قارئین ’’اشراق‘‘ کے خطوط و سوالات پر مبنی جوابات کا سلسلہ
سوال: اہلِ کتاب کو کافر کہنا درست ہے یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے سورئہ مائدہ کی آیت ۷۲ میں عیسائیوں کے عقیدہ کو کفر سے تعبیر کیا ہے ؟(محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: کسی کو کافر قرار دینا ایک قانونی معاملہ ہے۔ پیغمبر اپنے الہامی علم کی بنیاد پر کسی گروہ کی تکفیر کرتا ہے۔ یہ حیثیت اب کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ اب ہمارا کام یہی ہے کہ ہم مختلف گروہوں کے عمل و عقیدہ کی غلطی واضح کریں اور جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو نہیں مانتے انھیں بس غیر مسلم سمجھیں اور ان کے کفر کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔
سوال: آپ کی رائے میں وتر نمازِ تہجد ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی دو سنتوں (نوافل)اور وتر کی نماز پر اتنا زور کیوں دیا ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ کیوں فرمایا کہ وتر کی نماز پڑھ کر سونا؟(محمد صفتین، راولپنڈی)
جواب: وتر تہجد ہے اور اس کی حیثیت ایک نفل نماز کی ہے اس نماز کا اصل وقت طلوعِ فجر سے پہلے کا ہے۔ البتہ اس کے بارے میں اجازت ہے کہ اگر اس وقت اٹھ کر پڑھنا ممکن نہ ہو تو عشا کے ساتھ پڑھ لی جائے۔ بعض نفل نمازیں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اسی وجہ سے نبیِ کریمنے ان کی تاکید بھی کی ہے۔ تاکید سے ان نوافل کی قدروقیمت واضح ہوتی ہے اور اس سے ان کا زیادہ باعثِ اجر ہونا معلوم ہوتا ہے۔
سوال: ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح ہوجاتا ہے یانہیں ؟ نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ (محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: ایک عاقل و بالغ مرد اور عورت کے نکاح کے انعقاد کے لیے ولی کی رضا مندی قانونی شرط کی حیثیت نہیں رکھتی ، لیکن اگر ان کی رضامندی کے ساتھ ایسا ہو تو یہ زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی کے نتیجے میں جو گھر وجود میں آتا ہے اس سے یہ قریبی عزیز شدید طور پر متعلق ہوتے ہیں۔ لہٰذ۱ اگروہ کسی نکاح پر راضی نہیں ہیں تو یہ چیز نئے جوڑے کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی وجہ سے احادیث میں ولی کی رضامندی حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔نابالغ کا نکاح ہو جاتا ہے ،لیکن جب وہ بالغ ہوں تو انھیں اس نکاح کے ختم کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے۔
سوال: کیا ہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کے بھی مکلف ہیں۔ کیا اطاعت بلامحبت نفاق ہے ؟ (محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: نبیِ کریم سے محبت آپ پر ایمان کا فطری تقاضا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہم دوسرے تمام علائق سے اس تعلق کو ترجیح دیں اور آپ اور آپ کے دین پر آنچ نہ آنے دیں۔ اگر کوئی شخص اس محبت سے محروم ہے تو پھر اسے جائزہ لینا چاہیے کہ اس کا ایمان محض زبان کے اقرار تک تو محدود نہیں ہے ؟
سوال: اگر جنگ فیصلہ کن مرحلے میں ہو اور دشمن اپنے آپ کو بچانے اور مسلمانوں کو دھوکا دے کر انھیں شکست دینے کے لیے صلح کا پیغام بھیجے تو کیا مسلمانوں کو اس پیغام کو قبول کر لینا چاہیے ؟ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم صلح کا پیغام قبول کر لو جبکہ اس کے برعکس سورۂ انفال آیت ۵۸ میں فرماتا ہے کہ ’’اگر تمھیں کسی قوم سے دغا بازی کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف پھینک دو۔‘‘ سورۂ انفال کی آیت ۶۱ میں اگلے اجزا میں ہے کہ ’’ اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسا رکھو۔‘‘(محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: دینِ اسلام صلح اور امن کو جنگ پر ترجیح دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہر موقع سے فائدہ اٹھایا اور جنگ سے گریز کے طریقے ہی کو اختیار کیے رکھا۔قرآنِ مجید کی جن آیات کا آپ نے حوالہ دیا ہے ان سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے۔ البتہ یہ ترجیح اسی شرط کے ساتھ ہے کہ اس سے امن حاصل ہو۔ اگر دشمن کی طرف سے اس کے پیچھے کوئی چال ہو تو اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر جنگ جاری رکھنا ناگزیر ہو تو جنگ جاری رکھی جائے گی۔لیکن یہ فیصلہ محض اندیشے کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے ،اس کے پیچھے قوی دلائل ہونے چاہییں۔ سورۂ انفال کی آیت میں ’’ اللہ پر بھروسا رکھو ‘‘کے الفاظ محض اندیشوں کی بنا پر امن سے گریز سے روکنے ہی کے لیے ہیں۔
سوال: کیا جہاد کی طرح خروج کے لیے بھی اقتدار شرط ہے ؟(محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: خروج سے مراد یہ ہے کہ کسی اقتدار پر فائز گروہ کو بزورِ بازواقتدار سے الگ کر دیا جائے اور اس کی جگہ خود اقتدار سنبھال لیا جائے۔ ظاہر ہے یہ راستہ اسی جگہ اختیار کیا جائے گا جہاں انتقالِ اقتدار کی کوئی پرامن صورت اختیار نہ کی جاسکتی ہو۔ یہ عمل اگر دین کی خاطر کیا جا رہا ہو تو یہ جنگ جہاد ہی ہو گی۔ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک انبیا کے طریقِ کار سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خروج کی صورت میں بھی جہاد کے لیے لگائی گئی اقتدار کی شرط قائم رہے گی۔ یعنی اس گروہ کو پہلے کسی خطے میں خود مختار حکومت قائم کرنا پڑے گی۔ اس کے بعد ہی وہ جنگ کر سکے گا۔ واضح رہے کہ خروج کی بنیادی شرائط کے مطابق لازم ہے کہ جس گروہ کے خلاف خروج کیا جا رہا ہو اس نے استبدادی نظام قائم کر رکھا ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ قرآنِ مجید کی صریح نصوص سے انحراف کا مرتکب ہواہو۔ تیسرے یہ کہ جو گروہ خروج کے لیے نکلے اس کی پشت پر قوم کی غالب اکثریت ہو۔ اورجنگ سے پہلے لازم ہے کہ اس گروہ نے پہلے کسی خطے میں اپنی آزاد ریاست قائم کر لی ہو۔
سوال: آپ کی رائے میں مہر کا نکاح کے وقت ادا کرنا ضروری نہیں۔ حالانکہ یہ عورت کا حق اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بروقت ادائیگی کا کہا گیا ہے ؟(محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: مہر کو نکاح کے موقع پر ادا کرنا ہی اولیٰ ہے۔ اس کی ادائیگی کو اس موقع پر لازم کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ بسا اوقات حقیقی اسباب کے تحت اس کا اس موقع پر ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ شاید اسی وجہ سے اس کی ادائیگی کو کسی وقت کے ساتھ مشروط نہیں کیا گیا۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نکاح کے وقت اسے ادا کرنا، اس کے لیے موزوں ترین وقت ہے اور اس موقع پر ادا کرنے سے اس کی غایت پوری ہوتی ہے۔ اس کی ادائیگی میں تاخیر کی جورخصت دی گئی ہے ، اس سے واقعی کوئی مشکل درپیش ہو تو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