استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے بارے میں جناب احمد جاوید صاحب کے تاثرات سننے کا موقع ملا۔ اُنھوں نے غامدی صاحب کے شخصی اوصاف کی تحسین کی ہے اور اُن کی للّٰہیت اور دینی حمیت کو نمایاں کیا ہے۔ مطمح نظر اُن کے ناقدین کو تلقین کرنا ہے کہ وہ منفی طرز عمل ترک کر کے خیر خواہی کا رویہ اختیار کریں اور بہ قدر گنجایش اُن کی خدمات سے فائدہ اٹھائیں۔ چنانچہ اُنھوں نے بیان کیا ہے کہ غامدی صاحب مسلمانوں کے لیے ایک مفید اور کار آمد شخصیت ہیں۔ اُن کی افادیت یہ ہے کہ وہ عصر حاضر کے کفر و الحاد کے مقابل میں دین کے سپاہی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اِس وقت دنیا میں مسلمانوں کو دین کی حفاظت کا مسئلہ درپیش ہے ــــــ جس کی طرف ہمارے روایتی علما متوجہ نہیں ہیں ــــــ فلسفہ، سائنس، نفسیات اور دیگر جدید علوم دنیا پر غالب ہیں اور بالاتفاق خدا کے انکار پر مصر ہیں۔ اُن کے زیر اثر عالم انسانیت خدا کے تصور کو اپنے وجود سے خارج کرتا جارہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ شریعت اور اُس کے اعمال تو درکنار، ایمان و عقیدے کو بچانا مشکل ہو گیا ہے۔ اِس مذہب بے زار اور خلاف اسلام ماحول میں وہ دین کے تحفظ کے لیےسرگرم عمل ہیں۔ اہل اسلام کو اُن کی اِس کاوش اور اِس کے پیچھے کارفرما دینی حمیت کی قدر کرنی چاہیے اور اُنھیں اپنے خیر خواہوں میں شمار کرنا چاہیے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اُنھوں نے دین کے بنیادی لوازم اور ناگزیر احکام ہی کو بہ طور دین پیش کیا ہے اور اُس کے تفصیلی امور اور ذیلی اجزا کو نمایاں نہیں کیا، مگر اِس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ اُن سے گریزاں ہیں۔ اِس کا سبب حالات کی مصلحت ہے۔ مصلحت یہ ہے کہ تفصیل کو بچاتے بچاتے مبادا اصل ہی فراموش ہو جائے۔ اِس خیال سے اُنھوں نے صرف اُنھی چیزوں کو من جملۂ دین شمار کیا ہے جو کفر و ایمان کے مابین امتیاز کا درجہ رکھتی ہیں اورجن کے انکار یا جن سے علیحدگی کے نتیجے میں کفر یا ترک اسلام لازم آتا ہے۔ دین کے فضائل و کمالات، تفصیلات و توسیعات اور تعبیرات و تشریحات کے زمرے کی بعض نہایت اہم چیزوں کو مصلحتاً ایک طرف کر دیا گیا ہے۔ اُن کا یہ اقدام درحقیقت، خدا کے انکار کی دنیا میں خدا کے اثبات کو ایک اسپیس دلانے کی کوشش ہے۔ یہ اسپیس چھوٹی ضرور ہے اورحقیقی اسلام کے شایان شان بھی نہیں ہے، لیکن اِس کو حاصل کرنے کے لیے اُن کا جذبہ محمود اور اخلاص قابل ستایش ہے۔ اہل اسلام کو اُن کے جذبے اور خلوص کی قدر کرنی چاہیے، اُن کی خدمت سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اُس کی محدودیت کو بنیاد بنا کر اُسے رد نہیں کر دینا چاہیے۔
یہ میرے فہم کے لحاظ سے جناب احمد جاوید صاحب کی بات کا خلاصہ ہے۔
اِس میں جہاں تک غامدی صاحب کے ذاتی محاسن کا تذکرہ ہے تو اُس پر گفتگو اضافی ہے۔ بڑا آدمی اپنے معاصرین کا ذکر اِسی انداز سے کیا کرتا ہے، لیکن جہاں تک دین کی حفاظت کے ضمن میں اُن سے منسوب کارکردگی کا تعلق ہے تو میری ناچیز راے میں غامدی صاحب اِس سے بری ہیں کہ اُنھیں اِس کا کارگزار قراردیا جائے۔ وہ اِس نوعیت کی مصلحت آمیز خدمات کے عامل نہیں، بلکہ ناقد اور مخالف ہیں۔ ایسی مصلحت کوشی اُن کے نزدیک، دین کے منشا کے خلاف اور ایمان کے منافی ہے۔ اسلامی علوم کی تاریخ میں ایسے ہر شعوری یا غیر شعوری اقدام پر اُنھوں نے بھر پور تنقید کی ہے اور اُسے دین کے لیے نہایت ضرر رساں قرار دیا ہے۔ چنانچہ میرے لیے یہ باعث تعجب اور ناقابل فہم ہے کہ احمد جاوید صاحب جیسے جلیل القدر عالم نے یہ تاثر قائم کیا ہے۔ میرا احساس ہے کہ غامدی صاحب کے علم و عمل اور تحریر و تقریر میں اِس ضمن کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔
