HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۴)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت معمر بن حارث رضی الله عنہ

نسب

حضرت معمر كے والد حارث بن قیس (ماں كی نسبت سےابن غیطلہ)كا شمارقریش كے دس بڑے سرداروں میں ہوتا تھا۔ ان كے دادا قیس بن عدی بھی زمانہ ٔ جاہلیت میں اس قبیلہ كے ایك بڑے سردار تھے۔ حضرت بشر بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت حارث بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث، حضرت تمیم بن حارث اورحضرت سائب بن حارث حضرت معمر كے بھائی تھے۔ ابن سعد نے ان كا نام معبد بتایا ہے۔

 قبولیت اسلام

حضرت معمر بن حارث اولین مسلمانوں میں شامل تھے۔

باپ كی اسلام دشمنی اور ایمان

حارث بن قیس نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ كا استہزا كرنے میں پیش پیش تھا۔ عا ص بن وائل، ولید بن مغیره، ہبار بن اسود، اسود بن مطلب اورعبد یغوث بن وہب اس كے شریك كار تھے۔ حارث بن قیس كے قبول اسلام كی روایت كو بیش تر مورخین نے نہیں مانا۔

حبشہ كی طرف ہجرت

حضرت معمر بن حارث نے اپنے بھائیوں حضرت بشر بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت حارث بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث اورحضرت سعید بن حارث كے ساتھ حبشہ كو ہجرت كی۔

دوسرا سفرہجرت

جب مكہ میں مقیم مسلمانوں نے مدینہ ہجرت كی اور غزوۂ بدر میں مشركین مكہ كو عبرت ناك شكست سے دوچار كیا تو حضرت معمر بن حارث بھی مدینہ چلے آئے۔

بقیہ زندگی

حضرت معمر بن حارث كی باقی زندگی كے بارے میں معلومات نہیں ملتیں۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)، تجرید اسماء الصحابۃ (ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔

ـــــــــــــــــــــــــ

حضرت حارث بن حارث رضی اللہ عنہ

نسب نامہ

حضرت حارث بن حارث سہمی كے دادا قیس بن عدی زمانہ ٔ جاہلیت میں قریش كے ایك بڑے سردار تھے۔ ان كے والد حارث بن قیس كا شمار بھی دس بڑے سرداروں میں ہوتا تھا۔ ان كی والده غیطلہ بنت مالك عرب كی مشہور كاہنہ تھیں۔ ان كی نسبت سے وه ابن غیطلہ كہلاتے ہیں۔ حضرت بشر بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث، حضرت تمیم بن حارث اور حضرت سائب بن حارث حضرت حارث كے بھائی تھے۔

سبقت الی الاسلام

حضرت حارث بن حارث اولین مسلمانوں میں شامل تھے۔

باپ كا تمرد اور ایمان

حارث بن قیس نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ كا استہزا كرنے میں پیش پیش تھا۔  عا ص بن وائل، ولید بن مغیره، ہبار بن اسود، اسود بن مطلب اورعبد یغوث بن وہب بھی اسی زمرہ میں شامل تھے۔ ابن عبدالبر كہتے ہیں: حارث بن قیس نے بھی اسلام قبول كیا۔ دیگر مورخین نے ان كا دعویٰ نہیں مانا۔

 حبشہ كی طرف سفر ہجرت

جب معاندین قریش نے تازه واردان اسلام كے لیے عرصہ ٔ حیات تنگ كردیا تو نبی اكرم صلی الله علیہ وسلم كی ہدایت پر حضرت حارث بن حارث نے بھی عزم ہجرت كیا اور اپنے بھائیوں حضرت بشر بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث اورحضرت سعید بن حارث كے ساتھ حبشہ روانہ ہو گئے۔ ابن عبدالبر كا بیان ہے كہ ان كے والد حارث بن قیس بھی اپنے بیٹوں كے ساتھ حبشہ گئے۔

