HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘: توضیحی مطالعہ: حدود و تعزیرات (۱)

حدود کی نوعیت

’’انسانی تاریخ میں اِس فساد کا سب سے پہلا ظہور ابو البشر آدم کے بیٹے قابیل کے ہاتھ سے ہوا، لہٰذا یہ ضرورت اِس کے ساتھ ہی سامنے آ گئی کہ انسان کو خود انسان کے شروفساد سے بچانے کے لیے کوئی تدبیر ہونی چاہیے ۔جرم و سزا کے تمام ضابطے اِسی ضرورت سے وضع کیے گئے ہیں۔اِن میں اصلی مقصود شروفساد کا استیصال ہی ہوتا ہے اور وہی ہونا چاہیے، لیکن جو لوگ خدا کی ہدایت قبول کرکے اُس کے رسولوں پر ایمان لے آئیں، اُن کا معاملہ عام مجرموں کا نہیں ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگر جان، مال، آبرو یا نظم اجتماعی کے خلاف کسی بڑے جرم کا ارتکاب کریں تو خدا کا فیصلہ ہے کہ اُن کو اِسی دنیا میں عذاب دیا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو اوروہ خدا کی اِس عقوبت کو دیکھ کر آخرت کے عذاب کی یاددہانی حاصل کریں۔‘‘ (میزان ۶۱۱)

مصنف  نے یہاں حدود  کی جو نوعیت واضح کی ہے، اس  میں بہت اہم نکتے مضمر ہیں جن میں سے بعض کی تفصیل وتوضیح مصنف نے دوسرے مقامات پر کی ہے۔

پہلا نکتہ  حدود کی مشروعیت کے بنیادی پہلو سے متعلق ہے۔ فقہا  عموماً‌ حدود کو زو اجر  قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سزائیں شریعت میں بنیادی طور پر جرائم کی روک تھام  کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔     فقہا کے مابین اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ  ان سزاؤں کا نفاذ مجرم کو اخروی سزا   سے  بچا لیتا  ہے یا  وہ اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔  جمہور محدثین   نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی روشنی میں حدود کو کفارہ قرار دیتے ہیں جس کے بعد  آخرت میں دوبارہ مجرم کا مواخذہ نہیں ہوگا (بخاری، رقم ۱۸)، جب کہ حنفی فقہا کے نزدیک دنیوی سزا ، اخروی سزا کا بدل نہیں بنتی۔ اس اختلاف سے قطع نظر، دنیوی لحاظ سے  حدود کے زواجر  ہونے پر فقہا کا اتفاق ہے۔  علامہ ابن الہمام  نے اس نکتے کو یوں بیان کیا ہے کہ   شریعت  میں جو بھی سزا مشروع کی گئی ہے، وہ درحقیقت اس دنیا میں مقصود چند مصالح کے لیے کی گئی ہے، مثلاً قصاص کو جانوں کی، حد قذف کو آبرو کی، حدشرب کو عقل کی، حد زنا کو نسب کی اور حد سرقہ کو مال کی حفاظت کے لیے مشروع کیا گیا ہے (فتح القدیر  ۶/ ۷۲) ۔

مصنف کا نقطۂ نظر  اس ضمن میں یہ ہے کہ جرائم کی روک تھام حدود کا ثانوی اور ضمنی مقصد ہے، جب کہ ان کا اصل مقصد  خدا پر ایمان لانے کے بعد اس کے مقرر کردہ حدود کو پامال کرنے والوں  کو خدا کی طرف سے  عذاب  کا مزہ چکھانا اور انھیں آخرت کے عذاب کی یاددہانی کرانا ہے۔

سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۳۸ میں ’جَزَآءًۣ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ‘کی تفسیر کرتے ہوئے مصنف نے ’’البیان‘‘ میں لکھا ہے:

’’...یعنی یہ پاداش عمل بھی ہے اور دوسروں کے لیے سامان عبرت بھی کہ وہ اِس سزا کو دیکھ کر جان لیں کہ جس خدا کی عقوبت دنیا میں یہ ہے ، وہ آخرت میں اپنے نافرمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ چنانچہ دنیا کی حرص میں اپنی آخرت برباد نہ کریں۔ سزا کا اصلی مقصد یہی ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس طرح کی سزائیں کسی معاشرے میں نافذ ہوں تو اِس سے جرائم کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک ضمنی فائدہ ہے ،اِس کو بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔‘‘(۱/ ۶۳۱)

