HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

مولانا حمید الدین فراہی کا علمی مقام: مشاہیر کی نظر میں

اختر حسین عزمی


مقالہ نگار گورنمنٹ ڈگری کالج پتوکی میں لیکچرار ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں ’’علوم اسلامی کی تشکیل جدید میں مونا امین احسن اصلاحی کا کردار‘‘ کے موضوع پر  تحقیق کر رہے ہیں۔(  ادارہ)         

 

مولانا حمید الدین فراہی ایک ایسے مجتہد اور متبحر عالم تھے جن کی فکرِ قرآنی نے اس دور کے بڑے بڑے مفکرینِ اسلام اور مفسرینِ قرآن کو بلاواسطہ یا بالواسطہ متاثر کیا۔ آپ کا علمی مقام و مرتبہ زعماے ملت کی نظر میں کتنا بلند تھا ؟ یہ جاننے کے لیے ہم تین پہلوؤں سے اپنی تحقیقات پیش کریں گے۔

۱۔ اساتذہ و شیوخ کی نظر میں

زمانۂ طالب علمی ہی میں مولانا فراہی کا علمی پایہ  مسلم تھا۔ عربی و فارسی میں وقت کے بڑے بڑے اساتذہ اور ادیب جن سے انھوں نے تعلیم حاصل کی، ان کی ذہانت اور علمی و فکری پختگی سے متاثر تھے۔ بیس سال کی عمر میں ہی وہ عربی زبان و ادب اور اسلامی علوم میں دست گاہِ کامل حاصل کر چکے تھے۔

مولانا فراہی نے جن اساطین سے اکتسابِ فیض کیا ان میں سرِ فہرست علامہ شبلی نعمانی (۱۹۱۴ء) کا نام آتا ہے، جن کی تعلیم و تربیت نے ان کی فطری صلاحیتوں کو بیدار کیا اور انھیں علومِ عالیہ سے روشناس کیا۔ مولانا فراہی کے فخر و امتیاز کے لیے یہی کافی ہے کہ علامہ شبلی ان کی کتابوں کی تلخیص خود کر کے ’’الندوہ‘‘ میں شائع کرتے تھے۔[1]

علامہ شبلی نے مجلہ ’’الندوہ‘‘ دسمبر ۱۹۰۵ء میں ان کی تصنیف ’’جمہرۃ البلاغہ‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’ادب میں ان کی نظیر نہیں۔ مسلمانوں کے لیے اس کتاب کی وہی اہمیت ہے جو پیاسے کے لیے آب زلال ہوتی ہے۔‘‘(سید سلیمان ندوی، مولف ’’مکاتیب شبلی‘‘ جلد دوم، مطبع معارف اعظم گڑھ، ۱۹۳۷ء، ص ۳۳)  

’’دارالمصنفین‘‘ کا قیام پاک و ہند کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اس کام میں معاونت کے لیے شبلی نعمانی کی نظرِ انتخاب جس شخص پر پڑی، وہ مولانا فراہی تھے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں مولانا شبلی نے مولانا فراہی کو حیدر آباد خط لکھا جس میں اپنی گونا گوں بیماریوں کے تذکرے کے بعد لکھتے ہیں:

’’اگر دارالمصنفین قائم ہوا تو تمھارے سوا اس کا انتظام و انصرام کون چلا سکتا ہے۔‘‘ (یاد رفتگان، ص ۵۴)

   علامہ شبلی، مولانا فراہی کے قرآنی فکر کے قائل تھے۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

’’مولانا حمید الدین فراہی نے نظمِ آیات کا جو تصور دیا، مولانا شبلی کو اپنے شاگرد کے اس نظریہ سے اختلاف تھا اور وہ مولانا فراہی کی کوششوں کو رائیگاں سمجھتے تھے۔ لیکن جب انھوں نے ان کی تفسیر کے متعدد اجزا دیکھے تو قائل ہوتے چلے گئے اور آخر داد دینے لگے۔ اور آخر میں تو وہ حمید الدین کی نکتہ دانی کے اس درجہ قائل ہو گئے تھے کہ قرآنی مشکلات کے حل میں وہ ان سے مشورہ لینے لگے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’تفسیر ابی لہب اور جمہر البلاغہ کے اجزا بغور دیکھے، تفسیر پر تم کو مبارک باد دیتا ہوں۔ تمام مسلمانوں کو تمھارا ممنوں ہونا چاہیے۔‘‘ (یادِ رفتگان، ص ۱۱۸-  ۱۱۹)

   مولانا شبلی کا وہ کام جو ان کی پہچان بن گیا ’’سیرۃ النبی‘‘ لکھنا ہے۔ اس بارے میں مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

’’مولانا شبلی مرحوم اس وقت ’’سیرۃ النبی‘‘ کی پہلی جلد لکھ رہے تھے، یہود و نصاریٰ اور اہلِ کتاب کے مناظرانہ مسائل اور قرآنِ پاک کے استدلالات میں وہ برابر اپنے بھائی (مولانا فراہی) سے مشورہ لیتے رہے جو مکاتیب (۵۷- ۷۳) سے ظاہر ہیں، سیرت جلد اول کے مقدمہ میں حضرت اسماعیل کی سکونت اور قربانی کے متعلق جو باب ہے اس کا مواد مولانا حمید الدین ہی نے بہم پہنچایا تھا۔‘‘(ص ۱۲۲)

