HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

فکر غامدی کا مستقبل؟

[غامدی صاحب کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے  کہ وہ زمانۂ  حاضر کی نہیں، بلکہ مستقبل کی شخصیت ہیں۔ اِس وقت اُن کا فکر   نا مقبول ہے، لیکن بہ تدریج یہ فروغ  پائے گا  اور سو سال بعدرائج اور مقبول  ہو  گا۔ اِس کے برعکس دیگر  لوگوں کے نزدیک اُن  کے فکر   کی مقبولیت کا  کوئی امکان نہیں ہے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُنھوں نے  رائج اور مقبول  عام فکر  کی تردید  کی ہے اور اُس کے مقابل میں نیا فکر  پیش کیا ہے۔ اِن خیالات پر  خود غامدی صاحب نے  ایک سوال کے جواب میں تبصرہ کیا ہے۔ زیر ِنظر تحریر اِسی تبصرے پر مبنی ہے۔ ]

 

میں  دین کا ایک طالب علم ہوں۔ اِس  حیثیت سے دین  سب سے پہلے میرا   اپنا مسئلہ ہے۔   یہ میرے پروردگار کی ہدایت ہے جو سب سے  پہلےمیری ضرورت ہے۔ مجھے  اُسےاپنے لیے   سمجھنا ہے اوراپنے لیے اختیار کرنا ہے۔   اِس کی وجہ یہ ہے کہ    مجھے اپنی  قبر میں جانا ہے  اور  اپنے اعمال  کا حساب  دینا ہے۔   لہٰذا یہ  میرا  مسئلہ ہی نہیں ہے کہ دنیا میری بات کو  کیا حیثیت دیتی ہے؟ اُسے قبول کرتی ہے یا    رد  کر دیتی ہے؟ آج کتنے افراد میرے ہم فکر ہیں اور کل اُن میں کتنا اضافہ ہو گا؟ اِس وقت لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں اور سوسال بعد کیا کہیں گے؟ اِن باتوں  سے مجھے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ یہ دنیا   پروردگار   کی ہے۔ اِس پر اُسی کی بادشاہی قائم ہے۔   وہ جانے کہ  اُس نے آج کیا کرنا ہے اور وہ جانے کہ اُس نے   سو سال بعد کیا کرنا ہے ۔مجھے تو  بس اپنی فلاح  کی ، اپنی نجات  کی فکر ہے۔ اِس کے لیے مجھےدین کو سمجھنا بھی ہے اور اُس پر عمل بھی کرنا ہے۔ انسان کی حیثیت سے میرا کام اِس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔  میں اپنے علم و عمل میں، اپنی جدوجہد میں، اپنے طریقۂ کار میں، اپنی گفتگوؤں میں، اپنی تصنیفات میں، اپنے اداروں میں  اِسی جگہ  تک محدود رہنے کی کوشش کرتا  ہوں ۔

اِس کے بعد میں اگر لوگوں کو دین بتانے  کا کام کرتا ہوں تو اداے فرض کے لیے کرتا ہوں ۔  اللہ کا حکم  ہے کہ  اگر ہمیں دین  کا  علم  حاصل ہو   تو  اُسے دوسروں تک   پہنچائیں تاکہ وہ بھی اللہ کی گرفت سے محفوظ  ہو سکیں۔ لہٰذا میں اِسے اپنی  دینی ذمہ داری سمجھتا ہوں  کہ جب مجھ پر کوئی  حقیقت واضح ہو جائے تو  اُسے ایک طالب علم  کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے پیش کر  دوں۔ یہ بتا دوں کہ اُس کی نوعیت کیا ہے، اُس کی بنیاد کیا ہے،اُس کا استدلال کیا ہے؟ پھر اُس پر کوئی  سوال  یا اعتراض ہو تو تنقیح کر کے اُس کا جواب دے دوں۔اِس سے زیادہ نہ میری کوئی ذمہ داری ہے اور نہ اِس سے آگے بڑھ کر  مجھے کسی چیز سے دل چسپی ہے۔

مستقبل کی پیشین گوئیاں کرنا میرا کام نہیں ہے ۔ یہ چیز میرے ذوق کے بھی خلاف ہے۔ مجھ سے محبت رکھنے والوں نے اگر  ایسی بات کی ہے تو میں اُنھیں بھی  نصیحت کروں گا  کہ اپنے اخروی  مستقبل کی فکر کریں۔ دنیوی مستقبل کے بارے میں دعوے کرنا ہمارا منصب نہیں ہے۔ کل کس کا ذکر بلند ہو گا، کس کی بات مقبول  ہوگی، کس   کو  پذیرائی  ملے گی ، یہ ہمارے سوچنے کی  باتیں نہیں ہیں۔ یہ اللہ کے معاملات ہیں  اور اُسی کے علم اور اُسی کے  اذن پر منحصر ہیں۔ ہمیں اِن کے بارے میں فکر کرنے  کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔  لہٰذا وہ اپنی تمام تر توجہ دین سیکھنے، اُس پر عمل کرنے اور حتی المقدور اُسے دوسروں تک پہنچانے پر صرف کریں۔