جناب جاوید احمد غامدی کے فکر کو میں نے جو کچھ سمجھا ہے، اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کا تنہا ماخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ دین بہ تمام و کمال وہی ہے جو آپ نے ودیعت فرمایا ہے۔ اُس کے علاوہ نہ کوئی چیز دین ہے، نہ کسی چیز کو دین سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اِس دین کے کیا اصول ہیں اور کیا فروع ہیں، کیا اجمال ہیں اور کیا تفصیلات ہیں، کیا متون ہیں اور کیا تشریحات ہیں، اِن سب معاملات میں مرجع اور مرکز و محور آپ ہی کی ذات والا صفات ہے۔ کسی دور کے کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آپ کے دیے ہوئے دین میں قطع و برید یا تکثیر و تقلیل یا اخفا و اظہار یا ترمیم و اضافے کا ارتکاب کرے۔ ایسی جسارت کار رسالت میں دخل اندازی کے مترادف ہے، جس کا تصور کوئی صاحب ایمان نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اگر کوئی شخص کسی مذہبی ضرورت کی بنیاد پر یا کسی قومی مصلحت کی خاطر یا کسی اخلاقی تقاضے کے پیش نظر یا کسی تاریخی واقعے کے تناظر میں یا کسی نفسیاتی علاج کے بہانے یا کسی مطلوب رویے کی ترویج کے لیے ایسا اقدام کرتا ہے تو یہ لائق تحسین نہیں، قابل مذمت ہے۔ اِس کی تائید نہیں، کامل تردید ہونی چاہیے۔
میرے فہم اور مشاہدے کے مطابق غامدی صاحب کی دعوتی جدوجہد درج ذیل پانچ چیزوں سے عبارت ہے۔ یہی اُن کا امتیاز ہے اور یہی اُن کی خدمت ہے:
اولاً، دین کو اول تا آخر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب پر منحصر کیا جائے اور بے کم و کاست دنیا تک پہنچایا جائے۔
ثانیاً، اُس کی علمی روایت کو اِس طرح آگے بڑھایا جائے کہ وہ فلسفہ و تصوف، فقہ و کلام اور سائنس اور تاریخ کی ہر آمیزش، ہر مداخلت اور ہرشمولیت سے پاک رہے۔
ثالثاً، قرآن و سنت کے نصوص کو اصل اور حتمی دلیل کا مقام دیا جائے اور اُن کے مقابل میں اگر اتفاق، اجماع، تاریخ، تقلید وغیرہ کی دیواریں کھڑی کی جائیں تو اُنھیں پوری قوت استدلال کے ساتھ گرا دیا جائے۔
رابعاً، اپنی ذمہ داری کو صرف اور صرف ’’انذار‘‘ تک محدود رکھا جائے۔ اصل مسئلہ دنیا کو نہیں، بلکہ آخرت کو بنایا جائے اور لوگوں کو قیامت اور اخروی حیات کے لیے بیدار کیا جائے۔
خامساً، دنیا میں دین کی دعوت ’جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ‘، ’’اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو، جیسا کہ جدوجہد کرنے کا حق ہے ‘‘ (الحج ۲۲: ۷۸) کے اُصول پر اور کسی خوف، کسی مداہنت، کسی رخصت اور کسی مصلحت کے بغیر پورے عزم و استقلال کے ساتھ پیش کی جائے۔
یہی بات ہے جسے اُنھوں نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں ’’علما کی دعوت‘‘ کے زیر عنوان اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’...سورۂ توبہ کی یہ آیت (۱۲۲) دین میں بصیرت رکھنے والوں کو اِس بات کا مکلف ٹھیراتی ہے کہ ’جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ‘ کے جذبے سے وہ اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق امت کی ہر بستی اور ہر قوم میں اِس دعوت کو ہمیشہ زندہ رکھیں۔ وہ اپنی قوم اور اُس کے ارباب حل و عقد کو اُن کے فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں پوری دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ خبردار کرتے رہیں۔ اُن کے لیے ہر سطح پر دین کی شرح و وضاحت کریں۔ اُنھیں ہر پہلو اور ہر سمت سے حق کی طرف بلائیں۔ اُس سے اعراض کے نتائج سے خبردار کریں اور جب تک زندہ رہیں، اِن نتائج سے اُنھیں خبردار کرتے رہیں، یہاں تک کہ ظالم حکمرانوں کا ظلم بھی اُنھیں اِس کام سے باز نہ رکھ سکے۔ دین کے علما کے لیے یہی سب سے بڑا جہاد ہے جو اِس دنیا میں وہ ہمیشہ کر سکتے ہیں۔
امت کی تاریخ میں دعوت و عزیمت کے عنوان سے جو کام ہمیشہ ہوتے رہے ہیں،اُن کا ماخذ درحقیقت یہی آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ہماری تاریخ کا کوئی دور اُن لوگوں سے خالی نہیں رہا جو بدعت و ضلالت کے تہ بہ تہ اندھیروں میں اپنے چراغ کی لو تیز کر کے سر راہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو حق کی راہ دکھاتے ہیں۔وہ اِس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور کن چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُن کی ساری دل چسپی بس حق ہی سے ہوتی ہے اور وہ اِسی کے تقاضے دنیا کو بتانے کے لیے اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں صرف کر دیتے ہیں۔ وہ لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے، بلکہ اپنے پروردگار سے جو کچھ پاتے ہیں، بڑی فیاضی کے ساتھ اُن کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ ہر دور میں وہ ہستی کا ضمیر، وجود کا خلاصہ اور زمین کا نمک قرار پاتے ہیں۔