حبشہ سے واپسی

ابن ہشام كا بیان ہے كہ حضرت حارث بن حارث نے جنگ بدركے بعد مدینہ كی طرف دوسری ہجرت كا شرف حاصل كیا۔ حبشہ میں ره جانے والے باقی اصحاب رسول۷ ھ میں حضرت جعفر بن ابو طالب كے ساتھ دو كشتیوں میں سوار ہو كرشہر نبی آئے۔

شہادت

۱۳ھ:حضرت حارث بن حارث عہد صدیقی میں ہونے والے آخری معركے جنگ اجنادین میں داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ مسلمانوں اور رومیوں كے درمیان ہونے والی اس پہلی بڑی جنگ میں رومی فوج كو شكست ہوئی اور فتح دمشق كی راه ہموار ہو گئی۔

 روایت حدیث

حضرت حارث بن حارث سے كوئی حدیث مروی نہیں۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبد البر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)۔

ـــــــــــــــــــــــــ

حضرت حجاج بن حارث رضی اللہ عنہ

حضرت حجاج بن حارث سہمی كے دادا كا نام قیس بن عدی تھا۔ بنوكنانہ سے تعلق ركھنے والی ام الحجاج ان كی والده تھیں۔ حضرت بشر بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت حارث بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث اور حضرت سائب بن حارث حضرت حجاج كے بھائی تھے۔ سیر صحابہ كے مصنفین نے بتایا ہے كہ حضرت ابوقیس ، حضرت عبدالله اور حضرت سائب ، حضرت حجاج كے سگے بھائی تھے۔ حضرت عبدالله بن حذافہ ان كے چچا زاد تھے۔

قبول اسلام

حجاج بن حارث نے غزوۂ بدر میں مشركین كا ساتھ دیا اورجنگ كرتے ہوئے مسلمانوں كی قید میں آئے، البتہ بعد میں وه ایمان لے آئے۔ ابن اثیر كا دعویٰ ہے كہ حضرت حجاج بن حارث بھی اپنے بھائیوں كی طرح اولین مسلمانوں میں شامل تھے۔ ابن ہشام نے حجاج بن حارث كا نام جنگ بدر كے قیدیوں كی فہرست میں شامل كیا، لیكن ’’السیرة النبویۃ‘‘ كے شارح عبدالرحمان سہیلی كا كہنا ہے : میرے خیال میں اس مقام پر حجاج كا ذكر كرنا وہم ہے۔ وه تو مہاجرین حبشہ میں سے تھے اور غزوۂ احد كے بعد مدینہ تشریف لائے۔ انھیں جنگ بدر كے اسیروں میں كیسے شمار كیا جا سكتا ہے؟ (الروض الانف ۵/ ۲۲۳)۔

 ہجرت حبشہ

واقدی اور ابن اثیر كی طرح ابن جوزی نے بھی حضرت حجاج بن حارث كو مہاجرین حبشہ میں شمار كیا ہے۔ ابن عبدالبر نے حضرت حجاج كے انتہائی مختصر حالات بتاتے ہوئے لكھا كہ انھوں  نے اپنے بھائیوں كے ساتھ حبشہ كو ہجرت كی اور غزوۂ احد كے بعد مدینہ لوٹ آئے، حالاں كہ اس سے پہلے وه ان كے بھائی حضرت تمیم بن حارث كے ترجمہ میں بیان كر چكے تھے كہ حجاج بن حارث نامی ان كا چھٹا بھائی جنگ بدر میں اسیر ہوا، یعنی تب تك وه مشرك تھے، اس لیے ان كی ہجرت حبشہ كا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

حبشہ سے واپسی

حضرت حجاج بن حارث رسول الله صلی الله علیہ وسلم غزوۂ احد كے بعد مدینہ تشریف لائے(اسد الغابۃ ۱/۳۵۰، ۳۸۰)۔

شہادت

۱۳ھ:حضرت حجاج بن حارث نےخلفاے راشدین كے زمانے میں ہونے والی فتوحات شام كی پہلی بڑی جنگ اجنادین میں جام شہادت نوش كیا۔ ابن سعد كہتے ہیں كہ حضرت حجاج بن حارث۱۵ھ میں جنگ یرموك میں شہید ہوئے۔

