HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘: توضیحی مطالعہ: حدود و تعزیرات (۳)

جلا وطنی اور رجم کا ماخذ

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی طرح کے مجرموں کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ چونکہ محض زنا ہی کے مجرم نہیں ہیں ، بلکہ اِس کے ساتھ آوارہ منشی اور جنسی بے راہ روی کو اپنا معمول بنا لینے کی وجہ سے فساد فی الارض کے مجرم بھی ہیں ، اِس وجہ سے اِن میں سے ایسے مجرموں کو جو اپنے حالات کے لحاظ سے رعایت کے مستحق ہیں ، زنا کے جرم میں سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲ کے تحت سو کوڑے اور معاشرے کو اُن کے شروفساد سے بچانے کے لیے اُن کی اوباشی کی پاداش میں مائدہ (۵) کی آیت ۳۳ کے تحت نفی ،یعنی جلاوطنی کی سزا دی جائے اور اِن میں سے وہ مجرم جنھیں کوئی رعایت دینا ممکن نہیں ہے ،مائدہ کی اِسی آیت کے حکم ’اَنْ يُّقَتَّلُوْا‘ کے تحت رجم کر دیے جائیں۔‘‘ (میزان۶۱۶)
’’آیت میں اِس سزا کے لیے اَنْ يُّقَتَّلُوْا‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔اِن کے معنی یہ ہیں کہ اللہ و رسول سے محاربہ یا فساد فی الارض کے یہ مجرم صرف قتل ہی نہیں،بلکہ عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں۔ ... رجم ،یعنی سنگ ساری بھی ،ہمارے نزدیک اِسی کے تحت داخل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں اوباشی کے بعض مجرموں کو یہ سزا اِسی آیت کے حکم کی پیروی میں دی ہے ۔‘‘(میزان۶۱۳)

جلاوطنی اور رجم کی سزا کے حوالے سے مصنف نے جمہور اہل علم کی راے کے برخلاف مولانا امین احسن اصلاحی کے نقطۂ نظر سے اتفاق کیا ہے اور اس اقتباس میں اسی کی روشنی میں  ان احادیث کا  محل واضح کیا ہے جن میں  زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ ساتھ   کنوارے کو جلا وطن کرنے اور شادی شدہ کو سنگ سار کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ مولانا اصلاحی  کے نزدیک یہ دونوں سزائیں زنا کی اصل سزا کا حصہ نہیں اور اسی لیے سورۂ نور میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کے بجائے  یہ فساد فی الارض  کی سزائیں ہیں جن کا ماخذ سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ ہے اور ان کا نفاذ  زنا کے عام مجرموں پر نہیں، بلکہ  انھی مجرموں پر کیا جائے گا جن کا جرم  اپنی نوعیت کے لحاظ سے  فساد فی الارض کے دائرے میں آتا ہو۔ee

جہاں تک جلاوطنی کو  حد کا حصہ شمار نہ کرنے کا تعلق ہے تو   اس میں مولانا اصلاحی منفرد نہیں، بلکہ حنفی فقہا  بھی یہی راے رکھتے ہیں۔  اگرچہ جمہور فقہا ومحدثین کنوارے زانی کے لیے روایت میں بیان ہونے والی سزا، یعنی جلاوطنی کو بھی سزا کا لازمی حصہ قرار دیتے ہیں، تاہم فقہاے احناف نے اس سے اختلاف کیا ہے ۔  احناف کی راے میں جلاوطنی کی سزا محض ایک تعزیری سزا ہے اور اس کے نفاذ کا مدار قاضی کی صواب دید پر ہے۔ احناف کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید زانی کے لیے صرف سو کوڑوں کی سزا بیان کرنے کے حوالے سے بالکل واضح اور قطعی ہے اور اس سزا پر کوئی اضافہ کسی قطعی دلیل کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ وہ حدیث میں بیان ہونے والی اضافی سزا، یعنی ایک سال کی جلاوطنی کو خبر واحد سے ثابت ہونے کی بنا پر سزا کا لازمی حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی راے میں قرآن نے جس سزا کے بیان پر اکتفا کی ہے، وہی اصل سزا ہے اور اس پر کوئی اضافہ کرنا قرآن کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ وہ زانی کو جلا وطن کرنے کو ایک صواب دیدی سزا کے طور پر قبول کرتے ہیں اور ان کے نزدیک اگر قاضی کسی مجرم کی آوارہ منشی کو دیکھتے ہوئے اس کے اس علاقے میں رہنے کو خطرے کا باعث سمجھے یا مزید تنبیہ کی غرض سے اسے گھر در سے دور اور اعزہ واقربا کی حمایت سے محروم کرنے کو بھی قرین مصلحت دیکھے تو وہ سو کوڑے لگانے کے بعد اسے جلا وطن بھی کر سکتا ہے  (سرخسی، المبسوط ۹/ ۵۰-  ۵۱۔ جصاص، احکام القرآن ۳/ ۲۵۵-  ۲۵۶)۔

