[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت بشر بن حارث قریش كی شاخ بنو سہم سے تعلق ركھتے تھے۔ عمرو بن ہصیص ان كے چھٹے(دوسری روایت: ساتویں) اور كعب بن لؤی آٹھویں (دوسری روایت: نویں) جد تھے۔ ایك وقت مكہ میں بنو سہم كی بنوعبد مناف سے زیادہ عزت تھی، اسی لیے آں حضور صلی الله علیہ وسلم كے پردادا ہاشم كے بھائی مطلب نے اپنے بھتیجے عبدالمطلب كو كھلاتے ہوئے اچھالا اور كہا :
كأنه في العز قیس بن عدي
’’ گویا یہ بچہ عزت و شرف میں قیس بن عدی ہے۔‘‘
زمانہ ٔجاہلیت میں عزت و شرف كا یہ مظہر قیس بن عدی سہمی حضرت بشر كےدادا تھے۔ ان كا والد حارث بن قیس بھی قریش كے دس بڑے سرداروں میں شمار ہوتا تھا۔ بتوں پر چڑھنے والے چڑھاوے اس كے پاس جمع ہوتے اور نزاعات میں فیصلہ كرنے كا اختیار بھی اسے حاصل تھا۔ حارث كی والده، بنو مره بن كنانہ كی غیطلہ بنت مالك مكہ كی مشہور كاہنہ تھی، لوگ غیب كی خبریں معلوم كرنے كے لیے اس كے پاس آیا كرتے تھے۔ اس شہرت كی بنا پر اس كی اولاد كو غیاطلہ كہا جاتا ہے۔ حضرت حارث بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث، حضرت تمیم بن حارث ، حضرت سائب بن حارث اور حضرت حجاج بن حارث حضرت بشر كے بھائی تھے۔ ابن حجر كہتے ہیں:حضرت بشر كا نام بشر كے بجاے سہم بن حارث بھی نقل كیا گیا ہے۔
حضرت بشر بن حارث آمد اسلام كے بعد جلد ہی نعمت ایمان سے سرفراز ہوئے۔
حضرت بشر كا باپ حارث رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ كے اصحاب كا استہزا كرنے میں پیش پیش تھا۔ اس كا كہنا تھا:محمد(صلی الله علیہ وسلم) نے اپنے آپ كو اوراپنے پیروكاروں كو مرنے كے بعد جی اٹھنے كا كہہ كر(معاذ الله) دھوكا دیا ہے۔ ہمیں تو زمانہ اور مرور ایام فنا كر دیتے ہیں۔ اہل ایمان كااستہزا كرنے والے دوسرے كٹے مشرك سرداروں كے نام یہ ہیں:عاص بن وائل، ولید بن مغیره، ہبار بن اسود، اسود بن مطلب، عبد یغوث بن وہب اور حارث بن غیطلہ۔
ابن عبدالبر كہتے ہیں: حارث بن قیس نے بھی اسلام قبول كر لیا تھا۔ ذہبی كہتے ہیں:یہ دعویٰ ابن عبدالبر كے سوا كسی نے نہیں كیا، حارث بن قیس تو اسلام كاٹھٹھا كرنے والاتھا۔ اس كے مسلمان ہونے كی روایت ابوعمركے علاوه كسی نے بیان نہیں كی(تجرید اسماء الصحابۃ۱/۱۰۷)۔ معروف بن خربوذ كا كہنا ہے: جاہلیت میں دس قریشی سردار عزت وشرف كے حامل تھے۔ وه مسلمان ہو ئے تو یہ شرف اسلام میں منتقل ہو گیا۔ حارث بن قیس ان میں سے ایك تھا۔ یہ قول نقل كرنے كے بعد ابن حجر نے اس كا جواب دیا كہ اس سے مرادحارث كی اولاد كا ایمان لانا ہے۔ لیكن پھر ان كا میلان ابن عبدالبر كی راے كی طرف ہو گیا اور انھوں نےحارث كے مشرف بہ اسلام ہونے كےدلائل دے دیے۔
حضرت بشر كا والد حارث خود دشمن دین تھا۔ جب ابوجہل، امیہ بن خلف اورقریش كے دیگر متمردین نے نومسلم اہل ایمان كا جینا دوبھر كردیا تو نبی محترم صلی الله علیہ وسلم نے اصحاب كو حبشہ ہجرت كرنے كی ترغیب دی۔ حضرت بشر بن حارث اپنے بھائیوں حضرت حارث ، حضرت عبدالله ، حضرت معمر ، حضرت سعید، حضرت ابوقیس اورحضرت سائب كے ساتھ عازم حبشہ ہو گئے۔ حبشہ كی طرف ہجرت ثانیہ كرنے والے ان كے قافلے كے سالار حضرت جعفر بن ابوطالب تھے۔ مشہور روایات كے مطابق حضرت تمیم اور حضرت حجاج نے حبشہ ہجرت نہ كی۔
