[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
نوٹ: اس مضمون کےدو حصے ہیں، پہلے حصے میں آيات كے فہم کو بیان کیا گیا ہے، اور دوسرے حصے میں احباب کی طرف سے اس پر وارد اعتراضات و سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔
یہ مضمون، نظریۂ ارتقا (evolution of species) کے اثرات سے بلند رہ کر، [1] آیات قرآنی کے کلام الہٰی کی روشنی میں مطالعہ کی ایک کوشش ہے ۔یہ اس خیال سے لکھا جارہا ہے کہ اہل علم اس پر غور کریں اور اس لیے بھی کہ اگر میرا فہم درست ہے تو قرآن کا نظریۂ تخلیق متعارف ہو۔ میری کوشش اس میں بس یہ ہے کہ تمام اہم نکات سامنے آجائیں اور میں کلام الہٰی کے ـــــ اپنی دانست میں اس کے الفاظ اورآیات کے سیاق و سباق کے قریب تر ـــــ مفاہیم قارئین تک پہنچا دوں۔ممکن ہے، کل سائنس بھی اسی نظریۂ تک پہنچے۔ یہ مضمون نہ کسی پر تنقید ہے اور نہ کسی کی تائید ۔محض غذاے فکر(food for thought) کے طور پر پیش کررہا ہوں،کیونکہ اس موضوع پر بلندقامت جید علما کی تحقیقات موجود ہیں۔ آیات کا ایک فہم مجھے آمادۂ گفتگو کررہا ہے، محض تاب سخن مجھے جرأت آموز نہیں ہے۔
میں نے اس مضمون کا آغاز اس جملے سے کیا ہے :’’یہ مضمون، نظریۂ ارتقا (evolution of species) کے اثرات سے بلند رہ کر‘‘ لکھا جارہا ہے۔ نظریۂ ارتقا سائنس کی نظر میں پختہ علم کے دائرے میں آتا ہے،اس لیے میرا یہ جملہ یہ تاثر دے سکتا ہے کہ میں ایک ثابت شدہ حقیقت سے گریز کررہا ہوں ۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ فہم قرآن میں پختہ علم کا استعمال ممنوع نہیں، بلکہ مطلوب ہے،لیکن پختہ ترین علم بھی، اگر قرآن کے الفاظ متحمل نہ ہوں ، تو قبول نہیں کیا جائے گا۔اس اصول کی اصل وجہ قرآن سے عقیدت نہیں، بلکہ انسانی علوم کی حقیقت ہے۔[2]انسانی علوم پختہ قرار پا جانے کے باوجود غیر پختہ ثابت ہوتے رہے ہیں۔مثلاً دور متوسط کی بدیہات اور عقلی قطعیات اب کہیں دیکھنے کو بھی نہیں ملتیں۔ وہ اس طرح فوت ہوئیں کہ ان کا جنازہ بھی ادا نہیں کیا گیا۔
موضوع پر آنے سے پہلے، ایک اور بنیادی بات ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ سات آسمان، گردش شمس و قمر، ارتقاے حیات، مراحل جنین یا آغاز حیات قرآن کے موضوعات نہیں ہیں۔قرآن مجید خدا کی صناعی ،اس کی قدرت تخلیق وصحت تخمین اور حکمت و رحمت کے بیان کے وقت یا توحید و معاد وغیرہ پر استدلال کے وقت مظاہر کائنات سے متعلق بعض بیانات دے دیتا ہے۔ان بیانات سے دعوتی، تذکیری یا استشہادی لب و لہجے میں کچھ معلومات ہمیں فراہم ہو جاتی ہیں۔ یہ سب غیر سائنسی طرز کلام میں بیان ہوتی ہیں، اس لیے کہ قرآن اصلاً سائنس کی کتاب نہیں ہے کہ وہ سائنسی اسلوب میں بات کرے،کیونکہ وہ کتاب ہدایت ہے، اسے ہدایت کے سمجھانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔علامہ اقبال کے ایک شعر سے مثال دیتا ہوں ، جو انھوں نے ذرے (atom) کے بارے میں جدید معلومات کی روشنی میں کہا تھا۔معلوم بات ہے کہ شعری اسلوب سائنسی پیرایۂ بیان سے مختلف ہوتا ہے۔ اس سے آپ سمجھ سکیں گے کہ سائنسی حقائق ادب میں کیسے بیان ہوتے ہیں، اور اقبال جیسا قادر الکلام شاعر بھی سائنسی طرز بیان کے اعتبار سے کس قدر ناکام رہتا ہے۔فرماتے ہیں:
حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے، اگر ذرے کا دل چیریں
اس شعر پر بہت سے سائنسی اعتراضات ہو سکتے ہیں، مثلاً نوری شے، یعنی فوٹان وغیرہ میں وہ توانائی نہیں ہوتی جو پورے ایٹم میں ہوتی ہے۔ اسی طرح نہ سورج کا لہو ٹپکتا ہے اور نہ ذرے کا، اور نہ کسی ذرے کا دل ہی ہوتا ہے۔جواس شعر کو اس نظر سے دیکھنے لگے، تو اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے،اس لیے کہ وہ شعر کو بہ حیثیت شعر نہیں دیکھ رہا۔یہ کسی سائنس دان کا اپنے سائنس کے مضمون میں لکھا ہوا جملہ نہیں ہے۔اسے شعر کے طور پر ہی دیکھا جائے گا۔اس اعتبار سے یہ ایک اچھا شعر ہے۔
اس مثال سے مجھے صرف یہ واضح کرنا ہے کہ شاعرانہ پیراے میں ایک سائنسی حقیقت کو کیسے بیان کیا گیا ہے، وہ یقیناً واضح ہو گیا ہوگا۔ اسی پر آپ قیاس کرسکتے ہیں کہ قرآن جیسی دعوتی و اصلاحی کتاب میں، خدا کی قدرتوں وحکمتوں،اس کی تخلیق کی رعنائیوں ومعنی خیزیوں کےبیان کے لیے ، استدلال کو فطرت کے قریب رکھنے کے لیے اور اس کے اولین مخاطب کو مظاہر کےحقیقی و ظاہری تفاوت میں الجھائے بغیر [3] حقائق دعوتی پیرایۂ بیان میں کیسے بیان ہوئے ہوں گے۔
لہٰذا، میرے فہم کےمطابق ،قرآن مجید میں فراہم کی گئی معلومات پیغام رسانی کے لیے بہ طور مثال و استدلال آئی ہیں۔ان میں اس بات سے گریز کیا گیا ہے کہ مظاہر کون و حیات کے مخفی حقائق کو چھیڑا جائے، لیکن قرآ ن میں ایک معجزانہ سطح کی خوبی موجود ہےکہ مظاہر کو جب بھی بیان کیا گیا ہے، توبیان حقائق میں ایسی غلطی نہیں ہوئی کہ جو اُس زمانے کا ایک عرب کرسکتا تھا۔ مثلاً پورا قرآن مجید خالی ہے کہ زمین ساکن ہے اورسورج اس کے گرد گھومتا ہے، حالاں کہ یہ بات کہنے کے بے شمار مواقع قرآن مجید میں موجود ہیں ۔
لہٰذا، اس پیراے میں قرآن مجید مظاہر فطرت کو بیان کرتا ہے۔ ان میں جو معلومات دینے والی آیات ہیں، ان سے ہم علم اخذ کرتے ہیں۔ مثلاً اللہ نے زمین و آسمان چھ دنوں میں بنائے اورسات آسمان بنا ئے گئے ہیں وغیرہ ۔ اب یہ باتیں محض مثالیں نہیں ہیں ۔ان میں ایسی اطلاعات ہمیں دی گئی ہیں جو ابھی تک سائنسی رنگ میں ناقابل فہم ہیں، لیکن ہمارا یقین ہے کہ یہ ہی حق ہیں۔اب اصل موضوع پر آتے ہیں۔
تخلیق حیات اور تخلیق آدم کی آیات کا محل بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ زیادہ تر آیات آخرت میں حیات بعد الموت کے استبعاد (improbability)کو رد کرنے کے لیے ہیں۔نفس واحدہ جو تمام بنی نوع آدم کا باپ ہے، اس کی اوراس کے جوڑے کی تخلیق کے بارے میں سورۂ نساء کی پہلی آیت نوع انسانی کی وحدت بتانےکے لیے ہے کہ سب ایک اللہ کی مخلوق اور نفس واحدہ کا کنبہ ہیں۔ آل عمران کی وہ آیت جس میں حضرت عیسیٰ کو مثیل آدم قرار دیا گیا ہے وہ سیدنا مسیح کے ابن اللہ ہونے کے عقیدہ کے رد میں آئی ہے،اس لیے ان میں کسی آیت کا اصل موضوع نہ تخلیق آدم ہے اور نہ رد و ثبوت ارتقا ہے۔