احناف کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ جلا وطن کرنا فی نفسہٖ زنا کی مستقل اور باقاعدہ سزا نہیں ہے، بلکہ اسے جرم کی نوعیت اور حالات کی مناسبت کے لحاظ سے اصل سزا کے ساتھ تعزیری طور پر شامل کیا جا سکتا ہے، اس لیے اگر حکمت ومصلحت کی رو سے مجرم کو جلا وطن کرنے میں بہتری کے بجاے فساد کا خدشہ ہو تو اسے جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔

امام طحاوی نے یہ استدلال بھی پیش کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کی سزا بیان کرتے ہوئے صرف کوڑے لگانے کا ذکر کیا ہے اور انھیں جلا وطن کرنے کا حکم نہیں دیا  (بخاری، رقم ۲۳۶۹)۔ چونکہ قرآن مجید نے لونڈیوں کی سزا آزاد عورتوں سے نصف بیان کی ہے، اس لیے اگر جلاوطن کرنا آزاد عورتوں کی سزا کا لازمی حصہ ہوتا تو قرآن مجید کے مذکورہ حکم کی رو سے لونڈیوں کو بھی چھ ماہ کے لیے جلا وطن کرنا ضروری ہوتا، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کے لیے یہ سزا بیان نہیں فرمائی اور نہ اہل علم میں سے کوئی اس کا قائل ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آزاد عورتوں کے لیے بھی جلا وطن کرنا زنا کی سزا کا کوئی لازمی حصہ نہیں ہے۔ پھر چونکہ آزاد عورتوں اور آزاد مردوں کی سزا میں کوئی فرق نصوص سے ثابت نہیں، اس لیے مردوں کے بارے میں بھی لازماً یہی موقف اختیار کرنا پڑے گا (شرح معانی الآثار ۳/۱۳۷) ۔

سورۂ نور کی آیت کے علاوہ دیگر دلائل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ نساء (۴)کی آیت ۲۵میں اللہ تعالیٰ نے شادی شدہ لونڈیوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگروہ زنا کی مرتکب ہوں تو انھیں آزاد عورتوں کے مقابلے میں نصف سزا دی جائے (فَنِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ)۔ یہاں ’الْعَذَاب‘ سے سو کوڑوں کی وہی سزا مراد ہے جو سورۂ نور میں بیان ہوئی ہے اور جس میں مجرم کی جلاوطنی کو سزا کا حصہ قرار نہیں دیا گیا۔’الْعَذَاب‘ کا لفظ بھی عربی زبان کی رو سے ایسی سزا ہی کے لیے موزوں ہے جس میں جسمانی اذیت پائی جاتی ہو، جب کہ جلاوطنی کو خاصے تکلف کے ساتھ ہی اس کا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ’عذاب‘ کا لفظ اور اس پر داخل الف لام، دونوں اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ قرآن مجید سو کوڑوں ہی کو زنا کی اصل سزا تصور کرتا ہے اور جلاوطنی اس کے نزدیک اس سزا کا حصہ نہیں۔

