HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الروم ۳۰: ۳۰-۶۰ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًاﵧ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَاﵧ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِﵧ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُﵱ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ٣٠ﶥ مُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ وَاتَّقُوْهُ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ٣١ﶫ مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًاﵧ كُلُّ حِزْبٍۣ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ ٣٢

(یہ حقائق مبرہن ہو گئے )، سو ایک خدا کے ہو کر[135] تم (اپنے باپ ابراہیم کی طرح اب ) اپنا رخ اُس کے دین کی طرف کیے رہو۔[136]تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت[137]کی پیروی کرو، (اے پیغمبر)، جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔[138]اللہ کی بنائی ہوئی اِس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔[139]یہی سیدھا دین ہے،[140]لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ (اِس کی پیروی کرو)،تم سب اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اور اُس سے ڈرتے رہو اور نماز کا اہتمام رکھو[141]اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ، اُن مشرکین میں سے جنھوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ۔ ہر گروہ اُسی میں مگن ہے جو اُس کے اپنے پاس ہے۔[142]۳۰- ۳۲

وَاِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُّنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ ثُمَّ اِذَا٘ اَذَاقَهُمْ مِّنْهُ رَحْمَةً اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُوْنَ ٣٣ﶫ لِيَكْفُرُوْا بِمَا٘ اٰتَيْنٰهُمْﵧ فَتَمَتَّعُوْاﶋ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ٣٤ اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ يُشْرِكُوْنَ ٣٥

لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب اُنھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو اُسی کی طرف رجوع ہو کر پکارنے لگتے ہیں ، پھر جب وہ اپنی طرف سے اُن کو رحمت کی لذت چکھاتا ہے تو اُن میں سے ایک گروہ یکایک اپنے پروردگار کے شریک ٹھیرانے لگتا ہے کہ جو کچھ ہم نے اُنھیں عطا فرمایا ہے، اُس کی ناشکری کریں ۔[143]اچھا تو چند روز حظ اٹھا لو،پھرعنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا۔ اِن سے پوچھو،اِنھوں نے یونہی خدا کے شریک ٹھیرا لیے ہیں یا ہم نے کوئی ایسی دلیل اِن پر اتار دی ہے کہ جو یہ خدا کے شریک ٹھیراتے ہیں ، وہ اُس کی شہادت دے رہی ہے؟[144]۳۳- ۳۵

وَاِذَا٘ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوْا بِهَاﵧ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌۣ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ اِذَا هُمْ يَقْنَطُوْنَ ٣٦ اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ٣٧

(پھر یہی نہیں )، ہم جب لوگوں کو رحمت کی لذت چکھاتے ہیں تو (شکر گزاری کے بجاے) وہ اُس پر اترانے لگتے ہیں اور جو کچھ اُن کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے، اُس کے بدلے میں اگر کوئی تکلیف اُنھیں پہنچ جائے تو فوراً مایوس ہو جاتے ہیں ۔A[145] کیا وہ دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی جس کا چاہتا ہے، رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے، تنگ کر دیتا ہے؟ اِس میں ، یقیناً اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان والے ہیں ۔[146]۳۶- ۳۷

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰي حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِﵧ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِﵟ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٣٨ وَمَا٘ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۠ فِيْ٘ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِﵐ وَمَا٘ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ ٣٩

سو (رزق میں کشادگی ہو تو) قرابت مند اور مسکین اور مسافر کو اُس کاحق دو۔[147]یہ اُن کے لیے بہتر ہے جو خدا کی رضا چاہتے ہیں اوروہی (آخرت میں ) فلاح پانے والے ہیں ۔ یہ سودی قرض[148] جوتم اِس لیے دیتے ہو کہ دوسروں کے مال میں شامل ہو کر بڑھے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا[149] اور جو صدقہ[150] تم دیتے ہو کہ اُس سے اللہ کی رضا چاہتے ہو تو اُسی کے دینے والے ہیں جو اللہ کے ہاں اپنا مال بڑھا رہے ہیں ۔[151] ۳۸- ۳۹