حضرت بشر بن حارث غزوۂ بدر كے بعد حبشہ سے لوٹ آئے۔ انھوں نے جنگ میں شركت نہ كی، پھر بھی رسول
الله صلی الله علیہ وسلم نے انھیں مال غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا۔ ابن ہشام نے حضرت بشر كا شمار ان اصحاب میں كیا ہے جو حضرت جعفر بن ابوطالب كی واپسی سے پہلے اور جنگ بدر كے بعدمدینہ پہنچ گئے۔
ابن اثیر كہتے ہیں:مہاجرین حبشہ كی فہرست كے علاوه ان كا تذكرہ كہیں نہیں ہوا۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت سعید بن حارث سہمی كے دادا قیس بن عدی زمانہ ٔ جاہلیت میں قریش كے ایك بڑے سردار تھے۔ ان كے والد حارث بن قیس بھی سردا ر تھے، لوگوں سے نذرانے اور تحائف وصول كرتے۔ بنو كنانہ سے تعلق ركھنے والی اپنی والده غیطلہ بنت مالك كی نسبت سےوه حارث بن غیطلہ كہلاتےتھے-اسی نسبت سے ان كی اولاد غیاطلہ كہلاتی ہے۔ بنو جمح كے عروه بن سعد كی بیٹی حضرت سعید كی والدہ تھیں۔ دوسری روایت كے مطابق ضعیفہ بنت عبد عمرو ان كی والدہ تھیں، وه بھی بنو سہم سے تعلق ركھتی تھیں۔ حضرت بشر بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت سائب بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث، حضرت حارث بن حارث اورحضرت تمیم بن حارث حضرت سعید كے بھائی تھے۔
حضرت سعید كوابتداے اسلام میں ایمان لانے كی سعادت حاصل ہوئی۔
حارث بن قیس قریش كے دس بڑے سرداروں میں سے ایك تھا۔ مكہ میں دین حق كی آمد پر اسے بھی اپنی سیادت چھن جانے كا خوف ہوا، اس لیے وه اسلام دشمنی میں سرگرم ہو گیا۔ وه نبی برحق صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ كا استہزا كرنے میں پیش پیش تھا۔ عا ص بن وائل، ولید بن مغیره، ہبار بن اسود، اسود بن مطلب اورعبد یغوث بن وہب بھی اہل ایمان كا ٹھٹھا كرنے والے جہنمیوں میں شامل تھے۔ ابن جریح كہتے ہیں كہ الله كا فرمان ’اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِهٖ غِشٰوَةً‘، ’’ پھر تم نے اس شخص كے حال پر غور كیا جس نے اپنی خواہش نفس كو اپنا معبود بنا لیا اور الله نے یہ جان كر اسے گم راہ كر دیااور اس كے كانوں اور دل پر مہر لگا دی اوراس كی بینائی پر پرده ڈال دیا‘‘ (الجاثیہ۴۵: ۲۳)حارث بن قیس سہمی كے بارے میں نازل ہوا۔ نقاش نے حارث سہمی كے بجاے حارث بن نوفل اور مقاتل نے ابو جہل بتایا (الجامع لاحكام القرآن، قرطبی۱۶/ ۱۶۷)۔ مولانا امین احسن اصلاحی لكھتے ہیں: اس فرمان الٰہی میں یہود كی طرف اشاره ہے، كیونكہ ان صفات كے ساتھ قرآن نے صرف یہود ہی كا ذكر كیا ہے(تدبر قرآن ۷/ ۳۲۱)۔ آلوسی كہتے ہیں:مقاتل كی روایت كے مطابق یہ آیت حارث بن قیس سہمی كے بارے میں نازل ہوئی، لیكن اس كا حكم عام ہے(روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی ۲۵/ ۱۵۲)۔
ایك شاذ روایت كے مطابق جسے كسی نے قبول نہیں كیا، حارث بن قیس نے اسلام قبول كر لیا تھا۔