     اس کے علاوہ ’’مکاتیب شبلی‘‘ میں بیسیوں خطوط ایسے ہیں جن میں مولانا فراہی سے انھوں نے سیرت کے موضوع پر  تحقیقی استفسار کیا ہے۔

مولانا فراہی نہ صرف اردو عربی اور فارسی میں بھی دسترس رکھتے تھے بلکہ انگریزی زبان و ادب میں بھی انھیں مستند سمجھا جاتا تھا۔ اس کا اندازہ سید سلیمان ندوی کی اس تحریر سے ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’مولانا شبلی مرحوم کی فرمائش سے نواب عماد الملک مرحوم نے قرآنِ پاک کے انگریزی ترجمہ کا جو کام شروع کیا تھا وہ نصف کے قریب انجام پا چکا تھا۔ مگر اس میں جابجا نقائص تھے۔ نواب صاحب نے مولانا حمید الدین کی موجودگی سے فائدہ اٹھایا۔ اور مدتوں تک یہ شغل جاری رہا کہ مولانا روزانہ صبح کو نواب صاحب کے یہاں جاتے اور نواب صاحب بایں ہمہ ضعف و پیری، انگریزی ترجمہ پر مل کر غور کرتے۔ اس طرح ان کے ترجمہ کے کئی پاروں پر نظر ثانی ہوئی۔‘‘ (یادِ رفتگان ص ۱۲۲)

   علامہ شبلی کے استاد مولانا فاروق چریا کوٹی ہندوستان میں فارسی زبان و ادب کے بے مثل استاد اور ممتاز نقاد شخص تھے۔ مولانا فراہی نے بھی ان کی عالمانہ صحبت سے اکتسابِ فیض کیا۔ سولہ سال کی عمر میں فارسی میں قصیدہ لکھا جسے مولانا شبلی نے مولانا چریا کوٹی کے سامنے مولانا فراہی کا نام لیے بغیر پیش کیا تو انھوں نے کہا کہ ’’یہ پرانے اساتذہ میں سے کسی کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘[2]

شبلی نعمانی کے بعد مولانا فراہی نے جس استاد سے سب سے زیادہ اکتسابِ فیض کیا وہ اورینٹل کالج لاہور کے پروفیسر مولانا فیض الحسن سہارن پوری تھے، جو پورے برصغیر میں عربی زبان و ادب میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ایسے عظیم استاد کی نظر میں مولانا فراہی کی کتنی قدر و منزلت تھی اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا سہارن پوری نے اپنی ’’شرح سبعہ معلقہ‘‘  کا خود تحریر کردہ قلمی نسخہ مولانا فراہی کو بطور یادگار [3]دیا۔

سر سید احمد خان، مولانا فراہی کے زمانۂ طالب علمی ہی میں ان کی عربی و فارسی کی قابلیت سے کس قدر متاثر تھے کہ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے خود سر سید احمد خان نے علی گڑھ میں داخلے کے وقت مولانا فراہی کے بارے میں انگریز پرنسپل مسٹربک کو لکھ کر بھیجا کہ حمید الدین عربی و فارسی کے ایسے ہی فاضل ہیں جیسے آپ کے کالج کے استاد اور پروفیسر ہیں اس لیے ان کو علومِ مشرقی کے گھنٹوں سے مستثنیٰ کر دیا جائے چنانچہ وہ مستثنیٰ کئے گئے۔[4]

اس دوران سر سید نے مولانا شبلی سے عربی میں سیرت نبوی پر ایک مختصر رسالہ ’’تاریخ بدء الاسلام‘‘ کے نام سے لکھوایا پھر مولانا حمید الدین سے اس کا فارسی ترجمہ کرا کر اس وقت چھپوایا۔ مولانا فراہی کے زمانۂ طالب علمی ہی میں سر سید کو طبقات ابنِ سعد کا ایک ٹکڑا وفودِ نبوی کے متعلق کہیں سے ہاتھ آیا اس وقت یہ چھپی نہیں تھی مولانا فراہی سے اس کا فارسی ترجمہ کرا کے چھپوایا۔[5]اس کی زبان کو اتنا معیاری پایا کہ اسے کالج کے نصاب میں داخل کر لیا گیا۔[6]سر سید ہی کی خواہش پر امام غزالی کے ایک بوسیدہ اور کرم خوردہ قلمی نسخے کو مولانا فراہی نے سیاقِ کلام اور امام غزالی کے اندازِ بیان کو اپنے علمی ذوق و عربی دانی کی مدد سے الفاظ کا تعین کرتے ہوئے اتنا اچھا ایڈٹ کیا کہ سر سید بھی حیران رہ گئے۔[7]

سر سید نے قرآنِ پاک کی تفسیر لکھی تو چاہا کہ اس کا عربی ترجمہ کرائیں۔ اس کے لیے انھوں نے شبلی سے اور پھر مولانا فراہی سے فرمایش کی لیکن دونوں حضرات نے ان سے تفسیری اختلاف کی بنا پر ترجمہ سے معذرت کرلی۔[8]

