سیدنا ابو یحییٰ مالک بن دینار بصری (وفات: ۱۳۱ ھ) ایک جلیل القدر تابعی ہیں۔ معرفت الہٰی سے متعلق اُن کا ایک قول اِن الفاظ میں نقل کیا گیا ہے:
قال مالک بن دینار: خرج أھلُ الدنیا من الدنیا ولم یذوقوا أطیبَ شيء فیھا، قالوا: وما ھو یا أبا یحیی؟ قال: مَعرفةُ اللہ تعالٰی. (حلیۃ الاولیاء ۲/ ۳۳۳ )
’’ دنیا والے دنیا سے چلے گئے، مگر انھوں نے دنیا کی سب سے اچھی چیز کا ذائقہ نہیں چکھا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے ابو یحییٰ، وہ اچھی چیز کیا ہے؟ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کی معرفت۔‘‘
اللہ کی معرفت کیا ہے؟ اِس کا مطلب ہے: مخلوق کا اپنے خالق کو دریافت کر لینا۔ یہ دریافت ایک بے حد انوکھا تجربہ ہے۔ یہ دریافت ایک ایسا اعلیٰ تجربہ ہے جس کو کسی انسانی لفظ میں بیان کرنا ممکن نہیں، تاہم تقریب فہم کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ معرفت ایک ایسا ذائقہ ہے جس سے زیادہ اچھا اِس دنیا میں ہرگز اور کوئی ذائقہ نہیں ہوسکتا۔
اللہ کی سچی معرفت انسان کی فطری طلب کا مکمل جواب ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب انسان اپنے خالق کو معرفت کے درجے میں پاتا ہے تو وہ اُس کے پورے وجود کے لیے ایک نہایت اعلیٰ قسم کا پرکیف تجربہ بن جاتا ہے، ایک ایسا تجربہ جس سے زیادہ پرکیف تجربہ اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔
اللہ کی معرفت بہ یک وقت دو کیفیتوں کا مجموعہ ہوتی ہے:ایک اعتبار سے محبت، اور دوسرے اعتبار سے خشیت۔ اِس دو طرفہ پہلو کی بنا پر یہ عارفانہ کیفیت تمام دوسری کیفیتوں سے جدا ہو جاتی ہے۔ اِس کیفیت میں ایک طرف حب شدید ہوتا ہے اور دوسری طرف خوف شدید۔اِس کیفیت میں درد بھی ہے اور مسرت بھی، اندیشہ بھی ہے اور امید بھی۔
اِس دو طرفہ کیفیت کا تعلق موجودہ دنیا سے ہے۔ موجودہ دنیا میں ایک سچا مومن اِنھی دو طرفہ کیفیات کے درمیان جیتا ہے، یہاں تک کہ اُس پر موت آجائے اور اللہ کی رحمت سے اُس کو جنت کے ابدی باغوں میں داخل کر دیا جائے۔
مومنانہ زندگی اِسی امید اور اندیشے کا دوسرا نام ہے (الإیمانُ بینَ الخوفِ والرّجاء)۔ تاہم یہ معرفت کوئی مجرد چیز نہیں۔ معر فت کا ایک لازمی نتیجہ ہے، اور وہ ہے: حسن اخلاق ۔ جو شخص خدا سے محبت کرے، وہ لازماً خدا کے بندوں سے بھی محبت کرے گا؛ وہ اُن کے دکھ درد کے لیے تڑپے گا، وہ اُن کی ضرورتوں میں اُن کے کام آئے گا، وہ اُن کے ساتھ انسانیت اور اخلاق کا برتاؤ کرے گا۔ وہ صرف اپنے لیے جینے کے بجاے دوسروں کے لیے جینے والا انسان ہوگا۔
[لکھنؤ، ۲۰ / دسمبر ۲۰۲۱ء]
ـــــــــــــــــــــــــ