میرے فہم کے مطابق، قرآن مجید ارتقا[4] کے نظریے کو رد کرتا ہے، یہ بات بھی سائنسی معنی میں نہیں ہے، بلکہ قرآن کی کہی ہوئی باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے۔رد ارتقا والی میری یہ راے صرف انسانی تخلیق سے متعلق ہے۔ انسان سے پہلے اور بعد میں جتنے جان دار پیدا ہوئے، وہ ارتقا سے ہوئے یا نہیں، قرآن خاموش ہے۔ البتہ یہ بات قرین قیاس ہے کہ تمام مخلوقات اسی طرح سے پیدا کی گئی ہوں، جیسے انسان بنائے گئے، میرا ذاتی رجحان اسی طرف ہے،لیکن قرآن کےخاموش ہونےکی وجہ سے یہ محض رجحان ہی ہے۔
آئیے، اب ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جو اس موضوع سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہیں:
سب سے پہلے ہم ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ـــــ پہلے انسان کی حیثیت سے ـــــ ذکر ہوا ہے ۔ ایسی آیات کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ آیات یہ بتاتی ہیں کہ پہلا انسان کیسے وجود میں آیا۔اس لیے یہ آیات اصولی آیات قرار پاتی ہیں۔ باقی آیات جو انسانی تخلیق کی عموم میں (generally) بات کرتی ہیں، عموم میں ہونے کی وجہ سے اصولی حیثیت اختیار نہیں کرسکتیں۔ ان میں، بالخصوص پہلے انسان کی تخلیق پیش نظر نہیں ہے،بلکہ انسانوں کی تخلیق کا عمومی بیان ہے، اس لیے ان تمام آیات کو تخلیق آدم والی آیات کی روشنی میں سمجھا جائے گا، کیونکہ حضرت آدم، یعنی پہلے انسان کی تخلیق اس معاملے کی کنجی ہے کہ انسان کیسے تخلیق ہوا۔ اسی کے مراحل تخلیق ہمارے لیے رہنما ہوں گے۔ لہٰذاآیات قرآنی کا وہ مطالعہ سوء فہم کا باعث ہو گا جس میں انسان کی عمومی تخلیق والی آیات کو مرکزی یا اصولی جگہ دے دی جائے۔
یہ بات توجہ میں رہے کہ میں اپنے فہم کے ثبوت کے لیے آیات کے تحت کوئی لسانی بحث نہیں کررہا ہوں، اس لیے کہ میں انھیں اسی معنی میں لے رہا ہوں جس میں یہ آیات صدیوں سے لی جار ہی ہیں۔اس لیے مجھے اس پر کوئی بحث نہیں کرنی۔ البتہ اگر کوئی سوال زیر بحث آئے گا جو میری راے کے حوالے سے تنقیح طلب ہوا تو اس وقت ضرور دلائل فراہم کردوں گا۔
میرے مطالعے کی حد تک پہلے انسان ــــــ حضرت آدم ــــــ کی تخلیق سے متعلق آیات واضح تر معنی میں ارتقاکے مخالف معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اس باب میں پہلی آیت وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو حضرت آدم علیہما السلام سے مشابہ قرار دیا ہے۔ وہ آیت یہ ہے:
اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰي عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَﵧ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ. (آل عمران۳: ۵۹)
’’اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے۔ اللہ نے اُسے مٹی سے بنایا، پھراُس کو حکم دیا کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
یہ آیت بہ صراحت تین باتوں کا ذکر کرتی ہے:
۱۔ تخلیق کرنا: ’خَلَقَهٗ‘۔
۲۔ مٹی سے بنانا: ’مِنْ تُرَابٍ‘۔
۳۔ براہ راست کلمۂ کن کے وقوع سے بنانا: ’قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ‘۔
یہ تینوں باتیں مل کر، اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اپنی تخلیق میں جن امور میں آدم علیہ السلام ہی کے مانند تھے، وہ امور انھیں الٰہ ماننے میں مانع ہیں۔واضح رہے کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے رد کے مضمون کی حامل ہے ۔ حضرت عیسیٰ کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ بیاہ کے بغیرحضرت مریم کے ہاں، کلمۂ کن کے القا سے آپ پیداہوئے تھے، اس لیے آپ کلمۃ اللہ تھے، کلمۃ اللہ ذات الہٰی کا حصہ مانا گیا ،نتیجتاً کلمۃ اللہ ہونے کی بنا پر الٰہ مانے گئے تھے۔ قرآن مجید نے اس آیت میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حضرت عیسیٰ ایسے ہی پیدا ہوئے تھے ،مگر وہ الٰہ نہیں تھے ۔ وہ اپنی تخلیق میں درج بالا تین امور میں حضرت آدم جیسے ہیں۔ ان تین امور میں بہ طور استدلال یہ نکات قرآن مجید کے پیش نظر ہیں۔یہ تینوں بلاوجہ بیان نہیں ہوئے:
۱۔ تخلیق:’خَلَقَهٗ‘
o اگر تخلیق نہ ہوتی تو عیسیٰ و آدم مخلوق نہ ہوتے، مخلوق نہ ہوتے تو الٰہ ہونا ثابت ہوجاتا۔[5]
۲۔ مٹی سے تخلیق(مِنْ تُرَابٍ) یا مریم کے بطن سے پیدایش
o اگر مٹی سے نہ ہوتے تو خاکی مخلوق نہ ہوتے:یہ بات بھی ان کے الٰہ ، فرشتہ یا جن ہونے کا تصور پیدا کرتی۔
o حضرت مسیح سیدہ مریم کے بطن[6]سے پیدا نہ ہوتے تو آپ پھربنی نوع آدم کے فرد نہ رہتے۔آل عمران کی نسبت انھیں حاصل نہ ہوتی۔
۳۔ براہ راست کلمۂ کن کا وقوع: ’قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ‘
o اگر صرف کلمۂ کن سے پیدا ہوتے، یعنی مٹی اور حضرت مریم شامل تخلیق نہ ہوتے تو پھر وہ انسان شمار نہیں ہوتے، بلکہ فرشتے یا روح قرار پاتے۔
o اگر کلمۂ الہٰی کو ذات الہٰی کا جزوسمجھ لیا جائے ــــــ جیسے عیسائی علما نے سمجھا ــــــ تو جزو الہٰی قرار پاتے۔
o اگر کلمۂ کن کے استعمال سے پیدا نہ ہوتے تو ان کی پیدایش نہ حضرت آدم جیسی ہوتی اور نہ وہ یہ درجہ پاتے کہ وہ کلمۃ اللہ ہیں۔
o ان آیات میں کلمۂ کن کی حقیقت بھی واضح کی گئی ہے کہ وہ ذات الہٰی کا حصہ نہیں، بلکہ تخلیق اشیا کے لیے عمومی حکم الہٰی ہےتاکہ نصاریٰ کے تصور کا مکمل رد کیا جائے۔ معتزلہ نے اسی نکتے کو نہیں سمجھا جس وجہ سے وہ خلق قرآن کے نظریے تک پہنچے۔
نصاریٰ کا نظریۂ جو بھی رہا ہو کہ انھوں نے کس وجہ سے حضرت عیسیٰ کو الٰہ مانا، اللہ تعالیٰ نے آپ کی الوہیت کو رد کرنے کے لیے یہ تین امور بیان کیے ہیں۔
یہ آیت کا استدلال[7] اور اس کے معنی ہیں۔اب اس استدلال سے آپ سے آپ کچھ چیزیں ثابت ہو رہی ہیں:
۱۔ حضرت آدم کو تخلیق کرنے کے لیے مٹی کو حکم ہوا کہ وہ آدم میں بدل جائے۔ ریاضیاتی صورت میں یوں لکھا جاسکتا ہے: مٹی +کلمۂ کن = آدم۔
۲۔ اس بات کا لازمی تقاضا ہے کہ آدم کے والدین نہیں تھے، اس لیے کہ مٹی نےکلمۂ کن کے زیر اثرآدم کا روپ اختیار کیا۔[8]
