HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الروم ۳۰: ۱۹-۲۹ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاﵧ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ ١٩ وَمِنْ اٰيٰتِهٖ٘ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَا٘ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ ٢٠ وَمِنْ اٰيٰتِهٖ٘ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْ٘ا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةًﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ٢١ وَمِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْعٰلِمِيْنَ ٢٢ وَمِنْ اٰيٰتِهٖ مَنَامُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَآؤُكُمْ مِّنْ فَضْلِهٖﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ ٢٣ وَمِنْ اٰيٰتِهٖ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَيُحْيٖ بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ٢٤ وَمِنْ اٰيٰتِهٖ٘ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖﵧ ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةًﵲ مِّنَ الْاَرْضِ اِذَا٘ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ ٢٥ وَلَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵧ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ ٢٦ وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِﵧ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰي فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵐ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٢٧

(تمھیں تعجب ہے کہ یہ کس طرح ہو گا؟ دیکھتے نہیں ہو کہ) وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے[117]اور زمین کو اُس کے مردہ ہو جانے کے بعد ازسرنو زندہ و شاداب کر دیتا ہے۔[118] اِسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے۔ اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر دیکھتے دیکھتے تم انسان بن کر (زمین میں) پھیل جاتے ہو۔[119] اوراُس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نے تمھاری ہی جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو اور اِس کے لیے اُس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔[120] اِس میں، یقیناً اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرنے والے ہیں۔[121]زمین اور آسمانوں کی پیدایش اور تمھاری بولیوں اور رنگوں کا اختلاف بھی اُس کی نشانیوں میں سے ہے۔ اِس میں، یقیناً علم والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔[122] اِسی طرح تمھارا رات اور دن میں سونا اور اُس کا فضل تلاش کرنا[123] بھی اُس کی نشانیوں میں سے ہے۔ اِس میں، یقیناً اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو (دل کے کانوں سے) سنتے ہیں۔[124] اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ تمھیں بجلیاں دکھاتا ہے جو خوف بھی پیدا کرتی ہیں اور امید بھی،[125]اور آسمان سے پانی برساتا ہے، پھر اُس سے زمین کو اُس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر دیتا ہے۔[126] اِس میں، یقیناً اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ زمین و آسمان اُسی کے حکم سے قائم ہیں۔[127] پھر جب وہ زمین سے نکلنے کے لیے تم کو ایک ہی بار پکارے گا تو سنتے ہی  نکل پڑو گے۔[128] زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں، اُسی کے ہیں، سب اُسی کے فرماں بردار ہیں۔ وہی ہے جو خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اُسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ اُس کے لیے زیادہ آسان ہے۔[129] زمین اور آسمانوں میں سب سے بالاتر صفت[130] اُسی کی ہے اور وہی عزیز و حکیم ہے۔[131]۱۹ -۲۷

ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْﵧ هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَآءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْهِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَهُمْ كَخِيْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْﵧ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ٢٨ بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْ٘ا اَهْوَآءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍﵐ فَمَنْ يَّهْدِيْ مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُﵧ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ ٢٩aya

(تم پر تعجب ہے کہ اِس کے باوجود اُس کے شریک ٹھیراتے ہو)۔ خدا نے تمھارے لیے خود تمھاری ذات سے مثال بیان کی ہے۔ (ذرا بتاؤکہ)ہم نے جو رزق و فضل تمھیں بخشا ہے،کیا اُس میں تمھارے مملوکوں میں سے بھی کچھ تمھارے شریک ہیں کہ تم اور وہ اُس میں برابر ہو گئے ہوں اور جس طرح تم اپنوں کا لحاظ کرتے ہو، اُسی طرح اُن کا بھی لحاظ کرتے ہو؟[132] ہم اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں، اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقل سے کہاں کام لیں گے، بلکہ اِن ظالموں (کا حال تو یہ ہے کہ اِنھوں )نے بلا دلیل اپنے تخیلات کی پیروی کررکھی ہے! پھر اُنھیں کون ہدایت دے سکتا ہے جنھیں اللہ نے بھٹکا دیا ہو؟[133] اِن کا اب کوئی مددگار نہیں ہے۔ [134]۲۸ -۲۹

[117]۔ یعنی زندوں پر موت طاری کرتا ہے اور بے جان مادے کے اندر زندگی کی روح پھونک کر اُس سے جیتے جاگتے حیوانات، نباتات اور انسان پیدا کر دیتا ہے۔

