂ ،مومنون میں وہ سلسلۂ کلام جاری ہے جس میں ایک چیز کو دوسری میں اور دوسری کو تیسر ی میں بدلا گیا ہے۔چنانچہ فرمایا کہ ’سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘ کو ’نُطْفَة‘ بنایا ، اس ’النُّطْفَة‘ کو ’عَلَقَة‘ اور اس ’الْعَلَقَة‘ کو ’مُضْغَة‘ بنایا گیا، پھر اس ’الْمُضْغَة‘ ہی سے ہڈیا ں بنا کر ان پر گوشت کا لبادہ اوڑھایا گیا۔یہاں پہلے ’نُطْفَة‘، ’عَلَقَة‘اور ’مُضْغَة‘کو نکرہ اور پھر معرفہ لایا گیا ہے ، یہ اسلوب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک ہی وجود ہے جو تبدیلیوں سے گزررہا ہے۔پچھلی دونوں سطور کے ساتھ مل کر یہ جملہ بھی اسی بات کی تائید کرتا ہے کہ ’سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘سے بننے والے نطفہ ہی کو آگے مدارج میں سے گزارا جا رہا ہے، جب کہ سورۂ حج میں پھر عموم کا اسلوب غالب ہے،اس میں ایک ہی چیز میں تغیر لازم نہیں آتا۔غرض یہ تغیر عمومی ہوا۔

سورۂ حج کی آیت میں ’ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ ‘ کا ذکر بھی آگیا ہے، جو اس بات کا صریح قرینہ ہے کہ یہ زمین پر کیچڑ سے بنتے ہوئے انسان کی بات نہیں ہے، بلکہ ہماری روز مرہ کی تخلیق و ولادت کی بات ہو رہی ہے ، جس میں قرار مکین رحم مادر ہوتا ہے۔ ’أرحاممیں جمع کا صیغہ بھی عموم پر دلالت کررہا ہے۔ سورۂ مومنون میں رحم کا ذکر نہیں ہے، بلکہ دوسری سطر میں محض ’قرار مکین‘  کا ذکر ہے، جو رحم مادر[25] اور رحم ارضی، دونوں کے لیے یکساں استعمال ہو سکتا ہے۔

سورۂ مومنون میں ’

ثماور ’فاء کا استعمال بھی قابل توجہ ہے۔ ’ثُمَّ دراصل تسویہ والے بڑے مرحلے کا بیان ہے، جب کہ ’فاء والے تمام امور اسی کی تفصیل ہیں۔یہ بڑے تغیرات نہیں ہیں۔اس کے بعد پھر بڑا تغیر ’ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ‘میں ہوا ہے، اس لیے وہاں بھی ’ثُمَّ آیا ہے، جب کہ الحج میں ان چھوٹے مراحل کو بھی ’ثُمَّ سے عطف کیا گیا ہے، جومضمون کی مناسبت کے لیے موزوں تھا۔

یہاں دونوں میں ’خَلَقْنَا‘ کا استعمال بھی بہت مختلف ہے۔المومنون میں ہر چیز کو دوسری میں بدلنے کے لیے ’خَلَقْنَا‘ کا لفظ آیا ہے۔یہ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ ہر مرحلہ میں مداخلت ہو رہی ہے، جب کہ سورۂ حج میں ’خَلَقْنٰكُمْ‘ کے بعد تین چیزیں ’ثُمَّ کے توسط سے براہ راست ’خَلَقْنٰكُمْ‘ کے ساتھ جوڑ دی گئی ہیں۔ آیت پر دوبارہ نگاہ ڈال لیجیے تاکہ بات ذہن میں تازہ ہو سکے:’فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ...‘۔ ’ثُمَّ کو دیکھیے کہ اپنے بعد کے جار مجرور کو ’مِنْ تُرَابٍ‘پر لے جاکر عطف کر رہا ہے۔ اس کا مضمون ایک سے دوسری چیز کو پیدا کرنے کا نہیں، بلکہ انسان کو ناقابل یقین چار چیزوں سے پیدا کرنے پر ہے:

فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِنْ تُرَابٍ ۱

  ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ۲

  ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ۳

  ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ ۴

جس سے یہ واضح ہے کہ یہ آیت مراحل کو بہ طور مراحل بیان نہیں کررہی ۔ جس کا مقصد غالباً یہ ہے کہ تراب،  نطفہ، علقہ، مضغہ، چاروں ایک محل میں ہیں۔ جس طرح مٹی سے انسان کا پیدا کرلینا اَن ہونا ہے، ویسے ہی نطفہ سے، ویسے ہی علقہ سے اور ویسے ہی مضغہ سے۔اس لیے یہ خیال نہ کرو کہ گل سڑ جاؤ گے تو دوبارہ پیدا نہ کیے جا سکو گے۔[26] 

اب چوتھی سطر پر آ جائیے:

سطر سورۂ مومنون ۲۳ سورۂ حج۲۲

۴ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ...(۱۴) ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا (۵)

یہاں ’ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ‘ اور ’نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا‘کا موازنہ بہت اہم ہے۔ ’نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا‘سے یہ ثابت ہے کہ یہ ہماری روز مرہ ولادت ہی سےمتعلق ہے، جب کہ ’اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ‘والا جملہ کسی نئی مخلوق کی ایجاد کی طرف اشارہ کناں ہے۔یہ الفاظ ہماری ولادت کے لیے بہ آسانی نہیں بولے جاسکتے، کیونکہ ہم پر ’اَنْشَاْنَا یا ’ایجاد‘ کا لفظ نہیں بولا جاسکتا،اس لیے کہ میں آپ نئی ایجاد نہیں ہیں۔ ’اَنْشَاْنَا کا اصل استعمال یا تو بالکل ہی نئی چیز، یعنی نئی ایجاد پر ہوگا یا پرانی چیز کو از سر نو پیدا کرنے کے معنی میں ہوگا۔یہاں اسے ان دونوں مفاہیم سے تجرید کے لیے کوئی قرینۂ صارفہ موجود نہیں، بلکہ پچھلی سطور کی وضاحت میں کی گئی باتیں، اس میں ایجاد کے معنی کو ثابت کررہی ہیں۔

اسی طرح بچے کے لیے ’خَلْقًا اٰخَرَ[27](دوسری ہی مخلوق) کے الفاظ بھی موزوں معلوم نہیں ہوتے، اس لیے کہ وہ اپنے ماں باپ کے جیسا ہی ہوتا ہے۔فرض کرلیجیے کہ ’اَنْشَاْنَا میں ایجاد کے مفہوم سے تجرید مان بھی لیں، تب بھی ہمارے پیدا ہونے والے بچوں کے لیے ’خَلْقًا اٰخَرَ‘ کا استعمال درست نہیں ہوگا۔اگر کوئی یہ کہے کہ ’خَلْقًا اٰخَرَ‘ کا لفظ طین، نطفہ، علقہ اور مضغہ کے مقابل میں بولا گیا ہےتو ہم یہ عرض کریں گے کہ اس صورت میں پھر ’اَنْشَاْنَا اور ’خَلْقًا اٰخَرَ‘،دونوں کا استعمال چست نہیں رہتا، اس میں غرابت در آتی ہے۔ایسے موقع پر ’جعلنا اور ’خلقنا ہی بہتر ہوتے۔ مثلاً  اگر کوئی کہے کہ میں نے لکڑی سے میز بنائی، پھراس سے پائے بنائے ،پھر اس سے ایک تختہ بنایا اور کیل ٹھونک کر ایک نئی ہی چیز ایجاد کرلی تو اس جملے میں واضح ہے کہ ’’ ایک نئی ہی چیز ایجاد کرلی ‘‘ پائے اور تختہ وغیرہ بنانے کے مقابلے میں نہیں ہو سکتا۔

جن مفسرین نے اس معنی میں لیا ہے، انھیں پھر یہاں روح پھونکنے کا مفہو م لینا پڑاہے،کیونکہ اس سے ’اَنْشَاْنَا‘ کی اس محل میں غرابت دور ہو جاتی ہے ۔ لیکن یہ مفہوم آیت کے قرائن مقالیہ سے نہیں، نظائر قرآنی سے ماخوذ ہے، جو بطور اصول مسلم ہے۔ لیکن یہاں اس کا اطلاق اجتہاد وتدبر کے باب سے ہے،لہٰذاظن اور راے ہے ۔یہ الفاظ کا لازمی اقتضا بھی نہیں ہے کہ اس سے ہٹ کر راے نہ بنائی جاسکے۔ اس کے نظائر بھی قرآن مجید میں نہیں ہیں کہ ’اَنْشَاْنَایا ’خَلْقًا اٰخَرَ‘کو روح پھوکنے کے معنی میں لیا گیا ہو۔

یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ’خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ‘والے ’الْاِنْسَان‘ کے مقابل میں ’خَلْقًا اٰخَرَ‘ کہا گیا ۔ یہ بات بھی درست نہیں لگتی ،اس لیے کہ جس انسان کے بنانے کاذکر یہاں ہوا ہے، وہ انسان تو تھا ہی نہیں۔ یہ جملہ ــــــ  ماضی کی ایک تخلیق کے بارے میں  ــــــ  اس کے بن جانے کے بعد بولا گیا ہے۔ جیسے کہا جائے کہ میں نے لکڑی سے میز بنائی ہے، اور ایک نئی ہی چیز بنا ڈالی ہے۔ اس میں ’’نئی چیز‘‘ کا بیان میز کے مقابل میں نہیں، بلکہ اسی کے بارے میں ہے۔

لہٰذا ’خَلْقًا اٰخَرَ‘ کے معنی یہی ہیں کہ ایسی مخلوق ایجاد کی گئی جس کی مثال پہلے موجود نہیں تھی۔اس کے دو ہی معنی ممکن ہیں کہ انسانوں میں سے نادر انسان پیدا کیا گیا۔ظاہر ہے کہ یہ معنی یہاں لینا ممکن نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ دیگر مخلوقات سے مختلف و نادرمخلوق، یہ بات بالکل صحیح ہے، اور کلام اسی کا متحمل ہے،اس لیے کہ انسان جیسی کوئی مخلوق پہلا انسان بناتے وقت موجود نہیں تھی۔