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْﵧ هَلْ مِنْ شُرَكَآئِكُمْ مَّنْ يَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَيْءٍﵧ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰي عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ٤٠ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ٤١

(قریش کے لوگو)، اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمھیں روزی دی، پھر تم کو مارتا ہے، پھرتمھیں زندہ کرے گا۔ کیا تمھارے شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جو اِن کاموں میں سے کوئی کام کرتا ہو؟[152] وہ پاک اور بالاتر ہے اُن سب چیزوں سے جنھیں یہ شریک ٹھیراتے ہیں ۔[153] (تم نے دیکھا نہیں کہ) لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی سے خشکی اور تری[154] میں فساد برپا ہو گیا ہے۔[155] (یہ خدا کو دعوت دے رہا ہے) کہ وہ اُن کے بعض کرتوتوں کا مزہ اُنھیں چکھائے تاکہ وہ رجوع کریں ۔[156] ۴۰- ۴۱

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلُﵧ كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّشْرِكِيْنَ ٤٢

(اِس لیے متنبہ ہو جاؤ، تمھاری طرف تو خدا کا رسول آگیا ہے)۔ اِن سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ (رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد) اُن لوگوں کا انجام کیا ہوا جو پہلے گزرے ہیں ۔ اُن میں سے اکثر (تمھاری طرح) مشرک ہی تھے۔ ۴۲

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ الْقَيِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ يَوْمَئِذٍ يَّصَّدَّعُوْنَ ٤٣ مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهٗﵐ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُوْنَ ٤٤ﶫ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْ فَضْلِهٖﵧ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ ٤٥

سو (نہیں سنتے تو پروا نہ کرو، اے پیغمبر اور) اپنا رخ دین قیم کی طرف سیدھا رکھو، اِس سے پہلے کہ اللہ کی طرف سے ایک ایسا دن آجائے جس کے لیے واپسی نہیں ہے۔ اُس دن لوگ جدا جدا ہو جائیں گے۔[157] جس نے انکار کیا تو اُس کے انکار کا وبال اُسی پر ہوگا[158] اور جنھوں نے اچھے عمل کیے تو وہ اپنے ہی لیے اپنی راہ سنواریں گے۔ یہ اِس لیے ہو گا کہ جو ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں ، اللہ اُن کو اپنے فضل سے جزا دے۔[159] حقیقت یہ ہے کہ اللہ منکروں کو پسند نہیں کرتا۔[160] ۴۳- ۴۵

وَمِنْ اٰيٰتِهٖ٘ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ٤٦

اُس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ہواؤں کو (باران رحمت کی) خوش خبری دینے والی بنا کر بھیجتا ہے اور اِس لیے بھیجتا ہے کہ تم کو اپنی رحمت کی لذت چکھائے اور اِس لیے کہ کشتیاں (اِن ہواؤں کی مدد سے) اُس کے حکم سے چلیں اور اِس لیے کہ تم اُس کے فضل کے طلب گار بنو اور اِس لیے کہ تم اُس کا شکر ادا کرو۔۴۶

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا اِلٰي قَوْمِهِمْ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْاﵧ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ٤٧ اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهٗ فِي السَّمَآءِ كَيْفَ يَشَآءُ وَيَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَي الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖﵐ فَاِذَا٘ اَصَابَ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ٘ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ٤٨ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمُبْلِسِيْنَ ٤٩ فَانْظُرْ اِلٰ٘ي اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰهِ كَيْفَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاﵧ اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتٰيﵐ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ٥٠

