’’اِس سزا کے لیے ’اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے،یعنی یہ کہ اُنھیں علاقہ بدر کر دیا جائے ۔ ...قرآن کے الفاظ کا تقاضا ہے کہ عام حالات میں یہ سزا اِسی صورت میں دی جائے ، لیکن کسی وجہ سے اگر یہ ممکن نہ ہو تو مجرم کو کسی خاص علاقے میں پابند یا اُس کے گھر میں نظر بند کر دینے سے بھی حکم کا منشا یقیناً پورا ہو جائے گا ۔ ‘‘ (میزان۶۱۴)
یہ راے مالکیہ اور احناف کے موقف سے ہم آہنگ ہے اور اس کی بنیاد اس نکتے پر ہے کہ مجرم کو ایک علاقے سے جلاوطن کرنے کی مصلحت اسے جرم سے باز رکھنا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مجرم کو جلا وطن کرنے میں بہتری کے بجاے فساد کا خدشہ ہو تو اسے جلاوطن نہ کیا جائے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی کی راے یہ نقل ہوئی ہے کہ انھوں نے مجرم کو جلاوطن کرنے کو ’فتنہ‘ سے تعبیر کیا (الشیبانی، کتاب الآثار، رقم ۶۱۴- ۶۱۵)، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے مجرم کے اصلاح کے بجاے مزید برائی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ حنفی فقہا اسی کی روشنی میں ’نفی‘ کی صورت عموماً یہی بیان کرتے ہیں کہ مجرم کو قید کر دیا جائے، کیونکہ اس سزا کا مقصد مجرم کے شر وفساد سے لوگوں کو محفوظ بنانا ہے، جب کہ جلا وطن کرنے سے خدشہ ہے کہ مجرم کو جس علاقے کی طرف جلاوطن کیا جائے، وہ بھی اس کی شر انگیزی کا نشانہ بن جائیں گے (جصاص، احکام القرآن ۴/ ۵۹) ۔ یہی راے مالکی فقہا میں سے قاضی ابوبکر ابن العربی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجرم کو کسی دوسرے علاقے کی طرف جلا وطن کرنا الٹا اس کے لیے مزید جرائم کے ارتکاب میں معاون ہو سکتا ہے، اس لیے اسے قید کر دینا چاہیے، کیونکہ نقل وحرکت کی آزادی سے محروم کر دینا بھی ایک طرح سے جلا وطن کر دینے کے ہی ہم معنی ہے (احکام القرآن ۲/ ۹۹) ۔
’’یہ کسی شخص کے غلطی سے قتل ہو جانے کا حکم ہے ،لیکن صاف واضح ہے کہ جراحات کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے ۔ چنانچہ اُن میں بھی دیت ادا کی جائے گی اور اِس کے ساتھ کفارے کے روزے بھی دیت کی مقدار کے لحاظ سے لازماً رکھے جائیں گے۔ یعنی ،مثال کے طور پر ،اگر کسی زخم کی دیت ایک تہائی مقرر کی گئی ہے تو کفارے کے بیس روزے بھی لازماً رکھنا ہوں گے ۔ ‘‘(میزان۶۲۳)
قرآن مجید نے قتل خطا کی صورت میں، جب کہ مقتول مسلمان ہو، کفارے کے طور پر ایک غلام آزاد کرنے اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ مصنف نے اس پر قیاس کرتے ہوئے یہ اخذ کیا ہے کہ قتل کے علاوہ جراحات کی صورت میں بھی دیت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کفارے کے طور پر روزے رکھنا لازم ہونا چاہیے۔ فقہی ذخیرے میں بہ ظاہر یہ ایک بالکل منفرد راے ہے ۔
