۱۹/ستمبر ۲۰۱۸ء کو ’’راما کرشنا مشن ہوم آف سروسز‘‘ کی طرف سے بنارس ہندو یونیورسٹی (یوپی) کی فیکلٹی آف ایجوکیشن (چانکیاآڈیٹوریم) میں ایک پروگرام تھا۔یہ پروگرام امریکا (۱۸۹۳ ء) میں ہونے والے عالمی مذاہب پارلیمان (world parliament of religions) کی ۱۲۵ ویں سالگرہ کے طورپر کیا گیا۔ اِس میں مختلف مذاہب کے علما کو مدعو کیا تھا۔ اُس کی دعوت پر میں نے اسلام کے نمایندہ کی حیثیت سے اِس میں شرکت کی۔ دعوت نامے میں یہ الفاظ درج تھے:
‘‘R. M. Mission has the pleasure of cordially inviting you to represent Islam at the Inter-Faith Meet’’.....
یہ سفر اپنے چند احباب حافظ محمد سلمان نوری، محمدنسیم عمری،محمدمعاویہ سلمان عمری اور انجینئر موحد ندیم کے ساتھ ہوا۔بنارس میں ہمارا قیام مشن کے وسیع کیمپس کے گیسٹ ہاؤس میں تھا، جو بہت سادہ اور پر فضا تھا۔ ہم لوگ ۱۹ ؍ ستمبر ۲۰۱۸ء کی صبح کو بہ ذریعۂ کار لکھنؤ سے بنارس کے لیے روانہ ہوئے اور ۲۰؍ ستمبر کی شام کو واپسی ہوئی۔ذیل میں پروگر ام کی ایک مختصر روداد درج کی جارہی ہے۔
یہاں گفتگو کے لیے جو عنوان مجھے دیا گیا تھا،وہ تھا: ’’امن اور ہم آہنگی: اسلام کی روشنی میں‘‘ Harmony and Peace and not Dissension: According to Islam۔
اِس موضوع پر میں نے آدھ گھنٹے کا خطاب کیا۔اِس میں اسلام کی فطری تعلیمات کو سادہ اور واقعاتی اسلوب میں پیش کیا گیا۔اِس گفتگو کا خلاصہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
میں نے کہاکہ اسلام کوئی نیا دین نہیں ، بلکہ وہ خدا کی طرف سے الہام کردہ ادیان کا آخری اور محفوظ ایڈیشن ہے۔اِسی طرح قرآن دین خداوندی کی پہلی کتاب نہیں ، بلکہ وہ دین کی آخری کتاب ہے۔ایسی حالت میں،مذاہب کی صداقت پر یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ الہامی صحائف کی حیثیت سے موجود قرآن سے پہلے کی کتابوں (تورات، انجیل اور وید، وغیرہ )پراُن کی نظر ہو۔ مسلم علما کو چاہیے کہ وہ اِن صحائف کو پڑھیں۔اِسی طرح دیگر اہل مذاہب کے لیے ضروری ہے کہ وہ گہرائی کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کریں۔اِس طرح دونوں کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھیں اور کسی ایک خول میں محدود ہونے کے بجاے الہامی ادیان کے ابدی تسلسل کا حصہ بن سکیں۔
تمام الہامی مذاہب کو ماننے والے ہمارے اپنے بھائی ہیں۔ ہمارے اور اُن کے مابین اصلاً اشتراک کا رشتہ ہے، نہ کہ اختلاف کا ۔یہ سب انسان ہیں اور انسان ہونے کی نسبت سے ہمارے نزدیک وہ یکساں طورپر ہم دردی اور احترام کا درجہ رکھتے ہیں۔ اِس ابدی انسانی رشتے کا شعور نہ ہونے کی بنا پر آج ہم ’انسانیت‘ پر خود ساختہ گروہوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اِسی غیر حقیقت پسندانہ ذہن کا یہ نتیجہ ہے کہ آج خدا کی بنائی ہوئی ’مورتیاں‘ (انسان)ہر جگہ توڑی جارہی ہیں، مگر خود انسان کے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کو عقیدت اور سمّان دیا جارہا ہے۔
اسلام کا خلاصہ بتاتے ہوئے میں نے کہا کہ تقویٰ اور خیرخواہی اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے۔اسلام خدا سے ڈرنے اور انسانوں کے ساتھ حسن اخلاق کا طریقہ اختیار کرنے کا نام ہے۔رسول اور اصحاب رسول کے واقعات کی روشنی میں اِس معاملے کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی گئی۔
ایک بات میں نے یہ کہی کہ انسانی سماج میں امن اور ہم آہنگی کا قیام صرف دو بنیادوں پر ممکن ہے: وحدت الٰہ اور وحدت آدم۔وحدت الٰہ کا مطلب خدا کو اُس کی ذات اور صفات کے اعتبار سے ایک ماننا ہے، یعنی یہ کہ اِس کائنات کا خالق اور مالک صرف ایک خدا ہے۔ عالم خَلق وامر کا یہ پورا کارخا نہ اُسی کے حکم اور اُسی کی حکمت و قدرت کے تحت چل رہاہے۔اِس کائنات میں نہ دوسرا کوئی خدا ہے اور نہ اُس کے سوا کوئی اور ذات دعا و پرستش کے لائق قرار پاسکتی ہے۔