۶۱۰ء میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پرپہلی وحی نازل ہوئی۔ شروع میں آپ نے لوگوں كو علانیہ دعوت نہ دی، پھر بھی نبوت كے دوسرے سال تك مكہ كے غربا اور نوجوانوں كی ایك بڑی تعداد ایمان لا چكی تھی۔ اس پر مكہ كے رؤسا اور سرداروں نے نادار مسلمانوں كو طرح طرح كی اذیتیں دینا شروع كر دیں۔ ۵/ نبوی میں اذیت رسانی كا یہ سلسلہ عروج كو پہنچ گیا توآپ نے صحابہ كو حبشہ كی طرف ہجرت كرنے كی ہدایت كی۔ چنانچہ حضرت سعید بن حارث بھی اپنے بھائیوں حضرت بشر بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت سائب بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث اورحضرت حارث بن حارث كے ساتھ حبشہ روانہ ہوئے۔ وه حبشہ كی طرف كی جانے والی دوسری ہجرت میں شریك تھے۔ ان كے بھائی حضرت تمیم بن حارث حبشہ نہ گئے۔ حضرت سعید كے والدحارث بن قیس كے مشرف بہ اسلام ہونے كی راے ركھنے والے اہل تاریخ كہتے ہیں كہ انھوں نے بھی حبشہ ہجرت كی۔
۲ھ میں بدر كے میدان میں ہونے والے معركۂ فرقان میں مسلمانوں كو عظیم الشان فتح حاصل ہوئی تو حضرت سعید بن حارث نے مدینہ كی طرف رجوع كیا۔ حبشہ میں ره جانے والے باقی صحابہ حضرت جعفر بن ابوطالب كے قافلے كے ساتھ ۷ ھ میں مدینہ پہنچے۔
حضرت سعید بن حارث نے رجب ۱۵ھ میں جنگ یرموك میں داد شجاعت دیتے ہوئے رتبۂ شہادت حاصل كیا۔ دوسری روایت میں وه معركہ ٔ اجنادین میں شہید ہوئے۔ ابن اثیر كہتے ہیں:یرموك اور اجنادین كی جنگوں كے بارے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے كہ ان میں سے كون سی پہلے ہوئی۔ اسی طرح ان میں شہادت پانے والےصحابہ كی جاے شہادت كے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں۔ اس كی وجہ یہ ہے كہ دونوں مقام شام میں ایك دوسرے كے قریب واقع ہیں۔
حضرت سعید بن حارث نے كوئی اولاد نہ چھوڑی۔
مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، تاریخ الامم والملوك(طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)، ، البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت نوح علیہ السلام كے بیٹے سام كی اولاد میں سے كہلان بن سبا نے یمن كو اپنا مسكن بنایا۔ كہلان كی اولاد میں ازد بن غوث اور اگلی نسل میں حارثہ بن ثعلبہ ہوئے ۔یہ سب مملكت سبا میں آباد رہے جو مشہور روایات كے مطابق یمن كے علاقے میں قائم تھی۔ سبا كا مشہور بند سد مارب آٹھویں صدی قبل مسیح میں تعمیر كیا گیا تھا۔ 447ء میں جب یہ ٹوٹ گیا اور اس سیلاب نے تباہی مچا دی، جسے قرآن مجید نے ’سَيْلَ الْعَرِمِ ‘ (السبا۳۴: 16) كے نام سے بیان كیا ہے تو حارثہ بن ثعلبہ كے دو بیٹے ـــــ اوس اور خزرج ـــــنقل مكانی كر كے یثرب( بعد میں مدینہ منوره) میں آباد ہو گئے۔ خزرج كے بیٹے جشم كی چھٹی نسل میں زریق بن عامر ہوئے ۔ حضرت سفیان كا تعلق خزرج كی اسی شاخ بنوزریق سے تھا،ان كی والدہ ام ولدتھیں ا ور یمن سے آئی تھیں۔ جب قریش كے بطن بنو جمح كے معمر بن حبیب نے حضرت سفیان كو متبنیٰ بنا لیا تو وه مكہ میں آباد ہو گئے۔ ان كا سلسلۂ نسب محو ہو گیا اور وه بنو جمح ہی سے منسوب ہونے لگے۔ ابو جابر (شاذ روایت: ابوجناده )ان كی كنیت تھی۔