اولاد

حضرت حجاج بن حارث كی كوئی اولاد نہ تھی۔

 روایت حدیث

حضرت حجاج بن حارث سے كوئی حدیث روایت نہیں كی گئی۔

مطا لعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، المنتظم فی تواریخ الملوك والامم(ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔

ـــــــــــــــــــــــــ

حضرت سائب بن حارث رضی اللہ عنہ

نسب نامہ

حضرت سائب بن حارث قریش كے بطن بنو سہم سے تعلق ركھتے تھے۔ عر ب كے مشہور سر دار قیس بن عدی ان كے دادا اور كعب بن لؤی آٹھویں جد تھے۔ حضرت سائب كے والد حارث بن قیس قریش كے دس بڑے سرداروں میں سے ایك تھے۔ اپنی والده غیطلہ بنت مالك كی نسبت سے ابن غیطلہ كہلاتے تھے۔ ام الحجاج كنانیہ حضرت سائب كی والده تھیں۔ حضرت بشر بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت حارث بن حارث، حضرت تمیم بن حارث ، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت حجاج بن حارث اورحضرت ابوقیس بن حارث حضرت سائب كےبھائی تھے۔ ام الحجاج ہی آخری تینوں كی والده تھیں، اس لیے وه ان كے سگے بھائی ہوئے۔

اسلام كی طرف سبقت

حضرت سائب بن حارث بعثت نبوی كے كچھ ہی دنوں بعد نعمت ایمان سے مالا مال ہوئے۔

باپ كی مخاصمت

حضرت سائب كا باپ حارث بن قیس نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ كا استہزا كرنے میں پیش پیش تھا۔ دیگر مستہزئین عا ص بن وائل، ولید بن مغیره، ہبار بن اسود، اسود بن مطلب اورعبد یغوث بن وہب تھے۔ ابن عبدالبر كہتے ہیں: حارث بن قیس نے بھی اسلام قبول كیا اور حبشہ ہجرت كی۔ ذہبی كہتے ہیں:یہ بات درست نہیں۔

حبشہ كا رخ

مشركین مكہ كا ظلم و ستم بڑھا تو حضرت سائب بن حارث نے اپنے بھائیوں حضرت بشر بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث اورحضرت حارث بن حارث كے ساتھ حبشہ كو ہجرت كی۔ حضرت تمیم بن حارث حبشہ نہ گئے۔

مدینۃ النبی میں آمد

جنگ بدر میں اہل ایمان كو فیصلہ كن فتح حاصل ہوئی تو حضرت سائب بن حارث اپنے بھائیوں كے ہم راه شہر نبی پہنچ گئے۔ یہ الله كی راه میں ان كی دوسری ہجرت تھی۔        

محاصرۂ طائف

شوال ۸ھ(فروری ۶۳۰ء): جنگ حنین میں مالك بن عوف كی قیادت میں لڑنے والی بنو ہوازن اور بنوثقیف كی مشتركہ فوج نے مسلمانوں كے ہاتھوں شكست كھائی تو راه فرار اختیار كرتے ہوئے طائف كا رخ كیا ۔ انھوں  نے بنو ثقیف كے قلعہ میں پناہ لی جہاں سال بھر كا ر اشن جمع كیا ہوا تھا۔ دشمن كو قلعہ بند پا كر رسول الله صلی الله علیہ وسلم طائف پہنچے اور قلعہ كے قریب پڑاؤ ڈال دیا۔ كفار نے اچانك تیروں كی بوچھاڑ كر دی جس سے باره مسلمان شہید ہو گئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ یہ صورت حال دیكھ كر آپ نے منجنیق نصب كرا دی اور دبابہ كا استعمال كیا۔ اس دوران میں آپ كےمنادی كرنے پر دس غلام قلعے سے باہر آئے اور آپ نے انھیں آزاد كردیا۔ محاصرہ بیس سے زائد دن جاری رہا، آخر كار آپ  نے محاصره اٹھانے كا حكم دیا، بنو ثقیف كے لیے ہدایت كی دعا كی اور فرمایا :ہمیں قلعہ فتح كرنے كا حكم نہیں ہوا۔ چنانچہ اسی سال ماه رمضان میں طائف كا وفد مدینہ آیا اور انھوں  نے اسلام قبول كر لیا۔