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ  چونکہ ان سزاؤں کا بنیادی مقصد محض  جرم کا استیصال نہیں ہے، بلکہ یہ خدا کی طرف سے  عذاب کی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے    ان کی جگہ سزا کی متبادل صورتیں  اختیار کر لینے کی  گنجایش  شریعت میں نہیں رکھی گئی۔سورۂ نور (۲۴) کی ابتدا میں ’اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا‘ کی تفسیر میں مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ’’البیان‘‘ میں لکھا ہے:

’’یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اِسی نوعیت کے احکام تھے جو پچھلی امتوں کے لیے مزلۂ قدم ثابت ہوئے اور اُنھوں نے اُن سے گریز وفرار کے راستے تلاش کرنا چاہے۔ چنانچہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ سفارشات نہیں ہیں، بلکہ خدا کے عائد کردہ فرائض اور اُس کے قطعی احکام ہیں جن کی ہر جگہ اور ہر زمانے میں بے چون وچرا تعمیل ہونی چاہیے۔ اِن میں کسی کے لیے بے پروائی یا سہل انگاری کی گنجایش نہیں ہے۔ ‘‘(۳/ ۴۱۵)

یہ فقہا کا متفقہ موقف ہے اور فقہی روایت میں اس کو بالعموم یوں بیان کیا جاتا ہےکہ یہ سزائیں حق اللہ ہیں جنھیں معاف کرنے یا تبدیل کرنے کا حق مسلمانوں کو نہیں ہے اور  وہ اللہ کے ایک حق کے طور پر  انھیں مجرموں پرنافذ کرنے کے پابند ہیں۔  البتہ مصنف نے حدود کے ناقابل تبدیل ہونے  کی توضیح  میں ان کے  عذاب الہٰی ہونے کے پہلو کو نمایاں کیا ہے جو حق اللہ کی روایتی فقہی تعبیر میں اس طرح نمایاں  نہیں ہے۔ 

تیسرا نکتہ ان سزاؤں کے نفاذ واجرا سے  متعلق ہے۔ مصنف کی راے میں ان سزاؤں کا بنیادی مقصد چونکہ استیصال جرم نہیں، بلکہ  یہ اللہ اور رسول پر ایمان لے آنے کے بعد اس کے حدود کو پامال کرنے پر  خدا کی طرف سے عقوبت اور عذاب کی حیثیت رکھتی ہیں،  اس لیے  ان کا نفا ذبھی ہر طرح کے مجرموں پر  مطلوب نہیں۔ دوسرے مقام پر مصنف نے اس کی تفصیل یوں کی ہے کہ  ان سزاؤں کا نفاذ انھی مجرموں پر کیا جائے گا جن میں تین شرائط پائی جاتی ہوں:

پہلی یہ کہ وہ مسلمان ہوں، غیر مسلم نہ ہوں۔

دوسری یہ کہ انھوں نے پورے شعور  سے  ایمان کو اختیار کیا اور  خدا کے حکموں کی پابندی قبول کی ہو۔

تیسری یہ کہ انھیں مناسب اور سازگار ماحول  میں دینی واخلاقی تربیت پانے کا موقع ملا  ہو (مقامات۲۳۴)۔

ان میں سے پہلی شرط  ان اہل علم کے موقف کے مطابق ہے جو غیر مسلموں پر  حدود کے نفاذ  کو لازم نہیں سمجھتے۔  یہ راے صحابہ وتابعین میں سے  سیدنا علی،  عبد اللہ بن عباس، عمر بن عبد العزیز، ابراہیم نخعی، شعبی، ربیعۃ الرائے، عطاء اور  حسن بصری  سے منقول ہے اور امام ترمذی  نے اس کو اکثر اہل علم کی راے کے طور پر بیان کیا ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب: حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث  ۲۹۵-  ۲۹۶)۔