حضرت جمیل بن معمر جمحی حضرت سفیان كے بھائی تھے، اپنے والد كے ساتھ جنگ فجار میں شركت كی۔ بڑھاپے میں فتح مكہ كے موقع پر ایمان لائے ۔ جنگ حنین میں نبی صلی الله علیہ وسلم كے ساتھ شریك ہوئے اور زہیر بن ابجر كو قتل كیا۔جمیل نامی دو شخصیات اور ہیں جنھیں حضرت جمیل سے ممیز كرنا ضروری ہے:ایك قریش كا جمیل بن معمر فہری(قرطبی۔ زمخشری: جمیل بن اسد فہری ) جو یہ دعویٰ كرتا تھا كہ اس كے پہلو میں دو دل ہیں، اس لیے ذو القلبین كہلاتا تھا۔كفار مكہ كی طرف سے جنگ بدر میں حصہ لیا اور شكست كے بعد اتنا گڑبڑایا كہ جوتی كا ایك پاؤں پہنے ركھا اور دوسرا ہاتھ میں اٹھا لیا۔ دوسرا بنو عذره (بطن بنوقضاعہ) سے تعلق ركھنے والا دور اموی كامشہور شاعر جمیل بن عبدالله بن معمر جواپنی چچا زادبثینہ كے عشق میں مبتلا تھا۔اسے نہ پاسكا تو درد بھرے اشعار كہنے شروع كر دیے۔ابن حجر كہتے ہیں:جمیل بثینہ كا حضرت جمیل بن معمر سے كوئی تعلق نہیں۔
سہیلی نے ذوالقلبین كا مصداق حضرت جمیل بن معمر جمحی كو قرار دیا ہے۔گویا یہ وہی جمیل بن معمر ہیں جنھوں نے قبیلۂ قریش میں اعلان كیا كہ عمر بن خطاب ایمان لے آئے ہیں ، جنگ بدر میں مشركوں كا ساتھ دیا، فتح مكہ پر ایمان لائے اور جنگ حنین میں اسلامی فوج میں شامل ہوئے، یہی حضرت سفیان بن معمر كے بھائی تھے۔
حضرت حسنہ معمر بن حبیب كی باندی تھیں جو بحرین کے قصبہ عدولیٰ سے ان كے پاس آئی تھیں۔ معمر نے حضرت حسنہ كو آزاد كر كے ان كا بیاه اپنے منہ بولے بیٹےحضرت سفیان سے کر دیاجو جاہلیت کے رواج کے مطابق سفیان بن معمرجمحی کہلاتے تھے۔ معمر بن حبیب نے عام الفیل کے بیس برس بعد برپا ہونے والی چوتھی جنگ فجار، فجار اکبر میں اپنے قبیلے بنو جمح كی طرف سےلڑتے ہوئے جان دے دی، تاہم حضرت سفیان مكہ ہی میں مقیم رہے۔مكہ میں حضرت حسنہ سے حضرت سفیان كے دو بیٹے حضرت جناد ہ اور حضرت جابر ہوئے جو ہجرت حبشہ كے وقت جوان تھے۔ابن حزم،ابن عبدالبر اور ابن اثیرنے حبشہ میں ان كے تیسرے بیٹے حارث بن سفیان كی ولادت كی خبر دی ہے،جب كہ ابن اسحاق اور ان كے تتبع میں ابن ہشام نے حبشہ میں پیدا ہونے والے بچوں كی فہرست میں حارث بن سفیان كا نام درج نہیں كیا۔
كسی كا بچہ گود میں لینا تبنی (بیٹا بنانا)كہلاتا ہے اور لے پالك كو متبنیٰ كہتے ہیں۔زمانۂ ما قبل
اسلام میں منہ بولے بیٹے كو حقیقی اولاد كے حقوق حاصل ہوتے تھے۔ متبنیٰ كا نسب بدل جاتا، لوگ اسے اصل باپ كے بجاے فرزندی میں لینے والے كے نام سے منسوب كرتے۔وه منہ بولا باپ بننے والے كی حقیقی اولادكی طرح وراثت پاتا۔
اسلام نے اس طرح كسی كا بچہ لے كراپنے خاندان میں ضم كر لینا حرام قرار دیا ہے،كیونكہ اس سے كئی حقوق پامال ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْﵧ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْﵧ وَاللّٰهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَ. اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ.(الاحزاب۳۳: ۴- ۵)