علی گڑھ میں انگریزی اور فلسفہ جدیدہ میں مولانا فراہی کے استاد مشہور انگریز مستشرق پروفیسر آرنلڈ تھے۔ اسی زمانہ میں جب پروفیسر آرنلڈ انگریزی میں عربی گرائمر کی ایک مختصر کتاب ترجمہ کرانا چاہتے تھے تو اس کے لیے مولانا فراہی کا نام ہی ان کے ذہن میں تھا۔[9]

سر سید کے بعد ان کی تحریک میں جس شخصیت کا نام آتا ہے وہ ہے مولانا الطاف  حسین حالی۔ مولانا فراہی کو ان سے بھی صحبت رہی۔ سید سلیمان ندوی مولانا فراہی کے زمانۂ علی گڑھ کے متعلق لکھتے ہیں:

’’علی گڑھ کے اوجِ شباب کا زمانہ تھا اور مولانا شبلی اس کے مدرس، مولانا حالی وہاں کے مقیم و ساکن تھے، ہر وقت علمی مسائل و تحقیقات کے چہچہے رہتے تھے اور ان بزرگوں کی صحبتیں حاصل تھیں جن میں ہر ہونہار طالبِ علم کے فطری جوہر کے چمکنے کا موقع حاصل تھا۔‘‘(یادِ رفتگان، ص ۱۱۶)

    مولانا حالی کو مولانا فراہی سے ایک خاص لگاؤ تھا۔ چنانچہ مولانا فراہی نے اپنے زمانۂ کراچی کے دوران میں جب مولانا حالی کو شمس العلما کا خطاب ملنے پر مبارک باد کا خط لکھا تو مولانا حالی نے ۲۰ جولائی ۱۹۰۴ کو مولانا فراہی کے نام خط میں لکھا:

’’شمس العلماء کا خطاب ملنے پر جس گرم جوشی اور مسرت کے ساتھ آپ نے خاکسار کو مبارک باد دی ہے اس کا شکریہ تہِ دل سے ادا کرتا ہوں اور اس کو اپنے لیے ایک دستاویز فخر و امتیاز کی سمجھتا ہوں۔.....  آپ کے فصیح و بلیغ اشعار کو میں فخریہ کسی اخبار میں عنقریب چھپواؤں گا۔‘‘(مکتوب مولانا حالی بنام مولانا حمید الدین ’’مطبوعہ ماہنامہ معارف اعظم گڑھ‘‘ فروری ۱۹۱۸۔ ص ۵۴)

  خط کے آخری حصہ میں مولانا حالی کے تحریر کردہ الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں مولانا فراہی کی کس قدر قدرو منزلت تھی، لکھتے ہیں:

’’آج کل میں حد سے زیادہ عدیم الفرصت ہوں ورنہ آپ کا شکریہ ایسا سرسری طور پر معمولی الفاظ میں ہرگز نہ لکھتا۔‘‘ (محولا بالا   )

۲۔ تلامذہ و معاصرین کی نظر میں  

دینی ادب میں نام پیدا کرنے والے ادبا و فضلا کی ایک بڑی تعداد ہے جس نے یا تو باقاعدہ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا یا آپ کی صحبتِ فیض رساں سے خوشہ چینی کی۔ مولانا سید سلیمان ندوی اپنے زمانۂ طالب علمی کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’۱۹۰۵ سے مولانا (شبلی) خاص طور سے تقاضا کر کے (مولانا فراہی کو) بلواتے اور اپنے پاس ٹھیراتے۔  مقصود یہ تھا کہ ندوۃ کے طلباء ان سے فائدہ اٹھائیں۔ چنانچہ انہی کے اصرار سے کئی دفعہ ندوہ میں آ کر رہے۔ اور وہ طلبہ کوکبھی فلسفۂ جدیدہ اور کبھی قرآن کے سبق پڑھاتے۔ میں بھی اس زمانہ میں ندوہ کا طالب علم تھا۔ مولانا کے ان درسوں سے مستفید ہوا۔‘‘ (یادِ رفتگان، ص ۱۲۰)

مولانا فراہی کی کتاب ’’اقسام القرآن‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’سب سے پہلے (ربطِ آیات کے موضوع پر) امام رازی نے تفسیرِ کبیر میں جستہ جستہ فقرے لکھے تھے۔ پھر ابنِ قیم نے ’’البیان فی اقسام القرآن‘‘ لکھی، مگر مولانا حمید الدین صاحب کی تحقیقات نے اپنی الگ شاہراہ نکالی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں انھوں نے ایسی دادِ  تحقیق دی کہ تیرہ سو برس میں کسی نے نہیں دی۔‘‘ (یادِرفتگان، ص ۱۱۹)

  سید سلیمان ندوی کی نظر میں مولانا فراہی کا کیا مقام تھا ؟ اس کی جھلک مولانا کی وفات پر لکھے گئے ان کے الفاظ میں نظر آتی ہے:

’’اس عہد کا ابن تیمیہ ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ وہ جس کے فضل وکمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالمِ اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں۔ جس کی مشرقی و مغربی جامعیت عہدِ حاضر کا معجزہ تھی۔ عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا گریجویٹ، زہد و ورع کی تصویر، فضل و کمال کا مجسمہ، فارسی کا بلبلِ شیراز، عربی کاشوقِ عکاظ، ایک شخصیت مفرد، لیکن ایک جہانِ دانش، ایک دنیائے معرفت، ایک کائناتِ علم، ایک گوشۂ  نشین مجمع کمال، ایک بے نوا سلطانِ ہند، علومِ ادیبہ کا یگانہ، علومِ عربیہ کا خزانہ، علومِ عقلیہ کا ناقد، علومِ دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کا واقفِ اسرار، قرآن پاک کا دانائے رموز، دنیا کی دولت سے بے نیاز، اہلِ دنیا سے  مستغنی، انسانوں کے ردوقبول اور عالم کی داد   تحسین سے بے پروا، گوشۂ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ۔ وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآنِ پاک کے فہم و تدبر اور درس و تعلیم میں محو، ہر شے سے بیگانہ اور شغل سے ناآشنا تھی۔‘‘ (یادِرفتگان، ص ۱۱۰)

  مولانا مناظر احسن گیلانی بھی مولانا فراہی کے خوشہ چینوں میں شامل ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’میرا قیام دیو بند میں کچھ تو طالب علم کی حیثیت سے رہا اور کچھ مدرسہ کی خدمت میں گزرے کہ اچانک مقادیر نے حیدر آباد پہنچا دیا۔ مولانا فراہی رحمتہ اللہ علیہ کی قرآن دانی کا شہرہ سن چکا تھا۔ خدا نے ان کی صحبت کی سعادت سے سرفراز کیا۔ اور قرآن کے چند جدید پہلو مجھ پر مولانا کی صحبت میں کھلے۔‘‘(   مولانا محمد عمران ندوی، ’’مشاہیر اہلِ علم کی محسن کتابیں‘‘ نشریاتِ اسلام کراچی، ۱۹۷۹۔ ص ۵۵)

  ایک مقام پر مولانا مناظر احسن گیلانی ہندوستانی مفسرین کے کارنامے بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’عجیب بات ہے کہ باوجود اہم ہونے کے اس وقت تک قرآن کے اس پہلو (ربطِ آیات) کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے۔ اور کوئی تفسیر اس خاص نقطۂ نظر سے ایسی نہیں لکھی گئی جسے خصوصی حسنِ قبول اہلِ علم کے حلقوں سے حاصل ہوتا، سب سے پہلے اسی سلسلہ میں جو چیز نویں صدی کی ابتداء میں پیش ہوئی وہ ہندوستان کے ایک عالم حضرت شیخ علی المہائمی کا کارنامہ ہے۔ یعنی اپنی تفسیر تبصیر الرحمٰن نامی میں علامہ مہائمی نے قرآن کے اس پہلو پر بحث کرنے میں بڑی دقتِ نظر سے کام لیا اور ان کی تفسیر کی امتیازی صفت یہی شمار ہوتی ہے۔
مگر یہ تو پچھلے زمانے کی بات ہے، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ولی الّلہی تجدید کے بعد ہندوستان نے اپنی نشاۃ ثانیہ میں جو کام اس سلسلے میں انجام دیا، میرا اشارہ حضرت الاستاذ مولانا حمید الدین فراہی رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر نظام القرآن کی طرف ہے جس میں علاوہ دوسری خوبیوں کے (یعنی بائیبل اور قرآن کے تعلقات اور ادبی مباحث) سب سے بڑی اور مشترک، خصوصیت مولانا کی اس تفسیر کی تمام حصوں میں یہی ہے کہ انھوں نے آیاتِ قرآنی میں روابط پیدا کرنے کی ایسی عدیم النظیر کوشش فرمائی ہے کہ بسااوقات صرف آیات کے یہی روابط اس کی دلیل بن جاتے ہیں کہ یہ کتاب خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے نہیں ہو سکتی۔‘‘(ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت، مولانا مناظر احسن گیلانی، ج ۲، ص ۲۷۹-  ۲۸۰)

  نواب صدر یار جنگ، مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی، سابق      وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ حیدر آباد اہلِ علم کے قدر شناس تھے لہٰذا مولانا فراہی کی صحبت سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔ مولانا فراہی کی وفات کے بعد سید سلیمان ندوی کو خط میں لکھا:

’’مجھے مولانا سے دیرینہ نیاز حاصل تھا۔ ابتدائی ملاقات کا ذریعہ علامہ شبلی مرحوم تھے۔ علی گڑھ کی پروفیسری کے زمانہ میں ملا۔ پھر حیدر آباد میں۔ علی گڑھ کے دور میں بھی تدبرِ قرآن کا شرف جاری رہا۔ روزانہ تین بجے شب سے صبح نو بجے تک اس میں وقت صرف کرتے تھے۔ ملاقات کے وقت نتائجِ تحقیق بیان فرماتے۔ اس زمانہ میں دیگر کتبِ سماوی کا اور اس کی مدد سے مطالبِ قرآن کا حل خاص کر پیشِ نظر تھا۔‘‘(یادِرفتگان، ص ۱۱۸)