اِس دعوت کی یہی نوعیت ہے جس کے پیش نظر یہ چند باتیں اِس میں لازماً ملحوظ رہنی چاہییں:
اول یہ کہ اِس کے لیے اٹھنے والے جس حق کو لے کر اٹھیں، اُس پر اُن کا اپنا ایمان بالکل راسخ ہونا چاہیے۔ وہ جو بات بھی لوگوں کے سامنے پیش کریں، اُس پر اُن کے دل و دماغ کو اِس طرح مطمئن ہونا چاہیے کہ وہ خود بھی محسوس کریں کہ یہ اُن کے دل کی آواز اور روح کی صدا ہے جو اُن کی زبان پر آئی ہے۔ وہ اپنی ساری شخصیت کو اپنے رب کے حوالے کر کے اِس میدان میں اتریں اور جس چیز کی طرف لوگوں کو بلائیں، اُس کے بارے میں سب سے پہلے خود یہ اعلان کریں کہ وہ پورے دل اور پوری جان سے اُس پر ایمان لائے ہیں :
’’کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگارعالم کے لیے ہے۔ اُس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اِسی کا حکم ملا ہے اور میں سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا ہوں۔‘‘ (الانعام۶: ۱۶۲-۱۶۳)
دوم یہ کہ اُن کے قول و عمل میں کسی پہلو سے کوئی تضاد نہ ہو۔ وہ جس چیز کے علم بردار بن کر اٹھیں، سب سے پہلے خود اُسے اپنائیں اور جس حق کی لوگوں کو دعوت دیں، اُن کا عمل بھی اُسی کی شہادت دے۔ قرآن اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ یہ بے عمل واعظوں کا نہیں،بلکہ اُن ارباب عزیمت کا کام ہے جو اپنی نصیحت کا مخاطب سب سے پہلے اپنے نفس کو بناتے اور پھر اُسے مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ بالکل آخری درجے میں اُس حق کو اختیار کرے جو اُن کے پروردگار کی طرف سے اُن پر واضح ہوا ہے۔ چنانچہ اُس نے علماے یہود کو ملامت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم دین و شریعت کے عالم ہو اور خوب جانتے ہو کہ عقل و نقل کی رو سے تم پر عمل کی ذمہ داری دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے،لیکن تم پر افسوس ہے کہ عوام کو تو بڑے زوروں سے حقوق و فرائض ادا کرنے کی تلقین کرتے ہو،مگر اپنے آپ کو بالکل بھول جاتے ہو :
’’ کیا تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، دراں حالیکہ تم کتاب الٰہی کی تلاوت کرتے ہو ؟ پھرکیا تم سمجھتے نہیں ہو ؟‘‘ (البقرہ۲: ۴۴)
سوم یہ کہ حق کے معاملے میں وہ کبھی مداہنت سے کام نہ لیں۔ دین کی چھوٹی سے چھوٹی حقیقت بھی جو اُن پر واضح ہو جائے، اُسے دل سے قبول کریں، زبان سے اُس کی گواہی دیں اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا کیے بغیر اُسے بے کم و کاست دنیا کے سامنے پیش کردیں۔ وہ کسی حال میں بھی اُس میں کوئی ترمیم و اضافہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ پورا حق جس طرح کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے، اُس کی ساری ہدایت اور سارے احکام سمیت لوگوں کو بتائیں اور ہر وہ چیز جو کسی پہلو سے اُس کے خلاف ہو،اُس کو بغیر کسی تردد کے رد کر دیں۔ دین کے بارے میں جو بات بھی اُن سے پوچھی جائے، وہ اگر دین میں ہے تو اُسے ہرگز نہ چھپائیں اور اُس کو اُسی طرح پیش کریں جس طرح کہ وہ فی الواقع ہے اور جس طرح کہ وہ اُسے مانتے ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ موقع بے موقع ہر بات کہتے رہیں۔اِس میں شبہ نہیں کہ حق کو ہمیشہ صحیح طریقے سے، صحیح موقع پر اور صحیح مخاطب کے سامنے ظاہر ہونا چاہیے،لیکن کسی ذاتی مفاد،کسی خطرے،کسی عصبیت یا کسی مصلحت کی خاطر اُسے چھپانا اور اُس کی گواہی سے احتراز کرنا،یہ وہ چیز نہیں ہے کہ جس کی گنجایش کم سے کم اِن اہل دعوت کے لیے دین میں مانی جائے۔‘‘ (میزان ۵۵۴- ۵۵۵)
ـــــــــــــــــــــــــ