’’الله نے تمھارے لے پالكوں كو تمھارے بیٹے نہیں بنایا تھا، یہ تو تمھارے مونہوں سے كہی گئی باتیں ہیں۔الله حق كہتا ہے اور وه سیدھی راه كی ہدایت كرتا ہے ۔ان فرزندی میں لیے ہوؤں كو ان كے باپوں سے منسوب كرو، یہی الله كے نزدیك قرین انصاف ہے۔‘‘
انسانی نسب نكاح و ولادت سے ترتیب پاتا ہے۔اسی پر تركہ ومیراث كے احكام مترتب ہوتے ہیں۔ متبنیٰ سب سے پہلے اپنے اصل والدین كی نسبت سے محروم ہو جاتا ہے۔ پھراسے گود میں لینے والے كے حقیقی وارثوں كے حق وراثت میں خلل آ جاتا ہے۔ ایك غیر محرم لڑكی كو اس كی حقیقی بہن كا مقام مل جاتا ہے اور اس سے نكاح و اختلاط كا حق ركھنے كا سوال اٹھ كھڑا ہوتا ہے۔
اللہ كے اس فرمان كا سب سے پہلا اطلاق حضرت زید بن حارثہ پر ہوا ۔وه نبی اكرم صلی الله علیہ وسلم كے منہ بولے بیٹے ہونے كی وجہ سے زید بن محمد كہلاتے تھے۔اس حكم ربانی كے نازل ہونے كے بعد اپنی اصل نسبت ابوّت سے پكارے جانے لگے۔
كفالت كسی یتیم یا بے سہارا بچے كی پرورش كی ذمہ داری لینا ہے ۔یہ شے دگر ہے،اسے اسلام نے جائز قرار دیا ہے۔اس میں بچے كی نسبت ابوّت ضائع نہیں ہوتی۔ میراث كے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ بالغ ہونے پر مكفول كو غیر محرم رشتوں سے اختلاط كا حق نہیں رہتا۔كفالت ایك نیكی ہے جس كا معاشرت میں پایا جانا لازم ہے۔ رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:میں اور یتیم كی كفالت كرنے والا جنت میں ان دو انگلیوں كی طرح ہوں گے۔ یہ ارشاد فرماتے ہوئے آپ نےاپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی كی طرف اشارہ فرمایا(بخاری، رقم 6005۔مسلم، رقم 7578۔ابوداؤد، رقم 5150۔ترمذی، رقم 1918۔ شعب الایمان ، بیہقی، رقم 11026)۔
حضرت سفیان بن معمر قدیم الاسلام ہیں۔
5 ؍نبوی :كفار مكہ كے جور و ستم كا سلسلہ بند نہ ہواتو نبی صلی الله علیہ وسلم نےصحابہ كو حبشہ ہجرت كرنے كی ہدایت كی۔حضرت سفیان بن معمر اپنی اہلیہ حضرت حسنہ اور بیٹوں حضرت جابر اور حضرت جنادہ كے ساتھ ہجرت ثانیہ كے قافلے میں شامل ہوئے ۔
حضرت سفیان بن معمر نبی صلی الله علیہ وسلم كے مدینہ ہجرت فرمانے كے بعد، حضرت جعفر بن ابو طالب كے قافلے كی شہر نبی میں واپسی سے پہلے مدینہ پہنچے۔ان كی اہلیہ حضرت حسنہ ، ان كے بیٹے حضرت جنادہ اور حضرت جابر ان كے شریك سفر تھے۔
حضرت سفیان بن معمر اور ان كے كنبے نے مدینہ پہنچنے كے بعد اپنے آبائی قبیلے بنوزریق میں سكونت اختیار كی۔
حضرت سفیان بن معمر كی وفات عہد فاروقی میں ہوئی۔