زانی کو جلا وطن کرنے کی احادیث کو روایت کرنے والے بعض صحابہ کے اسلوب بیان سے بھی یہ بات نکلتی ہے کہ وہ اس سزا کو اصل حد کا حصہ نہیں، بلکہ ایک اضافی سزا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قضی في من زنی ولم یحصن أن ینفی عامًا مع إقامة الحد علیه.(نسائی، السنن الکبریٰ، رقم۷۲۳۷) 
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کے بارے میں حد جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لیے اسے جلاوطن کرنے کاحکم دیا۔‘‘

شاہ ولی اللہ  نے بھی اس موقف سے اتفاق کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ غیر شادی شدہ کو کوڑے لگانا تو ضروری ہے، لیکن جلا وطن کرنے کی سزا معاف کی جا سکتی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۲۵ -  ۴۲۸)۔

مولانا اصلاحی  کا نقطۂ نظر بھی اس سزا سے متعلق یہی ہے،  تاہم ان کا طرز استدلال مختلف ہے اور وہ جلاوطنی کی سزا کا ماخذ قرآن مجید   کی آیت محاربہ کو قرار دیتے ہیں جہاں  حرابہ کے مجرموں کے لیے علاقہ بدر کر دینے کی سزا بیان کی گئی ہے۔ 

جلاوطنی کے حوالے سے احناف کے مذکورہ طرز استدلال ہی کی توسیع کرتے ہوئے  مولانا امین احسن اصلاحی نے  رجم کو بھی زنا کی سزا کا لازمی حصہ  تسلیم کرنے کے حوالے سے جمہور فقہا  سے اختلاف کیا ہے، جو احادیث کی روشنی میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کے قائل ہیں اور سورۂ نور کے حکم کو صرف غیرشادی شدہ زانیوں کے حق میں قابل عمل مانتے ہیں۔   مولانا کا کہنا ہے  کہ قرآن میں اس فرق کی کوئی بنیاد موجود نہیں اور سورۂ نور کی آیت  اپنے اسلوب کے لحاظ سے  اس پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ شارع نے کسی قسم کے فرق کے بغیر    ہر طرح کے زانیوں کے لیے یہی سزا مقرر کی ہے۔ دوسری طرف  یہ بات بھی اصولی طور پر درست ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول وفعل کے ذریعے سے قرآن مجید کے مدعا میں کسی قسم کا کوئی تغیر پیدا نہیں کرتے، بلکہ آپ کے تمام استنباطات اور اجتہادات قرآن ہی پر مبنی اور اسی کے تحت ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں مولانا نے رجم کی سزا کا ماخذ قرآن مجید ہی میں متعین کیا اور اس کا ماخذ  آیت محاربہ کو قرار دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے ، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔

اس استدلال کا حاصل یہ ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے، جب کہ رجم کی سزا اس صورت میں دی جائے گی جب مجرم زنا کے ساتھ ساتھ فساد فی الارض کا بھی مرتکب ہو۔ اس  نقطۂ نظر کے تحت مولانا نے  رجم سے متعلق احادیث کی توجیہ یوں کی ہے کہ وہ سورۂ نور کے حکم کے خلاف نہیں اور نہ ان احادیث نے قرآن کے  حکم کو منسوخ کیا ہے، کیونکہ زنا کے جن  مجرموں کو ان واقعات میں سنگ سار کیا گیا، وہ زنا کے ساتھ ساتھ فساد فی الارض کے بھی مرتکب تھے جس کی سزا قرآن نے آیت محاربہ میں  بیان کی ہے۔  یہاں حرابہ اور فساد فی الارض کی پاداش میں  تقتیل، یعنی عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے کی جس سزا کا ذکر ہوا ہے، مولانا کی راے میں رجم بھی اسی کی ایک صورت ہے۔   یوں  آیت محاربہ کی رو سے کسی بھی مجرم کو، چاہے وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، اس کی آوارہ منشی اور اوباشی یا جرم میں کسی بھی نوعیت کی سنگینی شامل ہونے کی وجہ سے سنگ سار کیا جاسکتا ہے اور احادیث میں رجم کے جن واقعات کا ذکر ہوا ہے، ان کی نوعیت یہی تھی، یعنی وہ زنا کے عام مجرم نہیں تھے جن کی سزا سورۂ نور میں بیان کی گئی ہے    (تدبر قرآن  ۲/ ۵٠۶۔  ۵/  ۳۶۷- ۳۶۹)۔