’’خطا اور عمد ، دونوں میں قرآن کا حکم یہی ہے کہ دیت معاشرے کے دستور اور رواج کے مطابق ادا کی جائے ۔ قرآن نے خود دیت کی کسی خاص مقدار کا تعین کیا ہے نہ عورت اور مرد ،غلام اور آزاد، مسلم اور غیرمسلم کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لیے لازم ٹھیرائی ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے فیصلے اپنے زمانے میں عرب کے دستور کے مطابق کیے ۔ فقہ و حدیث کی کتابوں میں دیت کی جو مقداریں بیان ہوئی ہیں ، وہ اِسی دستور کے مطابق ہیں ۔...قرآن مجید کی ہدایت ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے ہے ، چنانچہ اُس نے اِس معاملے میں معروف کی پیروی کا حکم دیا ہے ۔قرآن کے اِس حکم کے مطابق ہر معاشرہ اپنے ہی معروف کا پابند ہے ۔ ‘‘(میزان۶۲۴)
مصنف نے یہاں جمہور اہل علم کے برخلاف مولانا امین احسن اصلاحی کی راے سے اتفاق کیا ہے۔ روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کی مقدار سو اونٹ مقرر فرمائی۔ فقہی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تقریر و تصویب کو شرعی حکم کی حیثیت دی گئی اور دیت کے باب میں سو اونٹوں ہی کو ایک ابدی معیار تسلیم کیا گیا ہے، تاہم مولانا اصلاحی کی راے یہ ہے کہ قرآن مجید نے ’فَاتِّبَاعٌۣ بِالْمَعْرُوْفِ‘ (البقرہ ۱۷۸:۲) کے الفاظ سے اس معاملے کو ’معروف‘ پر مبنی قرار دیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ہدایت کی پیروی میں اپنے دور میں دیت کی وہی مقدار، یعنی سو اونٹ مقرر فرمائی جو اسلام سے پہلے اہل عرب میں رائج تھی۔ چونکہ ’معروف‘ سے متعلق معاملات زمانہ اور حالات کے تغیر سے اپنے اصل مقصدکو باقی رکھتے ہوئے بدل جاتے ہیں، اس لیے دیت کی ادائیگی کی صورتیں اور اس کی مقدار وغیرہ طے کرنا ارباب اجتہاد کا کام ہے (تدبر قرآن ۲/ ۳۶۱)۔
مصنف نے اس استدلال سے اتفاق کیا ہے اور قرار دیا ہے کہ دیت کی مقدار کی تعیین کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی حیثیت ابدی تشریع کی نہیں، بلکہ ایک اصولی شرعی حکم کے، وقتی اور زمان و مکان میں محدود اطلاق کی ہے۔ مصنف نے اس مسئلے کے مبنی بر عرف ہونے کی تائید میں ’فَاتِّبَاعٌۣ بِالْمَعْرُوْفِ‘ کے علاوہ سورۂ نساء (۴: ۹۲) میں ’دِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ‘ میں اختیار کردہ اسلوب کو بھی پیش کیا ہے۔[1]
’’زنا کی سزا کا پہلا حکم سورۂ نساء میں آیا ہے ۔ اُس میں کوئی متعین سزا بیان نہیں کی گئی ، بلکہ صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ زنا کی عادی قحبہ عورتوں کے لیے جب تک کوئی حکم نازل نہیں ہو جاتا، اُنھیں گھروں میں بند کر دیا جائے اور اِس جرم کے عام مرتکبین کو ایذا دی جائے ، یہاں تک کہ وہ توبہ کر کے اپنے طرز عمل کی اصلاح پر آمادہ ہو جائیں۔ ‘‘(میزان ۶۲۵)
سورۂ نساء (۴) کی آیات ۱۵- ۱۶ میں زنا کی ایک عبوری سزا اس وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں حتمی احکام بعد میں دیے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْﵐ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰي يَتَوَفّٰىهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيْلًا. وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَاﵐ فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَاﵧ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا.