حضرت شرحبیل بن حسنہ حضرت سفیان كے سوتیلے بیٹے تھے۔اپنی والده حضرت حسنہ اور سوتیلے بھائیوں حضرت جناده اور حضرت جابر كے ساتھ حبشہ ہجرت كی۔وہاں باره برس انھی كے ساتھ رہے۔ مدینہ آنے كے بعدحضرت سفیان كا كنبہ اپنے آبائی قبیلے بنوزریق میں مقیم ہو گیا تو حضرت شرحبیل بھی ان كے ساتھ رہنے لگے، كیونكہ ان كی اپنی كوئی اولاد نہ تھی۔ جب حضرت سفیان ، حضرت جناده اور حضرت جابر تینوں كا انتقال ہوگیا تو وه محالفت كر كے بنوزہرہ منتقل ہوگئے۔ اس پر بنو زریق کے حضرت ابوسعید بن معلی حضرت عمر کے پاس مقدمہ لے گئے کہ یہ ہمارا حلف کیوں چھوڑ گئے۔ حضرت شرحبیل نے جواب دیا:میں بنو زریق كا حلیف نہ تھا ، بلكہ اپنے سوتیلے بھائیوں کے ساتھ ٹھیرا ہوا تھا۔حضرت عمر نے یہ سن كر حضرت ابوسعید كا دعویٰ مسترد كر دیا اور حضرت شرحبیل بنوزہرہ ہی میں سكونت پذیر رہے۔
مطالعۂ
مزید:السیرة النبویۃ(ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)،جمل من انساب الاشراف(بلاذری) ،المنتظم فی تواریخ الملوك والامم(ابن جوزی)،جمہرة انساب العرب(ابن حزم)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)،البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر) ، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت جنادہ كے والد حضرت سفیان انصار كے قبیلہ بنو خزرج كی شاخ بنوزریق سے تعلق ركھتے تھے، لیكن جب قریش كے بطن بنو جمح كے معمر بن حبیب نے جو جنگ فجار چہارم كے ہیرو رہے تھے ،انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تو وه مكہ میں آباد ہو گئے اور اسی قبیلہ سے منسوب ہونے لگے ۔ان كی اولاد بھی جمہی كہلانے لگی اور اس كا اصل سلسلہ ٔنسب منقطع ہو گیا۔
معمر بن حبیب نے حضرت سفیان كا بیاه اپنی آزاد كرده باندی حضرت حسنہ سے كر دیا جن كا تعلق بحرین کے قصبہ عدولی ٰسےتھا۔حضرت حسنہ سے حضرت سفیان کے بیٹے حضرت جنادہ اور حضرت جابر ہوئے۔ ان كا تیسرا بیٹا حارث قیام حبشہ كے دوران میں پیدا ہوا(الاستیعاب،اسدالغابہ)۔ان دو سگے بھائیوں كے ساتھ حضرت شرحبیل بن حسنہ ان كے ماں شریك بھائی تھے۔ ایك روایت کے مطابق حضرت شرحبیل حضرت حسنہ کے حقیقی فرزند نہیں، بلكہ لے پالك تھے۔ بنوكندہ كے عبداللہ بن مطاع ان كے والد تھے ۔
5/نبوی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قریش كی ایذائیں جھیلنے والے مسلمانوں كو حبشہ ہجرت كرنے كی ہدایت فرمائی تو حضرت جناده بن سفیان اپنے والد حضرت سفیان بن معمر ، والدہ حضرت حسنہ اوربھائیوں حضرت جابر بن سفیان اور حضرت شرحبیل بن حسنہ كے ساتھ كشتی پر سوار ہو كر حبشہ روانہ ہو گئے۔ حضرت جعفر بن ابو طالب اس دوسرے قافلہ ٔ ہجرت كے قائد تھے۔
حضرت جناده بن سفیان اور ان كا حبشہ جانے والا كنبہ جنگ بدر كے بعد كسی وقت مدینہ پہنچا۔
ابن اسحاق اور ان كے تتبع میں ابن ہشام نے اپنی اپنی ’’السیرة النبویۃ‘‘میں چار ذیلی شقوں میں منقسم ایك مشترك عنوان قائم كیا:’’وه اصحاب جنھوں نے حبشہ كو ہجرت كی اور بدر كے بعد ہی لوٹے ، جنھیں نجاشی نے دو كشتیوں میں سوار كر كے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے پاس نہ بھیجا، وه جو بعد میں آئے اوروه جو سرزمین حبشہ میں فوت ہو گئے‘‘۔ یہ سرخی لگانے كےبعد انھوں نے مدینہ لوٹنے والے تمام صحابیوں كے نام قبیلہ وار تحریر كیے اور جن كی وفات ہو چكی تھی، ان كے نام كے ساتھ ’ھلك بأرض الحبشة‘یا ’هلك هناك مسلمًا‘ لكھ دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے كہ جن اصحاب كے ناموں كے ساتھ یہ عبارت نہیں لكھی گئی ،وه زنده لوٹے اور ان كاانتقال بعد میں ہوا۔