(اِسی طرح ہماری مدد بھی آئے گی) ۔ تم سے پہلے بھی ہم نے رسولوں کو اُن کی قوموں کی طرف بھیجا تھا، پھر وہ کھلی کھلی نشانیاں لے کر اُن کے پاس آئے تو ہم نے مجرموں سے (اُن کے جھٹلانے کا) انتقام لیا اور ہم پر لازم تھا کہ ایمان والوں کی مدد کریں ۔ Bay[161] (حقیقت یہ ہے کہ)اللہ ہی ہے جو رحمت کی ہوائیں بھیجتا ہے، پھر وہ بادلوں کو ابھارتی ہیں ، پھر اللہ جس طرح چاہتا ہے، اُنھیں آسمان میں پھیلا دیتاہے اور اُنھیں تہ بر تہ کرتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اُن کے اندر سے مینہ نکلا چلا آتا ہے، پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے، اُسے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش ہو جاتے ہیں، دراں حالیکہ اُس کے اپنے اوپر نازل ہونے سے قبل، اِس خوشی سے پہلے وہ بالکل مایوس تھے۔ سو (تم بھی مطمئن رہو[162] اور)رحمت الٰہی کے اِن آثار کو دیکھو، وہ زمین کو اُس کے مردہ ہو جانے کے بعد کس طرح زندہ کرتا ہے۔ بے شک، وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔[163] ۴۷- ۵۰

وَلَئِنْ اَرْسَلْنَا رِيْحًا فَرَاَوْهُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوْا مِنْۣ بَعْدِهٖ يَكْفُرُوْنَ ٥١ فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰي وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ ٥٢ وَمَا٘ اَنْتَ بِهٰدِ الْعُمْيِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْﵧ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ ٥٣

(اِن لوگوں کا کیا ہے)! اگر ہم دوسری ہوا بھیج دیں ، پھر یہ اپنی کھیتی کوa[164] پیلا پڑا ہوا دیکھیں تو اِس کے بعد منکر ہو کر رہ جائیں گے۔[165] سو تم مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں تک اپنی پکار پہنچا سکتے ہو، جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر چلے جا رہے ہوں۔[166] اور نہ تم اندھوں کو اُن کی گم راہی سے موڑ کر راہ راست دکھا سکتے ہو۔[167] تم تو صرف اُنھی کو سنا سکتے ہو جو ہماری نشانیوں [168] کے ماننے والے ہوں ۔سو وہی اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ ۵۱- ۵۳

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُۙعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۣ بَعْدِ ضُۙعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۣ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُۙعْفًا وَّشَيْبَةًﵧ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُﵐ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ ٥٤

(یہ کس چیز پر نازاں ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ہی ہے جس نے تم سب لوگوں کو ناتوانی سے پیدا کیا ، پھر ناتوانی کے بعد قوت دی، پھر قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا طاری کر دیا۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے، پیدا کر دیتا ہے اور وہی علیم و قدیر ہے۔ ۵۴

وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَﵿ مَا لَبِثُوْا غَيْرَ سَاعَةٍﵧ كَذٰلِكَ كَانُوْا يُؤْفَكُوْنَ ٥٥ وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِيْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ اِلٰي يَوْمِ الْبَعْثِﵟ فَهٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ٥٦ فَيَوْمَئِذٍ لَّا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ ٥٧

(یہ جس کو دور سمجھ رہے ہیں )، جس دن وہ قیامت برپا ہو گی ، یہ مجرم قسمیں کھا کر کہیں گے کہ اپنی قبروں میں وہ ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ یہ اِسی طرح اوندھے ہوتے رہے تھے۔[169] اِس کے برخلاف جن کو علم[170] اور ایمان عطا ہوا، وہ کہیں گے کہ اللہ کے نوشتے میں تو تم قیامت کے دن تک رہے ہو۔ سو یہ قیامت کا دن ہے، لیکن تم جانتے نہیں تھے۔[171] پھر اُس دن ظالموں کو نہ اُن کی معذرت نفع دے گی اور نہ اُن کو موقع دیا جائے گا کہ خدا کو راضی کر لیں ۔۵۵- ۵۷

وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍﵧ وَلَئِنْ جِئْتَهُمْ بِاٰيَةٍ لَّيَقُوْلَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُبْطِلُوْنَ ٥٨ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ٥٩ فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ ٦٠