تیسری شرط کے لیے مصنف نے  غلاموں اور باندیوں  کے لیے زنا کی سزا نصف مقرر کیے جانے سے استدلال کیا ہے۔   مصنف کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ غلام اور لونڈیاں چونکہ خاندان کی حفاظت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے مناسب اخلاقی تربیت سے محروم تھیں اور انھیں اپنی عصمت کی حفاظت کے لیے نکاح کا حق بھی آزاد لوگوں کی طرح حاصل نہیں تھا، اس لیے زنا میں ملوث ہونے کی صورت میں ان کے اس معاشرتی پس منظر کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے لیے کم تر سزا تجویز کی گئی۔ اس کے علاوہ  صحابہ وتابعین کے آثار  میں بھی  اس کے مختلف شواہد موجود ہیں جن کی تفصیل ہماری کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔  

جہاں تک دوسری شرط کا تعلق ہے تو ا س کی بناے استدلال مصنف نے یوں واضح کی ہے:

’’...زنا اور چوری کی جو سزائیں قرآن میں بیان ہوئی ہیں، وہ اِن جرائم کی انتہائی سزائیں ہیں اور صرف اُنھی مجرموں کو دی جائیں گی جن سے جرم بالکل آخری درجے میں سرزد ہو جائے اور اپنے حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔ اِن میں اہم ترین چیز اُن کا دینی شعور ہے۔ یہ سزائیں اُن لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو غیرمسلم ہیں یا پیدایشی لحاظ سے مسلمان تو ہیں، مگر دینی شعور کے لحاظ سے غیرمسلموں ہی کے حکم میں ہیں۔ اِس لیے کہ اِن سزاؤں سے مقصود محض جرم کا استیصال نہیں ہے، بلکہ اُ ن مجرموں کو خدا کے عذاب کا مزہ چکھانا اور دوسروں کے لیے عبرت بنا دینا بھی ہے جنھوں نے پورے شعور کے ساتھ اپنے آپ کو خدا اور اُس کے رسول کے حوالے کیا، اُن سے عہد اطاعت باندھا، اُن کے دین کو دین کی حیثیت سے قبول کیا اور اِس کے بعد چوری اور زنا جیسے جرائم میں اِس حد تک ملوث ہو گئے کہ خدا نے اُن کا پردہ فاش کر دیا اور معاملات عدالت تک پہنچ گئے۔ ‘‘ (مقامات۲۳۳)

گویا مصنف کے نزدیک اس شرط کا ماخذ بھی وہی ہے جو دوسری شرط کا ہے، یعنی  جیسے ضروری دینی واخلاقی  تربیت سے محروم مجرموں کو حدود کے نفاذ میں رعایت دی  جاتی ہے، اسی طرح دینی وایمانی شعور سے   نابلد ایسے مسلمان بھی ان سزاؤں کے نفاذ کا محل نہیں ہیں  جو مسلمان گھرانوں میں پیدا تو ہوئے ہیں اور   اسلام کے ساتھ ایک پیدایشی نسبت بھی رکھتے ہیں، لیکن  انھوں نے اپنے ارادی فیصلے سے پورے شعور کے ساتھ   ایمان اور اس کے مطالبات کو  قبول نہیں کیا۔  غالباً‌ مصنف کے پیش نظر ، آج کی مسلمان نسلوں کے وہ افراد ہیں جو   ذہنی طور پر  تشکیک یا الحاد  کا شکار ہیں اور خاص طور پر  شرعی حدود سے متعلق     دور جدید کے انسانی حقوق کے فلسفے سے   متاثر ہیں  جو  ان سزاؤں کو وحشیانہ اور غیر انسانی  تصور  کرتا ہے۔  مصنف کا زاویۂ نظر یہ ہے کہ ظاہری طور پر مسلمانوں میں شمار کیے جانے کے باوجود، شرعی احکام اور پابندیوں کی تنفیذ    کے پہلو سے  ایسے مسلمانوں کو  غیر مسلموں ہی کے حکم میں سمجھنا چاہیے۔

موت کی سزا

’’موت کی سزا قرآن کی رو سے قتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں نہیں دی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کو شریعت دی گئی تو اُسی وقت لکھ دیا گیا تھا کہ اِن دو جرائم کو چھوڑ کر ، فرد ہو یا حکومت ، یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کی جان کے درپے ہو اور اُسے قتل کر ڈالے ۔ ‘‘(میزان ۶۱۲)

