اخذ و ترتیب: سید منظور الحسن
[ایک طالب علم کے مرسلہ سوالات کے جواب میں جناب جاوید احمد غامدی کی گفتگو سے ماخوذ]
سوال: اگر کوئی شخص لا علاج اذیت ناک بیماری میں مبتلا ہو جائے تو کیا اُسے تکلیف سے نجات دلانے اور نتیجتاً موت کے حوالے کر دینے کے لیے علاج کو ترک کیا جا سکتا ہے؟ اِس صورت میں کیا وہ خود بھی علاج سے دست بردار ہونے کی درخواست کر سکتا ہے ؟ اسلامی شریعت اِس بارے میں کیا رہنمائی دیتی ہے؟
جواب: اِس معاملے میں دو باتوں کو بہ طور اصول سمجھ لیجیے:
اول، شریعت کی رو سے انسانی جان کو حرمت حاصل ہے۔ یہ اللہ کی امانت ہے جو انسان کی حفاظت میں دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’تمھارے جسم کا تم پر حق ہے‘‘، ’’تمھاری جان کا بھی تم پر حق ہے‘‘۔[1] اِس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسان پر دوسروں کے حقوق قائم ہیں، اُسی طرح اپنی جان کی حفاظت کا حق بھی اُس پر قائم ہے۔ لہٰذا نہ وہ اپنی جان کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ دوسرے انسانوں کی جان کے لیے ضرررساں ہو سکتا ہے۔
علاج معالجہ حرمت جان کے اِسی اصول کی فرع ہے۔ اِس کا مقصد جان ہی کی حفاظت ہے۔ چنانچہ جب کسی شخص کو بیماری لاحق ہو تو اُسے علاج کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اِس معاملے میں غفلت کا رویہ ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ علاج کرانے کی یہ ذمہ داری اُس پر اُس کی ذات کے حوالے سے بھی ہے اور اہل و عیال اور زیرکفالت لوگوں کے حوالے سے بھی۔ دونوں صورتوں میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔ یہ بھی جان ہے اور وہ بھی جان ہے اور وہ دونوں کی حفاظت کا ضامن بنایا گیا ہے۔لہٰذا ہر دو صورتوں میں اُسے یہ ذمہ داری لازماً پوری کرنی چاہیے۔
دوم، شریعت میں فرض اور واجب کو نفل اور مستحب اور جائز اور مباح پر ترجیح حاصل ہے۔ چنانچہ فرائض اور واجبات پر عمل لازم ہے۔ اُن سے انحراف شریعت کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ لیکن جہاں تک نوافل، مستحبات اور مباحات کا تعلق ہےتو اُنھیں انسان کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جان کی حفاظت اور اُس کے لیے علاج کا اہتمام فرائض کے زمرے میں آتا ہے، اِس لیے بلا عذر اُس سے اجتناب ممنوع ہے۔ لیکن معاملہ اگر علاج سے آگے بڑھ کر محض سانس برقرار رکھنے تک پہنچ جائے یا علاج کے فطری طریقوں سے ہٹ کر مصنوعی طریقوں کی نوبت آ جائے تو انسان کی صواب دید ہے کہ اُنھیں قبول کرے یا اُن سے اجتناب کا فیصلہ کرے۔ اِس طریقے سے زندگی برقرار رکھنا دینی یا اخلاقی تقاضا نہیں ہے۔
اِن اصولوں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانی جان کی حفاظت اور اُس کے لیے علاج معالجہ دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری ہر انسان پر اُس کی اپنی جان کے لیے بھی ہے اور دوسروں کی جان کے لیے بھی۔ ہر انسان اِس کا مکلف ہے، وہ اِس سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔ تاہم، اگر مرض لا علاج ہو اور تکلیف برداشت کی حد سے بڑھ جائے تو انسان علاج کو جاری رکھنے کا مکلف نہیں رہتا۔ اِس صورت میں معاملہ فرض و واجب کے دائرے سے نکل کر مستحب اور مباح کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے اور علاج جاری رکھنا یا اُسے ترک کرنا اختیاری (optional) امر بن جاتا ہے۔ یہی اصول اُس موقع کے لیے بھی ہے، جب انسان کی زندگی کے ضامن بنیادی اعضا توغیر فعال ہو جائیں ، لیکن مشینی آلات کی مدد سے یا دوسرے انسانوں یا جانوروں کے اعضا کی پیوند کاری سے زندگی برقرار رہنے کی گنجایش پیدا ہو جائے۔ اِس صورت میں بھی اُس کے پاس دونوں راستے ہیں: چاہے تو ایسے ذرائع پر انحصار کر کے زندگی کے سفر کو جاری رکھے اور چاہے تو اُن سے بے نیاز ہو کر اپنی جان اللہ کے سپرد کر دے۔ دونوں صورتوں میں سے وہ جسے چاہے اختیار کر سکتا ہے۔ اِس ضمن میں اُس پر کوئی دینی یا اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے۔