اوپر کی تفصیل سے واضح ہے کہ سورۂ حج کی آیت عام روز مرہ کی ولادت سے متعلق ہے، خواہ وہ مراحل کو کسی اور پہلو سے بیان کرتی ہو، جب کہ سورۂ مومنون کی آیات ایک نئی مخلوق کی ایجاد اور بتدریج بننے کا عمل واضح کرتی ہیں،جس سے سیدنا آدم کے وجود میں آنے کو ہم مختصرًا جان سکتے ہیں۔ سورۂ مومنون کی ان آیات سے درج ذیل امور تخلیق آدم سے متعلق واضح ہوتے ہیں:

۱۔ مٹی سے کوئی چیز کشید کی گئی؛

۲۔ اس کشیدہ مواد کو نطفہ بنایا گیا؛

۳۔ اس نطفے کو علقہ و مضغہ اور ہڈیوں اور گوشت کے مراحل سے گزارا گیا؛

۴۔ یوں ایک دوسری ہی مخلوق ایجاد کر لی گئی۔

اس کے کچھ نتائج نکلتے ہیں:

O پہلی اصولی آیت ’اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰي... كَمَثَلِ اٰدَمَﵧ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ‘ کےاجمالی بیان کی تفصیل سورۂ مومنون کی آیات قرار دی جاسکتی ہیں کہ مٹی سے بننے کا عمل کیسے ہوا، یعنی:

o  آدم علیہ السلام مٹی کا پتلا کسی صورت میں نہیں بنے، بلکہ مٹی سے بننے کے معنی یہی ہیں جو سورۂ مومنون میں بیان ہوئے ہیں۔

O  مٹی سے آدم بنانے کے لیے پہلی اسٹیج پر نطفہ بنایا گیا تھا۔

o  گویا پہلے مرحلے پر ہی ’مَاءٍ مَهينٍ‘ جیسی کسی چیز کو وجود پذیر کرلیا گیا تھا۔ چنانچہ مادۂ تولید سے نسل کشی (sexual-reproduction) کی بنیاد پہلے ہی دن رکھ دی گئی تھی۔ غالباً یہی بات اس آیت میں کہی گئی ہے کہ نطفہ کے بننے کے بعد ازواج کا معاملہ کیا گیا: ’وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا‘(فاطر ۳۵: ۱۱)۔

 اس لیے یہ بات ماننا درست نہیں ہو گا کہ پہلے انسان خود نسل کشی نہیں کرسکتے تھے۔ہاں، البتہ یہ مانا جاسکتا ہے کہ وہی عمل ہوا ہو جو آج ہمارے ساتھ ہوتا ہے کہ بلوغت سے پہلے تمام انسان نسل کشی کی صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ بالغ ہونے پر ایسا ہوتا ہے۔مطلب یہ کہ غالباً آدم و حوا اپنی تخلیق کے پہلے دنوں میں اولاد جننے کے لائق نہیں رہے ہوں گے، شایدشجرۂ ممنوعہ چکھنے والے واقعے کے بعد یہ صلاحیت پیدا ہوئی ہوگی۔(واضح رہے کہ یہ آخری بات محض قیاس ہے، منصوص بات نہیں ہے، البتہ اس قیاس کی بنیاد منصوص ہے، دیکھیے سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۲۲)۔


دور جدید کے بعض اطلاقات

ہم نے سورۂ نسا ء کی پہلی آیت اور اس کی مماثل آیات میں یہ معنی لیے ہیں کہ اللہ نے ایک نفس سے سب کو بنایا اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نفس واحدہ سے آدم علیہ السلام مراد ہیں تو پھر اماں حوا کیسے بنیں یا دوسر ے لفظوں میں نفس واحدہ کا جوڑا کیسے بنا؟ ذیل میں اسی سوال کو جدید معلومات کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔ ذیل کی تمام باتیں نہ آیات کا ترجمہ ہیں اور نہ تفسیر، بلکہ مذکورہ بالا آیات سے ماخوذ معلومات کا جدید علم کی روشنی میں ایک عاجزانہ اطلاق ہے ۔انھیں اسی معنی میں لیا جائے۔قرآن مجید اس اطلاق کا ذمہ دار نہیں ہے۔

نفس واحد ہ سے جوڑا کیسے پیدا ہوا؟

اللہ تعالیٰ نے آدم وحوا کی تخلیق پودوں کی غذا سے شروع نہیں کی، بلکہ سیدھی مٹی ہی کو کشید کے مرحلے سے گزار کر نطفہ بنایا، یعنی مٹی کو کسی خود کار نظام (مثلاً  ہمارا نظام تولید)سے گزارنے کے بجاے کلمۂ کن کے ذریعے سے پہلا نطفہ تخلیق کیا۔

ذیل میں یہ مراحل قرآن سے پیش کیے جاتے ہیں:

۱۔ مٹی کے کیچڑ سے مٹی کا ’سلالة[28] کشید کیا گیا۔[شاید غیر نامیاتی inorganic مادے سے نامیاتی organic مادہ تشکیل کیا گیا، یا شاید ضروری نمکیات (minerals) وکیمیاوی اجزا(chemicals)وغیرہ الگ کیے گئے۔]’وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّيْ خَالِقٌۣ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ‘ (الحجر۱۵: ۲۸)، ’وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘ (المومنون ۲۳: ۱۲)۔یہی بات سورۂ سجدہ کی آیت 

وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ‘ (۳۲: ۷)بتاتی ہے۔یعنی جس چیز سے انسان کی تخلیق شروع ہوئی، وہ کیچڑ یا مٹی تھی۔ بے جان و بے شعور مٹی سے انسانی تخلیق کا آغاز ہوا۔اس میں نہ جان تھی اور نہ وہ نامیاتی تھا۔غرض یہ کہ اس بے جان مٹی کو اس مرحلے میں نامیاتی مادے اور جان کا حامل بنانے کے لائق کیا گیا۔مٹی کا نچوڑ، خلاصہ، خود اس قابل نہیں ہے کہ اس سے زندہ وجود بنایا جائے، اس لیے اگلے مرحلے میں اسے نامیاتی میں تبدیل کیا گیا،یعنی زندہ اور نمو پانے والا مادہ۔یعنی:

۲۔ اس ’سلالة سے پھر ’نطفة[29]بنایا گیا[غالباً اس کا مصداق وہ زندہ خلیہ ہے، جو جین(genetic-code) کا حامل تھا، اور جین کی رہنمائی میں پروان چڑھ(grow) کر انسان بن سکتا تھا [’...خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ. ثُمَّجَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ ‘(المومنون ۲۳: ۱۲ - ۱۳)۔یہی وہ مرحلہ ہےجس کی طرف، عمومی بیان میں، ایک دوسرے زاویے سے ، سورۂ سجدہ میں ’ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ‘  (السجدہ۳۲: ۸)کے الفاظ سےاشارہ کیا گیا ہے، کیونکہ جب مٹی سے نطفہ بن گیا، جس میں جینیاتی کوڈ تھا تو اب وہ اپنی نسل جاری رکھنے کے لائق ہو گیا تھا۔ لہٰذا جب مٹی سے نطفہ بنالیا گیا تو نسل کشی کا آغاز ممکن ہو گیا۔

۳۔پھر یہ نطفہ (genetically coded growable cell) قرار مکین میں رکھا گیا۔ ’ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ ‘(المومنون ۲۳: ۱۳)۔ یہ نطفہ کو محفوظ مقام پر پرورش کے لیے رکھنا ہے۔ بچہ بننے تک اس کے سارے مراحل یہیں مکمل ہونے ہیں۔گویا بیج سے طفل تک کے لیے یہ اس کا گہوارہ ہوتا ہے۔ جہاں بیرونی خطرات سے اس کی حفاظت ہوگی اور خوراک و ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔یہ قرار مکین غالباً کھنکھناتی مٹی سے تعمیر کیا گیا تھا۔کھنکھناتی مٹی ترجمہ ہے ’خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ‘ (الرحمٰن ۵۵: ۱۴) کے ’صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ‘ کا۔ لیکن بعض جگہوں پر ’صَلْصَال چکنی مٹی کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جس میں خمیر اٹھنا آسان ہوتا ہے: ’وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(الحجر۱۵: ۲۶)۔ ’صَلْصَال وہ مٹی ہے جو برتن بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔[30]اس سے ذہن اس طرف بھی جاتا ہے کہ یہ کیچڑ جس سے انسان کا نطفہ بنایا گیا، وہ اس مٹی کا کیچڑ تھا جس مٹی سے برتن بنائے جاتے ہیں۔اس صورت میں ’صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِمیں ’فَخَّار ٹھیکرے کے بجاے ٹھیکرے کی مٹی کے معنی میں استعمال ہوگا۔

۴۔اس قرار مکین میں یہ مختلف اطوار سے گزرتا ہوا انسان کا روپ دھار لیتا ہے: ’ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاﵯ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ‘ (المومنون۲۳: ۱۴)۔ [31]

یہی وہ مرحلہ ہے جب اس نطفے کی نشوونما کے دوران میں کسی مرحلے پر نفس واحدہ سے اس کاجوڑا بنالیا گیا ۔ ذیل میں نفس واحدہ سے اس کے جوڑے کی تخلیق کو میں ایک صورت دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ کوئی حتمی صورت نہیں ہے، محض بات سمجھنے کی ایک کوشش ہے ۔ آیات اگر قبول نہ کریں تو ہماری اس توضیح کو رد کرنا ہوگا، اس لیے کہ قرآن اصل ہے ۔اس لیے بھی کہ نفس واحدہ سے پیدا کرنے کا سارا یہ معاملہ اصلاً امر متشابہ[32] ہے۔اگر اللہ یہ کہہ دیتے کہ میں نے پسلی سے بنایا ہے تو میں اسی کو مانتا، اس لیے کہ قول اللہ کے بعد کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