[118]۔ یہ زندہ کو مردہ سے نکالنے کی مثال ہے کہ زمین بالکل خشک اور مردہ ہوتی ہے، لیکن بارش کا ایک ہی چھینٹا پڑتا ہے اور اُس کے ہر گوشے میں زندگی نمودار ہو جاتی ہے۔

[119]۔ یعنی مٹی کے اندر پائے جانے والے چند بے جان مادوں سے تمھارا حیوانی وجود تخلیق کیا، پھر اُس میں روح پھونکی اور یکایک تم عقل و شعور اور جذبہ و تخیل کی حامل ایک حیرت انگیز ہستی بن کرکھڑے ہو گئے، اور اب لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں روے زمین پر پھیلتے جا رہے ہو۔

[120]۔ یعنی انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی، بلکہ اُسے دو صنفوں کی صورت میں پیدا کیا اور دونوں کے اندر الگ الگ انفرادی خصوصیات رکھیں ، لیکن پھر اُن میں ایسی مناسبت پیدا کر دی کہ دونوں ایک دوسرے سے تسکین و راحت حاصل کرتے ہیں جس کے لیے محبت و رحمت کا ایسا جذبہ اُن کے اندر ودیعت کر دیا کہ اُنھیں وہ ایک دوسرے کی طرف کھینچ لے جاتا ہے اور زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے کا خیرخواہ، ہم درد و غم خوار اور شریک رنج و راحت بنا دیتا ہے۔

[121]۔ یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے اور نہ اِس کے بہت سے خدا ہیں، بلکہ ایک ہی خدا ہے جو اِس کا تنہا خالق ، مالک اور فرماں روا ہے۔ اُس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ جس طرح اُس نے پہلی مرتبہ پیدا کیاہے، اُسی طرح دوبارہ پیدا کر دے۔ چنانچہ لازماً پیدا کرے گا اورتم سب ایک دن اُس کے سامنے جواب دہ ٹھیرائے جاؤ گے، اِس لیے کہ یہی اُس کے عدل و حکمت کا تقاضا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے تفصیل فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اِس کے اندر ایک واضح نشانی تو اِس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کائنات میں ہر چیز جوڑا جوڑا پیدا کی ہے اور ہر چیزاپنے مقصد وجود کی تکمیل اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر کرتی ہے۔ اِس سے یہ اشارہ نکلتاہے کہ اِس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہے جس کو آخرت کہتے ہیں۔ اِسی آخرت سے اِس دنیا کی غایت کی تکمیل ہوتی ہے۔
دوسری نشانی اِس کے اندر یہ ہے کہ ہمارا خالق نہایت مہربان اور محبت کرنے والا ہے۔ اُس نے ہمارے اندر جوڑے کی طلب دی تو ہماری ہی جنس سے ہمارا جوڑا بھی اُس نے پیدا کیا اور پھر دونوں کے اندر محبت و ہم دردی کے جذبات بھی ودیعت فرمائے تاکہ دونوں دو قالب یک جان ہو کر زندگی بسر کریں۔
تیسری نشانی اِس کے اندر یہ ہے کہ اِس کائنات کے اضداد کے اندر نہایت گہرا توافق اور ایک بالاتر مقصد کے لیے نہایت عمیق سازگاری پائی جاتی ہے جو اِس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ اِس کا خالق و مالک ایک ہی ہے جو اپنی حکمت کے تحت اِس کائنات کے اضداد میں توفیق پیدا کرتا ہے۔
چوتھی نشانی اِس کے اندر یہ ہے کہ اُن لوگوں کا خیال بالکل احمقانہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ اِس کائنات کا ارتقا آپ سے آپ ہوا ہے۔ اگر اِس کا ارتقا آپ سے آپ ہوا ہے تو اِس کے اضداد میں یہ حیرت انگیز توافق کہاں سے پیدا ہوا؟ یہ تو اِس بات کی صاف شہادت ہے کہ ایک قادر و حکیم ہستی ہے جو اِس پورے نظام کو اپنی حکمت کے تحت چلا رہی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/  ۸۵)