(یہ نشانی مانگتے ہیں )۔ ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کر دی ہیں (اور وہی کافی ہیں )۔تم اِن کے پاس کوئی سی نشانی بھی لے آؤ گے تو جو انکار کا فیصلہ کر چکے ہیں، وہ یہی کہیں گے کہ تم لوگ نرے جھوٹے ہو۔ اللہ اِسی طرح اُن لوگوں کے دلوں پر مہر کر دیا کرتا ہے جو جاننا نہیں چاہتے۔ سو،(اے پیغمبر)، صبر کرو۔ بے شک، اللہ کا وعدہ سچا ہے اور (متنبہ ہو جاؤ کہ) اُس کے وعدوں پر یقین نہ رکھنے والے یہ لوگ تمھیں ہرگز بے وزن نہ بنانے پائیں ۔[172] ۵۸ -۶۰

[135]۔ اصل میں لفظ ’حَنِيْفًا‘آیا ہے۔ یہ قرآن میں خاص طور پر اُس یک سوئی اور حنیفیت کے لیے استعمال ہوا ہے جس کی بہترین مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قائم فرمائی۔

[136]۔ آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن آگے حال اور خطاب میں جمع کے صیغوں سے قرآن نے واضح کردیا ہے کہ حضور کے واسطے سے درحقیقت تمام مسلمانوں کو مخاطب فرمایا گیا ہے۔

[137]۔ لفظ ’فِطْرَت‘ کا نصب آیت میں اُس فعل سے ہے جو پچھلے جملے سے مستفاد ہوتا ہے۔ قرآن نے اُسے ظاہر نہیں کیا۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ ساری توجہ مفعول پر مرتکز رہے۔

[138]۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دین کوئی خارج کی چیز نہیں ہے جو اوپر سے تم پر لادی جا رہی ہے۔ یہ عین تمھاری فطرت کا ظہور ہے۔ اِس سے اختلاف کرو گے تو گویا اپنے ساتھ اختلاف کرو گے اور اپنے ہی باطن میں چھپے ہوئے خزانے سے اپنے آپ کو محروم کر لو گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’... اِس سے واضح ہوا کہ جو فلسفی یہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک صفحۂ سادہ اور تمام تر اپنے ماحول کی پیداوار اور اِلف و عادت کی مخلوق ہے، اُن کا خیال بالکل غلط ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین ساخت اور بہترین فطرت پر پیداکیا ہے۔ اُس کو خیروشر اور حق و باطل کی معرفت عطا فرمائی ہے اور نیکی کو اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کا جذبہ بھی اُس کے اندر ودیعت فرمایا ہے، لیکن اُس کی یہ فطرت حیوانات کی جبلت کی طرح نہیں ہے کہ وہ اُس سے انحراف نہ اختیار کر سکے، بلکہ وہ اپنے اندر اختیاربھی رکھتا ہے، اِس وجہ سے بسا اوقات وہ اِس دنیا کی محبت اور اپنی خواہشوں کی پیروی میں اِس طرح اندھا ہوجاتاہے کہ حق و باطل کا شعور رکھتے ہوئے نہ صرف باطل کی پیروی کرتا ہے، بلکہ باطل کی حمایت میں فلسفے بھی ایجاد کر ڈالتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۹۴)

انبیا علیہم السلام اِسی فطرت کی تفصیل کرتے اور اِس کے تمام مقتضیات و لوازم کو انسان کے لیے واضح کر دیتے ہیں ۔ قرآن نے ’ذِكْر‘ اور ’ذِكْرٰي‘ کا لفظ اِسی پہلو سے اپنے لیے استعمال کیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ وہ درحقیقت اُنھی حقائق کی یاددہانی کرتا ہے جو انسان کے اندر موجود ہیں ، لیکن وہ اُنھیں فراموش کر بیٹھتا ہے۔