جہاں تک اطبا اور معالجین کا معاملہ ہے تو اُنھیں بھی مذکورہ اصولوں کی روشنی میں مریض کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ کسی موقع پر اگر اُنھیں خود کوئی فیصلہ کرنا پڑ جائے تو وہ مریض کو اپنے زیر کفالت سمجھتے ہوئے اقدام کریں۔ یعنی اُسی طرح فیصلہ کریں، جیسے والدین اپنے بچوں کے لیے کرتے ہیں۔
سوال: شریعت کی رو سے موت کسے کہتے ہیں، یہ کب واقع ہوتی ہے اور اِس کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟اگر کسی شخص کی دماغی موت (brain death) واقع ہو جائے، مگر حرکت قلب جاری ہو یا حرکت قلب تو بند ہو گئی ہو، مگر دماغ زندہ ہو یا کسی اور سبب سے وہ مستقل کوما (coma) کی کیفیت میں مبتلا ہوتو کیا ایسی صورت میں اُس کا علاج جاری رکھنا چاہیے؟ شریعت کی رو سے ایسا علاج جاری رکھنا واجب ہو گا، مستحب ہو گایا مباح ہو گا؟
جواب: موت کے وقوع کا تعین شریعت کا موضوع نہیں ہے۔اِسے لوگ اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنا پر طے کرتے ہیں۔ کوئی شبہ ہو تو معالج سے راے لی جاتی ہے۔معالج بھی اپنے علم ، تجربے اور دستیاب وسائل کی مدد سے راے قائم کرتا ہے کہ انسان زندہ ہے یا مرچکا ہے۔ بعض اوقات وہ اِس کا فیصلہ آنکھیں دیکھ کر کرتا ہے، بعض اوقات نبض کو جانچ کر یا کسی ٹیسٹ کے ذریعے سے یا دل کی دھڑکن سن کر یا دماغی موت کی بنا پر اِس کا تعین کرتا ہے۔مقصد اِس امر کا پورا اطمینان کرنا ہوتا ہے کہ انسان کی موت واقع ہوگئی ہے اور زندگی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اِس معاملے میں بعض اوقات غلطی بھی ہو جاتی ہے ، مگر اِس کے باوجود ہمیں اپنے علم اور تجربے ہی پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ موت کو جانچنے کا ہمارے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے۔
جہاں تک علاج معالجے کا تعلق ہے تو اُسےحقیقی زندگی کو بچانے اور مریض کو آرام پہنچانے تک محدود رہنا چاہیے۔ اِس سے آگے بڑھ کر فقط جسمانی حیات کو برقرار رکھتے ہوئے انسان کو ایک زندہ لاش کے طور پر باقی رکھنا شریعت کا منشا نہیں ہے۔ ایسی صورت میں متعلقہ ادویات کو ترک کر کے اورمشینوں کو ہٹا کر اللہ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ جب خدا کا فیصلہ آ جائے اور معروف معنوں میں موت واقع ہو جائے تو پھر شریعت کے مطابق تدفین کر دینی چاہیے۔ اس معاملے میں واجب، مستحب یا مباح کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اگر زندگی بچ سکتی ہے تو اُسے بچانے کی ہر ممکن کو شش کرنی چاہیے۔ یہ شرعی لحاظ سے واجب ہے۔ لیکن اگر زندگی نہیں بچ سکتی تو پھر انسان کو اللہ کے سپرد کرنا ہی بہتر ہے۔
سوال: اگر مرض قابل علاج ہو، مگر مریض اور اُس کے لواحقین مالی استطاعت سے محروم ہوں تو کیا قرض لے کر یا مدد طلب کر کے علاج کرایا جا سکتا ہے؟
جواب:یہ معاشرے اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ بنیادی ضروریات زندگی کا انتظام کرے۔ جان کی حفاظت انسان کی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ معاشرے کو اِسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ معاشرہ اگر اِس ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے تو پھر اعزہ و اقربا پر اِس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لوگوں سے مدد طلب کر کے یا قرض حاصل کر کے علاج کرانا بالکل جائز ہے۔ شریعت نے اِس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ تاہم ،یہ ضروری ہے کہ قرض اپنی حد وسع کے مطابق لیا جائے تاکہ اُسے لوٹانا ممکن ہو۔
یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے۔ اسباب و وسائل بھی اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ ہمیں اپنی ہمت اور استطاعت کےمطابق جان بچانے کی پوری کوشش کرنی ہے۔ اِس کے بعد معاملات کو اللہ پر چھوڑ دینا ہے۔ اللہ زندگی برقرار رکھنا چاہے گا تو اُس کے اسباب لازماً پیدا ہو جائیں گے ، لیکن اگر اُس نے موت کا فیصلہ صادر فرمایا ہے تو ہر طرح کے اسباب میسر ہونے کے باوجود انسان جاں بر نہیں ہو سکے گا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ ’فإن لجسدك عليك حقًا‘(بخاری، رقم ۱۹۷۵)۔ ’ولنفسك عليك حقًا‘ (بخاری، رقم ۱۹۶۸)۔