دارالعلوم ندوۃ العلما کے سابق  ناظم مولانا عبد الحئی لکھنوی مولانا فراہی کے بارے میں رقم طراز ہیں:

 ’’وہ چوٹی کے علما میں سے تھے۔ علومِ ادبیہ سے پوری واقفیت رکھتے تھے۔ انشاء و ادب پر پورا عبور حاصل تھا۔ ادباء اور ادبی علوم سے انھیں بڑا لگاؤ تھا۔ فہم و فراست، ذکاوت و ذہانت، زہد و عفت، نیک نفسی و بلند ہمتی کی وہ تصویر تھے۔ لایعنی باتوں سے بہت دور، انبارِ دنیا سے بالکل بے پروا، عربی علوم میں انھیں رسوخ حاصل تھا۔ بلاغت پر گہری نظر تھی۔ جاہلی دواوین اردو عربی اسالیبِ کلام پر وہ حاوی تھے۔ صحفِ سماویہ کا بڑا وسیع مطالعہ تھا۔ یہودو نصاریٰ کی کتابوں پر اچھی نظر تھی۔ ان کی ساری دلچسپیوں اور عرق ریزیوں کا محور قرآن تھا۔ وہ قرآنِ پاک پر غور و تدبر کرتے، اس کے بحرِ معانی میں غواصی کرتے، اس کے تمام اسالیب کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ پورا قرآن ایک مرتب و منظم کلام ہے۔ ساری آیات ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں۔ چنانچہ ان کی تفسیر نظام القرآن کا اصل الاصول یہی ہے۔‘‘(مولانا عبد الحئی لکھنوی ’’نزھتہ الخواطر‘‘ ج ۸، ص ۲۲۹،  ۳۳۰،  نورِمحمد کارخانہ کتب تجارت کراچی ۱۹۸۶)

مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی سابق    امیر جماعتِ اسلامی ہند بھی مدرستہ اصلاح کے زمانۂ طالب علمی میں مولانا فراہی سے اکتسابِ فیض کرنے والوں میں شامل ہیں، لکھتے ہیں:

’’وہ تقویٰ، زہد، علم و فضل اور ان اخلاقِ حسنہ کا جامع تھے جن سے سلف صالحین متصف تھے۔ عقائد کے باب میں حریتِ فکر، علومِ عصریہ کا گہرا مطالعہ، حالاتِ حاضرہ کی مکمل خبر اور مقتضیاتِ زمانہ سے حقیقی واقفیت ایسی خصوصیات ہیں جن میں اپنی مثال وہ آپ تھے۔‘‘ ( ششماہی، ’’علوم القرآن‘‘، مضمون: مولانا فراہی    ..... حیات و خدمات‘‘، مصنف مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی، جنوری۔ جون ۱۹۹۲، ص ۹۶ علی گڑھ)

 دارالمصنفین کے قیام کے لیے علامہ شبلی کی نظرِ انتخاب مولانا فراہی ہی پر تھی، جس کا اظہار ان کے اس جملے سے ہوتا ہے کہ ’’دارالمصنفین قائم ہوا تو تمھارے سوا کون چلائے گا ۔‘‘ علامہ موصوف کی وفات کے بعدان کے ادھورے کام کی  تکمیل کے لیے مجلسِ اخوان الصفا کی بنیاد ڈالی گئی جس کے صدر مولانا حمید الدین فراہی اور ناظم سید سلمان ندوی مقرر ہوئے۔‘‘[10]

اس اولین کمیٹی نے ہندوستان کے جملہ مشاہیر سے خط کتابت کی، جو کامیاب رہی۔ چنانچہ ۲۵ مئی ۱۹۱۵کو اعظم گڑھ میں دارالمصنفین کا پہلا جلسہ ہوا جس میں حسبِ ذیل اصحاب کو رکنِ اساسی منتخب کیا گیا۔

(۱) مولانا حمید الدین، صدر (۲) سید سلیمان ندوی، ناظم (۳) مولانا مسعود علی ندوی، منیجر (۴)حامد نعمانی (۵) مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی (۶) نواب سید علی حسن خان (۷) پروفیسر شیخ عبد القادر (پونہ) (۸) علامہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال لاہور (۹) نواب سید حسین بلگرامی حیدر آباد (۱۰ )مولانا عبد اللہ عمادی (۱۱) مولانا عبد الماجد دریا بادی۔

اس مجلس نے دارالمصنفین کے قواعد و ضوابط مرتب کیے۔[11]

بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں دارالعلوم حیدر آباد کے لیے ایک ایسا نصاب تجویز کیا گیا جو مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علم میں بھی بہترین افراد تیار کرے مگر اس کو عملی شکل دینے کے لیے ایسے قائد کی ضرورت تھی جو مشرقی اور مغربی تعلیم سے آگاہ بھی ہو اور اس طرزِ تعلیم سے بھی ہم آہنگی رکھتا ہو۔  چنانچہ اس مجوزہ یونیورسٹی کے پرنسپل کی حیثیت سے مولانا فراہی کا نام تجویز ہوا۔ بالآخر جون ۱۹۱۴ میں آپ دارالعلوم منتقل ہو گئے۔[12]