۳۔ حضرت آدم کی ولادت نہیں، تخلیق ہوئی تھی، ا س لیے کہ حضرت آدم براہ راست تراب سے بنے۔
۴۔ اگر حضرت آدم ماں باپ کے جنسی تعامل سے پیدا ہوتے تو کلمۂ کن کے اجرا کی ضرورت نہیں تھی۔جیسے کہ اگر سیدہ مریم کے شوہر ہوتے تو کلمۂ کن کی ضرورت نہیں تھی۔اس کی قرآن مجید میں مثال حضرت یحییٰ کی ولادت ہے۔ اس میں انتہائی بوڑھےباپ ’بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا‘ اوربانجھ ماں ’امْرَاَتِيْ عَاقِرًا‘ (مریم ۱۹: ۸)کے ہاں حضرت یحییٰ کی ولادت میں کلمۂ کن کا ذکر نہیں ہے، حالاں کہ یہ ولادت بھی معجزانہ ہی تھی۔بالکل ایسے ہی اگر آدم ماں باپ کے توسط سے پیدا ہوتے توان کی تخلیق کے لیے کلمۂ کن کی ضرورت نہیں تھی،خواہ یہ والدین حیوان ہوتے یا ناتراشیدہ انسان ہوتےاس لیے کہ یہ پھر ہماری پیدایش کی طرح کا عمل ہوتا۔ ہمارے بارے میں وہ بات نہیں کہی جاسکتی جو حضرت آدم اورحضرت عیسیٰ کے بارے میں کہی گئی ہےکہ اللہ نے کہا کہ ہو جا، تو وہ ہو گئے۔اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ مٹی اور آدم کے درمیان میں کوئی اور نہیں تھا جو ماں باپ کا کردار ادا کرے۔
لہٰذا یہ آیت چار امور پر دلالت کرتی ہے، جو حضرت آدم کی تخلیق میں بیان ہوئے ہیں۔ان چاروں کو ماننا لازم ہے۔
چنانچہ، یہ لازم آتا ہے کہ آدم کو براہ راست مٹی سے بننا چاہیے، یہی اس آیت کے الفاظ کا صریح ترین تقاضا ہے۔اب درمیان میں کوئی ایسا واسطہ ماننا درست نہیں ہے جو براہ راست مٹی سے بننے میں مانع ہو،اس لیے کہ اگر ماں باپ درمیان میں مان لیے جائیں تو ہم میں اور آدم میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ذیل کے خاکے کو دیکھیے اس میں ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے لحاظ سے آدم علیہ السلام کا مرحلۂ ظہور دکھایا گیا ہے۔اس صورت میں آدم ہماری طرح ہی پیدا ہوئے، اگرچہ ان کے والدین انسان نہ رہے ہوں، لیکن نہ وہ براہ راست مٹی سے تخلیق ہوئے اور نہ اس تخلیق کے لیے کلمۂ کن کہا گیا اور نہ اس کی ضرورت تھی۔
لہٰذا، تخلیق آدم کے کسی ایسے تصور کو نہیں مانا جاسکتا جس میں براہ راست تراب سے کلمۂ کن کے اثر سے آدم کی تخلیق ثابت نہ ہوتی ہو۔حضرت عیسیٰ کی ولادت بھی کلمۂ کن سے ہوئی اور حضرت آدم کی تخلیق بھی ۔ اگر اوپر بیان کیے گئے نظریے کو مانا جائے تو آدم علیہ السلام کی حضرت عیسیٰ سے کوئی مماثلت نہیں رہتی، اس صورت میں آدم ہم سے مماثل ہو جاتے ہیں، اور حضرت عیسیٰ اکیلے منفرد جگہ پر کھڑے رہتے ہیں۔
آدم علیہ السلام عیسیٰ علیہ السلام وجہ مماثلت و تفاوت
خَلَقَهٗ[9] يَخْلُقُ[10] دونوں مخلوق ہیں: بہ ایں فرق کہ آدم بلا ولادت،[11]مسیح بذریعہ
ولادت تخلیق ہوئے۔
مِنْ تُرَابٍ اِلٰى مَرْيَمَ[12] دونوں محض کلمۂ کن سے نہیں بنے، نہ آدم نہ عیسیٰ، دونوں کو جزوًا اسباب
سے بنایا گیا، (یعنی ماں اور مٹی سے): آدم کے لیے مٹی کا ذکر کیا کہ مٹی آدم
کی صورت میں ڈھلی، حضرت عیسیٰ کوسیدہ مریم نے جنم دیا ، ایک عورت کے
ہاں ولادت آپ کو ابن آدم بناتی ہے۔
قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ دونوں براہ راست کلمۂ کن کے اثرسے بنے، یعنی دونوں کو بنانے کے لیےاسی
وقت یہ کلمہ کہا گیا۔
ہم اور آدم ومسیح یقیناً سب انسان کلمۂ کن سے پیدا ہوئے ہیں، لیکن کلمۂ کن براہ راست ہم پر واقع نہیں ہوا۔اس لیے کہ ہم نظام تولید کے تحت پیدا ہوئے ہیں(الزمر۳۹: ۶)، ہمارے لیے کلمۂ کن شاید اربوں سال پہلے صادر ہو اتھا۔ اس لیے سیدنا مسیح کو تو ’كَلِمَةٍ مِّنْهُ‘ کہا گیا ہے، لیکن ہمیں نہیں ۔ مثلاً ذیل کی آیت، کیا یہ ہم آپ پر چسپاں ہوسکتی ہے؟ ہر گز نہیں:
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُﵱ اسْمُهُ الْمَسِيْحُ عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْهًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ.(آل عمران ۳: ۴۵)
’’جب فرشتوں نے کہا: اے مریم، اللہ تمھیں اپنے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے، اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا۔ جو (بن باپ کے ہونے کے باوجود) دنیا اور آخرت میں عزت دار ہوگا، اور (نیک ہونے کی وجہ سے) مقربین میں سے ہوگا۔‘‘
اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ہمیں ’كَلِمَةٍ مِّنْهُ‘ نہیں کہا جاسکتا، حالاں کہ ہم بھی اصلاً کلمۂ کن سے پیدا ہوئے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ ہمارے اوپر کلمۂ کن براہ راست اثر پذیرنہیں ہوا، جیسا حضرت عیسیٰ اور آدم علیہ السلام کی ولادت و تخلیق میں ہوا۔ حضرت عیسیٰ کے ساتھ ہونے والے اس عمل کو یوں بیان کیا گیا ہے:
اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗﵐ اَلْقٰىهَا٘ اِلٰي مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ.(النساء۴: ۱۷۱)
’’مسیح ابن مریم تو بس اللہ کے رسول، کلمۂ الہٰی جو مریم پر القا کیا گیا، اور اس کا روح تھا ۔‘‘
یہی عمل حضرت آدم کے معاملے میں مٹی پر کلمۂ کن صادر کرکے کیا گیا:
اٰدَمَﵧ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ. (آل عمران۳: ۵۹)
’’آدم، اسے ہم نے مٹی سے پیدا کیا اور کہا کہ بن جاؤ تو وہ بن گیا۔‘‘
کلمۂ کن کا براہ راست عمل ہمارے ساتھ نہیں ہوا؛ نہ یہ ہماری ماؤں پر القا ہوا، اور نہ ہماری مٹی پر۔لہٰذاآدم و مسیح، دونوں کلمات الہٰی کی براہ راست ماں اور مٹی پر اجراسےتخلیق ہوئے ہیں نہ کہ نظام تناسل سے۔ لہٰذا یہ دونوں باتیں: کلمۂ الہٰی سے تخلیق اور والدین کے بغیر پیدا ہونا، آدم و عیسیٰ علیہما السلام کو ہم سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ اللہ کے پیش نظر آدم کی تخلیق تھی، اس لیے یہ بھی ٹھیک ہو گا کہ مٹی اور حضرت آدم کے درمیان خواہ بیسیوں مخلوقات ہو جائیں، وہ آدم ہی کی تخلیق کہلائے گی۔اوپر بیان کردہ نکات کا صحیح فہم اس کا امکان باقی نہیں رہنے دیتا۔