[139]۔ اصل الفاظ ہیں :’لاَ تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ‘۔اِن میں لاے نفی نفی جواز کے لیے ہے، یعنی ایسا کرنا جائز نہیں ہے اور خلق سے مراد وہی فطرت ہے جس کا ذکر پیچھے ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’مطلب یہ ہے کہ جو چیز اللہ کی پیدا کی ہوئی ہے، اُس کو بدلنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کا خالق ہے، وہ اپنی مخلوقات کے مقاصد و مقتضیات کو جتنے بہتر طریقے پر جانتا یا جان سکتا ہے، کوئی دوسرا نہیں جان سکتا کہ وہ کسی چیز میں ترمیم و تغیر کرنے کا حق دار بن سکے۔ اگر کوئی شخص اِس کی جسارت کرتا ہے، تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کی بنائی ہوئی چیز کی اصلاح کا مدعی ہے جو بالبداہت ایک حماقت ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ خدا نے آنکھیں پیشانی کے ساتھ لگائی ہیں ، کوئی اُن کو گدی یا پاؤں کے ساتھ لگانے کی کوشش کرے یا اللہ تعالیٰ نے عورت کو عورت اور مرد کو مرد بنایا، لیکن عورت مرد بننے کے لیے زور لگائے یا مرد عورت بننے کا خواہش مند ہوجائے۔ اِس قسم کی سعی نامراد کا نتیجہ بگاڑ اور فساد کے سوا کچھ اور نہیں نکل سکتا۔ بالکل یہی حال دین فطرت کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کے جو مبادی فطرت کے اندر ودیعت فرمائے ہیں ، اُنھی پر انسان کی دنیا میں صلاح اور آخرت میں فلاح منحصر ہے۔ اگر انسان اُس سے ذرا سا انحراف اختیار کرے تو وہ خدا کی صراط مستقیم سے ہٹ جائے گا جس کا لازمی نتیجہ اُس کے دین اور اُس کی دنیا ،دونوں کی تباہی ہے، اگرچہ وہ یہ انحراف علم اور سائنس کے کتنے ہی بلند بانگ دعاوی کے ساتھ کرے۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۹۵)

[140]۔ یعنی اِس میں کوئی کج پیچ نہیں ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو نہایت قریب سے اور سیدھا خدا تک پہنچا دیتا ہے۔

[141]۔ اوپر جس یک سوئی کا حکم دیا ہے، یہ اب اُس کے تقاضے بیان کر دیے ہیں کہ اُس کے لیے دل کی انابت و  خشیت بھی مطلوب ہے، حدود الٰہی کی پابندی اور نماز کا اہتمام بھی جو اِن سب چیزوں کی حفاظت کرتی ہے۔

[142]۔ اِس تفصیل سے کلام بالکل مطابق حال ہو گیا ہے، اِس لیے کہ روے سخن قریش کی طرف ہے جنھوں نے شرک میں مبتلا ہو کر دین حنیفی میں تفرقہ ڈالا اور ایک خدا کے بجاے سیکڑوں خدا بنا لیے، جس کے نتیجے میں ہر خدا کے پیرو اپنے امتیازات کے ساتھ ایک الگ گروہ بن گئے۔ اِس میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے درحقیقت اُنھی سے اظہار بے زاری کیا ہے۔

[143]۔ لوگوں کے حال پر اظہار افسوس کے ساتھ یہ توحید کی ایک نہایت اہم نفسیاتی دلیل کی طرف توجہ دلائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’... جب انسان پر حقیقی افتقار اور بے بسی کی حالت طاری ہوتی ہے تو وہ تمام دوسرے اسباب و وسائل اور خود تراشیدہ معبودوں کو چھوڑ کر پوری انابت کے ساتھ اپنے رب حقیقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُس کی اصل فطرت کے اندر ایک خدا کے سوا کسی اور کے لیے کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ لیکن جب افتقار کی حالت ختم ہو جاتی ہے تو پھر وہ اُنھی گم راہیوں میں کھو جاتا ہے جن میں وہ اِس سے پہلے کھویا ہوا تھا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ شرک کا اصلی سبب انسان کی غفلت ہے۔ یہ غفلت جب قدرت کی کسی تنبیہ سے دور ہو جاتی ہے تواُس کو اصل حقیقت نظر آجاتی ہے، لیکن جب حالات بدل جاتے ہیں تو اُس کی سابق غفلت پھر عود کر آتی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۹۷)

[144]۔ یہ آخر میں قریش کو تنبیہ فرمائی ہے جس میں ، اگر غور کیجیے تو طنز و تحقیر اور غیظ و غضب ، سب جمع ہو گیا ہے۔