مصنف کا نقطۂ نظر یہاں بعض اہم  حوالوں سے اہل علم کی عمومی راے سے مختلف ہے ۔  

قتل کی سزا  کی تحدید کے ضمن میں فقہا کے ہاں سورۂ مائدہ کی محولہ آیت زیر بحث  نہیں لائی جاتی، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک حدیث کے  ضمن میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ کیا موت کی سزا  کچھ خاص جرائم تک محدود ہے یا نہیں؟  عبد اللہ بن مسعود  کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کی جان لینا  اس کے علاوہ  حلال نہیں کہ  اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا شادی شدہ ہونے کی حالت میں زنا کیا ہو یا  دین سے نکل کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جائے (بخاری، رقم ۶۸۷۸)۔  تاہم ان کے علاوہ متعدد دیگر جرائم کے لیے بھی موت کی سزا بیان کرنا نبی صلی اللہ علیہ  وسلم سے ثابت ہے جن میں سوتیلی ماں کے ساتھ نکاح  کرنا (ترمذی، رقم ۱۲۸۲)،  کسی محرم خاتون کے ساتھ بدکاری (ترمذی، رقم ۱۴۶۲)، زنا بالجبر (ابوداؤد،ر قم ۴۳۷۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۵۴)،  لواطت (المستدرک، رقم ۸۰۴۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۵۵)، شراب نوشی کا عادی مجرم ہونا (ابوداؤد، رقم ۴۴۸۴-۴۴۸۲)   اور شراب نوشی ترک کرنے سے انکار کرنا    (  مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۳۷۴۲) شامل ہیں۔ ان تمام مثالوں میں موت کی سزا مسلمانوں کے لیے بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح جب بعض کفار  کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور زبان درازی کی پاداش میں قتل کر دیا گیا تو آپ نے ان کے خون کو رایگاں قرار دے دیا (ابو داؤد، رقم ۳۷۹۵۔ نسائی، رقم ۴۰۰۲۔ ابن ابی عاصم، الدیات ۱/۷۳)۔ ان تمام نظائر کی روشنی میں جمہور فقہا مذکورہ حدیث  میں مذکور تین جرائم کے علاوہ بھی کسی جرم میں تعزیری طور پر موت کی سزا دینے کو درست سمجھتے ہیں۔

مصنف نے  اس سوال کو مذکورہ حدیث کے بجاے سورۂ مائدہ کی محولہ آیت کے تناظر میں   موضوع بنایا ہے جہاں بنی اسرائیل  کے حوالے سے  یہ بیان کیا گیا ہے کہ  قتل اور فساد فی الارض کے علاوہ  کسی ایک انسان کی جان لینا  گویا ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔اس نقطۂ نظر کی رو سے   نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں، بلکہ   شریعت موسوی میں بھی  قتل کی سزا اسی صورت میں دی جا سکتی  تھی جب مجرم یا تو قتل ناحق کا مرتکب ہوا ہو یا   اس کا جرم فساد فی الارض کے تحت آتا ہو۔  یوں مصنف کے سامنے   نہ صرف  ان احادیث میں مذکور ان واقعات کی توجیہ   کا سوال ہے جن میں مختلف مجرموں کے  لیے سزاے موت تجویز کی گئی ہے، بلکہ   وہ حدیث بھی توجیہ طلب بن جاتی ہے جس میں  قتل کے علاوہ  شادی شدہ زانی اور  مسلمانوں کی جماعت سے  الگ ہو جانے کو بھی مستوجب قتل قرار دیا گیا ہے۔  

اس کے علاوہ تورات میں  مذکور ان تمام مثالوں کی توجیہ بھی ضروری ہو جاتی ہے جن میں ناحق قتل (گنتی ۳۵: ۱۶ -۲۱) کے علاوہ متعدد جرائم پر موت کی سزا مقرر کی گئی ہے، مثلا ً کسی آزاد کو غلام بنا کر بیچنا ( استثنا ۷:۲۴)،   شادی شدہ عورت یا کسی کی منگیتر کے ساتھ بدکاری (استثنا ۲۲:۲۲ - ۲۴)،  قاضی کے سامنے گستاخی کرنا یا اس کا فیصلہ نہ ماننا ( استثنا ۱۷: ۱۲- ۱۳)،  باپ کے سامنے سرکشی اور اس کی نافرمانی (استثنا ۱۸:۲۱ -۲۱)، باپ یا ماں پر لعنت کرنا (احبار ۲۰ : ۹)،   کہانت کی خدمت میں بنی لاوی کے ساتھ شریک ہونے کی کوشش کرنا (گنتی ۱۸: ۷)،  لواطت (احبار ۲۰: ۱۳)،  جانور کے ساتھ جماع ( احبار ۲۰: ۱۶-۱۵)،  اپنی بہن یا بھائی کے بدن کو بے پردہ دیکھنا (احبار ۱۷:۲۰)، خدا کے علاوہ کسی اور معبود یا سورج یا چاند یا اجرام فلکی کی عبادت(استثنا ۱:۱۳ - ۱۸، ۱۷: ۲ - ۷)،  اولاد کو مولک کی نذر کرنا(احبار ۲۰: ۲)،  خدا کے نام کی بے حرمتی کرنا(احبار ۲۴: ۱۳ -۱۶(،  نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنا (استثنا ۱۸: ۲۰ -۲۲(،  سبت کے دن کی پابندی کو توڑنا( گنتی ۱۵: ۳۲ -۳۶) اور سفلی عمل یا جادو کرنا( احبار ۲۰: ۲۷) وغیرہ۔

