انسانی جسم میں سؤر کے دل کی پیوند کاری پر، جاوید احمد صاحب غامدی بڑی حد تک وہی بات کہتے دکھائی دیے جو روایتی علما کا موقف ہے۔ جاوید صاحب کی تعریف میں رطب اللسان، بہت سے روشن خیالوں کو اس پر حیرت ہوئی۔ ان کا تبصرہ تھا کہ اندر سے یہ بھی مولوی نکلے۔
مذہبی روشن خیالی، کیا اس کا نام ہے کہ ہر نئے خیال یا امکان کے لیے مذہبی متون سے دلیل تلاش کی جائے؟ بہت سے لوگ ان علما اور اسکالرز ہی کو روشن خیال مانتے ہیں جو ہر نئی بات کو مذہبی دلیل فراہم کریں۔ اگر کسی معاملے میں، وہ جدت پسندوں سے اختلاف کر بیٹھیں تو وہ بہ یک جنبش قلم ان سے اپنا عطاکردہ روشن خیالی کا اعزاز واپس لے لیتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ جاوید صاحب کے ساتھ بھی ہوا۔
جاوید صاحب کے بارے میں میرا یہ احساس دن بہ دن پختہ ہواہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کو سمجھنے میں غلطی کی۔ یہ لوگ ہرطرح کے طبقات میں پائے جاتے ہیں۔ اہل مذہب میں زیادہ، لبرل طبقے میں کم۔ اس غلطی کا بڑا سبب لاعلمی ہے۔ اکثر ناقدین نے انھیں سمجھنے کی وہ سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جو تنقیدکا بنیادی مطالبہ ہے۔ ان کے مذہبی ناقدین کی تحریریں پڑھیں یا ان کو سنیں تو یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکثریت نے ان کی کوئی ایک کتاب اہتمام کے ساتھ نہیں پڑھی۔ لبرل لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جاوید صاحب کی اساسی فکرہی سے بے خبررہے۔ وہ ان معنوں میں کبھی جدت پسند تھے ہی نہیں جومعنی ان کے ہاں رائج ہیں۔
میرے پیش نظر یہ سوال نہیں کہ سؤر کے اعضا کی پیوند کاری کے باب میں ان کا موقف درست ہے یا غلط؟ میں مذہب اورروشن خیالی کے فرق پرکچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میری یہ تفہیم بڑی حد تک جاوید صاحب کے تلمذہی کانتیجہ ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تفہیم کی تمام تر ذمہ داری طالب علم پر ہے، استاذ پر نہیں۔
مذہب اپنی اساس میں ایک مابعدالطبیعیاتی عمل ہے اور قدیم ہے۔ انسان کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت معلوم تاریخ میں یکساں رہی ہے۔ اللہ کے رسول سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ وہ کوئی نیا دین لے کر آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول اور قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملت ابراہیمی کے احیا کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں۔ قرآن مجید کا کہناہے کہ حضرت آدم سے سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک سب انبیا کا دین ایک ہی ہے۔
اس لیے مذہب اساسی معنوں میں کبھی جدید نہیں ہوتا۔ جو آدمی مذہبی علم سے وابستہ ہو،اس کا وظیفہ یہ نہیں ہے کہ وہ مذہب کواپنے عہد کے فیشن کے مطابق چولے پہناتا رہے، اس کاکام یہ دیکھنا ہے کہ مذہب کبھی اپنی اساسات سے الگ نہ ہو۔ کوئی نیا خیال یا نظریہ، مذہب کو یرغمال نہ بنائے اور اگر ایسا ہوتو وہ اسلام کواس کی اساسات پرکھڑا کرنے کی کوشش کرے۔ تجدید دین اسی کا نام ہے۔
یہ مذہب کا نہیں، انسان کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے حدود میں سوچنے پر مجبور ہے۔ انسانوں کی اکثریت اپنے عہدکے علمی مزاج کی اسیرہوتی ہے۔ وہ شعوری یا غیرشعوری طور پریہ چاہتی ہے کہ اس کا مذہب اس عہد کے علمی معیارات پر پورا اترے۔ یہ کوئی نامسعود خواہش نہیں، لیکن اس باب میں انسانوں کی خود رفتگی اکثران کو اس مقام پرلے جاتی ہے کہ وہ نادانستگی میں مذہب کو عصری علم کامقتدی بنا دیتے ہیں۔