مزید یہ بات واضح کرتا چلوں کہ یہاں آدم کا نام لیا گیا کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔اگر نام نہ لیا جاتا اور انسان کہا جاتا تو اس راے کے ماننے کا امکان تھا۔مثلاً بغیر ایک نسل کے گزرے آدم علیہ السلام کے گھر ہابیل یا قابیل پیداہوئے۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عیسیٰ کی مثال ہابیل کے جیسی ہے۔ ظاہر ہے، نہیں کہہ سکتے،حالاں کہ ہابیل اور قابیل کی پیدایش بھی خدا کے پیش نظر تھی ۔جیسے ہی ہم آدم و حوا کے اب وجد مان لیتے ہیں تو یہ جملہ بولنا ممکن نہیں رہتا کہ عیسیٰ کی مثال آدم کے جیسی ہے۔پھر آدم کی مثال ہابیل و قابیل سے مختلف نہیں رہتی۔
نفس واحدہ کی تخلیق بھی پہلے انسان کی تخلیق ہی کی بات ہے۔ ان آیات کو بھی اصولی حیثیت ملے گی، جو نفس و احدہ سے بنی نوع آدم کے پیدا ہونے کی بات کرتی ہیں۔قرآن مجید میں یہ بات تین چارمقامات پر بیان ہوئی ہے۔ان چاروں مقامات کو ذیل میں پیش کرتا ہوں۔ ذیل میں آیات سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے لکھی گئی ہیں، اور طوالت سے بچنے کے لیے آیات کے ضروری الفاظ ہی کو اقتباس کیا گیاہے، واضح رہے کہ آیات کے غیر مذکور الفاظ ان آیات کے تعیین معنی میں مددگار نہیں ہیں کہ ان کے عدم ذکر سے کوئی معنی کا تغیر وجود میں آتا ہو:
يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَآءً.(النساء۴: ۱)
’’اے لوگو، اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک نفس سے پىدا کىا ، اور اسى سے اس کا جوڑا بناىا اور پھر ان دونوں سے بہت مرد اور عورتىں دنىا مىں پھىلائىں۔‘‘
دوسری آیت یہ ہے:
وَهُوَ الَّذِيْ٘ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْتَوْدَعٌ. (الانعام۶: ۹۸)
’’وہی ہے جس نے تمھاری ابتدا نفس واحدہ سے کی،[13]پھر (تمھارے لیے)جاے قرار اور جاے سپردگی رکھی۔ ‘‘
تیسری یوں ہے:
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا. (الاعراف۷: ۱۸۹)
’’وہ جس نے تم سب کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔‘‘[14]
چوتھی آیت کے الفاظ یہ ہیں:
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا. (الزمر۳۹: ۶)
’’اس نے تمھیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔ ‘‘
مذکورہ بالا آیات میں سب سے مجمل آیت سورۂ انعام کی ہے:
وَهُوَ الَّذِيْ٘ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْتَوْدَعٌ. (۶: ۹۸)
’’وہی ہے جس نے تمھاری ابتدا نفس واحدہ سے کی،پھر (تمھارے لیے)جاے قرار اور جاے سپردگی رکھی۔ ‘‘
سورۂ انعام کی یہ آیت گو سب سے مجمل ہے، لیکن اس کے یہ الفاظ: ’اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘ ایک حقیقت کا پتا دیتے ہیں کہ تمام انسان ایک نفس کی اولاد ہیں، دو یا تین کی نہیں۔ اگر یہ بات درست ہو کہ :
۱۔ ہم ان آدم و حوا کی اولاد ہیں جو الگ الگ پیدا ہوئے اور
۲۔ یہ کہ ہماری نسل دو افراد سے شروع ہوئی ،
تو پھر اس آیت میں بنی نوع آدم کی تخلیق کا مجمل بیان حقیقت کے خلاف ہوگا، کیونکہ یہ آیت یہ کہہ رہی ہے کہ ہم سب کا آغاز فرد واحد سے ہوا ہے۔ یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ مجمل بیان ــــ دو الگ الگ ماں باپ ماننے کے باوجود ــــ صحیح ہے ، اس لیے کہ یہ اس طرح کا جملہ ہے، جس طرح تم کہتے ہو کہ ’’تم ایک ہی آدمی کی اولاد ہو۔‘‘ایسا کہنے سے اماں حوا کی نفی نہیں ہوتی۔ اس استدلال کے جواب میں عرض ہے کہ یہ جملہ اولاد کے ساتھ تو ٹھیک ہے ،لیکن ’اَنْشَاَكُمْ ‘ (الانعام۶: ۹۸) کےساتھ درست نہیں۔ ’’تم ایک ہی آدمی کی اولاد ہو‘‘ اور ’’تمھارا ایک فرد سے آغاز کیا‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اسی طرح یہ ’خَلَقَكُمْ‘ (النساء۴: ۱ وغیرہ) کے ساتھ بھی درست نہیں ، یعنی ’’تم ایک ہی آدمی کی اولاد ہو‘‘اور ’’تمھیں ایک فرد سے پیداکیا‘‘ میں واضح فرق ہے، اس لیے یہ جملہ کہ ’’تم ایک ہی شخص کی اولاد ہو‘‘، ان آیات کے معنی کی تعیین کے لیے بناے استدلال نہیں بن سکتا۔یہ بات ایک اور پہلو سے بھی سمجھیے کہ اگر اس جملے: ’’تم ایک ہی آدمی کی اولاد ہو‘‘ کو تخلیق آدم کے مضمون میں رکھ دیجیے تو اس کا بھی لازمی اقتضا یہی ہو گا کہ انسان ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ہیں۔
لہٰذا، کسی آیت کی ایسی تفسیر جو ہمیں دو جانوں یا دو افراد سے پیدا کرنے کا تصور دیتی ہو، وہ ان آیات کے خلاف ہوں گی جن میں ’اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘ اور ’خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘ آیا ہے۔
مذکورہ بالا آیات میں سے تخلیق کے اعتبار سے سب سے زیادہ مفصل سورۂ نساء کی پہلی آیت ہے، اس لیے اسے ہی مرکزی حیثیت دینی ہوگی، کیونکہ یہ بات محتاج دلیل نہیں کہ مجمل کو مفصل کی روشنی میں سمجھا جائے۔ یہ آیت اس وجہ سے مفصل ہے کہ یہ پہلے :
۱۔ نفس واحدہ، پھر
۲۔اسی سے اس کا جوڑا بنانے اور پھر
۳۔اس جوڑے سے تمام بنی نوع آدم کو بنانے کی تفصیل کرتی ہے،
جب کہ باقی آیات ان تینوں باتوں کو بیان نہیں کرتیں: کسی میں ایک اور کچھ میں صرف دو باتیں مذکور ہوئی ہیں۔اب اس آیت کو بغیر کسی خارجی اثر کے سمجھتے ہیں۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ میں آیت کے بالکل صریح اور دو ٹوک معنی ہی کو صحیح سمجھتا ہوں، اس لیے یہاں بھی میں لسانی مباحث کو پیش نہیں کروں گا، اس لیے کہ مجھے اسے توڑ مروڑ کرپیش ہی نہیں کرنا ہے۔آیت یوں ہے:
يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَآءً. (النساء۴: ۱)
’’اے لوگو، اپنے اس رب سے ڈرو، جس نے تم سب کو ایک نفس سے پىدا کىا ، اور اسى سے اس کا جوڑا بناىا اور پھر ان دونوں سے بہت مرد اور عورتىں دنىا مىں پھىلائىں۔‘‘
اس آیت کے اس جملے ’خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘ اسی طرح اس کے تیسرے جملے کہ ’وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَآءً‘ کے معنی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف صرف اس آیت کے جملے ’وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘ میں ہوا ہے۔ ہم نے اپنی راے ترجمے میں واضح کردی ہے۔
