ڈاکٹر محمد جواد
میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ انیس صاحب نہیں ہوں گے اور میں ان کی یادیں ان کے دوستوں کے ساتھ Share کر رہا ہوں گا۔ اصل میں انیس صاحب کے ساتھ موت کا تصور یا لفظ کوئی میل ہی نہیں کھاتا، وہ مکمل طور پر ایک زندہ انسان تھے۔ فطری خواہشات ، امنگوں ، جذبات، خیالات اور محبت سے بھرے ہوئے ۔ انھیں دیکھ کر اور ان سے مل کر صرف زندگی کا خیال آتا تھا۔ زندگی کی خوشبو آتی تھی اور جینے کی، اور کچھ اہم کام کر گزرنےکی آرزو پیدا ہوتی تھی۔ ان کی موت کی خبر سن کر میرے منہ سے نکلا :
’’اگر انیس صاحب مر سکتےہیں تو پھر کوئی بھی مر سکتا ہے۔‘‘
میری اُن سے پہلی ملاقات آج سے ۳۳ سال قبل الحمرا آرٹ سنٹر کی میوزک کلاس میں ہوئی۔میں اس وقت تقریباً ۲۰سال کا تھا اور وہ تقریباً ۳۴ سال کے خوش پوش، صحت مند اور جوان آدمی تھے۔شروع شروع میں ان کی میوزک کلاس میں آمد کو کسی نےبھی پسند نہ کیا۔ سب یہی سمجھے کہ موسیقی سےدل چسپی کا بہانہ ہے ، یہ یہاں باقی مولویوں کی طرح سب مسلمانوں کو مسلمان کرنےآئے ہیں ( اپنے مطابق )۔ ہم لوگوں میں موجود خدشات کو اور ہوا ملی، جب انھوں نے ایک دن کلاس فیلوز کو کہا کہ بتائیے زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟چند ایک جوابات سن کر بولے:
’’ زندگی کا اصل مقصد مالک کی اطاعت اور پرستش ہے اور اس اطاعت اور عبادت کو سمجھنے کا ذریعہ صرف اور صرف کتاب و سنت کا معقول فہم ہے۔‘‘
گانا گانےا ور مشہور سنگر بننے کے خواب دیکھنے والے لڑکوں کے لیے (سمیت میرے ) یہ بڑا سٹپٹا دینے والا پیغام تھا۔
اکثر لوگوں نے ایک کان سے سنا اور اُسی کان سے نکال دیا۔ اپنی کھوپڑی کو ذرا سی بھی زحمت دیے بغیر۔ میں اس وقت زندگی کی کچھ اس قسم کی الجھنوں میں پھنسا ہوا تھا کہ اس پیغام کو درست سمجھتے ہوئے بھی اس سے کچھ فرار یا وقتی فرار تلاش کرنا چاہتا تھا۔
انیس صاحب نے اپنی محبت اور خلوص سے میرے فرار کے تمام راستے بند کر دیے۔ کہنے لگے:
’’آپ صرف گلو کار نہیں ہیں، نہ ہی صرف ادیب یا شاعر نظر آتے ہیں۔ فلسفہ آپ کا Subject ہے۔ میں آپ کو اپنے استاد سے ملواؤں گا۔ ان شاء اللہ نشست بڑی فکری اور منطقی ہو گی۔‘‘
جاوید صاحب ان دنوں ماڈل ٹاؤن میں رہتے تھے۔ انیس صاحب مجھے اور شفقت حسین کو جاوید صاحب سے ملوانے لے آئے۔ اس وقت جاوید صاحب اس قدر مشہور نہیں تھے، مگر اسی طرح علمی سطح پرمضبوط بڑے اور ذہین اور فطین تھے۔
میں نے کچھ سوالات پوچھے، مذہب اور مذہبی لوگوں پرکچھ اعتراضات کیے۔ انھوں نے واقعی روایتی گفتگو کرنے کے بجاے بڑی عقلی اور منطقی گفتگو فرمائی۔ جاوید صاحب کے علاوہ انیس صاحب نے مجھے رفیع مفتی صاحب سے بھی ملوایا اور ان کے ساتھ میری کئی ملاقاتوں کا بندوبست کیا۔