مذہب کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے اور فطرت اس کی نظر میں ناقابل تبدیل ہے۔ اس فطرت میں ایک خالق اور پروردگار کا شعوررکھ دیا گیا ہے۔ یہ شعور اس خالق کے ساتھ تعلق کامطالبہ کرتا ہے جوایک قادر مطلق ہستی اور منعم حقیقی ہے۔ مذہب اس تعلق کی صورت گری کرتا ہے۔ وہ انسان میں یہ احساس پیداکرتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ایک امتحان گاہ میں کھڑا ہے۔ امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے رب کا شکرگزار بندہ بن کر جیتا ہے یااس کا انکار کرتا ہے؟ اسی کی بنیاد پراس کی دائمی زندگی کا فیصلہ ہونا ہے۔ باقی سب اسی کی تفصیلات ہیں۔
تمدن، سیاست اور تہذیب، ان میں سے کوئی مذہب کا اصل موضوع نہیں؛ تاہم یہ فطری بات ہے کہ اللہ کا بندگی کے احساس میں جینے والا کوئی گروہ کسی سیاست یا تہذیب کو جنم دے گا تو خدا کے ہاں جواب دہی کا احساس اس کی بنیاد ہو گی۔ گویا یہ موضوعات، اگرمذہبی علم کا حصہ بنتے ہیں تو بالواسطہ۔ مثال کے طورپر تزکیۂ نفس کومذہب مطلوب قرار دیتا ہے اوریہ بتاتا ہے کہ قیامت کے دن وہی کامیاب ہوں گے جنھوں نے اپنا تزکیہ کیا۔ یہ تزکیہ یا پاکیزگی داخلی بھی ہے اور جسمانی بھی۔ یہ پاکیزگی جن امورکو لازم قرار دیتی ہے، اسے شریعت کہا جاتا ہے جو پیغمبروں کی معرفت ملتی ہے۔ یہ پاکیزہ لوگ جو رہن سہن اختیار کریں گے، وہ ان لوگوں کے رہن سہن سے مختلف ہوگا جوپاکیزگی کے اس احساس سے بے نیاز ہیں۔ یوں اس کا نتیجہ ایک تہذیبی امتیاز کی صورت میں نکلے گا۔
اسی طرح خدا کے ہاں جواب دہی کا احساس رکھنے والا جب سیاست کرے گا تواس کی سیاست اس شخص سے مختلف ہوگی جو اس احساس سے عاری ہے۔ یہ کچھ بدیہی نتائج ہیں جوکسی تصور حیات کے تابع ہوتے ہیں۔ اسی سے تہذیبی اور سماجی رویے جنم لیتے ہیں۔ تمدن یا سیاست، فی نفسہٖ مذہبی اعمال نہیں ہیں۔ ان کا تعلق انسان کے جمالیات یا ضروریات سے ہے۔ ان ضروریات کی تکمیل ایک ارتقائی عمل ہے۔
جدیدیت انسانی تاریخ کا ایک ایسا دور ہے جب ان ضروریات کی تکمیل کے لیے انسان کا تمام ترانحصار اس کی عقل پررہا۔ اس نے کسی دوسرے ماخذ عمل سے شعوری طور پراکتساب سے انکارکیا۔ اس سے جو تہذیب وجود میں آئی، اس نے اپنے غلبے کواپنے حق ہونے کی دلیل کے طورپر پیش کیا، جسے مرعوب ذہنوں نے قبول کرلیا۔ اگر وہ مذہبی پس منظر رکھتے تھے توانھوں نے چاہا کہ مذہب کا مقدمہ ،جدیدیت کے معیارات پر پورا اترے اور یوں مذہب بھی جدید دکھائی دے۔
جاوید احمد صاحب غامدی کا اس سوچ سے دورکا بھی واسطہ نہیں۔ میں پورے اطمینان سے یہ عرض کرتا ہوں کہ مذہبی امور میں ان کی کوئی ایک راے ایسی نہیں ہے جس کی بنیاد دینی نصوص نہ ہو۔ دینی نصوص کی تفہیم میں وہ جواسلوب اختیار کرتے ہیں، اس کا تعلق بھی متن کے داخل سے ہے، خارج سے نہیں۔ مثال کے طورپر اگر وہ مرد وزن کے اختلاط کے باب میں مذہب کا مقدمہ پیش کرتے ہیں تواس کی بنیاد دور جدیدکے مطالبات نہیں ہیں جنھوں نے عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑا کردیا ہے، بلکہ قرآن مجید کے نصوص میں ہے۔
اب چونکہ لوگ ان کے نظام فکر کو نہیں جانتے، اس لیے ان کے بعض نتائج فکر سے، انھیں ان معنوں میں ایک جدید اسکالر سمجھتے ہیں، جس کا وظیفہ ہی یہ ہے کہ وہ ہرنئی بات کودین سے ثابت کرے، چنانچہ انھیں حیرت ہوتی ہے کہ وہ سؤر کے اعضا کی پیوند کاری کے حق میں کیوں نہیں ہیں۔ اگر تنقید کے باب میں بنیادی شرط پوری کردی جائے توپھر شاید ان لوگوں کو حیرت نہ ہو۔ اس کے بعد یہ ان کا فیصلہ ہے کہ وہ انھیں روشن خیال مانتے ہیں یا نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
ـــــــــــــــــــــــــ