مذکورہ بالا تینوں آیات میں ایسے قرائن واضح طور پر موجود ہیں کہ جو ’وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘ میں ’’سے پیدا کرنے‘‘ کے معنی کی طرف دلالت کرتے ہیں۔مثلاً النساء کی پہلی آیت میں دیکھیے: ’خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَآءً‘۔اس کے تمام ’مِنْ نَّفْسٍ‘ ، ’مِنْهَا‘، اور ’مِنْهُمَا ‘ دیکھ لیجیے، ایک ہی محل اورطرز پر آئے ہیں۔آیت کا واضح رجحان ’ ایک سے دوسرے کو پیدا کرنے‘ کی طرف ہے۔ ’تم سب کو نفس واحدہ سے ، اس کے جوڑے کو بھی اسی سے اور پھر تم سب کو ان دونوں سےپیدا کیا‘ کا مضمون غالب ہے۔بیچ میں اس کی جنس سے پیدا کرنے کا مفہوم اکھڑا کھڑا ہے۔
یعنی پہلے جملے ’خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘ میں ’خَلَقَ مِنْ ‘ہی کے الفاظ ہیں ، وہاں ہم نے ’’اس سے بنانے‘‘ کے معنی لیے ہیں تو اس کے بعد وہ کون سا قرینۂ صارفہ ہے جو ’وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘ میں ’خَلَقَ مِنْ‘ کودوسرے مفہوم پر لے جا رہا ہے۔دونوں جگہ ’خَلَقَ مِّنْ نَّفْسٍ‘ اور ’خَلَقَ مِنْهَا‘، بالکل یکساں اسلوب اور موقع و محل میں ہیں، بلکہ آگے ’وَبَثَّ مِنْهُمَا ‘بھی اسی معنی میں ہے۔دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ ’وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘ کا سیاق و سباق اس کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے کہ اس آیت میں ’وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘ کےاس ٹکڑے کے آگے ’وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَآءً‘ اور پیچھے ’خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ‘ کے الفاظ درمیان والے جملے ’وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا‘ کے ’مِنْهَا ‘کو کسی اور معنی میں لینے کی گنجایش نہیں چھوڑتے۔
دوسرے یہ کہ نہ کلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور نہ زبان کہ ’وَخَلَقَ مِنْهَا‘ میں کوئی محذوف یا مقدر مانا جائے۔ جملہ صریح ، صاف اور دو ٹوک ہے۔ کسی کلام کو اپنے ظاہر سے پھیرنے کے لیے تین چیزیں ہی موثر ہوتی ہیں: ایک یہ کہ خود متکلم کی زبان کسی چیز کا تقاضا کرے،مثلاً ’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘ میں خودعربی زبان تقاضا کرتی ہے کہ پہلے کوئی فعل ہونا چاہیے۔[15]دوسرے یہ کہ دوسری زبان میں انتقال کسی بات کا تقاضا کرے مثلاً اسم نکرہ میں ایک ، کوئی یا کچھ کا اضافہ کرنا: ’کتابٌ‘ ایک کتاب، یامثلاً اسميہ جملے ميں ’’ہے‘‘ كا اضافہ كرنا، مثلاً : ’الكتاب جديد‘ کتاب نئی ہے۔ تیسرے یہ کہ یقینی مصداق یا دیگر قرآنی نصوص اس بات کا تقاضا کریں۔ مثلاً ’وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا‘ (الشمس ۹۱: ۳) میں ’’دن جب سورج کو روشن کرتا ہے‘‘ مجاز کا اسلوب مانا جائے گا ، جو ظاہر کلام کے خلاف ہے ۔ لیکن یہاں ظاہر کلام سے پھیرنا ہمارے عمومی مشاہدےکی بنا پر ہے، کیونکہ سورج دن کو روشن کرتا ہے، نہ کہ الٹ۔ نصوص سے مثال یہ ہو گی کہ نفس واحدہ کو آدم کے معنی میں لیا جائے، کیونکہ قطعی نصوص آدم کو پہلا انسان بتاتے ہیں۔
ہم نے یہ تفصیل اس لیے کی کہ ان تینوں میں ایک سبب بھی یہاں موجود نہیں : نہ دیگر نصوص، نہ یقینی مشاہدہ ، نہ زبان وبیان کا کوئی تقاضا کہ ’مِنْهَا ‘سے آگے پیچھے کسی چیز کو حذف ماننے پر مجبور کرے یا الفاظ کو ان کے ظاہر معنی سے پھیرنے کا تقاضا کرے۔[16]
لہٰذا بات واضح ہے کہ ہم سب نفس واحدہ سے بنے ہیں، اسی نفس واحدہ سے اس کا جوڑا بنایا گیا اور پھر ان دونوں سے تمام مرد و عورتیں دنیا میں پھیلائے گئے ہیں۔اس پر کچھ سوالات آگے زیر بحث آئیں گے، مثلاً ’نفس‘ بہ معنی جنس یا ’منها‘ کا ’من‘ جنس کا ’من‘ ہے وغیرہ۔
اِنِّيْ خَالِقٌۣ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ. فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ . (الحجر۱۵: ۲۸- ۲۹)
یہ آیت واضح طور پر پہلے انسان کی تخلیق سے ہمیں آگاہ کرتی ہے۔گلی سڑی سیاہ چکنی مٹی سے انسان کی پیدایش کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔یہ مجمل آیت ہے، کہ سیاہ مٹی سے تخلیق کیسے ہوئی اس عمل کو سورۂ مومنون[17]e کی آیات کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔دونوں مقامات کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں تو درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:
۱۔ اس آیت میں ’تراب‘ یا ’طین‘ کی تفصیل کی گئی ہے کہ وہ گلی سڑی چکنی مٹی تھی؛
۲۔ نطفہ غالباً اسی گلی سڑی مٹی سے بنا؛
۳۔ نطفہ سے لے کر ’خَلْقًا اٰخَرَ‘ تک کے تمام مراحل کو ’سَوَّيْتُهٗ‘ سے بیان کیا گیا ہے؛
۴۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ ’خَلْقًا اٰخَرَ‘ میں روح پھونکنا مراد ہے تو پھر سورۂ مومنون کی آیت ۱۴ کا مضمون مکمل طور پر ’سَوَّيْتُهٗ‘ اور ’وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ‘کے دو لفظوں میں بیان ہو جائے گا۔
۵۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ آدم کی تکمیل پر روح بھی پھونکی گئی۔
۶۔ پانچویں نکتے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس تخلیق آدم کا آغاز کلمۂ کن سے ہوا (آل عمران ۳: ۵۹)، اس کی تکمیل کلمۂ نفخ روح پر ہوئی،گویا دو دفعہ کلمات الہٰی کا صدور ہوا۔
یہاں پر اصولی آیات پر کلام مکمل ہوا۔ اب ان آیات کو دیکھتے ہیں جو اس موضوع پر ضمنی یا تفصیلی آیات ہیں۔
یہ وہ آیات ہیں جن میں پہلے انسان کی نہیں ، بلکہ انسان کی عمومی تخلیق کا ذکر ہے۔اس ضمن میں تین طرح کی آیات کو اہمیت حاصل ہے۔ان کو الگ الگ سمجھتے ہیں:
قرآن مجید کا ارشاد ہے:
الَّذِيْ٘ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ. ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ. ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَﵧ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۷ - ۹) [18]
اس آیت کا دروبست کچھ یوں ہے:
اُس نےخوب بنائی جو چیز بھی بنائی: اس نے انسان کو مٹی سے بنانا شروع کیا ؛
( مٹی سے شروع کیا تھا)، پھراُس کی نسل حقیر پانی کے سلالہ سے جاری کی ؛