اِس سلسلے میں دوسری بنیاد وحدت آدم کا تصور ہے۔اِس کے مطابق، تمام مرد اور عورت ایک ماں اور باپ(آدم وحوا)کی اولاد ہیں۔تمام مرد اور عورت باہم ایک دوسرے کے لیے خونی بھائی (blood brothers) اور خونی بہن (blood sisters) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ وحدت آدم، وحدت الٰہ سے الگ کوئی چیز نہیں۔ وحدت الٰہ کے حقیقی تصور میں اپنے آپ وحدت آدم کا آفاقی تصور شامل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ایک ماننے کے بعد خدا کے بندوں کے مابین تفریق کا نظریہ سرے سے اپنی بنیاد کھودیتا ہے۔
یہ پروگرام معروف مفکر سوامی وِویکا نند[1](وفات:۱۹۰۲ء) کے مشن کی طرف سے کیا گیا تھا۔اِس لیے یہاں سوامی و ویکا نند کے بعض اقوال وواقعات کی روشنی میں اسلام سے متعلق اُن کے نقطۂ نظر پر بھی گفتگو کی گئی۔مثلاً ایک بات یہ کہی کہ سوامی وویکا نندکے نزدیک، یہ ایک بے اصل پروپیگنڈا ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں ہندو قوم کو تلوار کے زور پر اسلام میں داخل کیا گیا:
It is nonsense to say, they were converted to Islam by sword. [2]
میں نے کہا کہ سوامی و ویکا نندکے نزدیک، ہندوقوم’ ویدانتا برین ‘[3] (Vedanta Brain) میں یقین رکھتی ہے۔ ایسی حالت میں اُس کے متعلق اِس قسم کا نظریہ سرتا سر لغوہے۔ اِس طرح کی ایک قوم کے ذہن کو صرف آئیڈیالوجی کے زور پر ایڈریس کیا جاسکتا ہے، نہ کہ تلوار کے زور پر۔
پروگرام کے بعض شرکا نے بعد میں مجھ سے کہا کہ اِس عالمی مذاہب پارلیمان میں اسلام سب پر چھاگیا۔ لوگوں نے بہت سنجیدگی کے ساتھ اسلام کی باتیں سنیں اور اسلام کے سیشن پر سب سے زیادہ مثبت رسپانس دیاگیا۔ میں نے کہا کہ اسلام دین فطرت ہے اور یہ اُسی کا کرشمہ ہے۔
لکھنؤسے ہم لوگ گڈورڈ بکس(نئی دہلی) کا ہندی ترجمۂ قرآن (پوتر قرآن) اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ میری درخواست پر منتظمین نے اُ س کو نہایت ادب واحترام کے ساتھ حاضرین تک پہنچایا۔اِس کی شکل یہ تھی کہ یونیورسٹی کی ایک خاتون نہایت خوب صورت ٹرے میں ترجمۂ قرآن کے نسخے اٹھائے ہوئے تھیں اور ایک دوسرے سینئر فیلو اُسے آڈیٹوریم میں بیٹھے ہوئے لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔پروگرام کے بعد ’کاشی‘ (بنارس) کے اِن تمام باشندوں کے ہاتھ میں ’’پوتر قرآن‘‘ کے خوب صورت نسخے موجود تھے۔ اِس منظر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا، جیسے کاشی کی اِس سرزمین پر قرآن کا جشن منایا جارہا ہو، جیسے وید اور قرآن نے یہاں ایک ابدی سنگم کی صورت اختیار کرلی ہو۔
بعد میں یونیورسٹی کے طلبہ واساتذہ اور سوامی حضرات نے مل کر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کوپڑھنے کی ہماری دیرینہ آرزو آج پوری ہورہی ہے۔میں نے کہا کہ قرآن انسانوں کے پروردگار کی طرف سے اُن کے نام بھیجا ہواایک سب سے زیادہ قیمتی تحفہ ہے۔قرآن مسلمانوں یا کسی ایک گروہ کی کتاب نہیں، وہ انسانوں کے خالق اور مالک کی طرف سے تمام انسانوں کے نام زندگی کا ایک پیغام ہے، جس میں اُن کے لیے ہدایت اور فلاح کا ابدی راستہ کھولا گیا ہے۔
[لکھنؤ، ۵/ اکتوبر ۲۰۱۸ء]
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ سوامی و ویکا نندکے حالات کے لیے ملاحظہ ہو فرانسیسی مصنف رومین رولانڈ کی درج ذیل کتاب:The Life of Vivekananda, by Romain Rolland۔
2. Religion, Conflict and Reconciliation, by Jerald D. Gort, Henry Jansen, H. M. Vroom, page 48.
[3]. Letters of Swami Vivekananda, Edited by Swami Vipulananda, page 380.