’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کرتی ہوں، ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ایسی عورتوں کو گھروں میں محبوس کر دو، یہاں تک کہ انھیں موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ بیان کر دیں۔ اور تم میں سے جو مرد و عورت بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوں، انھیں اذیت دو۔ پھر اگر وہ توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے درگذر کرو۔ بے شک، اللہ توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔‘‘
ان میں سے پہلی آیت میں صرف خواتین کی سزا ، جب کہ دوسری آیت میں زانی مرد اور عورت، دونوں کی سزا بیان کی گئی ہے۔ ان آیتوں کے مفہوم کی تعیین میں مفسرین کو اس الجھن کا سامنا ہے کہ خواتین کی سزا کو پہلے الگ ذکر کرنے اور پھر اس کے بعد مرد وعورت، دونوں کی سزا بیان کرنے کا مقصد اور باعث کیا ہے؟
مفسرین کے ایک گروہ کی راے میں دوسری آیت میں مردوں کے ساتھ جن خواتین کا ذکر ہوا ہے، وہ وہی ہیں جنھیں پہلی آیت میں گھروں میں محبوس کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ گویا گھروں میں محبوس کرنے کی سزا تو خواتین کے ساتھ مخصوص تھی، جب کہ اذیت کی سزا زانی مرد اور عورت، دونوں کے لیے مشترک طور پر مقرر کی گئی تھی (ابو حیان، البحر المحیط۳/ ۲۰۶۔ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن ۵/ ۸۷)۔
بعض مفسرین نے اس اشکال کے جواب میں یہ راے ظاہر کی ہے کہ زیر بحث آیتوں کی نزولی ترتیب قرآن میں ان کی ظاہری ترتیب کے برعکس ہے اور ان میں دوسری آیت جس میں زانی مرد و عورت کو اذیت دینے کا حکم دیا گیا ہے، پہلے نازل ہوئی تھی۔ پھر اس کے بعد پہلی آیت میں خواتین کے لیے محبوس کیے جانے کی مزید سزا مقرر کی گئی( جصاص، احکام القرآن ۳/ ۴۳)۔
ایک راے یہ ہے کہ ’وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآءِكُمْ‘ میں شادی شدہ خواتین کی سزا بیان ہوئی ہے، جب کہ ’وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا‘ میں کنوارے زانی اور زانیہ کی (طبری، جامع البیان ۴/ ۲۹۴)۔
ایک اور راے یہ ہے کہ پہلی آیت صرف زانی خواتین کی سزا بیان کرتی ہے، جب کہ دوسری آیت صرف مرد زانیوں کی اور یہاں تثنیہ کا صیغہ لانے سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ زانی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اس کے لیے ایک ہی سزا ہے (ا بن عطیہ، المحرر الوجیز ۲/ ۲۲۔ ابن العربی، احکام القرآن ۱/ ۴۶۵)۔
ایک راے یہ ہے کہ پہلی آیت میں وہ صورت زیر بحث ہے جب بدکاری کے فعل پر چار گواہ میسر ہوں اور مقدمے پر باقاعدہ عدالتی کارروائی کی جاسکتی ہو، جب کہ دوسری آیت میں اس صورت کا حکم بیان ہوا ہے جب چار گواہ موجود نہ ہوں (ر ازی، التفسیر الکبیر۹/ ۱۹۰)۔
ابو مسلم اصفہانی نے زیر بحث آیات کو زنا کے بجاے لواطت اور ’سحاق‘، یعنی خواتین کی ہم جنس پرستی سے متعلق قرار دیا ہے۔ ان کی راے میں ’وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ‘ میں خواتین کی ہم جنس پرستی کی، جب کہ ’وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا‘ میں لواطت کی سزا بیان کی گئی ہے (رازی، التفسیر الکبیر۹/ ۱۸۷)۔
ان تمام توجیہات میں زبان وبیان کے اسالیب کسی نہ کسی پہلو سے نظرانداز ہو جاتے ہیں جس کی تفصیل ہماری کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ انھی اشکالات کے تناظر میں قاضی ابن العربی نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ ’هذہ معضلة في الآیات لم أجد من یعرفها‘(ا حکام القرآن ۱/ ۴۵۷)، یعنی یہ ایک بے حد مشکل آیت ہے اور مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اس کا مطلب جانتا ہو۔
صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ مولانا اصلاحی نے اس کی تاویل میں سابق مفسرین سے ایک بنیادی اختلاف کیا ہے۔ وہ یہ کہ ’وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ‘ اور ’وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا‘ میں اسم موصول کا صلہ فعل مضارع کی صورت میں لانے کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، وہ عربی زبان میں کسی فعل کے نفس وقوع کے بیان کے لیے بھی آ سکتا ہے اور کسی عادت اور معمول کو بیان کرنے کے لیے بھی۔ چنانچہ ’وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ‘ کا ترجمہ ’’وہ عورتیں جو بدکاری کی مرتکب ہوں‘‘ بھی ہو سکتا ہے اور ’’وہ عورتیں جو بدکاری کیا کرتی ہیں‘‘ بھی۔ سابق مفسرین نے اس کو پہلے مفہوم پر محمول کرتے ہوئے آیت کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ مولانا اصلاحی کی راے میں ان آیات میں زنا کے عادی مجرم زیر بحث ہیں۔یہ بات خود آیات کے داخلی قرائن سے واضح ہے۔ چنانچہ دوسری آیت میں زنا کے مرتکب مرد وعورت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ توبہ واصلاح کر لیں تو ان سے درگذر کیا جائے، جس سے واضح ہے کہ ان دونوں کے مابین یاری آشنائی کا تعلق تھا، ورنہ اگر یہ کسی اتفاقی صورت کا ذکر ہوتا تو انھیں سزا دینے کے بعد ان کی مزید نگرانی کرنے اور توبہ واصلاح کی صورت میں درگذر کی ہدایت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
مولانا کی راے میں یہاں پہلی آیت اس صورت کو بیان کرتی ہے جب زنا کی مرتکب عورت کا تعلق مسلمانوں سے، جب کہ مرد کا تعلق کسی غیر مسلم گروہ سے ہو، جب کہ دوسری آیت میں وہ صورت زیر بحث ہے جب دونوں مسلمان اور اسلامی ریاست کے قانونی دائرۂ اختیار میں رہتے ہوں۔ دوسری صورت میں مرتکبین کو توبہ و اصلاح کا موقع دینے کی حکمت یہ تھی کہ دونوں فریق اسلامی معاشرہ کی نظر میں تھے اور ان کے اصلاح احوال کی کیفیت لوگوں کے سامنے تھی، جب کہ پہلی صورت میں خواتین کو تامرگ محبوس کر دینے کی وجہ یہ تھی کہ دوسرا فریق، یعنی مرد مسلمان معاشرہ کے دباؤ سے بالکل آزاد تھا اور ایسی حالت میں عورت کی سماجی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے توبہ اور اصلاح کا موقع دیا جانا مختلف غیر مطلوب نتائج کا موجب ہو سکتا تھا (تدبر قرآن ۲/ ۲۶۵)۔
مصنف نے مولانا اصلاحی کی راے کے اس پہلو سے تو اتفاق کیا ہے کہ یہ آیت زنا کے ان مجرموں سے متعلق نہیں جو کسی وقت جذبات کے غلبے میں زنا کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، بلکہ دراصل زنا کو ایک عادت اور معمول کے طورپر اختیار کرنے والے مجرموں سے متعلق ہے، البتہ دونوں آیتوں کے باہمی فرق کے حوالے سے ان کی راے یہ ہے کہ پہلی آیت کا مصداق وہ پیشہ ور بدکار عورتیں ہیں جن کے لیے زنا شب وروز کا شغل تھا، جب کہ دوسری آیت میں ایسے مردوں اور عورتوں کی سزا بیان ہوئی ہے جن کا ناجائز تعلق یاری آشنائی کی صورت میں روز مرہ کے معمول کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ ان کی راے میں قرآن مجید نے دوسرے مقامات پر ان میں سے پہلی صورت کو ’مُسٰفِحِيْن‘ اور ’مُسٰفِحٰت‘ جب کہ دوسری صورت کو ’مُتَّخِذِيْ اَخْدَانٍ‘ اور ’مُتَّخِذَاتِ اَخْدَانٍ‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے (برہان ۱۲۵- ۱۲۶)۔ گویا پہلی آیت میں صرف خواتین کی سزا کو موضوع بنانے کی وجہ یہ ہے کہ پیشہ ورانہ بدکاری میں بنیادی کردار خواتین ہی کا ہوتا ہے اور جرم کے سدباب کے لیے اصلاً انھی کی سرگرمیوں پر پہرہ بٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مرد وعورت میں یاری آشنائی کے تعلق کی صورت میں دونوں جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور دونوں ہی کی تادیب و تنبیہ کو قانون کا موضوع بنانا پڑتا ہے۔