( مٹی سے شروع کیا تھا)، پھراس کی تکمیل کرڈالی ؛
اور ( مٹی سے شروع کیا تھا)اُس میں اپنی روح پھونکی ؛
اور تمھارے کان ،آنکھیں اوردل بنائے ہیں(اس مقصدسے کہ تم یہ قدرتیں دیکھ کر شکر بجا لاؤ،لیکن) تم کم ہی شکر کرتے ہو! ۔
یہاں ساری بات یہ بتانے کے لیے کی گئی ہے کہ اللہ نے ہر چیز کے بنانے میں خوب قدرت حسنہ دکھائی ہے۔ہر چیز کو بہت عمدگی سے بنایا ہے۔ تو یہاں تخلیق آدم میں جو عمدگی کے پہلو تھے، ان کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے بہترین کام کیا تو اس میں قدرت کار خود بہ خود مقدر ہوتی ہے۔ اس بات کو محکم کرنے کے لیے ’اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ‘ میں ’خَلَقَ‘ کا ذکر بہ طور خاص کیا گیا ہے، کیونکہ ’خَلَقَ‘ کے بغیر بھی یہ معنی تو ادا ہو سکتے تھے کہ اس نے ہر چیز کو عمدہ بنایا، اس لیے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’أَحْسَنَ الشيءَ‘ تو اس کا مطلب ’أَجاد صُنعه‘ (عمدہ کرنا) ہی ہوتا ہے،لیکن کس اعتبار سے عمدہ بنایا وہ واضح نہ ہوتا۔ یہاں واضح کیا گیا ہے کہ تخلیق کے اعتبار سے احسن بنایا۔
سورۂ سجدہ (۳۲)کی یہ آیات قیامت اور دوبارہ جی اٹھنے کے انذار کے لیے بہ طور استدلال آئی ہیں کہ قرآن جس بات پر انذار(آیت ۳) کررہا ہے، وہ ہو کررہے گی، کیونکہ یہ دنیا اس خالق نے بنائی ہے جس نے چھ دنوں میں زمین و آسمان بنا ڈالے اور تاحال تخت اقتدار پر جلوہ افروز ہے، قیامت کے دن نجات کے لیے کوئی شفیع و مشکل کشا نہ ہوگا(آیت ۴)، سارے امور کی تدبیر وہی کررہا ہے اور ہر چیز اپنے وقت پر ہو گی(آیت۵)، ہر عمل اور ہر چیز، خواہ چھپی ہو یا عیاں ہو، وہ اسے جانتا ہے(آیت ۶)، وہی احسن الخالقین جس نے مٹی لی اوراسے کیا سے کیا بنا ڈالا(آیت ۷)۔جس نے حقیر پانی کی بوند سے نسل انسان کو جاری کردیا، مٹی سے بنایا اور ایسا نہیں ہو ا کہ وہ اسے مکمل نہ کرپایا ہو، بلکہ بہترین حالت میں مکمل کردیا ۔ مٹی سے بنایا، مگر لطیف روح کا حمولہ بنا دیا۔[19]ایسے ناممکن کام کرنے والا اسی طرح دوبارہ تمھیں زندہ اٹھائے گا، حساب کتاب لے گا ۔ اس نے تمھیں سمجھ دار بنایا ہے کہ اس حقیقت کو سمجھو،لیکن تم اس سمجھ داری سے کم ہی کام لیتے ہو ۔ یہی بین السطور بات تھی جسے اگلی آیت میں منکرین کایہ استہزایہ جملہ نقل کر کے قرائن فراہم کیے گئے ہیں کہ ’’جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے تو کیا پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟‘‘ (السجدہ ۳۲: ۱۰)۔
اسی بات کی طرف اشارہ اس جملہ میں بھی تھا کہ ’قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ‘ (آیت ۹)۔ یہاں تخلیق کے ایسے مظاہر بتائے گئے جو تخلیق کے ناممکن و مستبعد پہلوؤں کو بتائیں اور اس کے ساتھ انسانی افئدہ کو جوڑ کر آخرت کا شعور پیدا کریں۔وہ ناممکن پہلو یہ تھے: مردہ مٹی سے زندہ مخلوقات، بالخصوص انسان کی تخلیق، حقیر پانی کی بوند سے نسل کا آغاز، مٹی سے جیتی جاگتی مخلوق کی تکمیل اور اس کا روح جیسی لطیف شے کا حمولہ ہونا۔اس میں ’بدا‘ کو جس زاویے سے استعمال کیا گیا، وہ حیات بعد الموت کے استبعاد (improbability) کو رفع کرناتھا۔ رفع استبعاد کے لیے استدلا ل یہ بنا کہ اگر مٹی سے تم بن سکتے ہو اور حقیر پانی سے بن سکتے ہو تو کیا گل سڑ جانے کے بعد نہیں بنائے جا سکو گے؟ اس صورت میں بھی تو مٹی ہی سے بننا ہے نا؟رہ گیا زندگی اور شعور تو وہ اسی مٹی اور حقیر پانی سے بنے انسان میں نفخ روح ہوئی تھی نا؟ تو اب کیا بعید ہے کہ دوبارہ ایسا ہو جائے۔ایسے ہی گلی سڑی ہڈیوں سے جیتا جاگتا انسان بنانا بھی کیا مشکل ہو گا، اس لیے کہ پہلے بھی مٹی سے مکمل انسان بنایا گیا ہے۔ایک اور آیت میں یہ تمام مضمون اس طرح بھی بیان ہوا ہے:
اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰي. ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰي. فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰي. اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰ٘ي اَنْ يُّحْيِۦَ الْمَوْتٰي. (القیامہ ۷۵: ۳۷ -۴۰)
یہ آیت اس مضمون کی حامل تھی۔اس کا قرینہ یہ ہے کہ یہاں ’مَآءٍ مَّهِيْنٍ‘ کے الفاظ بولے گئے ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مضمون مراحل بتانے کا نہیں، بلکہ حقیر چیز سے انسان جیسی مشکل مخلوق پیدا کرنے کے محال امر کا بیان ہے۔اگر مراحل بیان کرنا پیش نظر ہوتے تو ’نطفہ‘ کا لفظ زیادہ موزوں تھا۔اگرچہ نطفہ بھی حقیر چیز ہے، لیکن حقیر ہونا اس کا لازمہ نہیں ہے۔
آیات کے اس محل کے واضح ہونے کے بعد ’بدأ‘ اور ’ثُمّ‘ کا تعلق بھی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ’ثُمّ‘ ترتیب کے لیے نہیں، بلکہ مٹی اور حقیر پانی سے بنائے جانے کے استبعاد کے لیے آیا ہے،یعنی مٹی سے شروع کیا، پھر نسل کشی شروع کردی،مٹی سے شروع کیا تو پھرمشکل ترین کام کی تکمیل کرڈالی۔د وسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ یہ دونوں ’ثم‘ ترتیب کے لیے نہیں بلکہ ’بدأ‘ کے جواب کے محل میں ہیں، یعنی شروع کیا تو پھر کیا ہوا؟
مٹی سے انسان بنانا شروع کیا پھر نسل اسی کے نطفے سے جاری کردی
مٹی سے انسان بنانا شروع کیا پھرتسویہ کرکے روح پھونک دی
میری راے کے حق میں قرائن میں ایک قرینہ آیت ۸ میں بھی ہے۔اس آیت پر ایک نگاہ دوبارہ ڈالیے اور دیکھیے کہ یہ اپنی ساخت کی وجہ سے مرحلہ ہونے سے ابا کرتی ہے: ’ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ‘، یعنی یہ بات نہیں کہی گئی کہ پھر ہم نے اس انسان کو اولاد جننے والا بنایا، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اس کی نسل پانی سے جاری کی۔اگر ’ثم جعله ما یَلِد‘ جیسے الفاظ میں بات بیان ہوتی تو بلاشبہ اگلا مرحلہ قرار دیا جاتا، یعنی جو وجود بنایا جارہا، اس میں کسی تبدیلی کا ذکر ہی نہیں ہوا کہ اسے مرحلہ مانیں۔مثلاً اسی آیت کے اس جملے: ’ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ‘ مرحلہ معلوم ہوتاہے کہ وہ زیر تخلیق چیز میں تبدیلی کا ذکرکرتا ہے۔سورۂ سجدہ کا یہ اسلوب وہی ہے جو درج ذیل آیت میں استعمال ہوا ہے، یعنی محال بات ایک چیز سے پیدا کر لی گئی :
وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًاﵧ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا. (الفرقان ۲۵: ۵۴)
’’اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اُس کے نسب اور سسرال ٹھیرائے۔ تیرا رب بڑی قدرت والا ہے۔‘‘
سورۂ سجدہ کی آیت ۹کا یہ جملہ بھی مرحلہ ہونے کی طرز پر بیان نہیں ہوا: ’وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَﵧ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ‘ ۔ اس کو اگر مرحلہ مان لیں تو آیت کا سارا مضمون ہی غارت ہو جاتا ہے۔ اس جملے کا مقصود یہ ہے کہ میں نے تمھیں مٹی سے بنایا، پھر نسل پانی سے جاری کی، اور پھر بے عیب تکمیل کرڈالی، اس سب کچھ کو سمجھنے کے لیے تمھیں سمع و بصر دیے ۔ اس کا محل یہ ہے۔اس کا محل بیان مرحلہ کا نہیں، کیونکہ نہ اس میں ’ثم‘ ہے نہ ’فاء‘ ہے۔ اس کے حق میں قرائن میں خطاب میں تنوع آنا[20] اور ’قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ‘ کا جملہ ہے کہ سامعین کو مخاطب کرلیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ’وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ‘ کے الفاظ سے قریش مخاطب کرلیے گئے ہیں اور انسان کی تخلیق کا ذکر پہلے ہی مکمل ہو گیا ہے۔ نفخ روح پر اس کی تخلیق اور تخلیق کے کمالات کا بیان تمام ہوا۔ یہ جملہ واؤ سے عطف کیا گیا ہے، ضمیر مخاطب جمع کی کردی گئی ہے۔مراد یہ ہے کہ میں نےیہ سارا کچھ بنایا اور اس کے ساتھ تمھیں سمیع و بصیر بنایا کہ تم ان باتوں کو سمجھو۔اور اپنے خدا کو پہچان کر شکر گزار بنو۔
’ثُمَّ سَوّٰىهُ‘[21]... بیان مراحل ہی کے اسلوب میں ہے۔ لیکن یہ جامع مرحلہ ہے۔قرآن کے دوسرے مقامات کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نطفہ ،علقہ و مضغہ وغیرہ سے ہوتے ہوئے مکمل انسان بننے تک کے سارے مرحلے کو ہم تسویہ والے دور میں شامل کرسکتے ہیں(دیکھیے ذیل میں الحجر کی آیات ۲۸ اور ۲۹)۔تسویہ نک سک سے درست کرنے کے معنی میں بھی آسکتا ہے، لیکن زیادہ تر یہ شان دار متوازن تکمیل کے معنی ادا کرتا ہے۔ مثلاً ’اِنِّيْ خَالِقٌۣ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ. فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ‘ (الحجر۱۵ :۲۸- ۲۹)۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ’علقة‘ وغیرہ کا ذکر ہوا ہے، وہاں تسویہ کا ذکر نہیں ہوا ، اور جہاں تسویہ کا ذکر ہوا ہے، وہاں ’علقة‘ وغیرہ کا ذکر نہیں ہوا۔اسی لیے قرآن مجید میں تسویہ ایک مقام پر ’عَدَلَ‘ (متوازن کرنے) سے پہلے آیا ہے: ’الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ. فِيْ٘ اَيِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَ‘(الانفطار۸۲: ۷- ۸)، یعنی یہاں تسویہ میں نک سک سے درست کرنے کے معنی نہیں ہیں، محض بنا دینے کے معنی ہیں۔میرے خیال میں ان آیات کا ترجمہ یوں ہونا چاہیے: جس نے تجھے بنانے کا فیصلہ کیا، پھر بنا ڈالا، تو تجھے بالکل متوازن بنایا، اِس طرح کہ جس صورت میں چاہا، تیری صورت گری کردی۔
ان آیات کی روشنی میں آپ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ ’ثُمَّ سَوّٰىهُ‘ کا موقع ورود بھی اسی بات کو ثابت کرتا ہے۔ الانفطار کی محولہ بالا آیات ۷- ۸، اور الحجر کی محولہ بالا آیات ۲۸- ۲۹ میں خلق اور تسویہ کا جو تعلق ہے، وہی السجدہ کی زیر بحث آیت ۷ میں ہے۔ان سب آیات میں تسویہ خلق کے بعد آیا ہے، یعنی خلق کے معنی بنانے کے ہیں اور تسویہ تکمیل کا نام ہے،اور ’فَعَدَلَكَ‘ اس کے بعد مذکور ہے۔ممکن ہے، ’فَعَدَلَكَ‘ روح پھونکنے سے ہوتا ہو(الحجر اور الانفطار محولہ بالا آیات کا مجموعی مفہوم، یہ بات محض قیاس ہے)۔
اس روشنی میں آپ جان سکتے ہیں کہ خلق آدم کے مراحل حیات کا بیان آیت کے لفظوں میں موجود نہیں ہے،اس لیے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ مٹی سے بننے اور آدم کے درمیان میں کوئی غیر مسوّیٰ انسانی نسلیں یامخلوقات (species)پیدا ہوئی ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ اس پر ایک توضیحی نوٹ ’’بنیادی باتیں ‘‘کے عنوان کے تحت آگے آرہا ہے۔
[2]۔ اس مضمون کے علاوہ ، جس کا آپ اس وقت مطالعہ فرما رہے ہیں ، ایک اور مضمون میں نے لکھا ہے۔ میں نے اُس میں نظریۂ ارتقا کا علم (epistemology) کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔ اس مضمون میں نظریۂ ارتقا کی علمی حیثیت کا تعین اور انکار خدا کے لیے اس سے کیے گئے استدلال کا جائز ہ لیا گیا ہے۔سائنس کی رو سے قرآن کے نظریۂ تخلیق پر پیدا ہونے والے سوالات کا جواب بھی ہے ۔ جا بہ جا مختصراً نظریۂ علم بھی زیر بحث آگیا ہے ۔بہ توفیق الہٰی فرصت ملتے ہی نظر ثانی کے بعد جلد طبع ہو جائے گا۔ وما توفیقي إلا باللّٰہ۔
[3]۔ مثلاً اگر اللہ تعالیٰ یہ بیان دے دیتے کہ زمین گردش کررہی ہے، تو عربوں نے شرک و توحید پر تو بات نہیں کرنی تھی، اس طرح کی باتوں کو ہدف بنا کر قرآن کے کتاب حکیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول کریم ہونے پر شبہات اٹھا دینے تھے،اس لیے قرآن ان مظاہر کی حقیقت واشگاف نہیں کرتا، البتہ اس کا کمال یہ ہے کہ وہ غلط بات بھی نہیں کہتا۔ مثلاً اس نے اس زمانے کے مسلمہ علم کے مطابق زمین کو ساکن یا چپٹانہیں کہا، چاند کو سراج (چراغ)نہیں کہا، انھیں ایتھر میں تیرتے ہوئے نہیں کہا، وغیرہ۔
[4]۔ ارتقا سے میری مراد یہ ہے کہ زندگی یک خلوی جان دار سے شروع ہوئی اور ترقی کرتے کرتے انسان جیسی اعلیٰ مخلوق تک پہنچی، یوں کہ دیگر تمام مخلوقات انسان کی رشتہ دار ہیں، اور ان میں سے کچھ اس کے اب وجد(ancestors) ہیں، جو سب ایک ہی باپ (common ancestor)سے پیدا ہوئے ہیں۔
[5]۔ واضح رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی تخلیق ـــــ ’يَخْلُقُ‘ ـــــ کا لفظ استعمال ہوا ہے: ’قَالَتْ رَبِّ اَنّٰي يَكُوْنُ لِيْ وَلَدٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌﵧ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُﵧ اِذَا قَضٰ٘ي اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ‘ (آل عمران ۳: ۴۷)۔