مصنف نے مختلف مقامات پر  ان میں سے بعض مثالوں کی جو توجیہ وتعبیر کی ہے،  اس سے  ان کا زاویۂ نظر سمجھا جا سکتا ہے۔  مثال کے طور پر  تورات میں  شادی شدہ خاتون کے ساتھ زنا  کو مستوجب قتل قرار دینے کی توجیہ مصنف نے یوں کی ہے کہ ’’ بنی اسرائیل کی مخصوص حیثیت اور اُن پر خدا کی براہ راست حکومت کی وجہ سے زنا بہ زن غیر (adultery) کو اُن کی شریعت میں حرابہ قرار دے دیا گیا تھا۔ عورت کنواری ہو تو البتہ، رعایت کی ہدایت کی گئی تھی اور مرد پر مالی تاوان عائد کر کے اُسے پابند کر دیا گیا تھا کہ باقی عمر کے لیے وہ اُسے بیوی بنا کر رکھے گا‘‘ (البیان، تمہید سورۂ نور)۔  اس توجیہ سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہےکہ مصنف کے نزدیک،  خدا کی شریعت کا حامل ہونے اور خدا کے ساتھ اس کی پابندی اور اقوام عالم کے سامنے اس کی شہادت کا عہد ومیثاق باندھنے کے بعد مذکورہ جرائم کا ارتکاب، بنی اسرائیل کے حق میں اللہ تعالیٰ کے خلاف محاربہ او ر اس کی شریعت سے سرکشی کا درجہ رکھتا تھا جس پر ان کے لیے موت کی سزا مقرر کی گئی۔

جہاں تک عبد اللہ بن مسعود کی حدیث میں مذکور  جرائم، یعنی مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانے اور شادی شدہ ہوتے ہوئے زنا کرنے کا تعلق ہے تو  مصنف  ان کو بھی حرابہ کے  زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ ان میں سے مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانے سے مراد مصنف کے نزدیک نظم اجتماعی کے خلاف بغاوت    کرنا ہے جو  واضح طور پر فساد فی الارض کی مثال ہے، جب کہ  شادی شدہ  کے لیے قتل کی سزا   کا ذکر اس پہلو سے کیا گیا ہے کہ زنا کے بعض مجرموں کو بھی ان کے جرم کی نوعیت اور  شخصی حالات کے لحاظ سے   فساد  فی الارض کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے۔ مصنف کے نزدیک مجرم کا شادی شدہ  ہونا، سزا کی واحد بنیاد نہیں، بلکہ  بعض صورتوں میں دیگر   کئی پہلوؤں کے ساتھ مل کر ایک  ایسا قابل لحاظ پہلو   بن جاتا ہے جس پر مجرم کو   فساد فی الارض کا  مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے۔

اسی نوعیت کی توجیہ مصنف نے  احادیث میں منقول واقعات میں سے  توہین رسالت   کے مجرموں کو قتل کرنے سے متعلق بیان کی ہے۔  ان کی راے میں اگر کوئی غیر مسلم معاند مستقل طور پر یہ  روش  اختیار کر لے اور تنبیہ وتادیب کے باوجود اصلاح پر آمادہ نہ ہو تو  اسے محاربہ اور فساد فی الارض   کا مجرم قرار دے کر   موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے اور عہد نبوی میں جن مجرموں کو یہ سزا دی گئی، ان کے جرم کی نوعیت یہی تھی۔