حیرت انگیز طور پرجاوید صاحب نے بھی دوسرے لوگوں پر نہ تو اتنی توجہ دی اور نہ اتنا غور فرمایا، جتنی توجہ انھوں نے راقم پر مرکوز کی۔ انیس صاحب ایک دفعہ ہمارے ایک دوست فرخ منظور کو جاوید صاحب کے پاس لے کر آئے۔ ملاقات انتہائی مختصر رہی۔ صرف مندرجہ ذیل مکالمہ معرض وجود میں آسکا:
جاوید صاحب : اس کائنات میں جگہ جگہ آپ کو مالک کی نشانیاں نظر نہیں آتیں؟
فرخ : مجھے کچھ ایسا نظر نہیں آتا۔
جاوید صاحب: ہر شے عابد نہیں لگتی، جسے کسی معبود کی ضرورت ہو۔
فرخ: مجھے تو خود بھی ایسی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
جاویدصاحب: تو پھر ٹھیک ہےجو آپ کو درست محسوس ہوتا ہے، وہی کریں۔
شفقت حسین سے بھی جاوید صاحب کی گفتگو آگے نہیں بڑھی، مگر مجھے انھوں نے ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھنے کا مشورہ دیا اورکہا کہ اس عظیم تفسیر کو پڑھیں اورکوئی بھی سوال آپ کے ذہن میں آئے تو میرے پاس تشریف لائیں۔
میں نے ’’تدبر قرآن‘‘ کا حق تو ادا نہیں کیا، مگر آج یہ بات میرے لیے باعث فخر ہےکہ میں نے جاوید صاحب جیسے اسکالر کی رہنمائی میں ’’تدبر قرآن‘‘ تقریباً نو دس مہینےمیں مکمل کی۔
انیس صاحب سے ملاقاتیں اب بہت بڑھ چکی تھیں۔ الحمرا آرٹ سنٹر، انیس صاحب کا رحمٰن پورہ میں پرانا گھر، ریٹی گن روڈ پر موجود میرے نانا کا مکان، جاوید صاحب کی رہایش گاہ اور لارنس گارڈن، یہ وہ سارے مقامات ہیں جہاں پر میں انیس صاحب کے ساتھ گھومتا پھرتا رہا۔گفتگوگھوم پھر کر زندگی، زندگی کے مقصد، خدا، خدا اور بندےکا تعلق ، قرآن مجید، قرآن کے صحیح فہم اور کسی بڑے مقصد کی تلاش پر آجاتی ۔یہ حقیقت ہےکہ فن کار ہونے کےباعث میرا دل خدا کےاحساس سے کبھی خالی نہیں رہا، مگر مذہب کو باقاعدہ اختیار کرنا اس وقت میرے لیے بڑا مشکل تھا۔ مجھے یہ بھی سمجھ آرہی تھی کہ by birth مسلمان ہونا اور by conviction مسلمان ہونے میں کتنا فرق ہے۔ رفیع مفتی صاحب نے جلد محسوس کر لیا کہ دین کو بھرپور طریقےسے اپنی زندگی میں شامل نہ کرنےکےپیچھےعقلی سے زیادہ نفسیاتی عوامل کار فرما ہیں ۔وہ بہت جلد مجھ سےمایوس ہو گئے اور ایک hope less case سمجھ کر انھوں نے میری طرف سے اپنا دھیان ہٹا لیا۔
جاوید صاحب نے بھی محسوس کیا کہ انیس صاحب اس نوجوان کو زبردستی پکڑ کر لاتے ہیں اور یہ اپنی خوشی سے نہ آتا ہے اور نہ جاتا ہے، مگر وہ کبھی بھی مجھ سےمایوس نہیں ہوئے۔
چند ہی سالوں بعد ۱۹۹۵ء میں شعبۂ فلسفہ جامعۂ پنجاب میں لیکچرر بھرتی ہونے کےلیے لیکچر شپ کا انٹرویو ہوا۔ جاوید صاحب نے مجھے کہا کہ میں ان کے دوست ڈاکٹر ساجد علی سے مل لوں۔ میں شعبۂ فلسفہ میں استاد مقرر ہوا تو وہ بے حد خوش ہوئے اور انھوں نے مجھے مبارک باد دی۔