[145]۔ نعمت و نقمت، سب خدا کا امتحان ہے اور تمام نیک و بد کسی نہ کسی صورت میں اُس سے گزرتے ہیں ، لیکن آیت میں نقمت کے ساتھ ’بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ‘کے الفاظ اِس لیے آگئے ہیں کہ اشارہ قریش کی طرف ہے جنھیں درپردہ تنبیہ فرمائی ہے کہ آج تو خدا کی بخشی ہوئی نعمت پر اکڑ رہے ہو، لیکن اپنے کرتوتوں کے باعث اگر کل کسی پکڑ میں آگئے تو روؤ اور چلاؤ گے۔

[146]۔ یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ ہر چیز خدا کے اختیار میں ہے اور یہاں جو کچھ ہوتا ہے، اصلاً امتحان کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ بندے کے لیے دو ہی رویے ہیں کہ نعمت ملے تو شکر کرے اور مصیبت آئے تو صبر کے ساتھ اُس کا مقابلہ کرے۔ انسان کے تمام اعلیٰ اوصاف کا سرچشمہ اُس کی یہی دو صفات ہیں ۔ وہ جب اِن سے محروم ہو جاتا ہے تو وہی کچھ کرتا ہے جو یہ لوگ اِ س وقت کر رہے ہیں ۔

[147]۔ یعنی وہ حق جو خدا نے ہمیشہ سے مقرر کر رکھا ہے، اِس لیے کہ نہیں دو گے تو خدا کے ہاں غصب حقوق کے مجرم ٹھیرو گے اور تمھارا مال خود تمھارے لیے وبال بن جائے گا۔ اوپر جس شکر گزاری کی تلقین ہے، یہ اُسی کا طریقہ بتایا ہے۔

[148]۔ اصل میں لفظ ’رِبَا‘آیا ہے۔ یہ یہاں ’تسمیة الشيء بما یؤل إلیه‘کے اسلوب پر استعمال ہوا ہے، یعنی اُس مال کے لیے جو سود کما لائے گا۔

[149]۔ یعنی دنیا میں تو یقیناً بڑھتا ہے اور تم دس کے بیس اور بیس کے سو بنا لیتے ہو، لیکن اللہ کے ہاں اُس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی،بلکہ الٹا تمھارے لیے وبال بن جاتا ہے، اِس لیے کہ جو کچھ بڑھا کر لاتا ہے، دوسروں پر ظلم کرکے لاتا ہے۔

[150]۔ اصل میں لفظ ’زَکٰوۃ‘ استعمال ہوا ہے، لیکن چونکہ نکرہ ہے، اِس لیے اِسے اصطلاحی مفہوم میں نہیں ، بلکہ عام صدقات کے مفہوم میں لینا چاہیے۔

[151]۔ یہ اُس وعدے کی طرف اشار ہ ہے جو انفاق کرنے والوں کے ساتھ خدا نے کر رکھا ہے کہ وہ اُس کا اجر اُنھیں اتنا بڑھا کر دے گا کہ وہ نہال ہو جائیں گے۔اِس سے، اگر غور کیجیے تو قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ آخرت کو پانے کے لیے بعض اوقات دنیا کو کھونا پڑتا ہے۔ لیکن یہ کوئی خسارے کا سودا نہیں ہے، اِس لیے کہ خدا کی اِس ابدی بادشاہی کے مقابلے میں دنیاے دوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اِسی طرح یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ اُس زمانے میں سودی قرض بالعموم تجارتی اور کاروباری مقاصد ہی کے لیے دیے جاتے تھے اور اِس طرح قرآن کی تعبیر کے مطابق دوسروں کے مال میں شامل ہو کر بڑھتے تھے۔ بالبداہت واضح ہے کہ ضرورت مندوں کو دیے جانے والے صرفی قرضوں کے لیے یہ تعبیر کسی طرح موزوں نہیں ہے۔

استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے ایک دوسرے پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’...آیت کے الفاظ پر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ سود خوار کے مال کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے سانڈ سے تشبیہ دی ہے جو دوسرے کی چراگاہ میں چرکر موٹا ہوتا ہے۔ اِس وجہ سے اُس کی فربہی میں کوئی خیرو برکت نہیں ہے۔ خیرو برکت صرف اُس مال میں ہے جو اپنی چراگاہ میں چر کر پروان چڑھتا ہے ،پھر خدا کی رضا جوئی اور اداے حقوق کی راہ میں قربان ہوتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۹۹)

[152]۔ مطلب یہ ہے کہ جب خدا ہی تنہا معبود ہے، وہی مارتا ، جِلاتا، پیدا کرتا اور روزی دیتا ہے تو آخر کن کے بل بوتے پر اکڑ رہے ہو اور اگر اُس کی پکڑ میں آگئے تو کون تمھارے کام آئے گا؟

[153]۔ اوپر کی بات خطاب کے صیغے میں تھی۔ یہ جملہ غائب کے صیغے میں ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ بات کرتے کرتے گویا متکلم نے اپنے مخاطبین سے منہ پھیر لیا ہے۔

[154]۔ یہ الفاظ احاطہ پر دلیل ہیں ، جیسے روز و شب اور صبح و شام وغیرہ۔

[155]۔ روم و ایران کے درمیان جس کشمکش اور جنگ و جدال کا ذکر سورہ کے شروع میں ہوا ہے، یہ اُس کی طرف اشارہ ہے۔ اِس طرح کا فساد انسانی تاریخ میں وقتاً فوقتاً برپا ہوتارہتا ہے۔ قریب کے زمانے میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم اِسی کی مثال ہے۔ یہ اُس وقت برپا ہوتا ہے، جب قوموں کے مفادات اور دوسروں پر علو و برتری کی خواہش اُنھیں اخلاقی اصولوں سے یک سر بے گانہ کر دیتی ہے اور وہ عدل و قسط کے بجاے ظلم و عدوان کو اپنی پالیسی بنا لیتی ہیں ۔

[156]۔ اپنے تمام کرتوتوں کا مزہ تو لوگ آخرت ہی میں چکھیں گے، لیکن بعض کرتوتوں کے لیے روز مکافات بسا اوقات اِسی دنیا میں آجاتا ہے۔ اِس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگ متنبہ ہوں اور آخرت کی جزا و سزا سے پہلے اپنے خالق کی طرف رجوع کر لیں ۔

[157]۔ یعنی سب متفرق ہو جائیں گے، کوئی کسی کے لیے کام آنے والا نہ بنے گا۔

[158]۔ یعنی کوئی دوسرااُس کا بوجھ اٹھانے والا نہ ہو گا۔

[159]۔ یہی قیامت کی اصل غایت ہے۔ وہ اِسی لیے برپا کی جائے گی کہ ماننے والوں کو اُن کے ایمان و عمل کی جزا دی جائے۔نہ ماننے والوں کی سزااُس کی اصل غایت نہیں ، بلکہ لازمی نتیجہ ہے۔ پھر مزید یہ کہ ماننے والوں کو یہ جزا اُن کا پروردگار اُن کے اعمال کے پیمانے سے نہیں ، بلکہ اپنے فضل کے پیمانے سے دے گا اور اللہ تعالیٰ کا فضل ایسی چیز ہے کہ استاذ امام کے الفاظ میں ، اُس کا اندازہ ہم اپنے پیمانوں اور قیاسوں سے نہیں کر سکتے۔

[160]۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سخت نفرت و کراہت کا اظہار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اُنھیں پسند نہیں کرتا، لہٰذا اُس کو کوئی پروا بھی نہیں ہے کہ وہ کس انجام کو پہنچتے اور کس جہنم میں جا کر گرتے ہیں ۔

[161]۔ ہم جگہ جگہ بیان کر چکے ہیں کہ رسول اور اُس کے ساتھیوں کے باب میں یہی سنت الٰہی ہے۔