حاصل یہ ہے کہ  مصنف کے نقطۂ نظر کے مطابق  سورۂ مائدہ کی زیر بحث آیت کی رو سے موت کی سزا کے لیے  کسی جرم کا ’فساد فی الارض‘ کا مصداق ہونا   ضروری ہے اور تورات  میں اور  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے فیصلوں میں  جن جرائم پر بھی سزاے موت دی گئی، وہ اس کا مصداق تھے۔   مصنف کی ذکر کردہ توجیہات سے کسی جرم کے فساد فی الارض کے تحت  شمار ہونے کے جو اصول اخذ کیے جا سکتے ہیں،  وہ حسب ذیل ہیں:

۱۔ بعض جرائم، مثلاً بغاوت، ڈاکا زنی اور  زنا بالجبر وغیرہ نظم اجتماعی اور امن عامہ کو براہ راست منہدم کرنے   کی وجہ سے فساد فی الارض کے تحت آتے ہیں۔

۲۔ بعض  میں مجرم کا رویہ اور ناقابل اصلاح روش  ان  جرائم کو  فساد کا مصداق بنا  دیتی ہے، جیسے شراب نوشی، زنا اور توہین رسالت وغیرہ کو  مستقل معمول بنا لینا اور  توبہ واصلاح کی طرف مائل نہ ہونا۔

۳۔ بعض      جرائم کو مجرموں کی مخصوص حیثیت  کی وجہ سے  فساد فی الارض  کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے، جیسے وہ مختلف جرائم جن کو تورات میں بنی اسرائیل کے لیے  مستوجب قتل قرار دیا گیا ہے، مثلا ً کسی شادی شدہ عورت سے بدکاری یا کسی آزاد کو غلام بنا کر بیچ دینا۔   

۴۔ اسی ضمن میں  بنی اسرائیل کی سرکشی کی پاداش میں  ان کے لیے زیادہ سنگین سزائیں   مقرر کیے جانے کو بھی ایک مستقل اصول شمار کیا جا سکتا ہے۔  قرآن مجید نے  حلال اور حرام جانوروں  کے تعلق سے بعض پابندیوں کی یہ نوعیت  تو تصریحاً‌ واضح کی ہے، جب کہ  احکام شریعت کی  پامالی پر    بہت سی صورتوں میں سزاے موت  مقرر کیے جانے  کو بھی  اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔

۵۔ بعض جرائم اس پہلو سے سرکشی اور محاربہ  کا مصداق ہیں کہ ان میں  شریعت کی بعض ایسی حدود کو پامال کیا جاتا ہے جن کو  عام حالات میں کوئی   پامال کرنے کی جسارت نہیں کرتا اور    ان کی پامالی، شریعت اور حدود اللہ سے متعلق  مجرم کے باغیانہ   ذہنی رویے کا اظہار کرتی ہے، مثلا ً‌ سوتیلی ماں کے ساتھ نکاح یا کسی محرم خاتون سے بدکاری  کرنا وغیرہ۔

محاربہ اور فساد فی الارض

’’اللہ کا رسول دنیا میں موجود ہو اور لوگ اُس کی حکومت میں اُس کے کسی حکم یا فیصلے کے خلاف سرکشی اختیار کرلیں تو یہ اللہ و رسول سے لڑائی ہے۔ اِسی طرح زمین میں فساد پیدا کرنے کی تعبیر ہے۔ یہ اُس صورت حال کے لیے آتی ہے، جب کوئی شخص یا گروہ قانون سے بغاوت کرکے لوگوں کی جان و مال ، آبرو اور عقل و راے کے خلاف برسر جنگ ہو جائے۔ چنانچہ قتل دہشت گردی، زنا زنا بالجبر اور چوری ڈاکا بن جائے یا لوگ بدکاری کو پیشہ بنا لیں یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ منشی، بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و آبرو کے لیے خطرہ بن جائیں یا نظم ریاست کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا اغوا، تخریب، ترہیب اور اِس طرح کے دوسرے سنگین جرائم سے حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کر دیں تو وہ اِسی فساد فی الارض کے مجرم ہوں گے۔‘‘ (میزان ۶۱۳)