ایک دفعہ ڈاکٹر غزالہ عرفان کی جاوید صاحب سے Lums میں ملاقات ہوئی۔جاوید صاحب نےمیڈم کومیرے بارےمیں کچھ کہا۔ اگلے دن ڈیپارٹمنٹ آئیں تو مجھے کہنےلگیں:
"He thinks very high of you"
ایک دن میں نے جاوید صاحب سے کہا کہ مجھے کچھ نصیحت کریں، مجھے غصہ بہت آتا ہے۔ جاوید صاحب فوراً کہنے لگے: ’’کوئی بات نہیں ، سب پر خلوص لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
مجھے فوراً محسوس ہوا کہ وہ میرے بارے میں بڑے خوش گمان ہیں۔ انیس صاحب چاہتے تھے کہ میں باقی سارے کام چھوڑ کر باقاعدہ جاوید صاحب کی شاگردی اختیار کروں اوردین کا عالم بنوں۔ میرا خیال تھا کہ مجھ جیسے آدمی کا جاوید صاحب کی صحبت کے باعث باقاعد ہ مسلمان ہو جانا ہی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ میری زندگی کا ہر حصہ اور ہر گوشہ اس دینی شعور سے بدلتا اور تبدیل ہوتا جا رہا ہے، مگر میں اتنی بڑی چھلانگ نہیں لگا سکتا۔ میرا یہ ٹمپرامنٹ نہیں ہے۔ جب انیس صاحب نے کچھ زیادہ زور لگایا تو تھوڑی بدمزگی پیدا ہو گئی۔ میں نے کہا:
’’آپ مجھے چھوٹے بھیا کہتےہیں، مگر اصل میں آپ ایک سخت گیر باپ کی طرح ہیں۔‘‘
اس کا کیا مطلب چھوٹے بیٹا ، انیس صاحب حیران ہوئے۔
’’اس باپ کی طرح جو بیٹے کا مزاج دیکھے بغیر اسے اپنے مطلب کی field میں گھسا دیتا ہے۔‘‘
انیس صاحب کو یہ بات بری لگی، وہ بالکل خاموش ہو گئے اور پھر ایک عرصہ تک انھوں نے مجھ پر کوئی زبردستی نہیں کی۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ اچانک بہت امیر ہو گئے تھے۔ اپنےد وستوں کے ہم راہ کاروباری ترقی کے باعث ماڈل ٹاؤن میں ایک بڑی سی کوٹھی میں رہایش پذیر تھے۔میرے دفتر کی مصروفیات بڑھیں۔ فلسفے اور تدریس سے میری رغبت دن بدن بڑھنے لگی۔ ۲۰۰۱ء میں میری شادی ہو گئی۔دسمبر ۲۰۰۱ء میں میری بیٹی پیدا ہوئی۔ ذمہ داریاں بڑھتی ہی چلی گئیں۔
انیس صاحب کی دفتر ی مصروفیات پھر بہت بڑھ گئی تھیں، مگر انھوں نے اپنے گھر کو علمی اور ادبی محافل کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
ان کے اسی گھر میں میری ملاقاتیں احمد جاوید سے، شعیب منصور صاحب سے اور اشفاق احمد صاحب سے ہوئیں۔ انیس صاحب نے مجھے کئی لوگوں سے ملوایا، جن میں جنرل حمید گل، ڈاکٹر فاروق احمد خان، شعیب منصور، اشفاق احمد، بانو قدسیہ شامل ہیں۔ جاوید صاحب کے حلقے میں شامل ڈاکٹر منیر احمد،منیر امجد شیخ، آصف افتخار، کاشف محمود، ساجد صاحب، منظور الحسن اوردوسرے کئی دوستوں سے ملوایا۔ ’’آبرو ‘‘اسکول اور اس کی روح روا ں روبینہ شکیل صاحبہ ان کے شوہر شکیل صاحب اور بہت سے ننھے فرشتوں سے ملاقات بھی انیس صاحب ہی کے توسط سے ہوئی۔