مصنف نے اس پوری بحث میں مولانا اصلاحی کے موقف اور استدلال سے  اتفاق کیا ہے۔

چوری کی سزا

’’قرآن نے  اِس کے لیے ’سَارِق‘ اور ’سَارِقَة‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ عربی زبان کے اسالیب بلاغت سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ یہ صفت کے صیغے ہیں جو وقوع فعل میں اہتمام پر دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا اِن کا اطلاق فعل سرقہ کی کسی ایسی ہی نوعیت پر کیا جا سکتا ہے جس کے ارتکاب کو چوری اور جس کے مرتکب کو چور قرار دیا جا سکے ۔ چنانچہ اگر کوئی بچہ اپنے باپ یا کوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑا لیتی ہے یا کوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدروقیمت کی کوئی چیز چرا لے جاتا ہے یا کسی کے باغ سے کچھ پھل یا کسی کے کھیت سے کچھ سبزیاں توڑ لیتا ہے یا بغیر کسی حفاظت کے کسی جگہ ڈالا ہوا کوئی مال اچک لیتا ہے یا آوارہ چرتی ہوئی کوئی گائے یا بھینس ہانک کر لے جاتا ہے یا کسی اضطرار اور مجبوری کی بنا پر اِس فعل شنیع کا ارتکاب کرتا ہے تو بے شک،  یہ سب ناشایستہ افعال ہیں اور اِن پر اُسے تادیب و تنبیہ بھی ہونی چاہیے ، لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کا حکم اِن آیات میں بیان ہوا ہے ۔لہٰذا یہ انتہائی سزا ہے اور صرف اُسی صورت میں دی جائے گی جب مجرم اپنے جرم کی نوعیت اور اپنے حالات کے لحاظ سے کسی رعایت کا مستحق نہ رہا ہو۔ “(میزان۶۳۰)

مصنف نے جن صورتوں کو  حد سرقہ کے نفاذ سے  مستثنیٰ قرار دیا ہے،     جمہور اہل علم بھی انھیں مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر  صورتوں  میں حد سرقہ نافذ نہ کرنے کا ثبوت  خود  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث  میں  ملتا ہے۔     مثلاً سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں معمولی چیزوں کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا،  بلکہ اس کے لیے ایک زرہ یا ڈھال کی قیمت کو معیار قرار دیا گیا  جو قیمتی چیزیں شمار ہوتی تھیں (بخاری، رقم  ۶۲۹۶۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم  ۲۸۱۱۴)۔ اسی طرح آپ نے غیر محفوظ جگہ سے کی گئی چوری کو بھی قطع ید سے مستثنیٰ قرار دیا  (ابوداؤد، رقم ۴۳۹۰) ۔ نیز فرمایا کہ درختوں سے پھل وغیرہ اتارنے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا (ابن ماجہ، رقم ۲۵۹۳)۔

حالت اضطرار میں  چوری کرنے والوں پر بھی   آپ نے حد جاری کرنے کی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ عباد بن شرحبیل بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے قحط کے زمانے میں مدینہ کے ایک باغ میں داخل ہو کر اس کا کچھ پھل کھایا اور کچھ کپڑے میں ڈال لیا۔ اتنے میں باغ کا مالک آ گیا اور اس نے پکڑ کر ان کی پٹائی کی اور ان کے کپڑے چھین لیے۔ عباد شکایت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے تو آپ نے باغ کے مالک سے فرمایا کہ تم نے نہ تو اسے سکھایا، حالاں کہ یہ ناواقف تھا اور نہ اسے کھلایا، حالاں کہ یہ بھوکا تھا۔ پھر آپ کے کہنے پر باغ کے مالک نے عباد کے کپڑے بھی واپس کر دیے اور انھیں کچھ غلہ بھی دے دیا (ابوداؤد، رقم ۲۲۵۲)۔