جدىد درىافتوں کى روشنى مىں،[33] الفاظ کے واضح تر مفہوم پر قائم رہتے ہوئے،اگر سمجھا جائے تو شایدىوں ہوا کہ پہلے انسان کو وجود دىنے کے لىے نفس واحدہ بنانے کا عمل شروع ہوا،پھر اس مقصد کے لیے زمىن پر کسى سىاہ، بدبودار کىچڑ مىں، ىعنى رحم ارضى مىں پہلے مٹی سے ضروری چیزیں کشید کی گئیں: ’سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘ (المومنون ۲۳: ۱۲)،یعنی مٹی کے خلاصے سے۔ پھر اس کی نسل کو مادۂ تولید سے جاری کرنے کے لیے اسی مٹی کے خلاصے کو نطفے کی صورت دی:

 ’ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً‘ (المومنون۲۳: ۱۳) ۔ اس نطفے کو کھنکھناتی مٹی کے حصار[34]فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ(المومنون۲۳: ۱۳)میں رکھا۔ اس نطفے کى نشوو نما شروع ہوئى[35] (المومنون۲۳: ۱۴)، جىسے آج رحم مادر مىں ہوتى ہے۔اس نشوونما کے دوران مىں اس کا جوڑا اس سے الگ کرلىا گىا ۔ 

 تصوىر سے ىہ بات واضح کی گئی ہے کہ آدم کى پسلى سے حوا کے پىدا ہونے کا عمل کیسے ہوا تھا،وہ یوں کہ نفس واحدہ کے پہلو سے دوسرا وجود پیدا کیا گیا ہے۔احادیث اور تورات میں پسلى بول کر شاىد ىہى مراد ہے۔ دونوں دراصل اىک دوسرے کى ’پسلى‘، یعنی پہلو سے پىدا ہوئے۔ میرے خیال میں نفس واحدہ کو نہ آدم کہا جاسکتا ہے اور نہ حوا، اس لیے کہ یہ دونوں مٹی سے بنےہوئے نطفے کی تقسیم سے بنے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ خود قرآن نے آدم نہیں کہا، بلکہ نفس واحدہ بولا ہے۔یوں قرآن کے الفاظ کے عین مطابق(literally) آدم و حوا بھی نفس واحدہ سے بنے ہیں۔

پہلا انسان اسی طرح زمین کی کوکھ اورگود میں بڑا ہوا، جس طرح ہم آج رحم مادر اور اس کے بعد مہد مادرمیں پلتے بڑھتے ہیں۔

چند سوالات

سوال۱: نفس بہ معنی جنس

ہماری اس راے کے خلاف ایک یہ سوال کیاجاسکتاہے کہ ’نفس‘ کو جنس کے معنی میں کیوں نہیں لیا گیا، جب کہ زمخشری جیسے آدمی نے لیا ہے؟

اس کے جواب  سے پہلے  عرض ہے کہ میرا اصول یہ ہے کہ صرف لفظ کی نہیں، کلام کی حاکمیت مانی جائے ، الفاظ کو جس کلام کی شکل میں ڈھالا گیا ہے، اس کلام کے فطری بہاؤ کے ساتھ بہنا چاہیے، نہ کہ اپنی منطق سے کلام کو توڑ توڑ کر دیکھا جائے۔

 پہلے لغوی طور پر جان لیجیے کہ پورے ذخیرۂ عربی میں ’نفس بہ معنی جنس نہیں آتا۔لیکن ہم بات پر غور کرنے کے لیے بہ فرض محال اس معنی میں لے لیتے ہیں۔اس بات کے بعد اب آیت میں اس کے امکان کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں:

۱۔ ’وَخَلَقَ مِنْها زَوْجَها‘ کے جملے میں ’مِنْهَا‘ کے معنی ’’اس کی جنس سے‘‘ کے کیے جائیں۔ ہماری راے میں یہ عربیت کی رو سے ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ ’مِنْهَا‘ کی ضمیر کا مرجع  ’نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ[36] ہے۔ جو معنی ’نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘ کےہوں گے، وہی ’مِنْهَا‘کی مؤنث ضمیر کے ہوں گے۔ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘ کے معنی اگر فرد کے ہیں تو ’هَا‘ کے معنی بھی فرد کے ہوں گے۔ اس کے معنی نوع کے ہیں تو ’ها کے معنی بھی نوع کے ہوں گے، کیونکہ ضمیر اور اس کے مرجع میں مغایرت نہیں ہو سکتی۔لہٰذا ’مِنْهَا‘ کے ’هَا  سے نوع کا مفہوم لینا غلط ہے۔

۲۔علامہ زمخشری نے دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کی ہے: ’وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا (النحل ۱۶: ۷۲) ۔یہ شاہدevidenceبہ غرض دلیل درست نہیں ہے، ا س لیے کہ یہ دونوں آیات ہم اسلوب نہیں کہ ایک دوسرے کی دلیل بن سکیں۔ سورۂ نساء کی آیت یہ نہیں ہے کہ ’وَخَلَقَ مِنْ نَفْسِها زَوْجَهَا[37]بلکہ جملہ یہ ہے کہ ’وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘،یعنی آیت میں خط کشیدہ ’نَفْس کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔زمخشری والے معنی لینے کے لیے نَفْس کو لفظوں میں دوبارہ آنا چاہیے۔ کیونکہ ’مِنْهَا کی ضمیر جس ’نَفْس کی طرف راجع ہے ،اس کے معنی نوع نہیں ، فرد ہیں ۔ لہٰذا اگر ’مِنْهَا میں ’هَا کا مطلب نوع ہے ، توپہلے جملے ’خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘میں ’نَفْس‘ کواسی معنی میں لینا ہوگا۔ جب پہلے جملے میں ’نَفْس کا ترجمہ ’نوع‘ نہیں کیا گیا اور نہ کیا جاسکتا ہے تو دوسرے جملے ’وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘کے مِنْهَا‘ کا یہ ترجمہ کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ مِنْهَامیں هَانفس واحدہ کی طرف راجع ہے۔

۳۔  علامہ زمخشری کی اس راے کے دفاع میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں ’مِنْ‘ اور هَاکے درمیان ’نَفْس  کا لفظ مقدر یا محذوف ہے،یعنی قرآن کا جملہ یوں ہے : خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَة وَخَلَقَ مِنْ نَفْسِهَا زَوْجَهَا ‘۔ بیان کردہ حذف کو خط کشید کردیا گیا ہے۔ یہ جملہ تو زیادہ شدت کے ساتھ جنس کے بجاے فرد ہی کی طرف دلالت کرے گا، کیونکہ ’نَفْس‘ کے یوں لانے سے ’عین‘ کا مفہوم پیدا جائے گا۔ مطلب یہ بن جائے گا کہ ’عین اسی ’نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘سے اس کا جوڑا پیدا کیا‘۔

لیکن ہم مان لیتے ہیں کہ ’نَفْس یہاں جنس کے معنی دے رہا ہے،تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے قرائن یا کلام کے تقاضے ہیں جو اس حذف کا تقاضا کررہے ہیں۔بلکہ سچی بات ہے کہ مذکورہ بالا تینوں آیات میں ایسے قرائن واضح طور پر موجود ہیں کہ جو فرد کے معنی کی طرف دلالت کرتے ہیں۔مثلاً  آیت میں دیکھیے: ’خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَآءً ‘۔اس کے تمام ’مِنْ نَّفْسٍ ‘، ’مِنْهَا‘، اور ’مِنْهُمَا‘ دیکھ لیجیے ایک ہی محل اورطرز پر آئے ہیں۔ آیت کا واضح رجحان ’ایک سے دوسرے کو پیدا کرنے‘ کی طرف ہے۔ ’تم سب کو نفس واحدہ سے ، اس کے جوڑے کو بھی اسی سے اور پھر تم سب کو ان دونوں سےپیدا کیا‘ کا مضمون غالب ہے۔بیچ میں اس کی جنس سے پیدا کرنے کا مفہوم اکھڑا اکھڑا ہے۔

یعنی پہلے جملے ’خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘میں ’خَلَقَ مِنْ‘ ہی کے الفاظ ہیں ، وہاں ہم نے ’’اس سے بنانے‘‘ کے معنی لیے ہیں تو اس کے بعد وہ کون سا قرینۂ صارفہ ہے جو ’وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘میں ’خَلَقَ مِنْ‘ کودوسرے مفہوم پر لے جا رہا ہے۔دونوں جگہ ’خَلَقَ مِنْ نَفْسٍ‘ اور ’خَلَقَ مِنْهَا‘، بالکل یکساں اسلوب اور موقع و محل میں ہیں۔ بلکہ آگے ’وَبَثَّ مِنْهُمَابھی اسی معنی میں ہے۔ بس ایک خارجی تصور ہے جو دوسرے معنی کی طرف لے جارہا ہےکہ اس سے ’’حوا پسلی سے پیدا ہوئی ‘‘ماننا ہوگا،جو ایک اسرائیلی تصور ہے اور عقلاً بھی کوئی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔میں اس کا قائل ہوں کہ خارجی حقائق معنی کے تعین میں مدد دیتے ہیں،لیکن یہاں وہ موثر ہی نہیں ہے، بالخصوص جب خارجی تصور بھی ظنی الثبوت ہو۔

زمخشری کے لیے اب ایک ہی صورت ہے کہ دونوں جگہ ’نَفْس نوع کے معنی میں لیں ۔دونوں جگہ ’نَفْس بہ معنی نوع لینے سے ترجمہ کچھ یوں ہو گا:

’’اس نے تم سب کو ایک ہی نوع سے پیدا کیا، پھر اسی نوع سے اس نوع کا جوڑا بنایا۔‘‘

محض اس ترجمہ سے ہی اس کی غلطی واضح ہے کہ یہ بات ہی بے معنی ہے،اس لیے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