الله كی راه میں شہادت

ابن اسحٰق كہتے ہیں:حضرت سائب بن حارث كی شہادت غزوۂ طائف میں ہوئی۔ ان كے بھائی حضرت عبدالله بن حارث بھی اسی معركے میں شہید ہوئے۔ یہی روایت ابن ہشام نے اختیار كی۔ دیگر شہدا میں حضرت سعید  بن سعید بن العاص، حضرت عرفطہ بن جنّاب(یا حُباب)، حضرت عبدالله بن ابو امیہ، حضرت ثابت بن جذع، حضرت حارث بن سہل اور حضرت عبدالله بن عامر شامل تھے۔ ابن ہشام نے شہدا كا شمار اس طرح كیا: قریش كے سات، انصار كے چار اور بنو لیث كا ایك فرد۔ ابن كثیر نے یہ تمام تفصیل ہو بہو نقل كی، گویا محاصرۂ طائف میں حضرت سائب كی شہادت ہونے پر انھیں اتفاق ہے۔

دوسری روایت كے مطابق حضرت سائب محاصرۂ طائف میں شریك ہو كر زخمی تو ہوئے، تاہم ان كی شہادت عہد فاروقی كی ابتدا میں اردن كے مقام فحل پر ہوئی جہاں وه ذی قعد ۱۳ھ(یا ۱۴ھ) میں ہونے والی جنگ فحل میں شریك تھے۔ a

اولاد

حضرت سائب كے ہاں اولاد نہ ہوئی۔ ا  بن اثیر كہتے ہیں: ان كی شہادت سے حارث بن قیس كی نسل كا خاتمہ ہو گیا۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)،  تاریخ الاسلام (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔h

ـــــــــــــــــــــــــ

حضرت ابوقیس بن حارث رضی اللہ عنہ

عشیره اور قبیلہ

حضرت ابو قیس بن حارث مكہ میں پیدا ہوئے۔ پانچویں جد سہم بن عمرو كے نام سے موسوم بنو سہم قریش كا ذیلی قبیلہ تھا۔ ان كے دادا قیس بن عدی زمانۂ جاہلیت میں قریش كے مانے ہوئے سردار تھے۔ كعب بن لؤی پر حضرت ابو قیس كا سلسلہ ٔ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرہ سے جا ملتا ہے۔ مرہ بن كعب آپ كے ساتویں جد تھے، جب کہ ان كےسگے بھائی ہصیص بن كعب حضرت ابوقیس كے ساتویں سكڑ دادا تھے۔ aحضرت ابوقیس كی والده اپنی كنیت ام الحجا ج سے جانی جاتی ہیں۔ وه ام ولد تھیں اوران كا تعلق حضرموت سے تھا۔ حضرت بشر ، حضرت عبدالله ، حضرت معمر ، حضرت سعید، حضرت تمیم ، حضرت حارث، حضرت حجاج اور حضرت سائب ان كے بھائی تھے۔ ام الحجاج حضرت عبدالله، حضرت سائب اور حضرت حجاج كی بھی والده تھیں، اس طرح یہ تینوں حضرت ابوقیس كے سگے بھائی ہوئے۔

مشہور جاہلی شاعر عبد الله بن زبعرى حضرت ابوقیس كا چچا زاد بھائی تھا۔ مسلمانوں كے خلاف اشعار كہتا۔ فتح مكہ كے موقع پر نجران فرار ہوا، پھر لوٹ كر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے معذرت كی، اسلام قبول كر لیا اور آپ كی مدح میں اشعار كہے۔