شاہ ولی اللہ  مذکورہ صورتوں کو  سزا سے مستثنیٰ قرار دینے کی   وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بھی قیود و شرائط بیان فرمائی ہیں ، ان کی نوعیت عمل سرقہ کی توضیح وتنقیح کی ہے۔ چونکہ چوری دراصل کسی کا مال خفیہ طور پر اڑانے کو کہتے ہیں ، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی چیز سے ممیز کرنے کے لیے یہ ضابطہ متعین فرمایا کہ چوری وہ شمار ہوگی جو چوتھائی دینار یا تین درہم کے برابر ہو۔ اسی طرح  فرمایا کہ خیانت کرنے والے یا مال لوٹنے والے یا اچک لینے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ مزید فرمایا کہ درخت کے ساتھ لگے ہوئے پھل یا رسی کے ساتھ بندھا ہوا جانور لے جانے پر بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس سے مقصود اس شرط کو واضح کرنا تھا کہ (قطع ید کے لیے) مال کو کسی محفوظ جگہ سے چرایا جانا ضروری ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۳۱۶- ۳۱۷)۔

مصنف نے  ان تخصیصات کی وضاحت کے لیے قرآن مجید کے اسلوب کو بنیاد بنایا ہے  اور  صفت کے صیغوں کے استعمال سے یہ اخذ کیا ہے کہ  وقوع فعل میں اہتمام  کے بغیر اگر چوری کا  فعل کسی سے صادر ہو تو  اس پر قطع ید کی سزا دینا آیت  کا مدعا نہیں ہے۔

شراب نوشی، ارتداد اور توہین رسالت

مصنف نے  حدود کے تحت آنے والے جرائم  میں شراب نوشی، ارتداد اور توہین  رسالت کو شمار نہیں کیا۔   اس ضمن میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرتے ہوئے مصنف نے دوسرے مقام پر لکھا ہے:

’’یہ سزائیں صرف پانچ جرائم کے لیے مقرر کی گئی ہیں: زنا، قذف، چوری، قتل و جراحت اور فساد فی الارض۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ شراب نوشی، ارتداد اور توہین رسالت کی سزا بھی شریعت میں اِسی طریقے سے مقرر کر دی گئی ہے۔ ہم نے بہ دلائل واضح کر دیا ہے کہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ اِن جرائم کے لیے شریعت میں ہرگز کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی۔ یہ سراسر اجتہادی معاملات ہیں اور اِن کے بارے میں جو راے بھی قائم کی جائے گی، اِسی بنیاد پر کی جائے گی۔ “ (مقامات۲۳۱)

مذکورہ جرائم سے متعلق اپنے موقف اور استدلال  کی وضاحت مصنف نے ’’برہان’’ میں اور بعض دیگر مقامات پر  کی ہے۔