جان رکھیں کہ  کسی نقطۂ نظر کی مقبولیت یا نا مقبولیت اُس کی درستی یا نادرستی  کا معیار نہیں ہے ۔ دنیا میں جب کوئی دعوت پروان چڑھتی ہے تو بعض اوقات اُس کا سبب اللہ کا خاص فیصلہ ہوتا   ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی کسی حکمت کے پیش نظر کسی فکر  کے فروغ  کے اسباب پیدا فرما دیتے ہیں۔   تاہم، عام حالات میں  اِس کا سبب دنیا میں کارفرما متعین عوامل ہوتے ہیں ۔یہ اگر کسی فکر کو میسر آ جائیں تو اُسے اثر و نفوذ اور قبول عام حاصل ہو جاتاہے۔   مطلب یہ ہے کہ   کوئی سیاسی نظریہ،   کوئی سماجی نقطۂ نظر، کوئی دینی  فکر، کوئی مذہبی تعبیر  جب  دنیا میں عروج حاصل کرتی ہے تو  اُس کے پیچھے بہت سے دنیوی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ جس  نقطۂ نظر کے حق میں وہ زیادہ جمع ہو جائیں، اُسےفروغ مل   جاتا ہے۔

یہ بات زیادہ قابل فہم ہو سکتی ہے، اگر اِسے عام انسانوں اور تحریکوں   کے پس منظر سے اوپر اٹھ کر اللہ کے نبیوں کی دعوت کے تناظر میں دیکھ لیا جائے ۔ وہ عظیم لوگ جو پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ، جو ــــــ نوع انسانی کے گل سرسبد، نخل فطرت کے بہترین ثمر اور کمال انسانیت کے مظہر اتم تھے ــــــ اور جن  کی دعوت کی صحت اور صداقت ہر شک و شبہے سے پاک ہے، اُن میں بہت سے ایسے ہیں کہ جن کی دعوت کو اُن کے  سامنے تو کیا ، اُن کے بعد بھی  قبول نہیں کیا گیا۔جن پیغمبروں کی دعوت  مقبول ہوئی ، اُن میں سے ایک نام سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا ہے۔ اللہ کے نبیوں سے منسوب دعوتوں میں سے سب سے زیادہ  فروغ آپ کی نسبت سے پیش کی گئی دعوت کو  ملا ہے۔  لیکن ہم جانتے ہیں کہ  یہ فروغ   اُس وقت ملا،  جب سینٹ پال نے آپ علیہ السلام  کی دعوت کو  ایک نئی صورت میں تبدیل کر دیا ۔ اِس سے واضح ہے کہ  کسی  دعوت کا عروج اور کسی  کا زوال یا  ایک کی مقبولیت اور دوسری کی نامقبولیت حق و باطل کا معیار  نہیں ہے۔ اِس کی بنا پر صحیح اور غلط کا تعین نہیں کرنا چاہیے۔   میرا خیال ہے: عاقلاں را اشارہ کافی است۔

چنانچہ  میں نہ  لوگوں کی اکثریت کو معیار بناتا ہوں، نہ اقلیت کو  ،  نہ  اُن کی تائید  کو ،  نہ تردید کو۔ میرے نزدیک اصل سوال یہ  ہوتا ہے کہ کیامیرا دل مطمئن ہے،کیامیرا ضمیر مطمئن ہے، کیامیں نے اپنی طرف سے نیت کی پاکیزگی کے ساتھ، دل کے اخلاص کے ساتھ اپنے پروردگار کے دین کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اُسےبے کم و کاست بیان کرنے کی سعی کی ہے؟ میری تمام تگ و دو بس یہیں پر ختم ہو جاتی ہے، اِس سے آگے کے کسی معاملے سے مجھے کوئی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی۔

دنیا میں جو اصحاب علم بھی ہیں ، اُن کی حیثیت معلم کی ہے۔اُن کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں اور اِس مقصد کے لیے اپنی بات دلیل سے پیش کریں۔اِس کے بعد  یہ  لوگوں کا کام ہے کہ وہ  چاہیں تو اُسے  قبول  کر لیں ، چاہیں تو رد کر دیں ۔  لوگوں کو بھی اِس معاملے میں  اُن کی تقلید کے بجاے  علم کی تحصیل کا  رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ وہ  تمام علما کی بات  کو سنیں اور سمجھیں ۔  اُن میں سے  جس کی دلیل  پر اطمینان ہو، اُسے قبول کر لیں اور جس  کی دلیل پر اطمینان نہ ہو، اُسے چھوڑ دیں۔ کسی صاحب علم کی ایک بات درست لگتی ہے تو لازم نہیں کہ اُس کی دوسری بات بھی درست محسوس ہو۔ ممکن ہے کہ دوسری بات میں کسی دوسرے عالم کی راے   پر اطمینان ہو جائے۔   کسی عالم   کی   ایک راے سے اتفاق اُس کی باقی آرا سے اتفاق کو لازم نہیں کرتا۔امت کے علما کو استاذ اور  معلم سمجھیں۔ اِس سے بڑھ کر اُنھیں کسی مرتبے پر فائز  نہ کریں۔  وہ سب دین کے خدام ہیں اور اِس لحاظ  سے  بلاامتیاز واجب الاحترام ہیں۔ ہمیں    اُن سے سیکھنا چاہیے اور  محبت اور احترام   کا تعلق  قائم رکھنا چاہیے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B