كعبہ كی تولیت اور قیس بن عدی

قصی نبی صلی الله علیہ وسلم كے پانچویں جد تھے۔ ان كی شادی كعبہ كے متولی حلیل بن حبشیہ خزاعی كی بیٹی حبی سے ہوئی۔ عبداللہ (عبدالدار)، مغیره (عبد مناف)، عبدالعزیٰ اور عبد ان كے چار بیٹے ہوئے۔ اپنے سسر كی وفات كے بعد قصی نے بنوخزاعہ كو بے دخل كر كے كعبہ كا كنٹرول سنبھال لیا۔ وه بوڑھے ہوئے تو بڑے بیٹے عبدالدار کو کعبہ کی کنجیاں دیں اور کہا کہ تم حاجیوں کو کھلانے پلانے کے ذمہ دار ہو۔ قریش کوئی صلاح مشورہ کرنا چاہیں تو تمھارے گھر دار الندوہ میں کریں گے۔ جنگ ہوئی تو قریش کا پرچم بھی تمھی اٹھاؤ گے۔ عبدالدار اور عبدمناف كی وفات ہوئی تو ان کی اولاد کے مابین كعبہ کے مناصب پر شدید تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ بنوعبد مناف اپنے آپ كو فضل و شرف كا حامل سمجھتے تھے اور ان بڑے عہدوں اور مناصب پر اپنے تایا زاد بھائیوں کے تسلط پر معترض تھے۔ انھوں  نے دوسرے قبائل كو اپنا ساتھ دینے كی دعوت دی تو بنواسد، بنو زہرہ، بنو تیم اوربنو حارث بنو عبد مناف كے ساتھ بیت الله میں جمع ہوئے۔ بنوعبد مناف كی عورتوں نے خوش بو كا برتن صحن كعبہ میں ركھا، حلف میں شامل ان قبائل نے ہاتھ برتن میں ڈال كر كعبہ كی دیواروں سے مس كیے اورعہد کیا کہ کسی قیمت پر بھی کعبہ کو بنو عبدالدار کے سپرد نہ کریں گے۔ معاہدے كے شركا ’المطیّبین‘ ( عطر سے معطر ہونے والے ) کے نام سے مشہور ہوئے۔ ادھربنو عبدالدار بنوسہم كے سردار، حضرت ابوقیس بن حارث كے دادا قیس بن عدی كے پاس گئے اور بنوعبد مناف كے خلاف مدد كی درخواست كی۔ قیس بن عدی نے ایك گائے ذبح كی اور قرار دیا كہ جو اس گائے كے خون میں اپنی انگلیاں ڈبو كر چاٹ لے گا، ہمارے حلف میں شامل ہو گا۔ اس پر بنومخزوم ، بنو جمح اور بنو عدی نے بنو سہم اور بنو عبدالدار كاساتھ دینے كا عہد كیا۔ قیس بن عدی نے انھیں ’لعقة الدم‘ ( خون چاٹنے والے حلیف) كا نام دیا۔ دونوں جماعتیں جنگ کے لیے تیار تھیں، لیکن بعض لوگوں نے ثالثی کر کے صلح کی ترغیب دی۔ فریقین نے اسے قبول کیا اور عہدوں کو اس طرح تقسیم کر كے جنگ و نزاع سے دست بردار ہوئے۔ كعبہ كی كلید برداری (حجابہ)، دارالندوہ (قریش کے صلاح مشوروں اور بیٹھکوں کے مرکز) كے اہتمام اور جنگ كی صورت میں قریش كی علم برداری (لواء) کے فرائض عبدالدار کو ملے، جب کہ حاجیوں کو پانی پلانے اور ان کی ضیافت و میزبانی(سقایہ و رفاده) کی ذمہ داری عبد مناف کو حاصل ہو گئی۔

قبول اسلام

آفتاب اسلام طلوع ہوتے ہی حضرت ابو قیس نے ایمان لانے میں سبقت كی۔

باپ كی اسلام دشمنی

 حضرت ابو قیس كا والد حارث بن قیس قریش كے دس بڑے سرداروں میں شمار ہوتا تھا۔ بتوں كے چڑھاوے اس كے پاس جمع ہوتے اوروه قریش كے باہمی قضیوں كا منصف بنتا۔ رسول امین صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ كا استہزا كرنے میں وه پیش پیش تھا۔ اس عمل میں عاص بن وائل، ولید بن مغیره، ہبار بن اسود، اسود بن مطلب، عبد یغوث بن وہب اس كے ساتھی تھے۔

