میزان
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاﵧ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ. اِۨلَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّا٘ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ. (الحج ۲۲: ۳۹ - ۴۰)
’’جن سے جنگ کی جائے، انھیں جنگ کی اجازت دی گئی، اس لیے کہ ان پر ظلم ہوا، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘
یہ قرآن کی پہلی آیات ہیں جن میں مہاجرینِ صحابہ کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ اگر چاہیں تو جارحیت کے جواب میں جنگ کا اقدام کر سکتے ہیں۔ قرآن نے بتایا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنھیں بالکل بے قصور محض اس جرم پر ان کے گھروں سے نکلنے کے لیے مجبور کر دیا گیا کہ وہ اللہ ہی کو اپنا رب قرار دیتے ہیں۔ قریش کے شدائد و مظالم کی پوری فرد قراردادِ جرم، اگر غور کیجیے تو اس ایک جملے میں سمٹ آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے وطن اور گھر در کو اس وقت تک چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، جب تک اس کے لیے وطن کی سرزمین بالکل تنگ نہ کر دی جائے۔ ’بانھم ظلموا‘ کا اشارہ انھی مظالم کی طرف ہے اور قرآن نے انھی کی بنیاد پر مسلمانوں کو یہ حق دیا ہے کہ اب وہ جارحیت کے خلاف تلوار اٹھا سکتے ہیں۔
’الذین اخرجوا من دیارھم ‘کے جو الفاظ ان آیات میں آئے ہیں، ان سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت ہجرت سے پہلے نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتدار کے بغیر قتال لازماً فساد بن جاتا ہے، اس لیے انسانوں کی کسی جماعت کو اس کا حق اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا، جب تک وہ کسی خطۂ ارض میں ایک باقاعدہ اور منظم حکومت کی صورت اختیار نہ کر لیں۔ مکہ میں یہ چیز مسلمانوں کو حاصل نہیں ہوئی، لیکن ہجرت کے بعد جب میثاقِ مدینہ کے نتیجے میں یثرب کا اقتدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتقل ہو گیا تو اس کے فوراً بعد جنگ کی اجازت دے دی گئی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس وقت بھی مسلمانوں کی مدد پر پوری قدرت حاصل تھی، جب مکہ میں وہ بدترین مظالم کا ہدف بنائے گئے، مگر جنگ اس کے باوجود ممنوع رہی، یہاں تک کہ برسوں ستم جھیلنے اور ظلم اٹھانے کے بعد لوگ بالآخر گھروں سے نکلنے کے لیے مجبور ہو گئے۔ نصرتِ الٰہی کا جو ضابطہ سورۂ انفال میں بیان ہوا ہے،[3]اس کی رو سے سو کے مقابلے میں وہ اگر دس بھی ہوتے تو اس زمانے میں جنگ کا نتیجہ لازماً انھی کے حق میں نکلتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مدینہ ہجرت سے پہلے انھیں اس کی اجازت نہیں دی گئی ؟ اس سوال پر جس پہلو سے بھی غور کیجیے، یہ حقیقت بالکل مبرہن ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ اس کا سبب یقیناً وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ انبیا علیہم السلام کی پوری تاریخ اسی حقیقت کی گواہی دیتی ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں معلوم ہے کہ انھوں نے جہاد و قتال کے لیے اس وقت تک کوئی اقدام نہیں کیا، جب تک بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر اپنی حکومت کے تحت ایک آزاد علاقے میں منظم نہیں کر لیا ۔ مسیح علیہ السلام کی دعوت میں یہ مرحلہ نہیں آیا تو انھوں نے جہاد و قتال کا نام بھی نہیں لیا، دراں حالیکہ خود ان کے بقول وہ تورات کو منسوخ کرنے نہیں، بلکہ پورا کرنے کے لیے آئے تھے،[4] اور تورات کے بارے میں معلوم ہے کہ اس میں قتال کا حکم پوری صراحت کے ساتھ موجود ہے۔[5] صالح، ہود، شعیب، لوط، ابراہیم اور نوح علیہم السلام جیسے جلیل القدر رسولوں کی سرگزشت بھی یہی بتاتی ہے۔ قرآنِ مجید کی مکیات اسی بنا پر اس ذکر سے خالی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں اقتدار حاصل نہ ہوتا تو ا نجیل کی طرح قرآن میں بھی قتال کی کوئی آیت نہ ہوتی۔ چنانچہ یہ بالکل قطعی ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں آیاتِ قتال کے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ حدودوتعزیرات کی طرح ان آیات کے مخاطب بھی ان کے حکمران ہیں اور اس معاملے میں کسی اقدام کا حق انھی کو حاصل ہے۔ سورۂ حج کی زیرِ بحث آیات میں ’اذن‘ کا لفظ اسی حقیقت پر دلت کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قتال سے متعلق پہلا مسئلہ جوازوعدمِ جواز کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قریش کی طرف سے ظلم و عدوان کے باوجود زمانۂ رسالت میں سیاسی اقتدار کی جس شرط کے پورا ہو جانے کے بعد مسلمانوں کو اس کی اجازت دی، اس کے بغیر یہ اب بھی کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہو سکتا[6] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر فرمایا ہے:
انما الامام جنة، یقاتل من ورائه و یتقی به.(بخاری، رقم ۲۹۵۷ )
’’مسلمانوں کا حکمران ان کی سپر ہے، قتال اسی کے پیچھے رہ کر کیا جاتا ہے اور لوگ اپنے لیے اُسی کی آڑ پکڑتے ہیں ۔‘‘
فقہا کا موقف بھی اس معاملے میں یہی ہے۔ ’’فقہ السنتہ‘‘ میں ہے:
النوع الثالث من الفروض الکفائیة ما یشترط فیه الحاکم، مثل، الجھاد واقامة الحدود، فان ھذہ من حق الحاکم وحدہ، ولیس لای فرد ان یقیم الحد علی غیرہ. (السید السابق، ج ۳، ص ۱۰)
’’کفایہ فرائض کی تیسری قسم وہ ہے جس میں حکمران کا ہونا لازم ہے، جیسے جہاد اور اقامتِ حدود، اس لیے کہ اس کا حق تنہا حکمران کو حاصل ہے ۔ اس کے سوا کوئی شخص بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ کسی دوسرے پر حد قائم کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔‘‘
(باقی)
ـــــــــــــــــــــ
[3]۔ ۸: ۶۵ - ۶۶۔
[4]۔ متی باب ۵، آیات ۱۷- ۱۸۔
[5]۔ استثنا باب ۲۰، آیات ۱- ۲۰۔
۶۔ اس زمانے میں بعض لوگ اس کی تردید میں صلح حدیبیہ کے بعد قریش کے خلاف ابو بصیر رضی اللہ عنہ کی غارت گری سے استدل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ محض علم و نظر کا افلاس ہے۔ قرآنِ مجید نے سورۂ انفال (۸) کی آیت ۷۲ میں پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جو لوگ ہجرت کر کے مدینہ منتقل نہیں ہو سکے، ان کے کسی معاملے کی کوئی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او ریاستِ مدینہ کے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی۔ پھر یہی نہیں، بخاری کی روایت (رقم ۲۷۳۱) کے مطابق خود حضور نے ابو بصیر کے ان اقدامات پر یہ تبصرہ فرمایا ہے کہ ’ویل امه مسعر حرب لو کان له احد‘ (اس کی ماں پر آفت آئے، اسے کچھ ساتھی مل گئے تو جنگ کی آگ بھڑکا کر رہے گا)۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان اقدامات کے بارے میں آپ کی رائے کیا تھی۔