مصنف کی اس تاویل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن مجید نے زنا کی عبوری سزا بیان کرتے ہوئے صرف زنا کے عادی مجرموں کو موضوع بنایا ہے، جب کہ اتفاقیہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ اصول تدریج کے تناظر میں اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر کسی معاشرے میں مناسب اخلاقی تربیت کے فقدان اور زنا کے محرکات کی کثرت کے سبب سے کسی جرم کا سدباب فوری طور پر ممکن نہ ہو تو ابتدائی مرحلے پر ہلکی سزاؤں پر اکتفا کرنا اور سزا کے لیے جرم کو عادت اور معمول بنا لینے والے مجرموں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
’’زانی مرد ہو یا عورت ،اُس کا جرم اگر ثابت ہو جائے تو اِس کی پاداش میں اُسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔“ (میزان ۶۲۵)
یہاں مصنف نے جمہور اہل علم کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اس راے سے اتفاق کیا ہے جو مولانا امین احسن اصلاحی نے پیش کی ہے۔ جمہور فقہا کے نزدیک سورۂ نور میں زنا کی جو سزا بیان کی گئی ہے، وہ غیر شادی شدہ زانیوں کے لیے ہے، جب کہ شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے جو احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ظاہراً یہ تخصیص بیان نہیں ہوئی، چنانچہ جمہور اصولیین میں سے بعض اس مثال میں حدیث کو قرآن کا بیان قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مراد غیر شادی شدہ زانی کی سزا بیان کرنا ہی ہے اور اس مراد کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ذریعے سے فرمائی ہے۔ بعض دیگر اہل علم اس کو تبیین کے بجاے قرآن مجید کے حکم میں نسخ کی مثال قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا میں ہر طرح کے زانی کی سزا یہی مقرر کی گئی تھی جو قرآن میں مذکور ہے، لیکن بعد میں اس کو تبدیل کر کے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کر دی گئی اور یہ نسخ، حدیث کے ذریعے سے عمل میں لایا گیا۔ فقہا کا ایک تیسرا گروہ اس آیت کو کنوارے زانیوں کے ساتھ خاص نہیں کرتا اور کوڑوں کی سزا کو شادی شدہ زانیوں کے لیے بھی عام مانتا ہے، تاہم حدیث کی روشنی میں وہ شادی شدہ زانیوں کے لیے سو کوڑوں کے بعد رجم کی اضافی سزا کا بھی قائل ہے۔
جمہور کے موقف کے برخلاف مولانا اصلاحی کی راے یہ ہے کہ سورۂ نور کا یہ حکم زنا کی تمام صورتوں کو شامل ہے اور اس میں بیان ہونے والی سزا زنا کی ہر صورت پر یکساں قابل نفاذ ہے۔ چونکہ قرآن نے نفس زنا کی سزا بیان کرتے ہوئے مجرم کی ازدواجی حیثیت کو موضوع نہیں بنایا اور زنا کی سزا مطلقاً سو کوڑے بیان کی ہے، اس لیے قرآن کا مدعا یہی ہے کہ ہر طرح کے زانی کو، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، یہی سزا دی جائے۔ جرم کی نوعیت اور اس کی سنگینی اگر تقاضا کرے تو یقیناً مجرم کو اس کے علاوہ کوئی مزید سزا بھی دی جا سکتی ہے، تاہم اگر جرم صرف زنا ہے تو قرآن کا بیان اس سزا میں کسی اضافے کو قبول کرنے سے مانع ہے۔
جمہور فقہا کے موقف سے مولانا اصلاحی کے اختلاف کی بنیاد اسی نکتے پر ہے کہ ان کے نزدیک حدیث کے ذریعے سے نہ تو قرآن کے حکم میں کوئی تبدیلی کی جا سکتی ہے اور نہ قرآن کے عموم کے اندر سے کسی ایسی چیز کو خارج کیا جا سکتا ہے جو لفظ کے مفہوم میں واضح طو رپر داخل ہو۔ مولانا ایسی تخصیص کو نسخ ہی قرار دیتے ہیں، جس کا اختیار ان کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہیں تھا (مبادی تدبر حدیث ۴۱)۔ مولانا کا کہنا ہے کہ سورۂ نور میں مذکور زنا کی سزا کو بعض روایات کی بنا پر غیر شادی شدہ کے ساتھ خاص کرنا اور شادی شدہ کے لیے اس سے الگ ایک مستقل اور اس سے زیادہ سخت حکم مقرر کرنا تبیین نہیں، بلکہ نسخ ہے، کیونکہ الفاظ اور آیت کے اندر اس امتیاز کے لیے کوئی قرینہ یا اشارہ موجود نہیں (ایضاً ۴۵)۔