۴۔ زمخشری نے جس آیت: وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا (۱۶: ۷۲) سے لفظ ’اَنْفُس میں نوع کے معنی ثابت کیے ہیں ، اس میں بھی ’نوع‘ کے معنی لینا ممکن نہیں، اس لیے کہ آیت میں ’اَنْفُس جمع ہے، زمخشری اسے واحد لے رہے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’مِنْ اَنْفُسِكمْ: من جنسكم (الکشاف ۲/ ۶۲۰)۔[38] اگر ’اَنْفُس کی جمع کا خیال رکھا جاتا تو معنی یوں بتائے جاتے: ’مِنْ اَنْفُسِكمْ: من أجناسكم![39]،جس سے زمخشری اپنی غلطی پکڑپاتے۔

اَنْفُس کی جمع کےپیش نظر ترجمہ یوں ہوگا: ’’اللہ نےتمھارے لیے تمھاری جنسوں میں سے بیویاں بنائیں‘‘، مضحکہ خیز ہے۔اس کے قطعی معنی ہوں گے:’ تم سب کی نوع الگ الگ ہے ، اور ہر ایک کی بیوی اس کی اپنی نوع سے ہے‘۔سب کے نوع واحد پر پیدا کرنے کا مفہوم غارت ہو جائے گا۔

جب جمع کی ہم جمع کی طرف اضافت کرتے ہیں تو ان کے معنی واحد نہیں لیے جاسکتے ،اگر کوئی ایسا کردے توجملوں کے معنی بدل جائیں گے۔ اس طرح آنے والی جمع کا عموماً یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہر مضاف الیہ کے لیے وہ چیز الگ الگ مانی جائے ، مثلاً  ’أزواجكم‘ (تم سب کی بیویاں) یا ’أبناؤكم (تم سب کے بیٹے)يا أنواعكم ‘: (تمھاری اقسام)، یعنی جتنے ’كُمْ ہیں، کم از کم اتنی بیویاں اتنے ہی بیٹے ، اور اتنی ہی انواع و اقسام ہوں گی، سواے اس کے کہ کلام یا موقع و محل میں ایسا کوئی قرینہ ہویا جمع کا لفظ واحدکے معنی دیتا ہو۔ ایک اور مثال دیکھیے:

اللہ نے تمھاری کتاب میں ہدایت اتاری ہے۔

اس جملے میں ہم ایک ہی کتاب (قرآن)مراد لے سکتے ہیں۔ اب یہی جملہ کتاب کی جمع کے ساتھ دیکھیں:

اللہ نے تمھاری کتابوں میں ہدایت اتاری ہے۔

یہاں اب ’ کتابوں‘ کو آپ ایک ہی کتاب کے معنی میں نہیں لے سکتے، بلکہ تورات، انجیل اور زبور وغیرہ شامل ہو جائیں گی۔ایسا ہی جملہ زیر بحث آیت میں ہے کہ ’’اللہ نے تمھارے نفوس سے تمھارے جوڑوں کو پیدا کیا‘‘۔ ’نفوس‘ کے جو بھی معنی ہوں، اس سے ’’ایک نفس ‘‘ہرگز مراد نہیں ہوسکتا۔یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ’مِنْ اَنْفُسِكُمْ‘ کا مطلب نوع نہیں ہے،یعنی تمھاری بیویاں خودتم میں سے پیدا کی گئی ہیں۔اسی معنی میں جس معنی میں التوبہ کی اس آیت میں ’اَنْفُس آیا ہے: ’جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ‘، ’’تمھارے پاس خود تم میں سے ایک رسول آیا ہے‘‘(۹: ۱۲۸)۔ذرا غورکیجیے، جب نفس واحدہ سے بیوی پیدا کی گئی تو وہاں واحد ضمیر مِنْهَا آئی، اور جب ہماری بیویوں کی بات ہوئی جو تعداد میں زیادہ تھیں تو ان کے لیے نفسکے بجاے ’اَنْفُس‘ آیا ، اور ’هَا کے بجاے ’كُمْ آیا، اس لیے کہ جملہ نوع بتانے کے معنی ہی نہیں رکھتا۔ یہ بات کہنا بھی غلط ہو گا کہ نفس ضمائر کے لحاظ سے واحد یا جمع لایا جائے تو اصل بات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

قرآن میں ’مِنْ اَنْفُسِكُمْ‘ کئی مقامات پر آیا ہے، جس کے معنی تمھارے اندر سے، تم خود، تمھارا اپنا آپ ،تمھارے اپنے لوگ، وغیرہ کے آتے ہیں۔ مثلاً ’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ‘ [40] (التوبہ۹: ۱۲۸)، ’ ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ‘ (الروم۳۰: ۲۸)، یہ دونوں مثالیں ’مِنْ کے ساتھ ’اَنْفُس کی تھیں، اب دو ایک مثالیں ’اَنْفُس کی ’مِنْ کے بغیر بھی دیکھ لیں: ’وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّا٘ اَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ‘ (البقرہ۲: ۹)، ’وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ‘ (البقرہ۲: ۸۴)، ’ثُمَّ اَنْتُمْ هٰ٘ؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِيْقًا مِّنْكُمْ (البقرہ۲: ۸۵)۔ان سب مقامات پر ’اَنْفُسَكُمْ’’ تمھارے اپنے افرادیا نفوس‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔ کہیں بھی ’نوع‘ کے معنی میں نہیں آیا۔ زمخشری کی شاہد آیت وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا (۱۶: ۷۲) میں بھی اسی معنی میں ہے۔

لہٰذا علامہ زمخشری کا پیش کردہ شاہد نہ اسلوب میں یکساں ہےاور نہ ’اَنْفُس کے جمع ہونے کی وجہ سے وہ وحدت نوع کےمعنی رکھتا ہے، اور نہ ’نَفْس کا لفظ نوع کے معنی ہی میں آتا ہے۔ چنانچہ واضح ہوا کہ تمام انسان ایک ہی فرد سے پیدا ہوئے۔ اس طرح کہ خود اسی فردسے اس کا جوڑا بنایا گیا، اور پھر اس جوڑے سے تمام انسان پیدا کیے۔لہٰذا ، یہ کہنا کہ اس کا جوڑا الگ سے بنایا گیا، اس کی قرآن واضح تردید کرتا ہے۔

اگر علامہ زمخشری یہ کہتے کہ وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا (۱۶: ۷۲) کے پورے جملے :’’تمھاری ازواج تم میں سے بنائی گئی ہیں ‘‘میں یہ پہلو بھی پیش نظر ہے تمھاری بیویاں تمھارے جیسی ہیں، تو یہ بات درست ہوتی ، لیکن یہ بات درست نہیں کہ اس جملے کامطلب یہ ہے کہ ’’تمھاری بیویاں تمھاری جنس سے بنائی گئی ہیں‘‘۔ عربیت اور زبان کاذوق رکھنے والے دونوں کا فرق سمجھ سکیں گے۔اس صورت میں  ترجمہ وہی ہو گا کہ اللہ نے تم میں سے تمھاری بیویاں پیدا کیں، لیکن یہ پہلو بھی مراد ہو گا کہ وہ تمھارے ہی جیسی ہیں۔ لیکن یہ جملہ صرف اس پہلو کا حامل نہیں ہے، بلکہ یہ سورۂ نحل میں صلب ورحم کے لیے اور سورۂ روم (۳۰: ۲۱) میں انس و موانست کے لیے  اور سورۂ شوریٰ(۴۲: ۱۱) میں تخلیق کی حکمت کو بیان کرنے کے لیے آیا ہے۔کہیں بھی نوع یا جنس کے بیان کے لیے نہیں آیا۔

سوال۲: لفظوں میں بیان ہونا

 یہاں کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ تم جو اتنا زور لگا رہے ہو کہ آدم علیہ السلام ماں باپ کے بغیر پیدا ہوئے ، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ قرآن مجید میں کہیں لفظوں میں تو یہ نہیں بیان ہو ا کہ ان کے ماں باپ نہیں تھے؟

عرض یہ ہے کہ اس سوال کی بناے استدلال درست نہیں ہے۔ہر بات کا لفظوں میں بیان ہونا لازم نہیں ہے۔ ہر جملے کے کچھ متضمنات و لوازم ہوتے ہیں،وہ کلام میں نہ ہونے کے باوجودکلام کا حصہ ہوتے ہیں، اور اگر وہ کلام میں مقصود بھی ہوں تو پھر تو وہ کلام کا لا بدی حصہ بن جاتے ہیں۔لہٰذا جب یہ کہا گیا کہ آدم کو کلمۂ کن کہہ کر مٹی سے پیدا کیا تو اس کا لازمی اقتضا ہے کہ حضرت آدم کے والدین نہیں تھے۔حضرت عیسیٰ کے مثیل بتاتے وقت تو یہ مطلوب ومقصود ہے، اس لیے وہ لابدی نتیجہ واقتضا ہے،جسے کلام کا حصہ مانا جائے گا۔اب یہ غیر منطوق (unsaid) ہوتے ہوئے بھی منطوق کے محل میں ہے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کے لیے بھی پورے قرآن مجید میں یہ کہیں لفظوں میں بیان نہیں ہوا کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے۔وہاں بھی بس یہی کہا گیا ہے کہ مریم پر کلمۂ کن کے القا سے پیدا ہوئے یا یہ بہ زبان حضرت مریم کہا گیا ہے کہ میرے بیٹا کیسے پیدا ہوگا، مجھے تو کسی انسان نے چھوا تک نہیں ہے۔ ا ن دونوں باتوں کا لازمی اقتضا ہے کہ حضرت عیسیٰ کو بن باپ کے مانا جائے۔

ہمارےخیال میں تو  سورۂ حجرکی یہ آیت یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ آدم نہ صرف براہ راست مٹی سے پیدا ہوئے، بلکہ ماں باپ کے بغیر پیدا ہوئے:

 ’ اِنِّيْ خَالِقٌۣ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ. فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ (الحجر۱۵: ۲۸- ۲۹)۔

سوال ۳:جنس کا ’مِنْ

یہ ہم مان لیتے ہیں کہ نفس کے معنی جنس کے نہیں ہوتے، اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ’خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘ میں ’مِنْهَا‘ کی ضمیر مجرور نفس واحدہ کی طرف راجع ہے، لیکن اگر ’مِنْهَا‘ کے ’مِنْ‘ کو جنس کا لے لیا جائے تو کیا حرج ہے؟

یہ محض دعویٰ ہو گا کہ سورۂ نساء کی پہلی آیت کے اس جملے: ’

خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘میں ’مِنْهَا ‘کا ’مِنْ‘ جنس کا ہے۔[41]  یہ بات جان لیجیے کہ زبان میرے خیال میں جب تک کلام کے طور پر نہ لی جائے تو وہ فیصلہ کن نہیں ہوتی۔ یہ مفسرین کو متعین نہیں کرنا کہ مثلاً  یہاں ’مِنْ‘ابتداے غایت کا ہے یا بیان وجنس کا ہے، یہ اضافت کا ہے یا سلب ماخذ کا ہے۔ یہ کلام کے بہاؤ نے طے کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے بتانا پڑتا ہے کہ کلام میں وہ کیا قرائن اور  indications ہیں جو اس ’مِنْ‘ کو اس معنی میں لینے پر مجبور کررہی ہیں۔

 اہل لغت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حروف ’فِيْ نَفْسِهَا‘ معنی نہیں دیتے، بلکہ اپنے غیر سے جڑ کر معنی دیتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ’مِنْ‘ کے معنی جنس کے تب لیے جاسکتے ہیں جب اس کا مجرور جنس کے معنی اسے عطا کرے یا سیاق و سباق اس پر مجبور کرے۔ایسے ہی، اپنی مرضی سے کسی ’مِنْ‘کو جنس کا نہیں کہا جاسکتا۔ تو پہلی بات یہ ہے کہ آیا اس کا مجرور اسے جنس کے معنی دے رہا ہے؟ اس کا مجرور تو اس جملے ’خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘ میں پہلی مؤنث ضمیر ’هَا‘ ہے، جس کا مرجع ’نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ہے۔ اگر نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ فرد ہے، تو وہ ’مِنْ‘ کو ’’فرد سے‘‘ کے معنی دے گا اور اگر جنس ہے تو ’’جنس سے ‘‘ کےمعنی دے گا۔ بالبداہت واضح ہے کہ یہاں ’مِنْهَا‘ میں ’هَا‘ کا مرجع فرد ہے۔ لہٰذا یہاں جنس کے معنی میں ’مِنْ‘ نہیں لیا جاسکتا۔

من للجنس کی جو مشہور مثال دی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ’يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ‘،[42] ’’وہاں انھیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے‘‘۔تو اس کو اس لیے جنس کہا گیا ہے کہ کنگن کئی قسم کے ہوسکتے ہیں، مثلاً  سونے ،چاندی، پیتل وغیرہ کے،تو بتایا گیا کہ پہنائے جانے والے کنگن چاندی وغیرہ کے نہیں، بلکہ سونے کے ہوں گے، یعنی وہ اپنی نوع میں سونے کے ہوں گے۔اس صورت میں اس کی نفی نہیں ہوتی کہ وہ چیز اس سے بنی ہوئی نہیں ہے۔تو دوسری بات یہ ظاہر ہوئی کہ اگر یہ ’مِنْ‘ جنس کا بھی ہے تو اس سے یہ نفی نہیں ہوتی کہ یہ جوڑا نفس واحدہ سے بنا ہوا نہیں ہے،اس لیے اسے ’مِنْ‘ جنس کا کہنا اور اس سے یہ استدلال کرنا غلط ہوگا کہ نفس واحدہ سے اس کا زوج نہیں بنایا گیا۔

تیسری بات یہ کہ چونکہ زیر بحث جملہ : ’خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘تخلیق سے متعلق ہے، اس لیے اسی جملے میں ’خلق لکھ دیں : يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ خلقت مِنْ ذَهَبٍ‘، اب اسے جنس کے معنی میں لے جانے کی کوشش کریں؟اب آپ ’مِنْ‘ کو جنس کے معنی میں لے ہی نہیں سکتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ’خلقت من ذهب‘ کا پورا جملہ نوع بتانے کے لیے آگیا ہے،لیکن اب ’مِنْ‘ جنس کا نہیں ہے۔لہٰذا ’خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘کے معنی بس یہی ہیں کہ اس کے جوڑے کو اسی سے پیدا کیا گیا، کیونکہ یہاں ’خلق موجود ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اگر یہ ’مِنْ‘ جنس کا ہے، تو پھر ’مِنْ‘ کا ترجمہ صرف ’’ سے ‘‘ہی ہونا چاہیے، اور اسے جنس کے معنی دینے چاہییں۔ جنس کا لفظ بڑھانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ مثلاً  انسان حیوانات میں سے ہے۔ صرف ’’سے ‘‘ہی نوع یا جنس کو بیان کررہا ہے۔جب ’’سے‘‘ کے ساتھ ترجمہ جنس کے معنی نہ دے اور آپ کو اس میں ’’جنس ‘‘ کے لفظ کا اضافہ کرنا پڑے تو جان لیجیے کہ آپ کلام کے ساتھ زبردستی کر رہے ہیں اور کلام کی حاکمیت ماننے سے گریزاں ہیں۔چنانچہ اس زبردستی کے لیے  خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘ کا ترجمہ کیا گیا: ’’اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا‘‘۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ’’سے ‘‘بھی موجود ہے اور ’’جنس ‘‘بھی۔جنس کا لفظ نکال کر دیکھیے کہ آیا یہ جملہ جنس کے معنی دیتا ہے؛ بالکل نہیں ۔

سوال ۴:  قرآن کے براہ راست مخاطبین کی واقفیت

تم نے جدید اطلاقات پر بات کرتے ہوئے لفظوں کے بعض ایسے معنی لیے ہیں جن سے عرب واقف نہیں تھے۔ دوسرے یہ کہ یہ فکر فراہی کی اپروچ نہیں ہے۔

سوال کی پہلی  بات اس وقت درست ہو سکتی تھی[43]  کہ جب قرآن مجید اللہ کی کتاب نہ ہوتی۔ قرآن مجید نے کئی ایسی باتیں کی ہیں جن سے وقت نزول کے مخاطبین تو درکنار ، ہم آج بھی واقف نہیں ہیں۔کلمۂ کن کیسے عمل کرتا ہے، ہمیں نہیں معلوم،خود اللہ کا کلمۂ کن بولنا، یہ کیسے ہوتا ہے، نامعلوم ہے،اور یہ کہ الفاظ خداوندی انسانی زبانوں کے الفاظ جیسے ہوتے ہیں یا کچھ اور،[44] ’سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ‘ مٹی کا یہ کشیدکیا تھا اور کیسے کشید کیا گیا تھا، ہمیں نہیں معلوم ، میٹھے پانی سے مونگے (corals)  نکلتے ہیں، عرب نہیں جانتے تھے، ’بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا‘ نامعلوم ہے، پہاڑوں کا یہ کام ہم نہیں جانتےکہ وہ زمین کو لڑھک جانے سے روکے ہوئے ہیں، آج بھی ہمیں معلوم نہیں، ’اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ‘ سے عرب واقف نہیں تھے، آج بھی ہم کچھ ہی سے واقف ہیں، قرآن مجید نے بتایا تھا کہ میٹھے اور کھاری پانی کے درمیان ایک آڑ ہوتی ہے، عرب اس آڑ کونہیں جانتے تھے کہ کس وجہ سے ہوتی ہے۔ چیونٹیوں کی کوئی بولی ہوتی ہے، چیونٹیاں اور ہدہد انسانوں جیسی باتیں بھی نوٹ کرسکتے  ــــــ   کہ بادشاہ کی فوجیں چیونٹیوں کو کچل دیا کرتی ہیں، اور بلقیس کی صورت میں قوم پر ایک عورت حکمرانی کرتی ہے  ــــــ  کس کو معلوم تھا؟ آسمان کسی زمانے میں دھوا ں تھا وغیرہ بے شمار ایسی باتیں قرآن مجید میں موجود ہیں، جو قرآن کے اولین مخاطب کے لیے بالکل نئی تھیں۔

اس استدلال کا دوسرا رخ بھی یہیں واضح کردوں کہ یہ فکر فراہی سے باہر نہیں ہے کہ آپ قرآن کے بیانات کے سائنس کی روشنی میں مصداق متعین کرنے کی کوشش کریں، اور ایسا مصداق طے کریں  جس سے اولین مخاطب واقف نہیں تھے۔ طوالت کے خوف سے میں صرف چند ایک حوالوں تک محدود رہوں گا۔ مولانا اصلاحی مرحوم اور استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی دامت برکاتہٗ، دونوں نے یہ کام کیا ہے۔ ان دونوں کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ فکر فراہی سے باہر تھے یا ان کو فکر فراہی کی سمجھ ہی نہیں تھی۔ مثلاً  ’ثُمَّ اسْتَوٰ٘ي اِلَي السَّمَآءِ وَهِيَ دُخَانٌ‘ میں دھوئیں کو متعین کیا ہے:استاذ گرامی کے مطابق ’دھوئیں‘ سے مراد وہ غبار ہے جسے سائنس کی اصطلاح میں نبیولا (nebula) یا سحابیے کہا جاتا ہے ۔اسی طرح ’وَاَلْقٰي فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ‘میں ’تَمِيْدَ بِكُمْ‘کو جدید سائنس کی روشنی میں متعین کیا ہے۔ استاذ گرامی لکھتے ہیں کہ غالباً وہی چیز ہے جسے جدید سائنس میں ’isostasy‘ کہا جاتا ہے۔سورۂ رعد کی آیت ’بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا میں استاذین نے ان ستونوں کو کشش ثقل قرار دیا ہے۔[45] اس لیے اگر کوئی نطفہ کو sperm ، یا خلیہ اور نطفہ امشاج کے مصداق کو zygote سے متعین کرے تو وہ فکر فراہی سے باہر نہیں ہو گا،اس لیے کہ دو اکابرین فکر فراہی کی یہ روش ثابت شدہ ہے۔