اخلاق الرحمان سے ،جنھیں میں انسان کے روپ میں کوئی فرشتہ ہی سمجھتا ہوں،ملاقات بھی انیس صاحب نے ہی کروائی۔
انیس صاحب سے مل کر یہ احساس ہوا کہ کوئی شخص پانچ وقت کا نمازی اور روزے دار ہونے کے باوجود موسیقی کا رسیا، شاعری کا شوقین، خوب صورت اور ذہین، گفتگو کا دل دادہ، سفر کا شائق اور رشتے، ناتے اور تعلقات کو آخری درجے تک نبھانے والا بھی ہو سکتاہے۔
انھوں نے کئی چھوٹے اور بڑے بھائی، بیٹے،بیٹیاں، تائیاں، چاچیاں اور نانیاں بنائیں اور یہ رشتے نبھا کر دکھائے۔ مولود شاہد، عمران کریم اور آفتاب ان کے ان دوستوں میں سے ہیں جن کے ساتھ انھوں نے ایک عمر گزاردی۔ وہ بڑوں کےلیے انیس صاحب اور بچوں کےلیے آغا جی تھے۔ ہر کسی کےلیے ان کےدل میں بڑی جگہ تھی۔ نجانے اتنی جگہ ان کےدل میں کیسے نکل آتی تھی ! انیس صاحب میری شادی، نوکری، بچوں کی پیدایش، عیدین،ماں باپ کی اموات ،غرض ہر غمی اور خوشی میں میرے ساتھ رہے ۔ وہ میرے گیارہ سالہ بیٹے امان اور سترہ سالہ بیٹے سبحان کے آغا جی تھے۔ ان کی موت کی خبر سن کر میں نے اپنے بچوں کو آنسوؤں سے روتے دیکھا اور مجھے یقین ہو گیاکہ نیکی اور بھلائی کی طرح محبت بھی کبھی بانجھ نہیں ہوتی۔ وہ انڈے ،بچے دیتی ہے۔ محبت کا سفر ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل بھی ہوتا رہتا ہے اور آگے بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔
انیس صاحب نے اتنی بہت سی محبتیں کیسے اور کیوں پال لی تھیں؟ میں اس سوال کا جواب بھی برسوں تلاش کرتا رہا اور آخر مجھے انھی کی زبانی اس کا جواب مل گیا۔ کہنے لگے:
’’میرے والد فوج کےایک معمولی ملازم تھے۔ والدہ سال کےکچھ عرصے درست ذہنی کیفیت میں رہتی تھیں اور کچھ عرصہ پوری طرح ہوش میں نہیں ہوتی تھیں۔ ان حالات میں ، میں اور میرا بھائی کس طرح پلے ہیں اور کس طرح ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رہے ہیں، یہ خدا ہی جانتا ہے اور یہ مالک ہی کی مہربانی ہے۔
ایک دن مجھے باہر کھیلتے ہوئےچوٹ لگ گئی، میری دائیں ٹانگ پر کچھ زخم لگ گیا تھا اور اس زخم سے خون بہ رہا تھا۔ میں چھوٹا سا تھا ۔میں روتے ہوئے گھر داخل ہوا تو میری والدہ جو ان دنوں درست ذہنی حالت میں نہیں تھیں ،مجھے دیکھ کر اونچی اونچی رونے لگیں اور پھر ہم دونوں روتے روتے صحن میں ہی سو گئے۔‘‘
اپنےبھائی کے بارےمیں ایک دن فرمانے لگے :
’’میرا بھائی بڑا اچھا ہے،مگر مزاج مجھ سے بالکل نہیں ملتا ۔ میری طرح جذباتی بالکل نہیں ہے۔‘‘
انیس صاحب کو جو رشتہ گھر سے نہ ملا، انھوں نے باہر بنایا، جو کمی بچپن اور لڑکپن میں رہی، اسے بعد کی زندگی میں پورا کیا۔ رشتے بنائے بھی اور نباہ کر بھی دکھائے۔ ہر رشتےکو دین کا ، خدا کا اور خدا سے تعلق مضبوط کرنے کا درس دیا۔
ـــــــــــــــــــــــــ