البیان
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الٓمّٓ ١ﶔ غُلِبَتِ الرُّوْمُ ٢ﶫ فِيْ٘ اَدْنَي الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۣ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ ٣ﶫ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَﵾ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۣ بَعْدُﵧ وَيَوْمَئِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ٤ﶫ بِنَصْرِ اللّٰهِﵧ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَآءُﵧ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ٥ﶫ وَعْدَ اللّٰهِﵧ لَا يُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ٦ يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَاﵗ وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ٧
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔
یہ سورۂ ’الٓمّٓ‘[97]lہے۔رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں ، لیکن اپنی اِس مغلوبیت کے بعد وہ جلد ہی غالب ہو جائیں گے،[98] اگلے چند برسوں میں ۔اِس سے پہلے جو کچھ ہواہے، وہ بھی اللہ کے حکم سے ہوا ہے اور جو کچھ بعد میں ہو گا، وہ بھی اللہ ہی کے حکم سے ہو گا[99]اور ایمان والے اُس دن اللہ کی مدد سے مسرور ہوں گے۔[100] اللہ جس کی چاہتا ہے، مدد فرماتا ہے اور وہ زبردست بھی ہے اور بڑا مہربان بھی۔[101]اللہ کا حتمی وعدہ ہے[102] اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ وہ صرف دنیا کی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے تو وہ بالکل ہی بے خبر ہیں ۔[103] ۱- ۷
اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْ٘ اَنْفُسِهِمْﵴ مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَابَيْنَهُمَا٘ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّيﵧ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ ٨
کیا اِنھوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا؟[104] اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن سب چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں ، برحق [105]اور ایک مقرر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں میں بہت سے ہیں جو اپنے پروردگار سے ملاقات کو مانتے ہی نہیں ۔[106]۸
اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْﵧ كَانُوْ٘ا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَرُوْهَا٘ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْهَا وَجَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِﵧ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْ٘ا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ٩ﶠ ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِيْنَ اَسَآءُوا السُّوْٓاٰ٘ي اَنْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَكَانُوْا بِهَا يَسْتَهْزِءُوْنَ ١٠
Ba کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیتے کہ اُن لوگوں کا انجام کیا ہواجو اِن سے پہلے تھے؟[107] وہ اِن سے قوت میں کہیں بڑھ کر تھے۔ اُنھوں نے زمینیں خوب جوتیں (کہ اُنھیں زرخیز بنائیں )اور زمین کو جتنا اِن لوگوں نے آباد کیا ہے، اُس سے کہیں زیادہ اُنھوں نے اُسے آباد کیا تھا، اور اُن کے پیغمبر اُن کے پاس نہایت واضح نشانیاں لے کر آئے تھے، (لیکن نہیں مانے اور سزا پائی) تو اُن پر اللہ ظلم کرنے والا نہیں تھا، بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے۔ پھر برا کرنے والوں کا انجام بھی بالآخر برا ہی ہوا، اِس لیے کہ اُنھوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلا دیا[108] اور اُن کا مذاق اڑاتے رہے۔۹ -۱۰
اَللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ١١ وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ ١٢ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ مِّنْ شُرَكَآئِهِمْ شُفَعٰٓؤُا وَكَانُوْا بِشُرَكَآئِهِمْ كٰفِرِيْنَ ١٣