ایک اور بات صرف اشتباہ زائل کرنے کے لیے عرض کردوں کہ نطفہ کے معنی جو بھی ہوں، اگر کسی چیز کے لیے زبان میں لفظ موجود نہ ہو تو اس چیز سے مماثل چیزوں کے لیے مستعمل لفظ کو اس کے لیے استعمال کرلیا جاتا ہے، جو اسی جیسی ہو، خواہ لفظ کے معنی وہ نہ ہوں تب بھی ۔ مثلاً  اگر پرانے زمانے میں ہمیں بلب کا تعارف کرانا ہوتا تو ہم اسے چراغ ہی کہتے کہ ایک زمانہ آئے گا کہ چراغ بغیر تیل کے جلیں گے، حالاں کہ چراغ میں بلب کے معنی نہیں ہیں۔ایسا ہی ’نطفة اور ’سلالة عربی زبان میں واحد ایسے الفاظ تھے جو ان غیر موسوم (unnamed) چیزوں کے لیے استعمال ہو سکتے تھے۔اس کی دلیل سورۂ مومنون کی آیت۱۴ میں ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ ’

نطفة کو ’علقة بنایا، ہم جانتے ہیں ’نطفة جب تک کہ بیضہ سے نہ ملے ’علقة کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ عربوں کے پاس اس کا کوئی نام نہیں تھا، قرآن نے پانی کے پاس پائے جانے والے ایک جان دار  علقہ(جونکleech )سے مشابہت کی بنا پر اسے اسی کے نام سے موسوم کردیا ہے۔اسی طرح سورۂ دہر کے ’نطفة أمشاج (۷۶: ۲) سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نرو مادہ کے نطفوں کے ملاپ سے وجود پانے والے خلیے  zygoteکوبھی نطفہ ہی کہا گیا ہے، اس لیے کہ ان کے لیے مناسب ترین اور قریب ترین لفظ ’نطفة ہی عربی میں موجود تھا۔ ’مضغة (لقمہ) کا لفظ بھی اسی اصول پر استعمال ہوا، جب کہ عربی زبان میں وہ fetus کے مراحل کے لیے مستعمل نہیں تھا۔ ان تصریحات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نطفہ بول کر اللہ تعالیٰ وہی آب تولید مراد لے رہے ہیں، جس میں انسان بننے اور پھر نسل کشی کی صلاحیت ہوتی ہے ۔

جیسا ہم نے عرض کیا ’علقة اور ’مضغة کے الفاظ اسی اصول پر استعمال ہوئے ہیں، جب کہ وہ fetus کے مراحل کے لیے مستعمل نہیں تھے۔ عربی میں یہ دونوں لفظ جنین، یعنی embryoکی کسی اسٹیج کے لیے مستعمل نہیں تھے۔ قرآن مجید نے استعمال کردیا۔ اب عربی زبان و ادب اس سے خالی ہونے کےباوجود اس کا امتدادی اطلاق کرنا پڑے گا۔’علقةجونک کو کہتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ کو دیکھیے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ’علقة کے قرآن مجید کی اس آیت میں معنی ہیں: ’دم عبیط بعد النُّطْفَة‘، یعنی نرم یا بے حس و حرکت خون، جو نطفہ کے بعد بنتا ہے۔’علقة کے یہ معنی انھوں نے جونک کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے قیاس سے کیے، زمخشری اور جلالین نے کہا: ’دم جامد، جما ہوا خون، یہ ’علقة (جونک)کی ظاہری شکل و صورت یا حالت پر قیاس تھا کیونکہ وہ خون کا نرم اور جمے  ہونا دونوں کی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہے، کیونکہ وہ ’عبیطہے، ہڈی کے بغیر نرم اور جیلی نما ہے، لیکن خون ہی خون ہے، لیکن بہتا نہیں ہے، اس لیے اسے جامد کہا گیا۔

دور جدید کے مفسر صابونی نے لکھا: ’وهو الدم الجامد الذي یشبه العلقة التي تظهر حول الأحواض والمیاہ‘  کہ رحم مادر کا ’علقةوہ جامد خون ہے جو جونک کے مشابہ ہوتا ہے جو پانیوں اور تالابوں کے کناروں پر پائی جاتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ جنین کی وہ حالت ہے جب ایمبریو رحم مادر کے ساتھ جونک کی طرح چپک جاتا ہے کہ ماں کے خون سے خوراک حاصل کرے تو کیایہ لفظ سے تجاوز ہوگا؟ ہرگز نہیں، بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اس زمانے میں ’علقة کا لفظ استعمال کرکے جو استعارہ کیا گیا تھا، وہ اس بات کے لیے تھا کہ جنین پر ابتدائی مراحل میں یہ اسٹیج آتی ہے کہ وہ جونک کی طرح رحم مادر سے چپک جاتا ہے۔ اب دیکھیے، میں ’علقة کے لیے یہی جدید تعبیر استعمال کرلوں گا، ماں کے رحم میں چپکنے کا یہ عمل دسویں دن ہوتا ہے، پرانے لوگ اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتے تھے، اس لیے کہ اس وقت اس کا سائز تقریباً خشخاص کے دانے جتنا ہوتا ہے۔

اب اگر ہم اللہ کو مانتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتا ہے تو اس لفظ کو اس کے امتدادی معنی میں لینا پڑے گا، جو اس کے عربی میں لغوی معنی سے ہٹے ہوئے نہیں ہیں، لیکن ٹھیک وہ بھی نہیں ہے جو عرب جانتے تھے۔لیکن اس وقت غلطی ہوگی کہ اس لفظ کے لغوی معنی اس امتداد کو قبول نہ کرتے ہوں، جیسے نفس بہ معنی جنس۔

مضغة کو لیجیے  گوشت کا چبایا ہوا یا چبانے لائق لقمہ (بوٹی) اس کے معنی ہیں۔غالباً جب  ’علقة  گوشت کی صورت اختیار کرلیتا ہے، اس کی ساخت textureگوشت جیسی یا اس کی صورت بوٹی ، لوتھڑے یا لقمے جیسی ہوگی ۔ اگر میں بات کو واضح کرنے لیے ’مضغة کا ترجمہ لقمہ (بوٹی، گوشت کا لوتھڑا)کروں اور پھر کہوں کہ اس کا اطلاق جنین کی فلاں حالت پر  ہوتا ہے  تو کیا یہ زبان سے انحراف ہے؟ یہ سادہ لسانی طریقہ ہے۔  ہاں، یہ بات درست ہوگی کہ کوئی یہ کہے کہ ’مضغة کا صحیح مصداق یہ نہیں کچھ اور ہے، لیکن دیکھی چیزوں میں مصداق متعین کرنا ممنوع نہیں ہے۔

سوال۵:نفس بہ معنی خليہ

تمھارے جدید اطلاقات میں ’نفس خلیہ کے معنی میں معلوم ہوتا ہے، کیا یہ ممکن ہے؟

میں نے کہیں بھی اور کبھی بھی نفس کو خلیہ کے معنی میں ترجمہ نہیں کیا، لیکن یہ جا ن لیجیے کہ نطق منطق نہیں ۔ جب آپ نے ایسے علوم بیان کرنے ہوں جن سے اہل زبان واقف نہ ہوں تو آپ مستعمل لفظوں ہی کو نئے معنی دیتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ اگر اللہ کو قدیم عربی میں سپرم کا ذکر کرنا ہو تو کیسے کریں گے۔ ظاہر ہے، لفظ’نطفةسے کریں گے، کیونکہ عربی میں یہی قریب ترین لفظ ہے۔اسی طرح اگر کسی ایسی چیز کا ذکر کرنا ہو جو زندہ ہو، لیکن عرب اس سے نا واقف ہوں اور نہ انھوں نے اس کا کوئی نام رکھا ہو ، اور وہ نہ انسان ہو اور نہ کوئی اور جانور ، لیکن بالقوہ (potentially)انسان ہو، تو مجھے بتائیے پوری عربی میں ’نفس سے زیادہ بہتر لفظ کیا ہوگا؟اس لحاظ سے دیکھیے، اگر کوئی عورت حمل کے پہلے دن Abortionکرالے، جب کہ اس کا حمل ایک خلیے سے زیادہ نہ ہوا تو کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’قتلتْ نفسًا کہ اس نے ایک نفس کو مار ڈالا ہے۔ عربی کے اعتبار سے اس میں کیا رکاوٹ ہے؟

یہ لفظوں کا امتدادی اطلاق ہوتا، اس میں ہمیشہ گنجایش ہوتی ہے ، مثلاً  اردو میں دیکھیے ’ گاڑی‘  کا لفظ گڈ ،بیل گاڑی، گدھا گاڑی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جب ریل کار آئی اور انجن والی گاڑی آئی تو ہم نے اسے بھی گاڑی کہا، اس لیے کہ ہماری زبان میں قریب ترین لفظ یہی تھا۔لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ’مکان‘  کا لفظ یا ’گھوڑے‘  کا لفظ گاڑی کے لیے استعمال کرلیتے ۔اب فرض کرلیجیے کہ  کوئی انگریز، اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں یورپ سے آیا اور اس نے یورپیوں کے ارادوں کے پیش نظر اورنگزیب سے کہا کہ چارسوسال بعد ہندوستان کی سڑکیں گاڑیوں سے بھری ہوں گی تو اورنگزیب گدھا گاڑی ہی سمجھے گا، لیکن آج چار سو برس بعد کا آدمی موٹرکار اور ریل کار۔ نطفہ کے معنی پر میں ایک حاشیہ (footnote)میں لکھ چکا ہوں۔ دیکھیے حاشیہ۲۹۔ لفظ کے معنی پر  مزید بحث کے لیے دیکھیےسوال ۴:  قرآن کے براہ راست مخاطبین کی واقفیت۔