[122]۔ اوپر ’لِقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ‘فرمایا تھا، یہاں ’لِلْعٰلِمِيْنَ‘فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کے پاس حقیقی علم ہے، وہ اِس کائنات میں کثرت کے اندر وحدت اور اِس کے تضادات کے اندر سازگاری اور موافقت کو دیکھ لیتے اور اِسی سے اِس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ جس حکیم و قدیر خالق نے یہ کائنات بنائی ہے، اُس کا کوئی کام عبث نہیں ہو سکتا، لہٰذا ضروری ہے کہ ایک روز جزا آئے جس میں لوگوں کے لیے اچھے اور برے انجام کا فیصلہ کیا جائے۔ پھر یہی نہیں، اُن کے اندر یہ مشاہدہ اِس بات کا یقین و اذعان بھی پیدا کر دیتا ہے کہ کائنات کا خالق، مالک اور مدبر ایک ہی ہے۔ اُس کی خدائی میں کسی شراکت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...ایک طرف آسمانوں کی ایک وسیع اور ناپیدا کنار کائنات ہے اور دوسری طرف یہ کرۂ زمین ہے۔ بظاہر دونوں میں کتنی دوری ہے، لیکن اِس دوری کے باوجود دونوں میں اتنا گہرا اتصال ہے کہ کوئی عاقل یہ تصور نہیں کر سکتا کہ دونوں الگ الگ خالقوں کی قدرت سے وجود میں آئے اور الگ الگ ارادوں کے تحت گردش کر رہے ہیں، بلکہ اِن کی باہمی سازگاری پکار پکار کر شہادت دے رہی ہے کہ ایک ہی قدیر و حکیم دونوں پر متصرف ہے اور دونوں کو ایک مشترک مقصد کے لیے مسخر کیے ہوئے ہے۔ اِسی طرح انسانوں کے عالم پر غور کیجیے تو نظر آئے گا کہ قوموں قوموں کی زبانیں الگ اور فرد فرد کا لہجہ مختلف ہے۔ اِسی طرح اُن کے رنگ بھی الگ الگ ہیں، لیکن اِس اختلاف و تنوع کے باوجود کوئی عاقل یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں رنگ اور فلاں زبان و لہجہ کے لوگ الگ خدا کی مخلوق ہیں اور فلاں رنگ و روغن کے لوگ کسی الگ خالق کی مخلوق ہیں، بلکہ ہر دانش مند یہ جانتا ہے کہ ایک ہی خالق نے تمام انسانوں کو وجود بخشا ہے۔ یہ محض اُس کی حیرت انگیز کاری گری کا کرشمہ ہے کہ اُس نے ہر انسان کا لب و لہجہ اور اُس کا ناک نقشہ ایسا بنایا ہے کہ لاکھوں کروڑوں آدمیوں کا بھی جائزہ لیجیے تو ناممکن ہے کہ کوئی دو فرد بھی آپ کو بالکل ایک ہی رنگ و روغن، ایک ہی قد و قامت اور ایک ہی ناک نقشہ کے مل سکیں۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۸۶)

[123]۔ اصل الفاظ ہیں: ’مَنَامُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَآؤُكُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ‘۔ اِن میں ’اِبْتِغَآؤُكُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ‘ کا عطف ’مَنَامُكُمْ‘ پر ہے، یعنی رات میں سونا اور دن میں فضل تلاش کرنا۔ اِس اسلوب کی مثالیں دوسرے مقامات میں بھی ہیں۔

[124]۔ یعنی سنتے ہیں تو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ فرمایا کہ وہ اگر تنہا اِسی بات پر غور کریں کہ اُن کے خالق نے انسانی جسم کے لیے نیند اور آرام کی ضرورت اور معاش کی جدوجہد کو رات اور دن میں تقسیم کر کے کس رحمت و شفقت کے ساتھ اُنھیں اور اُن کے ماحول کو ہم آہنگ کر دیا ہے۔ کیا یہ چیز صاف صاف ایک رب رحیم و کریم کے وجود کا پتا نہیں دے رہی؟ کیا اِس کے بعد بھی انسان کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقاً ہو گیا ہے یا اِس میں ایک سے زیادہ خداؤں کی خدائی متصور ہو سکتی ہے یا اِس کائنات کا خالق اِسے یوں ہی ختم ہو جانے دے گا؟ اِس میں، اگر غور کیجیے تو مخالفین کے رویے پر ایک نوعیت کی تعریض بھی ہے کہ سنتے بھی ہیں تو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ اندھے اور بہرے ہو کر مخالفت کے لیے آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔

[125]۔ یعنی اپنے وجود سے تعلیم دیتی ہیں کہ نعمت و نقمت، سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ جزا و سزا ، دونوں پر پورا اختیاررکھتا ہے اور اُس کے لیے اپنی جس نعمت کو چاہے، نقمت اور نقمت کو نعمت میں تبدیل کر سکتا ہے۔

[126]۔ یہ اُسی استدلال کی تفصیل ہے جو اوپر ’يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا‘کے الفاظ میں بیان ہو چکا ہے۔