جب انھوں نے قبیلہ ٔ بنو جمح كے افراد كی واپسی كا ذكر كیا توحضرت حاطب بن حارث، ان كے بیٹوں محمد اور حارث ، اہلیہ حضرت فاطمہ بنت مجلل، حضرت حطاب بن حارث،ان كی زوجہ حضرت فكیہہ بنت یسار،حضرت سفیان بن معمر،ان كے بیٹوں حضرت جنادہ ،حضرت جابر اوراہلیہ حضرت حسنہ كے نام لیے اور بتایا كہ حضرت حاطب اور حضرت حطاب حبشہ میں وفات پا گئے اور ان كی بیوائیں اور بچے (حضرت جعفر بن ابوطالب كے ساتھ) ایك كشتی میں سوار ہو كر مدینہ پہنچے ۔وه یہ بات پہلے بھی اس عنوان كے تحت بیان كر چكے تھے:’’رسول الله صلی الله علیہ وسلم كےوه اصحاب جو حبشہ میں مقیم رہے، یہاں تك كہ آپ نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری كو نجاشی كے پاس بھیجا اور اس نے انھیں دو كشتیوں پر سوار كیا، پھر حضرت عمرو ان سب كو آپ كے پاس لے آئے جب آپ صلح حدیبیہ كے بعد خیبر میں موجود تھے‘‘۔كشتیوں میں سوار ہو كر لوٹنے والوں كاابن اسحاق اور ابن ہشام نے فرداً فرداًبیان كیا۔ انھوں نے بنو جمح كے صرف ایك فرد حضرت عثمان بن ربیعہ كا نام لیا اورہر قبیلے سے تعلق ركھنے والے صحابہ كی فہرست مكمل كرنے كے بعد لكھا:’’نجاشی نے وہاں وفات پانے والے مسلمانوں كی بیواؤں كوبھی كشتیوں پر سوار كیا‘‘۔
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے كہ صرف حضرت حاطب اور حضرت حطاب كی بیوگان اور بچے ہی حضرت جعفر بن ابوطالب كے ہم سفر تھے۔بنو جمح كے دیگر افراد اس بحری سفر میں شریك نہ تھے، كیونكہ كشتیوں میں سوار اصحاب كی تفصیلی فہرست میں حضرت عثمان بن ربیعہ كے علاوه بنو جمح كے كسی مرد كا نام درج نہیں۔ان مہاجرین كی فہرست میں جو حضرت جعفر كے قافلے میں شامل نہ تھے، حضرت فاطمہ بنت مجلل ، حضرت فكیہہ بنت یسار اور ان كے بچوں كا ذكر ضمناً ان كے شوہروں كی نسبت سے دہرایا گیا ہے اور ان كےحضرت جعفر كے شریك سفر ہونے كی وضاحت كر دی گئی ہے۔اس وضاحت كا اطلاق بنوجمح كے تمام اصحاب پر نہیں ہوتا ۔ اس بحث كے بعد ہم یہ كہنے پر مجبور ہیں كہ ابن عبدالبر، ابن اثیر اور ابن حجر كا ابن اسحاق كا حوالہ دے كریہ كہنا درست نہیں كہ حضرت سفیان بن معمر اور ان كا كنبہ حضرت جعفر بن ابوطالب كے ساتھ نجاشی كی دی ہوئی كشتیوں پر مدینہ واپس آیا۔حضرت سفیان بن معمر كے بارے میں بلاذری كا موقف واضح ہے كہ وه ہجرت مدینہ كے بعد اور حضرت جعفر كی واپسی سے پہلےمدینہ آئے۔ظاہر ہے كہ ان كے كنبے نے بھی ان كے ساتھ ہی سفر كیا۔
حضرت جناده بن سفیان مدینہ پہنچنے كے بعد اپنے آبائی قبیلے بنوزریق میں سكونت پذیر ہوئے۔
حضرت جناده بن سفیان كی وفات عہد فاروقی میں ہوئی۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبد البر)،المنتظم فی تواریخ الملوك والامم(ابن جوزی)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)،البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر) ،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