سوال ۶: تخلیق آدم كے مراحل اور كلمۂ كن

تم نے ’اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰي عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَﵧ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ (آل عمران۳: ۵۹) میں یہ مانا ہے کہ آدم اور مٹی کے مابین کوئی ماں باپ نہیں مانے جاسکتے۔ یہ کیا لازم ہے؟ کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے مٹی کو کہا کہ آدم بن جائے تو اللہ نے جو اس کے لیے(course of action) عمل و مراحل طے کیے تھے، مٹی ان مراحل سے گزرتے ہوئے آدم بن گئی۔ان طے شدہ مراحل میں یہ مراحل بھی شامل ہو سکتے ہیں کہ مٹی سے براہ راست اولاد نہ جننے والے، ناتراشیدہ ، حیوان نما انسان ہوں، پھر اولاد جننے والے انسان بنے ، اوران کے ہاں آدم و حوا پیدا ہوئے ؟

میں اپنے اس مضمون میں ،اس آیت کے بارے میں ، جو لکھ آیا ہوں، اس میں اس بات کا جواب موجود ہے،لیکن اس سوال کے زاویے سے چند معروضات پیش خدمت ہیں:

میں ’كُنْ فَيَكُوْنُ کے بارے میں مانتا ہوں کہ یہ لازم نہیں آتا کہ جب كُنْ  کہا جائے تو وہ چیزفوراً بن جائے۔قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے طے کردہ مراحل سے گزرکربنے گی، سواے اس کے کہ اللہ نے فوراً مراحل سے گزرے بغیر بننے کاحکم دیا ہو۔اس بات کو سمجھنے کے لیے سب سے واضح مثال زمین و آسمان کی تخلیق ہے، جن کے بننے میں چھ دن لگے۔زیر بحث آیت میں اگر جملہ صرف اتنا ہوتا : ’اٰدَمَﵧ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ‘تو شاید یہ بات مان سكتے کہ آدم(نعوذ باللہ) حیوان نما والدین کے گھر پیدا ہوئے،لیکن اس صورت میں بھی کھینچا تانی ہی کرنا ہوگی، لیکن آیت کی موجودہ صورت میں تو یہ بات ماننا بالکل ممکن نہیں اس لیے کہ :

یہاں حضرت آدم کو مثیل عیسیٰ قرار دیا گیا ہے۔اس وجہ سے ایسا ماننا ممکن نہیں کہ آدم کے والدین مانے جائیں۔ میں اس بات سے پورے مضمون میں گریز کرتا رہا ہوں، لیکن اللہ معاف کرے، اب لکھنا پڑے گی۔ دیکھیے، تخلیق عیسیٰ میں کیا ہوا تھا؟ یہی نا کہ ماں کی طرف کا مادۂ تولید (egg)سیدہ مریم سے لیا گیا اور مرد کے مادۂ تولید (sperm)کو کلمۂ کن سے تخلیق کیا گیا۔صرف اس عمل کی وجہ سے انھیں ’کلمۃ اللہ‘ کہا گیا ہے۔اب اگر حضرت عیسیٰ کی شادی ہوتی اور ان کے ہاں اولاد ہوتی تو کیا ان کے بیٹے یا بیٹی کو کلمۃ اللہ کہا جاسکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ٹھیک اسی اصول پر جو پہلا انسان مٹی پر کلمۂ كن كے اثر سے بنے گا، بس وہی اس آیت کا مصداق ہوسکتا ہے۔یہی وہ مماثلت ہے جو آدم و عیسیٰ کو ایک دوسرے کا مثیل بناتی ہے۔اسی لیے میں نے یہ لکھا تھا کہ کیا ہابیل اور قابیل کو عیسیٰ کے مثل قرار دیا جاسکتا ہے؟

دوسری بات میں نے یہ واضح کی تھی کہ حضرت یحییٰ کی ولادت بھی معجزانہ تھی۔ آپ کے والد اور والدہ، دونوں اولاد جننے کے لائق نہیں تھے۔ حضرت زکریا کا یہ جملہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ’قَالَ رَبِّ اَنّٰي يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا (مریم۱۹: ۸)۔ لیکن اس ولادت کو کلمۂ کن کا کرشمہ قرار نہیں دیا گیا، بلکہ جب حضرت زکریا کو مذکورہ بالا استفسار کا جواب دیا گیا تو سیدہ مریم سے مختلف جواب دیا گیا:

حضرت زکریا کو جواب سیدہ مریم کو جواب

قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ.(آل عمران ۳: ۴۰) قَالَتْ رَبِّ اَنّٰي يَكُوْنُ لِيْ وَلَدٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌﵧ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُﵧ اِذَا قَضٰ٘ي اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ. (آل عمران۳: ۴۷)

قَالَ كَذٰلِكَﵐ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَّقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْـًٔا. (مریم ۱۹: ۹)

یہاں دیکھا جاسکتا ہے کہ حضرت زکریا کو جو جواب دیے گئے ہیں ، ان میں کلمۂ کن کے استعمال کا کوئی حوالہ نہیں ، اگر کوئی ذکر ہے تو وہ یہ کہ ان کی زوجہ محترمہ کو تندرست کیا گیا(’وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ‘ الانبیاء۲۱: ۹۰)۔ ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ کی والدہ کو بچہ جننے کے لائق صحت عطا کرنے کے لیے اسپیشل حکم جاری ہوا ہوگا، کیونکہ آپ بانجھ بھی تھیں اورشايد بوڑھی بھی۔اس كے باوجود حضرت یحییٰ کو کلمۂ کن کی تخلیق اس لیے نہیں کہا گیا کہ ان کی تخلیق کے لیے نہ نطفہ اور نہ بیضہ (egg) کوئی چیز بھی کلمۂ کن سے نہیں بنائی گئی،بلکہ ایک مقام ہے،کہ جب بھی میں قرآن پڑھتے ہوئے وہاں پہنچتا ہوں تو یہی خیال ہوتا ہے کہ اس موقع پر حضرت یحییٰ کے بارے میں بھی کہا جائے گا کہ وہ بھی کلمۂ کن سے بنے ہیں: ’فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ هُوَ قَآئِمٌ يُّصَلِّيْ فِي الْمِحْرَابِﶈ اَنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيٰي مُصَدِّقًاۣ بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ (آل عمران۳: ۳۹)۔ لیکن میری توقع پوری نہیں ہوتی، وجہ یہی ہے کہ حضرت یحییٰ کو تشکیل کرنے والی کوئی چیز کلمۂ کن سے براہ راست نہیں بنی: نہ نطفہ نہ بيضہ۔خواہ ان کے والدین کو کلمۂ کن ہی سے اولاد کے قابل کیا گیا ہو۔

اس دراز گوئی سے مقصود یہ ہے کہ آدم اس وقت کلمۂ کن کی تخلیق نہیں رہیں گے، اگر وہ مثیل یحییٰ ہوں، اپنے والدین سے پیدا ہوں، جو پہلے اولاد جننے والے نہیں تھے، پھر وہ اولاد جننے والے بنے، اور پھر ان کےہاں آدم و حوا پیدا ہوئے۔ یعنی آدم علیہ السلام کو بھی اس نطفے سے بننا لازم ہوگا، جو براہ راست کلمۂ کن سے بنا ہو، ورنہ وہ مثیل عیسیٰ نہیں رہیں گے۔مزید تسلی کے لیے اوپر مضمون میں اس آیت پر ہم نے جو کچھ لکھا ہے، اس پر دوبارہ نظر ڈال لیں، اس لیے کہ وہاں بیان کردہ دیگر نکات سامان تسلی ہو سکتے ہیں۔

میں اس بحث میں حضرت یحییٰ کا ذکر اس لیے کررہا ہوں کہ خود اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی ولادت کے سیاق میں آپ کی ولادت کا ذکر کیا ہے، یہ ذکر بلاوجہ نہیں ہے،اسی فرق کو سمجھانے کے لیے ہے۔

کچھ سوالات نظریۂ ارتقا کے حوالے سے سائنسی دریافتوں کی بنیاد پر کیے گئے ہیں، ان کا جواب اس مضمون میں دیا گیا ہے جس کا ذکر میں حاشیہ ۲ میں کر چکا ہوں۔ ان سوالات کا جواب ان شاءاللہ ، میری علمی بساط کی حد تک اس مضمون میں مل جائے گا۔

رب زدني علمًا، ورب هب لي حكمًا، وألحقني بعبادك الصالحين‘۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[22]۔ Abstract or extract by distillation or any other process۔

[23]۔ ’طینکے معنی کیچڑ کے بھی ہوتے ہیں، البتہ اس مٹی کے لیے بھی استعمال ہو جاتا ہے جس کا پانی خشک ہو گیا ہو، یعنی ’تراب‘ ۔ کیچڑ کے معنی میں عمرو بن کلثوم نے استعمال کیا ہے:

و نشرب إن وردنا الماء صفوا... ويشرب غيرنا كدرا و طينا.