فقہا اور مفسرین نے بالعموم محاربہ کا مصداق  راہ زنی اور ڈکیتی کو قرار دیا ہے۔  تاہم جلیل القدر تابعی مفسر مجاہد سے یہ راے منقول ہے کہ آیت حرابہ میں مذکور’فساد فی الارض‘ کے دائرے میں چوری، زنا،قتل اور حرث و نسل کی بربادی وغیرہ بھی شامل ہیں (طبری، جامع البیان ۶/ ۱۳۲)۔ دور جدید کے اہل علم کے ہاں بھی آیت حرابہ کو معاشرے اور ریاست کے خلاف جرائم کے وسیع تر تناظر میں دیکھنے کا رجحان نمایاں ہے اور وہ قانون کو ہاتھ میں لینے، ریاست کے اختیار اور اتھارٹی کو چیلنج کرنے، معاشرے کے امن وامان کو درہم برہم کرنے اور جان ومال اور آبرو کے حوالے سے خوف وہراس کی صورت حال پیدا کر دینے کی ہر صورت کو اس کے مفہوم میں داخل مانتے ہیں۔ چنانچہ علامہ رشید رضا لکھتے ہیں کہ جان ومال اور آبرو کے خلاف عام نوعیت کے جرائم اگر جتھا بندی کی صورت میں کیے جائیں جس سے’فساد فی الارض‘ کی کیفیت پیدا ہو جائے تو وہ ’حرابہ‘ کے تحت آجاتے ہیں (رشید رضا، تفسیر المنار ۶/ ۲۹۶)۔

مولانا حمید الدین فراہی کے نزدیک سیدنا عمر کے نجران کے نصاریٰ کو سود کھانے کی بنا پر جزیرۂ عرب سے جلاوطن کرنے کا ماخذ بھی آیت محاربہ ہے، کیونکہ اس میں فساد فی الارض کی سزا بیان ہوئی ہے اور سود بھی اسی کی ایک صورت ہے (تفسیر نظام القرآن، سورۂ بقرہ ۲۸۵)۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس کے مفہوم میں ’زنا‘کی بعض صورتوں کو بھی شامل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک ”وہ گنڈے اور بدمعاش جو شریفوں کے عزت وناموس کے لیے خطرہ بن جائیں، جو اغوا اور زنا کو پیشہ بنا لیں، جو دن دہاڑے لوگوں کی عزت وآبرو پر ڈاکے ڈالیں اور کھلم کھلا زنا بالجبر کے مرتکب ہوں، ان کے لیے رجم کی سزا اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہے“  (تدبر قرآن ۲/۵۰۶)۔ مولانا کی راے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عکل اور عرینہ کے لٹیروں اور بنونضیر،  بنو قریظہ اور بنو قینقاع کے یہود کے خلاف، جب کہ صحابہ نے مسیلمہ کذاب اور مانعین زکوٰۃ کے خلاف جنگ اور خیبر کے یہود کو جزیرۂ عرب سے جلا وطن کرنے کے جو اقدامات کیے، ان سب کا ماخذ بھی یہی آیت ہے۔ (  تدبر قرآن۲/ ۵۰۷)

مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:

”...اکثر مفسرین نے اس جگہ رہزنی اور ڈکیتی مراد لی ہے، مگر الفاظ کو عموم پر رکھا جائے تو مضمون زیادہ وسیع ہو جاتا ہے۔ آیت کی جو شان نزول احادیث صحیحہ میں بیان ہوئی، وہ بھی اسی کو مقتضی ہے کہ الفاظ کو ان کے عموم پر رکھا جائے۔ ”اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنا“ یا ”زمین میں فساد اور بد امنی پھیلانا“ یہ دو لفظ ایسے ہیں جن میں کفار کے حملے، ارتداد کا فتنہ، رہزنی، ڈکیتی، ناحق قتل ونہب، مجرمانہ سازشیں اور مغویانہ پروپیگنڈا سب داخل ہو سکتے ہیں اور ان میں سے ہر جرم ایسا ہے جس کا ارتکاب کرنے والا ان چار سزاؤں میں سے جو آگے مذکور ہیں، کسی نہ کسی سزا کا ضرور مستحق ٹھہرتا ہے۔“ (تفسیر عثمانی ۱۵۰)

مصنف کا رجحان بھی   حرابہ اور فساد کے مصداق کی تعیین  میں فقہا کی تعبیر کے بجاے   اہل علم کے مذکورہ  رجحان کے قریب تر ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B