اللہ ہی خلق کی ابتدا کرتا ہے۔ (اُس کے لیے کچھ مشکل نہیں )، پھر وہ اِسی طرح اُسے دوبارہ پیدا کر دے گا، پھر تم اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےya[109] اور جس دن یہ قیامت برپا ہوگی، اُس دن مجرم مایوسی کے عالم میں حیرت زدہ ہو کررہ جائیں گے۔ (تم دیکھو گے کہ) اُن کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی اُن کی سفارش کرنے والا نہیں ہے اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو چکے ہیں[110]۔۱۱- ۱۳
وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ ١٤ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَهُمْ فِيْ رَوْضَةٍ يُّحْبَرُوْنَ ١٥ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَآئِ الْاٰخِرَةِ فَاُولٰٓئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ ١٦ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ١٧ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ ١٨
اور جس دن یہ قیامت برپا ہو گی، اُس دن لوگ الگ الگ ہو جائیں گے۔[111] پھر جوایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے، وہ ایک شان دار باغ[112] میں شاداں و فرحاں رکھے جائیں گے۔ اور جنھوں نے انکار کیا اور ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلادیا تو وہی عذاب میںپکڑے ہوئے ہوں گے۔ سو اللہ کی تسبیح کرو،[113] جس وقت تم شام کرتے ہو[114] اور جس وقت تم صبح کرتے ہو ــــــ زمین اور آسمانوں میں اُسی کی حمد ہو رہی ہے[115] ــــــ اور عشا کے وقت بھی [116] اور جب تم ظہر کرتے ہو۔ ۱۴ - ۱۸
[97]۔ یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔
[98]۔ اصل میں ’اَدْنَي الْاَرْضِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن سے مراد یہاں شام و فلسطین کی سرزمین ہے جو عرب کی سرزمین کے بالکل متصل تھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو اُس وقت دنیا میں دو بڑی سلطنتیں تھیں: ایک مسیحی رومی سلطنت، دوسرے مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کشمکش جاری رہتی تھی۔ ۶۰۳ ء کا واقعہ ہے کہ ایک بغاوت کو فرو کرنے کا بہانہ بنا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کر دیا۔ اِس کے بعد رومیوں کو شکست پر شکست ہوتی رہی، یہاں تک کہ ۶۱۶ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چھٹا یا ساتواں سال تھا۔ قرآن نے یہ پیشین گوئی ۶۱۷ء اور ۶۲۰ء کے درمیان کسی وقت کی ہے۔ ’’زوال روما*‘‘کے مصنف ایڈورڈ گبن کا بیان ہے کہ یہ جس زمانے میں کی گئی، اُس وقت کوئی بھی پیشگی خبر اتنی بعید از وقوع نہیں ہو سکتی تھی، اِس لیے کہ رومی حکمران ہرقل کے پہلے بارہ سال رومی سلطنت کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ بہت دن نہیں لگیں گے، یہ زیادہ سے زیادہ اگلی دہائی (بِضْعِ سِنِيْنَ)کے اندر پوری ہو جائے گی۔ چنانچہ ٹھیک اِس اعلان کے مطابق یہ پوری ہو گئی اور مارچ ۶۲۸ء میں رومی حکمران اِس شان سے قسطنطنیہ واپس آیا کہ اُس کے رتھ کو چار ہاتھی کھینچ رہے تھے اور بے شمار لوگ دارالسلطنت کے باہر چراغ اور زیتون کی شاخیں لیے اپنے ہیرو کے استقبال کے لیے موجو د تھے۔
اِس تعیین و تصریح کے ساتھ اور اِس حتمی اسلوب میں یہ پیشین گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اثبات کی دلیل کے طور پر کی گئی۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیوں کے ساتھ مذہبی قربت، قرآن کی دعوت اور مسلمانوں کے ساتھ، خاص طور پر حبشہ میں اُن کے طرزعمل کی وجہ سے مسلمان قدرتی طور پر اُن سے ہم دردی رکھتے تھے۔ قرآن نے اُنھیں اطمینان دلایا کہ وہ رنجیدہ خاطر نہ ہوں، اُن کے اہل کتاب بھائی عنقریب غلبہ حاصل کرلیں گے اور یہ پیشین گوئی اُس نبوت کی بھی بہت بڑی دلیل بن جائے گی جس پر وہ ایمان لائے ہیں، اِس لیے کہ خدا کے سوا کوئی بھی ایسی صراحت اور حتمیت کے ساتھ مستقبل کے بارے میں اِس طرح کی خبر نہیں دے سکتا۔