الله تعالی ٰ كا ارشاد ہے:

وَقُلْ اِنِّيْ٘ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ.كَمَا٘ اَنْزَلْنَا عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ. الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ. (الحجر۱۵: ۸۹ - ۹۱)
’’ اے نبی كہہ دیں، میں تو واضح طور پر تنبیہ كرنے والا ہوں، جیسے ہم نے ان تفرقہ پردازوں پر تنبیہ اتاری تھی جنھوں نے قرآن كو پاره پاره كر دیا تھا ۔‘‘

جمہور مفسرین اس فرمان میں مذكور ’تفرقہ پردازوں‘ سے اہل كتاب مراد لیتے ہیں جنھوں نے اپنے قرآن، یعنی تورات كو تقسیم در تقسیم كر دیا تھا۔ تاہم مقاتل، فرا اور ابن عبدالبر كا كہنا ہے كہ’الْمُقْتَسِمِيْنَ‘ سے مراد وه سولہ مشركین ہیں جنھیں ولید بن مغیرہ نے ایام حج میں نبی صلی الله علیہ وسلم كے خلاف پروپیگنڈ ا كے لیے حاجیوں كے بیچ بھیجا تھا، حارث بن قیس ان میں سے ایك تھا۔ یہ لوگ دوسرے علاقوں سےآنے والے عازمین كے پاس جاتے اور كسی كو كہتے كہ یہ مدعی  نبوت (معاذ الله) پاگل ہے، كسی كو بتاتے كہ جادوگر ہے، كسی كے سامنے آپ كے شاعریا كاہن ہونے كا دعویٰ كرتے۔

حبشہ كو روانگی

مشركین مكہ كا تازہ واردان اسلام پرظلم و ستم روز افزوں ہوتا گیا تو نبی  محترم صلی الله علیہ وسلم نے ستم رسیدوں كو حبشہ ہجرت كر جانے كا مشورہ ارشاد كیا۔  حضرت ابو قیس بن حارث اپنے بھائیوں حضرت بشر بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت حارث بن حارث اور حضرت سائب بن حارث كے ساتھ ہجرت ثانیہ كے شركا تھے۔ حضرت جعفر بن ابوطالب اس كاروان ہجرت كے امیر تھے، تاہم بلاذری كا كہنا ہےكہ حضرت ابو قیس كا حضرت جعفر كے ساتھ جانا ثابت نہیں۔

مدینہ كو مراجعت

۲ھ:نبی صلی الله علیہ وسلم اور بیش تر صحابہ ہجرت كر كے مدینہ چلے آئے، پھر غزوۂ بدر میں مشركین كو شكست فاش ہوئی تو حضرت ابو قیس بھی شہر نبی پہنچ گئے۔ غزوۂ احد اور دوسرے معركوں میں حصہ لیا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی وفات كے بعد مرتدین كی سركوبی میں شریك ہوئے۔

شہادت

۱۱ھ (۶۳۲ء) :حضرت ابو قیس بن حارث عہد صدیقی میں ہونے والی جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ یہ جنگ جھوٹے نبی مسیلمہ كذاب كی سركوبی كے لیے لڑی گئی۔ بنو حنیفہ كے چالیس ہزار افراد نے یہ كہہ كر اس كا ساتھ دیا كہ ربیعہ كا كذاب ہمیں مضر كے سچے نبی سے زیاده محبوب ہے۔ حضرت عكرمہ بن ابوجہل اور حضرت شرحبیل بن حسنہ كامیاب نہ ہوئے تو حضرت خالد بن ولید نے یہ معركہ سر كیا۔ اس جنگ میں چودہ ہزار مرتدین جہنم واصل ہوئے، جب كہ باره سو (چھ سو:ابن كثیر)اہل ایمان نے شہادت حاصل كی۔ شہدا میں ستر حفاظ قرآن شامل تھے۔

روایت حدیث

حضرت ابو قیس سے كوئی روایت مروی نہیں۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبد البر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔

ــــــــــــــــــــــــــــــ

B