مصنف نے بھی اپنی کتاب ’’برہان‘‘ میں سورۂ نور کے اس حکم کی وضاحت اور اس کے تمام زانیوں کے لیے عام ہونے پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قرآن کا اسلوب اس حکم کی کنوارے زانیوں کے ساتھ تخصیص کو قبول نہیں کرتا اور اگر ایسی کوئی تخصیص حکم میں شامل کی جائے تو وہ قرآن کا بیان نہیں ہو سکتی، اسے لازماً قرآن کے حکم میں تغییر قرار دینا پڑے گا جو خود قرآن کے علاوہ کسی دوسری دلیل سے نہیں کی جا سکتی۔ مصنف کے الفاظ یہ ہیں:
’’عربی زبان کے اسالیب بیان میں اِس کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے ۔ لغت قرآن سے واقف کوئی شخص اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ’اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ‘ کے الفاظ سے محض کنوارا زانی اور کنواری زانیہ بھی مراد لیے جا سکتے ہیں ۔ آیت کے الفاظ اپنے لغوی مفہوم کے اعتبار سے اِس کی نفی کرتے ہیں ۔ جملے کی ترکیب و تالیف اِس سے ابا کرتی ہے ۔ کلام کے سیاق و سباق کو اِسے قبول کرنے سے انکار ہے ۔ عرف و عادت کی دلالت کی بناپر اِسے متکلم کا منشا قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ قاضی عقل بالصراحت اِس کے عدم جواز کا فتویٰ دیتا ہے ۔ غرض کسی لحاظ سے اِسے قرآن مجید کے مدعا کی شرح و تبیین قرار دینا ممکن نہیں ہے ۔ ‘‘(برہان۵۵)
اس حکم کے، تمام زانیوں کے لیے عام ہونے کی تائید میں مصنف نے آیت کے اسلوب کے علاوہ دیگر دو آیات سے بھی استدلال کیا ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
سورۂ نور کی آیت ۲- ۳میں زنا کی سزا بیان کرنے کے بعد آیت ۴۔۵میں پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانے والوں کے لیے قذف کی سزا بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد آیت ۶- ۱۰میں میاں بیوی کے مابین لعان کا حکم بیان کیا گیا ہے، جس کی رو سے اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اسے اپنے الزام کے سچا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ اس کے بعد بیوی اگر زنا کی سزا سے بچنا چاہتی ہے تو اسے بھی اس الزام کے جھوٹا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ ارشاد ہوا ہے:
وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍۣ بِاللّٰهِﶈ اِنَّهٗ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ. (النور ۲۴: ۸)
’’اور (مرد کے قسمیں کھانے کے بعد) عورت سے یہ سزا اس صورت میں ٹلے گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دے کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔‘‘
یہاں شادی شدہ عورت کی سزا کے لیے ’الْعَذَاب‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو معرفہ ہے اور عربی زبان کے قواعد کی رو سے اس سے مراد وہی سزا ،یعنی ۱۰۰کوڑے ہو سکتی ہے جس کا ذکر اس سے پیچھے آیت ۲میں ’وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ‘کے الفاظ سے ہوا ہے۔[2]
سورۂ نور کی مذکورہ آیت کی طرح سورۂ نساء (۴) کی آیت ۲۵سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی مسلمان لونڈی سے نکاح کر سکتا ہے۔ یہاں شادی شدہ لونڈی کے لیے بدکاری کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
فَاِذَا٘ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ.