[99]۔ یعنی اُس قانون کے مطابق ہو گا جو خدا نے قوموں کے امتحان اور اُن کے عزل و نصب کے لیے مقرر کررکھا ہے۔ چنانچہ وہ دیکھتا ہے کہ زمین میں اقتدار پا کر وہ کیا رویہ اختیار کرتی ہیں، پھر اُسی کے لحاظ سے اپنا فیصلہ صادر فرماتا ہے۔
[100]۔ یعنی یہ وہ زمانہ ہو گا، جب مسلمانوں کے لیے بھی اللہ کی مدد آ چکی ہو گی، جو اِس وقت ستائے جا رہے ہیں اور قریش کے ظلم و ستم سے نجات پا کر وہ بھی خوش و خرم ہوں گے۔ چنانچہ معلوم ہے کہ ۶۲۴ء میں جب قیصر روم کی فتوحات کی ابتدا ہوئی تو مسلمان نہ صرف یہ کہ یثرب میں متمکن ہو چکے تھے، بلکہ بدر کی جنگ میں قریش پر فتح پا کر اُن کی پوری قیادت کا خاتمہ بھی کر چکے تھے۔ اِس میں،ظاہر ہے کہ یہ خوشی بھی شامل ہوگی کہ جس کتاب پر وہ ایمان رکھتے ہیں، اُس کی ایک عظیم پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہو گئی اور وہ لوگ غالب ہو گئے جو مذہب میں اُن سے قریب تر ہیں۔ اِس سے، اگر غور کیجیے تو غلبۂ حق کی اُس بشارت کا زمانہ بھی اللہ تعالیٰ نے بالکل متعین کر دیا ہے جو قرآن میں جگہ جگہ دی گئی ہے۔
[101]۔ یعنی بڑا مہربان ہے، اِس لیے اپنا کوئی مشن جب اپنے بندوں کے سپرد کرتا ہے تو لازماً اُن کی مدد بھی کرتا ہے اور اُس کے ساتھ زبردست بھی ہے، اِس لیے جب مدد کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُس کا یہ فیصلہ نافذ ہو کر رہتا ہے، اُس میں کوئی مزاحم نہیں ہو سکتا۔
[102]۔ آیت میں ’وَعْد‘ کا نصب مصدرکا ہے، یعنی ’وَعَدَ اللّٰهُ ذٰلِكَ وَعْدًا‘۔ اِس سے مراد اُسی نصرت کا وعدہ ہے جس کا ذکر پیچھے ’بِنَصْرِ اللّٰهِ‘ کے الفاظ میں ہوا، اور جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بھی اپنے مخالفین پر اُسی طرح غلبہ حاصل ہوجائے گا، جس طرح رومیوں کے غلبے کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ آگے اِسی سورہ کی آیات ۴۷، ۶۰ میں اِس کی وضاحت ہو گئی ہے۔
[103]۔ چنانچہ نہ حالات کے باطن میں اتر کر کائنات میں خدا کے ہاتھ کی کارفرمائی کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ابتلا اور جزا و سزا اور عزل و نصب کے لیے اُس کے قوانین کو سمجھ سکتے ہیں، اِس لیے کہ آخرت سے بالکل ہی بے خبر ہیں۔
[104]۔ یعنی اپنے باطن میں اتر کر اور اصل حقیقت کو پانے کی خواہش کے ساتھ غور نہیں کیا۔ اِس لیے کہ انسان جب اِس طرح غور کرتا ہے تو اُس پر حقیقت لازماً کھل جاتی ہے۔
[105]۔ یعنی غایت و حکمت کے ساتھ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... جب اِس کائنات کی ہر چیز اپنے اندر ایک غایت و حکمت رکھتی ہے اور اِس کے لیے ایک مدت بھی مقرر ہے تو یہ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ انسان جو اِس کے اندر، واضح طور پر، ایک برتر مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے، بالکل بے مقصد اور عبث پیدا کیا گیا ہو؟ اِس چیز کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک روز جزا و سزا آئے جس میں وہ اپنے اعمال کی بابت مسؤل ہو، اپنی نیکیوں کا صلہ پائے، اگر اُس نے نیکیاں کی ہوں اور اپنی بدیوں کی سزا بھگتے، اگر اُس نے بدیاں کمائی ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ کارخانۂ کائنات ایک کھلنڈرے کا کھیل اور انسان ایک شتر بے مہار اور بے غایت و مقصد وجود بن کے رہ جاتا ہے اور یہ بات اِس کائنات کی اُس مقصدیت اور حکمت کے بالکل منافی ہے جس کی شہادت اِس کے ہر گوشے سے مل رہی ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن۶/ ۷۷)
[106]۔ یہ علم حقیقی سے محرومی کا اصل سبب بیان کر دیا ہے کہ جب انسان اِس دنیا سے آگے کچھ سوچنے کے لیے تیار ہی نہ ہو تو اُس پر یہ حکمت کبھی نہیں کھل سکتی کہ کائنات کیوں پیدا کی گئی ہے اور اُس کا انجام کیا ہونا ہے؟
[107]۔ یہ عاد و ثمود، قوم لوط اور مدین والوں کی طرف اشارہ ہے جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد بھی انکار پر جمے رہے اور بالآخر تباہ کر دیے گئے۔ انفس و آفاق کے دلائل کی طرف توجہ دلانے کے بعد قرآن بالعموم اِسی طریقے سے دینونت کے اُن واقعات کی طرف متوجہ کرتا ہے جو سرزمین عرب کی قدیم اقوام کے ساتھ پیش آئے تھے۔