[24]۔ ’سلالة ‘مؤنث ہے، اس کے لیے مذکر ضمیر موزوں نہیں؛ طین کا ’سلالة بھی اس کا جز ہونے کی وجہ سے ’طین ہی قرار پائے گا، اس لیے معناًاس کے لیے مذکر ضمیر آسکتی ہے۔

[25]۔ رحم مادر کے لیے اس کا استعمال سورۂ مرسلات (۷۷: ۲۱)میں ہوا ہے: ’فَجَعَلْنٰهُ فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ۔

[26]۔ سورۂ حج جیسا اسلوب ہی سورۂ مومن میں اختیار کیا گیا ہے:  ’هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا (۴۰: ۶۷)۔سورۂ کہف (۱۸)  کی آیت ۳۷ میں بھی مختصرًا یہی اسلوب ہے۔

[27]۔ ’خَلْقًا اٰخَرَ‘ کو تین طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک مٹی کے حوالے سے کہ مٹی کے مقابلے میں یہ اور ہی طرح کی مخلوق تھی، دوسرے علقہ مضغہ وغیرہ کے حوالے سے کہ یہ سب چیزیں اور آخرپر بننے والی چیز بالکل مختلف تھے، اور تیسرے یہ کہ دیگر مخلوقات میں سے بالکل ہی نئی مخلوق۔جملے کا بہاؤ، تیسرے معنی کی طرف راجح ہے۔پہلے اور تیسرے معنی الفاظ قبول کرسکتے ہیں، لیکن دوسرے معنی کے لیے اَنْشَاْنٰهُ ‘کے الفاظ مانع ہیں۔

[28]۔ ’سلالة، کشید کردہ چیز کو کہتے ہیں۔ مثلاً  عرق، نتھارا ہوا پانی، ’سلالة کہلائیں گے ۔ لیکن اس کے مستعمل معنی میں نومولود بچے ،نطفہ ،اولاد، نسل ، حسب اور خلاصہ وغیرہ کو بھی ’سلالة کہتے ہیں ۔ صاحب ’’لسان العرب‘‘ نے س ل ل مادے کے تحت سورۂ مومنون ۲۳ کی بارھویں آیت کی وضاحت میں بعض اقوال نقل کیے ہیں: ابو الہیثم کا قول نقل کیا ہے: ’السُّلالة: ما سُلَّ من صُلْب الرجل وتَرائب المرأَة كما يُسَلُّ  الشيءُ سَلاًّ‘۔گویاابو الہیثم نے  ’سلالة‘ سے مرد وعورت کے نطفوں کومراد لیا ہے۔عکرمہ کا قول یہ نقل کیا ہے کہ ’السُّلالة: إِنه الماء يُسَلُّ من الظَّهر سَلاًّ‘، انھوں نے نطفہ مراد لیا ہے۔اخفش نے ’السُّلالة: الوَلَد، والنُّطفة‘، سے نطفہ اور اولاد مراد لی ہے۔

[29]۔ ’نظفة‘: یہ بات واضح رہے کہ ’نطفةکا لفظ عربی میں اصلاً پانی کے لیے بولاجاتا ہے، خواہ ایک قطرہ ہو یا ایک دریا، مثلاً  حدیث میں آتا ہے کہ جنگ ہوازن کے موقع پر آپ نے وضو کے لیے جب پانی مانگا تو ’فَجَاءَ رَجُلٌ بِإِدَاوَةٍ لَهُ فِيهَا نُطْفَةٌ، فَأَفْرَغَهَا فِي قَدَحٍ، فَتَوَضَّأْنَا كُلُّنَا‘،’’تو ایک صاحب ایک برتن لائے جس میں ’نطفة (تھوڑا سا پانی) تھا، تو آپ نے اسے ایک لگن میں انڈیل لیا جس سے ہم سب نے وضو کیا‘‘(مسلم، رقم ۱۳۵۵) ۔فرات اور جُدہ کے دریاؤں کو ’نطفتين کہا جاتا تھا،لیکن اس کا استعمال مادۂ تولید کے لیے بھی  ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ اسی معنی میں ہے۔

دیگر تہذیبوں کی طرح، مادۂ تولیدکے لیے’نطفةعربوں کے ہاں بھی مجازاًبولا جاتا ہے۔یہ معنی اس آیت : ’ اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰي ‘،’’کیا یہ منی کا پانی نہیں تھا، جو ٹپکا دیا جاتا ہے‘‘ (القیامہ۷۵: ۳۷) سے بالکل واضح ہو جاتے ہیں۔ عرب غالباً عورت کے مادۂ تولید کے لیے بھی کسی مائع ہی کا تصور رکھتے تھے،لہٰذا اس کے لیے ’نطفةsاور ’ماء‘، دونوں لفظ بولے گئے ہیں۔ ’نطفةکے لیے، مثلاً  وہ روایت ہے  جس میں ایک یہودی نے آپ کوشاید آزمانے کے لیے سوال کیا کہ انسان کس چیز سے پیداہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ’مِنْ نُطْفَةِ الرَّجُلِ، وَمِنْ نُطْفَةِ الْمَرْأَةِ، (احمد، رقم  ۴۴۳۸ )، یعنی مرد و عورت کے نطفے سے۔واضح رہے کہ اس کی سند ضعیف ہے، اس لیے اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درست نہیں ہے، لیکن ہم نے اسےیہاں صرف لسانی شاہد کے طور پر پیش کیا ہے ۔البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ بات صحیح حدیثوں میں آئی ہےکہ آپ نے عورت کے نطفے کے لیے ’ماء کا لفظ استعمال کیا ہے:’وَأَمَّا الوَلَدُ فَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ المَرْأَةِ نَزَعَ الوَلَدَ، وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ المَرْأَةِ مَاءَ الرَّجُلِ نَزَعَتِ الوَلَدَ‘ (بخاری، رقم  ۳۹۳۸)۔ بعض روایتوں میں یہ تفصیل بھی ملتی ہے:’إِنَّ مَاءَ الرَّجُلِ غَلِيظٌ أَبْيَضُ، وَمَاءَ الْمَرْأَةِ رَقِيقٌ أَصْفَرُ...‘(مسلم، رقم  ۳۰ یا ۳۱۱)۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی مجاز ہی کا اسلوب ہے۔’ماء بول کر بیضہ مراد ہے، اس لیے کہ عربوں نے بیضہ نہ دیکھا تھا، نہ اس کا نام رکھا تھا، اس لیے انھوں نے عورت کے مادہ تولید کو ’نطفةاور ’ماء‘ ہی سے تعبیر کیا۔عرب بہرحال ارسطو سے بہتر تھے کہ وہ عورت کو کھیتی کی طرح سمجھتا تھا ، جس میں بیج بو دیا جاتا ہے، وہ عورت میں مادۂ تولید کا وجود نہیں مانتا تھا۔

[30]۔ واضح رہے کہ طین سے بھی یہی مٹی مراد ہوتی ہے: عمارت بنانے میں استعمال ہونے والی مٹی کے معنی میں اعشیٰ نے استعمال کیا ہے:

فأصبحت كبنيان التهامي شادہ... بطين و جيار و كلس و قرمد

[31]۔ رحم ارضی کے تمام مراحل تخلیق سورۂ مومنون میں یکجا ہوئے ہیں۔ اوپر ہم نے ان کی تفصیل کردی ہے (المومنون ۲۳: ۱۴)۔

[32]۔ یعنی ایسا معاملہ جس کی اصل حقیقت ہم نہیں سمجھ سکتے، یعنی پسلی سے بننا، foetusکے ابتدائی مراحل میں ایک کا دو میں تقسیم ہو کر آدم و حوا بننا، یہ معاملہ سرتا سرایسا ہے کہ ہم اس کی حقیقت نہیں جان سکتے۔بالکل اسی طرح جس طرح بگ بینگ کی حقیقت نہیں جان سکتے، محض عقلی قیاسات ہی کر سکتے ہیں۔

[33]۔ واضح رہے کہ یہ محض تقریب فہم کے لیے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آدم سے حوا کی تخلیق میں کوئی اور صورت اختیار کی گئی ہو۔ لیکن اس تعبیر سے حوا کے پسلی سے پیدا ہونے کا مفہوم بھی واضح ہو جاتا ہے اور نفس واحدہ سے پیدا کیے جانے کا بھی۔

[34]۔ ہماری ولادت میں یہ کام رحم مادر کرتا ہے، آدم و حوا کے لیے یہ کام رحم ارضی نے کیا تھا۔

[35]۔ یہ نشوونما سورۂ مومنون میں یوں بیان ہوئی ہے: ’ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا‘۔

[36]۔ ’خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ‘، اس میں واضح ہے  کہ ’مِنْهَا ‘کی ضمیر مؤنث کا مرجع ’نَفْسٍ وَّاحِدَةٍکے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا۔

[37]۔ میں نے اس کا جوڑا اس کے نفس سے بنایا۔

[38]۔ ’مِنْ اَنْفُسِكُمْ‘ (تمھارے نفوس سے) کا مطلب ہے:’ من جنسكم‘، یعنی تمھاری جنس سے۔

[39]۔ ’مِنْ اَنْفُسِكُمْ‘ (تمھارے نفوس سے) کا مطلب ہے ’من أجناسكم‘،یعنی تمھاری جنسوں سے۔

[40]۔ یہاں ترجمہ تمھاری نوع سے نہیں ہو سکتا۔

[41]۔ واضح رہے کہ یہ ’مِنْ دراصل بیان ہی کا ہوتا ہے، جو اپنے ماقبل کے کسی پہلو کے بیان کے لیے آجاتا ہے، اور وہ پہلو نوع یا جنس بھی ہو سکتی ہے۔البتہ اس صنف پر اختلاف بھی ہے۔

[42]۔ اس میں بعض نحویوں کےہاں ’مِنْ ذَهَبٍ، والا ’مِنْ ‘جنس کا مانا گیا ہے۔

[43]۔ اس لیے کہ انسانوں کی کتب میں بھی ایسا نہیں ہوتا، وہ لفظوں کو اپنے علم کے لحاظ سے استعمال کرلیتے ہیں، خوا ہ اس وقت کے اہل زبان اس سے واقف نہ ہوں۔مثلاً  نئی اصطلاحات کا وضع و استعمال۔

[44]۔ مثلاً  DNAمیں لکھے ہوئے کوڈز؟

[45]۔ تسلی کے لیے متعلقہ آیات کی تفسیر ’’البیان‘‘ اور ’’تدبر ‘‘میں دیکھ سکتے ہیں۔

B