[6]۔’وَكَلِمَتُهٗﵐ اَلْقٰىهَا٘ اِلٰي مَرْيَمَ‘ (النساء۴: ۱۷۱)
[7]۔ استدلال کے ان نکات میں بہت سے قرآنی نصوص میرے پیش نظر ہیں، طوالت کے خوف سے پیش نہیں کررہا، البتہ میں نے سوچا ہے کہ انبیاے قرآن کے نام سے جو میں المورد کی نصابی کتب تیار کررہا ہوں، ان میں ان انبیا سے متعلق ان نصوص کو بیان کردوں گا تاکہ پڑھاتے وقت اساتذہ کے سامنے یہ پہلو موجود رہیں۔
[8]۔ یہ بات کہنا غلط ہو گا کہ قرآن مجید میں دکھاؤ کہ کہاں کہا گیا ہے کہ آدم کے ماں باپ نہیں تھےاس لیے کہ بعض باتوں کا التزام و تضمن یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ نتائج مانیں جائیں۔مثلاً جب کہا گیا کہ مریم پر کلمۂ کن کے القا سے عیسیٰ علیہما السلام پیدا ہوئے تو آپ سے آپ لازم آگیا کہ آپ کے والد نہیں تھے۔
[9]۔ آل عمران ۳: ۵۹۔ ’اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰي عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَﵧ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ‘۔
[10]۔ آل عمران ۳: ۴۷، ’قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُﵧ اِذَا قَضٰ٘ي اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ‘۔
[11]۔ واضح رہے کہ ولادت کے لیے جو عمل رحم مادر میں ہوتا ہے، اس کے لیے بھی ’تخلیق‘ ہی کا لفظ قرآن مجید میں بولا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ زمر (۳۹) کی آیت ۶میں یوں آیا ہے:’ يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ‘۔
[12]۔ النساء۴: ۱۷۱۔’اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗﵐ اَلْقٰىهَا٘ اِلٰي مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ‘۔
[13]۔ پیدا کرنے کے لیے آیت میں ’اَنْشَاَكُمْ‘ آیا ہے ’انشاء‘ کے معنی میں ’آغاز ‘کے مفہوم کا غلبہ ہے۔ ترجمہ میں ’ابتداءً ‘کے لفظ سے اسی بات کو بیان کیا گیا ہے۔
[14]۔ اس آیت میں اگرچہ آغاز آدم و حوا سے ہوا، لیکن آیت کا غیر مذکور حصہ مشرکین پر منطبق ہوتا ہے، نہ کہ آدم و حوا پر، لیکن آیت کا اوپر اقتباس شدہ حصہ آدم و حوا ہی سے متعلق معلوم ہوتا ہے، اس لیے اس کا حوالہ یہاں دیا گیا ہے۔
[15]۔’فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْﵴ ثُمَّ نَبْتَهِلْ‘ آل عمران ۳: ۶۱ میں ’وَاَبْنَآءَكُمْ‘ سے پہلے ’وتدعوا أبناءكم‘ حذف ہوگا۔
[16]۔ یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ نظریۂٔ ارتقا اس وقت ایک یقینی علم ہے تو کیا ہم اس آیت کو اس کے مطابق نہیں کرسکتے؟ اگر یہ دعویٰ سچ بھی ہو تو تب بھی نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ پھر یہ بات پہلی آیت کے خلاف ہو جائے گی۔ وہ پہلی آیت جو اس مضمون میں اوپر زیر بحث آچکی ہے، عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے والی آیت۔
[17]۔ ۲۳: ۱۴۔’ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاﵯ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَﵧ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ‘۔
[18]۔ یہ وہ آیت ہے جس سے ارتقا یا غیر مسوّیٰ (unfinished) ، عاقر(unable to bear offspring)، اور ناتراشیدہ (devoid of humanity)انسانوں کی پیدایش ، پھر ان کا تسویہ اور پھران میں سے دو نفوس کے چناؤ کااشتباہ سا پیدا ہوتا ہے۔
[19]۔ یہ دراصل لطیف و کثیف کے حیرت انگیز اجتماع کا بیان ہے۔یہ مٹی میں شعور کے پیدا کیے جانے کا نام ہے، جو محیرالعقول امور میں سے ہے۔ایسی ذات سے کیسے بعید ہے کہ وہ دوبارہ زندہ نہ کرسکے۔ اس کی ہماری زندگیوں میں ایک ادنیٰ مثال کمپیوٹر کی ہے، جس میں سوفٹ وئیر کو لوہے اور پلاسٹک کی چیزوں میں ایسے جوڑا گیا ہے کہ وہ ان کا حصہ بن جاتا ہے۔
[20]۔ یعنی واحد غائب کے صیغے (third-person)سے ’لكم‘ جمع مخاطب(Second-person) کی طرف کلام پھر گیا ہے۔
[21]۔ ’ثُمَّ سَوّٰىهُ‘ میں ’سوّٰی‘ کو’ نک سک سے درست کرنے‘،یعنی ’نوک پلک سنوارنا ‘ کے معنی میں لیا گیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عربىت کى رو سے ’سَوّٰىهُ‘ کا یہ مطلب ہو سکتا ہے۔لىکن یہ اس کا مستعمل معنی نہىں ہے۔ اکثر مفسرىن اس لفظ کو سنوارنے سے تجرىد دے ہى نہىں سکے، حالاں کہ مستعمل زبان میں یہ ’بنادینے ‘یعنی ’مکمل کردینے ‘کے معنى مىں آتا ہے۔مثلاً سورۂ اعلیٰ (۸۷) میں ہے: ’الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰي‘،یعنی اس نے نقشہ بنایا اور اس نقشے کے مطابق بنا دیا۔ ’ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًا‘(الکہف ۱۸: ۳۷)، ىعنى پھر اس نے تمھىں آدمى بناڈالا۔ىا مثلاً ’فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ‘ (الحجر۱۵: ۲۹)، ىعنى مىں نے مٹى سے انسان بنانے کا ارادہ کىا ہے۔ جب مىں بنا چکوں اور روح پھونک لوں تو تم اس کو سجدہ کرنا۔ ىا مثلاً : ’ثُمَّ اسْتَوٰ٘ي اِلَي السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ‘، ىعنى پھر وہ آسمان کى طرف متوجہ ہوا تو سات آسمان بنا ڈالے۔ ىہىں سے یہ پورا بنا دىا گىا ہو، درمىانى مراحل مىں نہ ہویا بنانے کا کوئی پہلو رہ نہ گیا، یعنی ’بالکل ٹھیک اور صحیح صحیح بنا دیا گیا ہو‘ کا مفہوم دیتا ہے۔مثلاً ’فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا‘ (مریم ۱۹: ۱۷) اور اس کے اسى مفہوم سے ’سویا‘ ’’صحیح سالم‘‘ کے مفہوم مىں آتا ہے ۔مثلاً ’ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا‘ (مریم ۱۹: ۱۰)،ىعنی اے زکریا، تم تىن دن رات بات نہىں کرسکو گے، جب کہ تم صحيح سالم ہوگے۔
’’معجم الوسیط‘‘ میں ’سَوّٰی‘ کے اس مفہوم کو یوں بیان کیا گیا ہے: ’سوّى الشّيءَ: اتمّه، فَإذَا سَوَّیتُه وَنَفَخْتُ فِیه مِنْ رُوحِي‘ (’سوی الشيء‘ کا مطلب ہوگا: مکمل کردینا، جیسا کہ اس آیت میں ہے: ’فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ‘)۔ ’’معجم کلمات القرآن‘‘ میں یوں ہے: ’سوّى الشّيءَ: عمله‘۔’سوی الشيء‘ کا مطلب ہے: ’’چیز کو کرگزرنا‘‘۔