[108]۔ اصل الفاظ ہیں:’اَنْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ‘۔ اِن میں ’اَنْ‘ سے پہلے ایک حرف عربیت کے اسلوب پر محذوف ہے، یعنی ’لِاَنْ كَذَّبُوْا‘۔
[109]۔ یعنی اپنے ٹھیرائے ہوئے معبودوں کی طرف نہیں، بلکہ اُسی معبود حقیقی کی طرف لوٹائے جاؤگے جو تمھارا خالق ہے۔
[110]۔ آیت میں ماضی کے صیغے تقریب فہم کے لیے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... گویا مخاطب جس چیز کو نہایت بعید سمجھتے ہیں، متکلم اُس کو ماضی کے اسلوب میں ایک واقع شدہ واقعے کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ احوال قیامت کے بیان میں قرآن نے یہ اسلوب اکثر جگہ استعمال کیا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۷۹)
[111]۔ آگے وضاحت کر دی ہے کہ کس لحاظ سے الگ الگ ہو جائیں گے۔ مدعا یہ ہے کہ آخرت کا دن ایک یوم الفرقان ہو گا جو دنیا کے تمام التباسات اور شبہات کو ختم کرکے بالکل واضح کر دے گا کہ خدا نے اِسے ’بِالْحَق‘ پیدا کیا تھا اور یہ ٹھیک اُس انجام کو پہنچ گئی ہے، جس تک اسے پہنچنا چاہیے تھا۔
[112]۔ اصل میں لفظ ’رَوْضَة‘ آیا ہے۔ یہ اگرچہ نکرہ ہے،لیکن اِس کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے، یعنی جنت کے باغوں میں سے ایک شان دار باغ میں۔
[113]۔ یعنی اُس کے بارے میں اُن حقائق کا اعتراف و اعلان کرو جو اوپر بیان کیے گئے ہیں اور اُن تما م عیوب و نقائص اور کم زوریوں سے اُسے پاک اور منزہ قرار دو جو مشرکین اپنے شرک اور انکار آخرت سے اُس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اِس اعتراف و اعلان کی بہترین صورت نماز ہے۔ آگے اُسی کے اوقات بیان ہوئے ہیں۔
[114]۔ یہ عصر اور مغرب کی نماز کا وقت ہے۔
[115]۔ اوقات نماز کے بیچ میں یہ جملۂ معترضہ تذکیر وتنبیہ کے لیے آگیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... مطلب یہ ہے کہ یہ خدا ہی کی تسبیح کی جو دعوت دی جار ہی ہے، یہ کوئی بے گانہ دعوت نہیں ہے، بلکہ آسمانوں اور زمین کے ہرگوشے سے خدا ہی کی حمد کا ترانہ گونج رہا ہے۔ تو جو لوگ خدا کے سوا کسی اور کی بندگی کررہے ہیں، اُن کا سُر اِس کائنات کے مجموعی سُر سے بالکل بے جوڑ ہے۔ البتہ، جولوگ خدا کی حمد و تسبیح کر رہے ہیں، وہ اِس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ اِس میں دعوت کے ساتھ ایک قسم کی بے نیازی کا اظہار بھی ہے کہ اگر کچھ بدقسمت خدا کی حمد و تسبیح سے گریز کریں گے تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ اِس کائنات میں اُس کی حمد و تسبیح کرنے والوں کی کمی ہے۔ آسمانوں اور زمین کا ہر گوشہ اُس کی حمد کرنے والوں سے معمور ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۸۰)
[116]۔ آیت میں ’عَشِيّ‘ کا لفظ اُسی طرح ظہر کے مقابل میں ہے، جس طرح صبح کے مقابل میں شام ہے، اِس لیے اِسے عصر کے بجاے عشا ہی کے معنی میں لینا چاہیے۔ نماز کے لیے یہ اوقات کیوں مقرر کیے گئے ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’... اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد و تسبیح کے لیے وہ اوقات خاص طور پر پسند فرمائے ہیں جن میں اُس کی کسی بڑی نشانی کا ظہور ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ رات دن میں داخل ہوتی ہے یا دن رات میں داخل ہوتا ہے۔ یاسورج سمت راس سے جھکتا ہے یا رات تاریک ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو انسان غور کرنے والا ہے، یہ اوقات اُس کے ذہن و دماغ پر خاص طور پر اثرانداز ہوتے اور اُس کو جھنجھوڑتے ہیں کہ وہ اُس ذات کو اِس وقت یاد کرے جس کے حکم سے یہ عظیم تغیر اِس دنیا میں واقع ہوا ہے۔ اگر اِن واقعات میں بھی کوئی شخص اللہ کی نشانیوں اور اُس کی شانوں سے متاثر نہیں ہوتا تو وہ نہایت بلید جانور ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۸۰)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* زوال روما،ایڈورڈگبن۲/ ۷۸۸۔