شراب نوشی سے متعلق مصنف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اسی کوڑوں کی صورت میں اس کی سزا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقرر نہیں فرمائی، بلکہ  سیدنا عمر نے اپنے عہد میں صحابہ کے ساتھ مشاورت کر کے مقرر کی تھی۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں  ایسے مجرموں کے لیے کوئی خاص سزا مقرر کیے بغیر انھیں پٹوا دیا جاتا تھا۔  سیدنا ابوبکر نے اپنے دور میں اجتہاداً‌ اس کے لیے چالیس کوڑوں کی سزا مقرر کی جسے سیدنا عمر نے بعد میں اسی کوڑوں میں تبدیل کر دیا۔ یوں یہ معاملہ شریعت کے دائرے میں نہیں آتا، بلکہ  ’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر شراب نوشی کے مجرموں کو پٹوایا تو شارع کی حیثیت سے نہیں ، بلکہ مسلمانوں کے حکمران کی حیثیت سے پٹوایا اور آپ کے بعد آپ کے خلفا نے بھی اُن کے لیے چالیس کوڑے اور اسی کوڑے کی یہ سزائیں اِسی حیثیت سے مقرر کی ہیں ۔ چنانچہ ہم پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی حد نہیں ، بلکہ محض تعزیر ہے جسے مسلمانوں کا نظم اجتماعی ، اگر چاہے تو برقرار رکھ سکتا اور چاہے تو اپنے حالات کے لحاظ سے اِس میں تغیر و تبدل کرسکتا ہے‘‘ (برہان۱۳۹)۔

ارتداد پر قتل کی سزا سے متعلق مصنف کی راے یہ ہے کہ یہ  کوئی مستقل سزا نہیں ، بلکہ قرآن مجید  میں مشرکین عرب کے لیے جو قانون بیان کیا گیا، اسی کی ایک فرع ہے۔  اس قانون کی رو سے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے  اتمام حجت کے بعد آپ کی قوم جس میں آپ کی براہ راست بعثت ہوئی تھی،  ایمان نہ لانے کی صورت میں قتل کی سزاوار قرار دی گئی تھی۔ چنانچہ ’’ وہ لوگ جن کے لیے کفر کی سزا موت مقرر کی گئی ، وہ اگر ایمان لا کر پھر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹتے تو لازم تھا کہ موت کی یہ سزا اُن پر بھی بغیر کسی تردد کے نافذ کردی جائے ۔ چنانچہ یہی وہ ارتداد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘‘ (مقامات۳۳۸) ۔ اس استدلال کا حاصل یہ ہےکہ ارتداد کی یہ سزا مشرکین عرب کے ساتھ خاص تھی، اس کو شریعت کے عمومی ضابطۂ تعزیرات  کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مذکورہ دونوں امور سے متعلق مصنف کی راے ، فقہا کی عمومی راے سے مختلف ہے جو ان دونوں سزاؤں کو حدود میں  شمار کرتے ہیں۔

توہین رسالت   کی سزا سے متعلق  مصنف نے فقہاے احناف کے موقف سے اتفاق کیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ  اگر کوئی غیر مسلم اس کا مرتکب ہو   تو  اسے اس سے باز رہنے کی تنبیہ کی جائے گی اور  باز نہ آنے پر تعزیری سزا  دی جائے گی،  البتہ اگر وہ اس پر مصر رہے اور بار بار تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے تو اسے تعزیراً‌ موت کی سزا دی جا  سکتی ہے۔   مصنف کی راے میں اگر کوئی غیر مسلم معاند مستقل طور پر یہ  روش  اختیار کر لے اور تنبیہ وتادیب کے باوجود اصلاح پر آمادہ نہ ہو تو  اسے محاربہ اور فساد فی الارض   کا مجرم قرار دے کر ، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے، ان میں سے کوئی بھی سزا دی جا سکتی ہے جو سورۂ مائدہ (۵) کی آیت  ۳۳ میں بیان کی گئی ہیں۔ البتہ مصنف کو فقہاے احناف  کی راے سے اتفاق نہیں کہ ایک مسلمان اگر توہین کا مرتکب ہو  اور توبہ کرنے  پر آمادہ نہ ہو تو  مرتد ہو جانے کی وجہ سے اسے قتل کر دیا جائے گا۔ مصنف  کے نزدیک چونکہ ارتداد  کی سزا مشرکین عرب کے ساتھ خاص تھی، اس لیے  توہین کے مرتکب مسلمان کو   اس جرم پر کوئی تعزیری سزا تو دی جا سکتی ہے، لیکن اسے  بر بناے ارتداد قتل نہیں کیا جا سکتا  (مقامات۳۳۶)  ۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B