یہاں پہنچ کر انھوں نے ایک اور اہم کام کی بنیاد ر  کھی جس کا ذکر سید سلیمان ندوی نے ’’حیاتِ شبلی‘‘ میں ان الفاظ میں کیا ہے:

’’مولانا حمید الدین صاحب نے اس مجوزہ درس گاہ میں ایک قدم اور آگے بڑھایا یعنی یہ کہ دینیات اور ادبیات کے علاوہ اس درس گاہ میں سارے علوم اردو میں پڑھائے جائیں یہ بالکل نیا نیا خیال تھا اس لیے بڑی مشکل سے انھوں نے ارکانِ حکومت کو اس کے لیے راضی کیا۔‘‘[13]

اس دور میں جب مستشرقین نے دینِ اسلام کو اپنے بے بنیاد اعتراضات کا ہدف بنایا تو اکابرینِ قوم نے اس فکری یلغار کے مقابلے کے لیے ایک مجلس علم الکلام کی تجویز منظور کی۔ اس کے لیے ایسے افراد کی ضرورت تھی جو قدیم فلسفہ کے ماہر، جدید تعلیم سے مانوس اور فلسفۂ جدیدہ کے اعتراضات کی تردید و تنقید کی قوت رکھتے ہوں، چنانچہ اس کے لیے ایک گروپ نامزد کیا گیا جس میں علامہ اقبال استاذ حمید الدین فراہی اور مولوی عبد القادر بی اے کا انتخاب عمل میں آیا۔[14]

عالمِ عرب میں شہرت  

مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی کے بقول مولانا حمید الدین فراہی مختلف علوم خصوصاً علومِ قرآن میں ایسے یگانہ روزگار تھے کہ کوئی ان کی گرد کو بھی نہ پا سکا۔ اسی طرح ان کے علم و فضل کی شہرت دور دراز ممالک مثلاً مصر، شام، حجاز نیز دوسرے اسلامی ممالک میں پھیل گئی ۔[15]

جب مولانا کی کتاب ’’اقسام القرآن‘‘ اور چند سورتوں کی تفسیر چھپی تو بقول سلیمان ندوی:

’’اہلِ علم نے ان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ علامہ سید رشید رضا صاحب ’’المنار‘‘ مصر، جو خود تفسیر لکھ رہے تھے، انھوں نے ان پر مداحانہ اور معترفانہ تقریظ لکھی اور  تحسین کی۔‘‘ (’’یادِ رفتگان‘‘،ص ۱۱۹)

ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی کی تحقیق کے مطابق یہ تقریظ مارچ ۱۹۰۹ کے ’’المنار‘‘ میں لکھی گئی تھی۔ ۱۹۱۳ ء میں مدینہ میں بین الاقوامی یونیورسٹی قائم کرنے کی تجویز ہوئی تو پڑھانے کے لیے جن علما کا نام تجویز ہوا ان میں علامہ شبلی اور مولانا فراہی کے نام بھی تھے۔[16]

جون ۱۹۲۷ میں جب مولانا فراہی نے حج کے لیے ارضِ مقدس کا سفر کیا تو آپ سے جن جید علما کی ملاقاتیں ہوئیں ان کے بارے میں مولانا شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں:

’’حجاز میں مقامی علماء کے علاوہ تقی الدین ہلالی (مراکشی)، مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم سے ملاقات ہوئی۔ مولانا سندھی نے اپنی مسندِ درس مولانا فراہی کے لیے خالی کر دی۔ مولانا فراہی کے درس میں مولانا حفیظ الرحمٰن سیو ہاروی مرحوم بھی شریک ہوتے تھے۔‘‘[17]

علامہ تقی الدین ہلالی المراکشی بھی مولانا فراہی سے کسب فیض کرنے والوں میں شامل ہیں۔ مولانا ابو للیث اصلاحی ندوی جنھیں مولانا فراہی اور علامہ ہلالی کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ، لکھتے ہیں:

’’دارالعلوم ندوۃ العلما میں عربی ادب کے استاد علامہ تقی الدین ہلالی صاحب ۱۳۴۲ ء میں ہندوستان آئے تو انھوں نے مولانا فراہی سے ملاقات کے لیے ان کے گاؤں کا سفر کیا۔ اس کے علاوہ شام، مصر حجاز، کے دوسرے بہت سے جلیل القدر علماء نے بھی ان سے ملاقاتیں کیں۔‘‘ (ششماہی ’’علوم القرآن‘‘ جنوری- جون ۱ٍ۹۹۲، ص ۱۰۰۔ مضمون: ’’مولانا فراہی   .... حیات و خدمات‘‘، مصنف:  ابواللیث ندوی)

علامہ تقی الدین ہلالی کو مولانا فراہی سے جو عقیدت و تعلق تھا اس کا اظہار ان کی ذاتی ڈائری کے ان اوراق سے ہوتا ہے جن میں مولانا فراہی کے عادات و اطوار کے بارے میں تفصیل سے اپنے تاثرات قلم بند کیے تھے۔ ان تاثرات کو ان کے اپنے الفاظ میں مولانا ابو اللیث اصلاحی نے مشہور عربی مجلہ ’’ایضاء‘‘ الشہریہ لکھنو نومبر ۱۹۳۳ کے شمارہ میں یعنی مولانا کی وفات کے صرف تین سال بعد اپنے مضمون میں رقم کیا۔ جس کا ترجمہ علی گڑھ کے ششماہی مجلہ ’’علوم القرآن‘‘ نے اپنی اشاعت جنوری جون ۱۹۹۲ میں شائع کیا۔ علامہ ہلالی لکھتے ہیں:

’’وہ (مولانا فراہی) علما متقدمین کے اخق کے پرتو تھے۔ ان کے اندر اولیاء اللہ کی صفات نمایاں تھیں۔ انھیں دیکھ کر علماء، متقدمین کے فضل و کمال کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ ان کے اندر اولیاء اللہ کی خوش بو محسوس کی جا سکتی تھی۔‘‘ (ص ۹۸)

مفسرین پر اثرات  

مولانا فراہی کی علمی و فکری جدوجہد کا اصل مرکز قرآن اور تفسیرِ قرآن تھا۔ اس معاملے میں آپ نے برصغیر میں پہلے سے رائج تفسیری تصورات سے ہٹ کر منفرد راہ نکالی۔ لیکن یہ روش ایسی تھی جس کے کنارے لگے شجر ہاے سایہ دار سے ہر بعد میں آنے والے مفسر نے خوشہ چینی ضرور کی۔ مولانا فراہی کے بعد اردو زبان میں چار ایسے مفسرین ہیں جنھیں علمی و عوامی سطح پر قبولیت حاصل ہوئی۔ یعنی مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی، مولانا عبد الماجد دریا آبادی، اور مولانا امین احسن اصلاحی۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ان چاروں مفسرین پر فکرِ فراہی کے واضح اثرات پائے جاتے ہیں۔ مولانا آزاد نے مولانا فراہی سے جو استفادہ کیا اس کا ذکر مولانا سید سلیمان ندوی ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’اس زمانہ (۱۹۰۵) میں مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا شبلی مرحوم کے پاس ندوہ میں مقیم تھے اور ’’الندوہ‘‘ کے مددگار ایڈیٹر تھے۔ وہ مولانا حمید الدین صاحب کی ان صحبتوں سے مستفید ہوتے رہے اور قرآنِ پاک کے درس و نظم کے نئے راستوں کے نشان پانے لگے۔ اور بالآخر ’’الہلال‘‘ کے صفحات میں اس جادہ پیمائی کے مختلف مناظر سب کی نظروں کے سامنے آئے۔‘‘ ( یادِ رفتگان، ص ۱۲۰)

مولانا آزاد کو آپ سے علمی استفادے کا کتنا شوق تھا اس کا کچھ اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شرف الدین کی  تحقیق کے مطابق مولانا فراہی ۱۹۲۴ ء میں کلکتہ گئے تو وہاں مولانا حسین احمد مدنی کے پاس مسجدِ ناخدا میں قیام کیا یہیں مولانا ابوالکلام آزاد سے ان کی ملاقات ہوئی۔ مولانا آزاد نے پھر یہاں آ کر مولانا سے استفادہ کا پروگرام بنایا مگر وہ آ نہ سکے۔[18]

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی بھی ان کی فکرِ قرآنی سے متاثر تھے۔ ذیل کی تحریر سے اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ وہ مولانا فراہی کے طرزِ تفسیر کو کتنا پسند کرتے تھے۔  

’’سلسلۂ تفاسیر (فراہی) کی بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ اس کے جس جزو کو بھی پڑھیں گے وہ آپ کو صرف اس سورہ کے معنی و مطلب سے ہی آشنا نہ کرے گا، جس کی تفسیر اس جزو میں کی گئی ہو بلکہ اس کے ساتھ ہی پورے قرآن کو سمجھنے کے لیے آپ کو بہت سی اصولی معلومات بھی دے گا، تحقیق کے نئے راستے دکھائے گا، تدبر فی القرآن کے نئے نئے دروازے کھولے گا۔‘‘ (ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ ج ۱۹ ،عدد ۴، ۵، ۶)

  عبد الماجد دریا آبادی بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے مولانا فراہی کے اثرات قبول کیے:

 ’’اس دور (۱۹۱۹ سے پہلے) دو یا تین زندہ ہستیاں بھی ایسی تھیں جن سے طبیعت رفتہ رفتہ اور بہت تدریجی ارتقاء سے سہی، لیکن بہرحال اصلاحی اثر قبول کرتی رہی، ایک اردو کے مشہور حکیم و ظریف شاعر اکبر الٰہ آبادی ہیں، دوسرے ’’کامریڈ‘‘ کے ایڈیٹر اس وقت کے مسٹر اور اس درمیان میں مولانا ہو جانے والے محمد علی، ان دو کے بعد ہلکا ہلکا اثر مولانا حمید الدین مفسرِ قرآن کا بھی پڑتا رہا۔‘‘(’’مشاہیر اہلِ علم کی محسن کتابیں‘‘، مولانا محمد عمران ندوی ص ۲۵، مجلسِ نشریات اسلام کراچی )

 مولانا امین احسن اصلاحی ’’تدبرِ قرآن‘‘ میں جگہ جگہ مولانا فراہی کے فکرِ قرآنی کے حق میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی ساری تفسیری کاوش کو مولانا کی تعلیم و تربیت ہی کا ثمرہ قرار دیتے ہیں۔ صرف ایک اقتباس ہی اس کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔

’’میری چالیس سال کی محنتوں کے نتائج کے ساتھ ساتھ اس میں میرے استاذ حمید الدین فراہی کی تیس پینتیس سال کی کوششوں کے ثمرات بھی ہیں مجھے بڑا فخر ہوتا اگر میں یہ دعویٰ کر سکتا کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی ہے سب استاذ مرحوم ہی کا افادہ ہے۔ اس لیے کہ اصل حقیقت یہی ہے لیکن میں یہ دعویٰ کرنے میں صرف اس لیے احتیاط کرتا ہوں کہ مبادا میری کوئی غلطی ان کی طرف منسوب ہو جائے۔ مولانا رحمہ اللہ سے میرے استفادے کی شکل یہ نہیں رہی ہے کہ ہر آیت سے متعلق یقین کے ساتھ ان کی رائے میرے علم میں آ گئی ہو بلکہ میں نے ان سے قرآنِ حکیم پر غور کرنے کے اصول سیکھے ہیں اور خود ان کی رہنمائی میں پورے پانچ سال ان اصولوں کا تجربہ کرنے میں بسر کیے ہیں۔ پھر انھی اصولوں کو سامنے رکھ کر آج تک کام کر رہا ہوں۔ اس اعتبار سے اگرچہ یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ یہ سب کچھ استاذ رحمہ اللہ ہی کا فیض ہے، لیکن اس میں چونکہ بلاواسطہ افادے کے ساتھ ساتھ بالواسطہ افادے کا بھی بہت بڑا حصہ ہے، اس وجہ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ اس کا جو حصہ   مستحکم اور مدلل نظر آئے اس کو استاذ مرحوم کا صدقہ سمجھیے۔ اور جو بات کمزور یا غلط نظر آئے اس کو میری کم علمی پر محمول فرمائیے۔‘‘(مقدمہ ’’تدبرِ قرآن‘‘، ج ۱ ص ۴۱ ،فاران فاؤنڈیشن لاہور  )

ـــــــــــــــــــــ

[1]۔ ’’ یادِ رفتگان‘‘، سید سلیمان ندوی ، ص ۱۱۷ مجلس نشریاتِ اسلام ، کراچی ۔ ۱۹۸۳ء۔

[2]۔ ’’ یادِ رفتگان‘‘،ص ۱۱۳ - ۱۱۴۔

[3]۔ ’’ یادِ رفتگان‘‘،ص ۸ - ۹۔

[4]۔ ’’ یادِ رفتگان‘‘،ص ۹۔

[5]۔ ’’ یادِ رفتگان‘‘،ص ۹۔

[6]۔ ’’مجموعۂ تفاسیر فراہی‘‘، ص ۹، مرتبہ مولانا امین احسن اصلاحی، فاران فاؤنڈیشن لاہور۔

[7]۔ ’’ یادِ رفتگان‘‘،ص ۹، ۱۰۔

[8]۔ (۱) ماہنامہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ فروری ۱۹۹۱۔ ص ۹۲، مضمون: ’’ترجمان القرآن... مولانا فراہی‘‘، مصنف: ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی۔

(۲) ’’حیات شبلی‘‘، سید سلیمان ندوی، ص ۲۸۸، معارف پریس، اعظم گڑھ فروری ۱۹۹۱۔

[9]۔ ’’مکاتیب شبلی‘‘ ج ۲، بنام مولانا حمید الدین۔ خط نمبر ۳۔

[10]۔ ’’حیات سلیمان‘‘، معین الدین ندوی، ص ۹۶، مطبع معارف پریس اعظم گڑھ۔

[11]۔ ’’حیات سلیمان‘‘، معین الدین ندوی، ص ۹۹، ۱۰۰ مطبع معارف پریس اعظم گڑھ۔

[12]۔ مکاتیب شبلی، ج ۲ بنام سلیمان ندوی، معارف پریس، خط ۷۱،اعظم گڑھ۔

[13]۔ ’’حیات سلیمان‘‘، سید سلیمان ندوی معارف پریس اعظم گڑھ ص ۵۱۵۔

[14]۔ ’’حیات سلیمان‘‘، سید سلیمان ندوی معارف پریس اعظم گڑھ ص ۲۸۲، ۲۸۳۔

[15]۔ ’’حیات سلیمان‘‘، سید سلیمان ندوی معارف پریس اعظم گڑھ ص ۵۸۲، ۵۸۳۔

[16]۔ ’’ترجمان القرآن‘‘.....مولانا فراہی ’’معارف‘‘،اعظم گڑھ فروری ۱۹۹۱، ص ۹۶، ۹۷۔

[17]۔ ’’ترجمان القرآن‘‘.....مولانا فراہی ’’معارف‘‘،اعظم گڑھ فروری ۱۹۹۱، ص۱۰۵۔

[18]۔ ماہنامہ ’’معارف‘‘، مضمون: ’’ترجمان القرآن.....مولانا فراہی‘‘، ص ۱۰۴، فروری ۱۹۹۱ اعظم گڑھ۔

B