[162]۔ اِس لیے کہ اُس کی یہی شان رحمت عنقریب تمھارے لیے بھی ظاہر ہو جائے گی۔

[163]۔ اوپر کی آیتوں میں دنیا کی کامیابی کی بشارت تھی۔ یہ اب آخرت میں بھی خدا کی رحمت کے ظہور کی طرف اشارہ فرما دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’...مطلب یہ ہے کہ کفار آخرت کو جو جھٹلاتے اور اُس کو محض تمھارا خواب و خیال قرار دیتے ہیں ، تم اُن کی بوالفضولیوں کی پروا نہ کرو۔ خدا کی یہ عظیم رحمت ظاہر ہو کے رہے گی اور تمھارے یہ حریف اُس دن اپنی بدبختی و محرومی پر اپنے سر پیٹیں گے۔ یہ حقیقت قرآن سے واضح ہے کہ قیامت دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا مقتضیٰ ہے اور اُس کا اصل مقصد اہل ایمان کو اُن کی جاں بازیوں کا صلہ دینا ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۰۸)

[164]۔ اصل میں ضمیر ہے جس کا مرجع ’يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا‘کے جملے سے مفہوم ہو رہا ہے، یعنی ’زَرْع‘ یا اُس کے ہم معنی کوئی لفظ جو ’مُصْفَرًّا‘ سے مناسبت رکھتا ہو۔

[165]۔ مطلب یہ ہے کہ اِن سے کسی خیر کی امید نہ رکھو، یہ نہ نعمت پر شکر کی توفیق پاتے ہیں اور نہ مصیبت پر صبر کر سکتے ہیں ۔ تمھاری باتیں اِس طرح کے لوگوں کے دلوں میں نہیں اتریں گی۔

[166]۔ یعنی بہرے بھی اگر متوجہ ہوں تو اُن سے کچھ سننے سمجھنے کی توقع کی جا سکتی ہے، لیکن جو بہرے بھی ہوں اور پیٹھ پھیر کر بھاگے بھی جا رہے ہوں ، اُن کو کوئی کیا سنائے اور کس طرح سنائے؟

[167]۔ اصل الفاظ ہیں:’وَمَآ اَنْتَ بِهٰدِ الْعُمْيِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ‘۔اِ ن میں ’عَنْ‘اِس بات پر دلیل ہے کہ لفظ ’ہدایت‘ یہاں ’صَرْف‘یا اِس کے ہم معنی کسی لفظ پر متضمن ہے۔

[168]۔ اِن سے مراد انفس وآفاق کی وہ نشانیاں ہیں جن کا ذکر پیچھے تفصیل کے ساتھ ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’...مطلب یہ ہے کہ تمھاری باتیں اگر کارگر ہو سکتی ہیں تو اُن لوگوں پر کارگر ہو سکتی ہیں جو خدا کی قدرت، رحمت اور اُس کے عدل کی اُن نشانیوں کو مانتے ہوں جو آفاق میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ جو اِن کو نہ مانتے ہوں ، اُن کے آگے سارا وعظ بھینس کے آگے بین بجانے کے حکم میں داخل ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۰۹)

[169]۔ یعنی اِسی طرح کے غلط اندازے لگاتے رہے تھے۔ چنانچہ آج جس کو گھڑی دو گھڑی کی بات سمجھ رہے ہیں ، اُسی کو دنیا میں ایسا بعید سمجھتے تھے کہ موت اور موت کے بعد کے مراحل کے بارے میں کبھی فکرمند ہونے کی تو فیق ہی نہیں ہوئی۔

[170]۔ یعنی علم حقیقی جو خدا اور آخرت پر ایمان کا ذریعہ بنتا ہے۔

[171]۔ یعنی اُس وقت جاننے کے لیے تیار نہیں تھے۔

[172]۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ اِن کے شور و غوغا، بہتان و افترا اور طنز و استہزا کے طوفان میں اپنی بات تمھیں بے وزن معلوم ہونے لگے۔ نہیں ، بلکہ خدا کے وعدوں پر تمھارا یقین اِس قدر راسخ ہونا چاہیے کہ اُس کے مقابل میں یہ اپنے آپ کو بے وزن محسوس کریں ۔

کوالالمپور

 ۵ /  مارچ ۲۰۱۴ء

ـــــــــــــــــــــــــ

B