’’پھر جب وہ قید نکاح میں آ جائیں اور اس کے بعد بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کو اس سے آدھی سزا دی جائے جو آزاد عورتوں کو دی جاتی ہے۔‘‘
کلام کے اسلوب سے واضح ہے کہ متکلم ’الْعَذَاب‘،یعنی زنا کی ایک متعین اور معہود سزا سے آدھی سزا دینے کی بات کر رہا ہے اور یہ اشارہ سورۂ نور میں بیان کردہ سزا کی طرف ہے جہاں کسی قسم کی تفریق کے بغیر زنا کی ایک ہی سزا بیان کی گئی ہے۔ یوں ’نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ‘ کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ متکلم کے نزدیک آزاد عورتوں کے لیے زنا کی ایک ہی سزا ہے اور وہ ایسی ہے جس کی تنصیف ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رجم کی سزا اس کا مصداق نہیں ہو سکتی۔
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ ’اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ‘ کے عموم کے علاوہ سورۂ نور کی آیت ۸ میں ’يَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ‘ اور سورۂ نساء کی آیت ۲۵میں ’نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ‘ کے الفاظ بھی شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑے ہی کی سزا پر دلالت کرتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ اس پر تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے، ہماری کتاب: ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘۔
[2]۔ آیت ۸ میں ’الْعَذَاب‘ کا مصداق لازماً آیت ۲ میں ’عَذَابَهُمَا‘ کو قرار دینے کا نکتہ ذرا مختلف سیاق میں اکابر اہل علم نے بھی بیان کیا ہے۔ مثلاً امام رازی لکھتے ہیں:
الألف واللام الداخلان علی العذاب لا یفیدان العموم لأنه لم یجب علیها جمیع أنواع العذاب فوجب صرفهما إلی المعهود السابق والمعهود السابق هو الحد لأنه تعالیٰ ذکر في أول السورة ’’وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ‘‘ والمراد منه الحد.(التفسیر الکبیر ۲۳/ ۱۴۶)
’’ ’الْعَذَاب‘ پر داخل الف لام عموم کا فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ اس عورت پر ہر نوع کا عذاب لازم نہیں، اس لیے ’الْعَذَاب‘ سے وہی عذاب مراد لینا ضروری ہے جس کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے اور وہ ’حد‘ کا عذاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ کے آغاز میں فرمایا ہے کہ ’وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ‘ اور یہاں عذاب سے مراد حد ہی کا عذاب ہے۔‘‘
رازی نے یہ بات اصلاً اس تناظر میں لکھی ہے کہ ’الْعَذَاب ‘ کا لفظ لعان سے انکار کرنے والی خاتون کے لیے جس سزا کو بیان کر رہا ہے، اس سے مراد آیا دنیوی سزا ہے یا آخرت کا عذاب، اور ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ ’الْعَذَاب‘ کا الف لام اسی عذاب، یعنی دنیوی سزا پر دلالت کر رہا ہے جس کا ذکر سیاق کلام میں ’عَذَابَهُمَا‘ کے لفظ سے ہو چکا ہے۔
ابن قیم نے ایک اور بحث کے تناظر میں اس نکتے کا یوں ذکر کیا ہے:
والعذاب المدفوع عنها بلعانها هو المذکور في قوله تعالیٰ ’’وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ‘‘ وهذا عذاب الحد قطعًا فذکرہ مضافًا ومعرفًا بلام العهد فلا یجوز أن ینصرف إلی عقوبة لم تذکر في اللفظ ولا دل علیها بوجه ما من حبس أو غیرہ.(زاد المعاد ۹۷۸)
’’یہاں لعان کے ذریعے سے عورت سے جس سزا کے ٹلنے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ وہی ہے جو اس سے قبل ’وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ‘ میں مذکور ہے۔ اس سے مراد لازماً زنا کی مقررہ سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اس کا ذکر اضافت کے ساتھ (عَذَابَهُمَا) کیا ہے اور اس کے بعد لام عہد (الْعَذَاب) کے ساتھ۔ چنانچہ ’الْعَذَاب‘ سے مراد کوئی ایسی سزا، مثلاً عورت کو قید کر دینا وغیرہ ہو ہی نہیں سکتی جس کا پیچھے نہ الفاظ میں ذکر ہوا ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا کوئی قرینہ پایا جاتا ہے۔‘‘