[127]۔ اِس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے، اِس لیے کہ تم اگر سن سکو تو اتھاہ خلاؤں میں گردش کرتے ہوئے نجوم و کواکب اور سورج اور چاند اور تمھاری یہ زمین، سب بول کر بتا رہے ہیں کہ وہ کسی قائم رکھنے والے کی قدرت سے قائم ہیں اور کسی چلانے والے کے زور سے چل رہے ہیں۔

[128]۔ یعنی دوسری مرتبہ پکارنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔ زمین و آسمان کے قیام و استحکام میں خدا کی قدرت و حکمت کا اظہار جس حیرت انگیز طریقے سے اور جس اعلیٰ سطح پر دیکھ رہے ہو، وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ وہ اگرایک ہی پکارپکار دے تو ممکن نہیں ہے کہ زمین اُس کے حکم سے سر تابی کی جسارت کرے یا آسمان اُس سے سرمو انحراف کر سکے۔ آگے اِسی کی وضاحت ہے۔

[129]۔ مطلب یہ ہے کہ پہلی تخلیق کا جو مظاہرہ ہر آن دیکھ رہے ہو، اُس کے بعد دوسری تخلیق کو مستبعد کس طرح خیال کرتے ہو؟ اگر کوئی مشکل تھی تو پہلی تخلیق میں تھی۔ اِسے تو ہر حال میں آسان تر ہونا چاہیے۔

[130]۔ اصل میں ’الْمَثَلُ الْاَعْلٰي‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی صفات کو ہم اپنی صفات پر قیاس کرکے ہی سمجھتے ہیں۔ اُن کی حقیقت کیا ہے؟ وہ ہمارے فہم کی گرفت میں نہیں آسکتی۔ چنانچہ اُن کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، وہ اصلاً ’مَثَل‘ ہی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو بات ہم کہہ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اُن کا جو بلند ترین مفہوم ہو سکتا ہے، خدا کے لیے وہ اُسی مفہوم میں سمجھی جائیں گی۔

[131]۔ یعنی زمین و آسمان میں تمام اعلیٰ صفات کا حق دار وہی ہے۔ اِن میں کوئی دوسرا اُس کا شریک و سہیم نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا وہی سب سے بالاتر اور اپنے تمام ارادوں میں سراسر حکمت ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...مطلب یہ ہے کہ اُس کے لیے کوئی کام بھی مشکل نہیں، اُس کے ارادے میں اُس کی حکمت کے سوا کوئی چیز بھی دخیل نہیں، اور اِس ساری کائنات میں کوئی نہیں جو اُس کی صفات میں برابری کر سکے۔ اِس سے یہ بات لازمی نتیجے کے طور پر آپ سے آپ نکل آئی کہ جب صفات میں کوئی اُس کی برابری کا نہیں تو اُس کے حقوق میں بھی کوئی اُس کی برابری کا نہیں قرار دیا جا سکتا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۸۹)

[132]۔ یہ اُسی طرح کی دلیل ہے، جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہو، دراں حالیکہ اپنی طرف اُن کی نسبت سے بھی تمھیں شرم محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ شرک کی تردید میں انفس و آفاق اور عقل و فطرت کے دلائل سے قطع نظر تنہا اِسی بات پر غور کرو کہ جو شراکت تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے ، اُسے خدا کے حق میں کس طرح قبول کر لیتے ہو؟ تمھیں خیال نہیں ہوتا کہ یہ کیسا تضاد فکر و عمل ہے؟ اِس طرح کی باتیں آخر تم کس طرح گوارا کرتے ہو کہ تمھارے مملوک تو تمھارے اموال و جایداد اور عزوجاہ میں شریک نہیں ہو سکتے، لیکن خدا کی مخلوقات اور اُس کے بندے خدا کی خدائی میں ضرور شریک ہو سکتے ہیں؟

[133]۔ یعنی اپنے اِس قانون کے مطابق بھٹکا دیا ہو کہ جو اپنی گم راہی پر اصرار کرتے ہیں، اُنھیں پھر اللہ اُسی راستے پر ڈال دیتا ہے،جس پر وہ جانا چاہتے ہیں۔

[134]۔ یعنی نہ دنیا کی ضلالت سے نکالنے کے لیے کوئی مددگار ہے اور نہ آخرت میں برے انجام سے بچانے کے لیے کوئی مددکہیں سے ملنے کی توقع ہے۔ یہ اب اِسی ہرزہ گردی میں زندگی گزاریں گے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B