HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

سوال کا جواب

(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۶۶)

 

عن أبی ھریرة رضی اﷲ عنه قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم لا یزالون الناس یتساءلون حتی یقال: ھذا خلق اﷲ الخلق فمن خلق اﷲ؟ فمن وجد من ذلک شیئا. فلیقل: آمنت باﷲ و رسله.
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگ سوالات پوچھتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں : ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ، مگر یہ اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ۔ چنانچہ تم میں سے جس کے ساتھ اس طرح کامعاملہ پیش آئے تو وہ کہہ دے : میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ۔‘‘

لغوی مباحث

ھذا: سیاق میں موجود یا کسی معہود بات کے لیے بولتے ہیں ۔ پوری بات یوں ہے : ’ھذا کذا‘ یوں تو ہے۔

متون

اس روایت کے متون میں کچھ لفظی فرق ہیں ۔ مثلاً ، بعض روایات میں ’آمنت باﷲ‘کے ساتھ ’ورسله‘ کا لفظ نہیں ہے ۔ایک روایت میں ’یتساءلون‘ کی جگہ ’تستفتون‘ آیا ہے اور آخر میں تعوذ کا طریقہ بھی بیان نہیں ہوا ۔

بعض روایات میں ابتدائی حصہ تو اس سے ملتا جلتا ہے ، لیکن تعوذ بہت مختلف ہے ۔ ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعوذ سکھا یا تھا : ’ فقولوا: اﷲ أحد اﷲ الصمد لم یلد ولم یولد و لم یکن له کفوا أحد، ثم لیتفل عن یسارہ ثلاثا و لیستعذ من الشیطان‘، ’پھر (اس موقع پر کہو) اللہ ایک ہے اللہ سب کا سہارا ہے، نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے ۔ پھر دائیں طرف تین مرتبہ تھوکے اور شیطان سے پناہ مانگے‘۔ جبکہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعوذ خود ابوہریرہ نے اپنے طور پر پڑھا تھا۔ روایت کے الفاظ ہیں :

عن أبی ھریرة رضی اﷲ عنه قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم لا یزالون.....الخ. فقال فواﷲ إنی جالس یوما إذ قال لی رجل من أھل العراق ھذا اﷲ خلقنا. فمن خلق اﷲ عزوجل قال فجعلت أصبعی فی أذنی ثم صحت فقلت صدق اﷲ و رسوله اﷲ أحد .....الخ.(احمد ، مسند ابو ہریرہ)
  ’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (پہلے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (مذکورہ روایت کہ ) لوگ پوچھتے رہیں گے .....بیان کی ۔ پھر بتایا کہ بخدا میں ایک دن بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عراقی نے مجھ سے پوچھا:یہ اللہ ہے جس نے ہمیں تخلیق کیا ، پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ میں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں ۔ طبیعت میں ذرا ٹھیراؤ آیاتو میں نے کہا :اللہ اور اس کے رسول کی بات سچی ہو ئی ۔ اللہ ایک ہے.....‘‘

سورۂ اخلاص سے ماخوذ اس جواب پر مبنی یہ  دونوں روایتیں اگرچہ بخاری و مسلم میں نہیں ہیں ،لیکن یہ جواب معنوی اعتبار سے زیرِ بحث سوال  کے لیے بہت موزوں ہے ۔ لہٰذا قرینِ قیاس یہی ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے تعلیم کیا ہے ۔

معنی

یہ روایت اپنے مفہوم و معنی میں اوپر والی روایت سے صرف اسی پہلو سے مختلف ہے کہ اس میں تعوذ کے بجائے ایمان کی تذکیر کا راستہ بتایا گیا ہے ۔لیکن حقیقت کے اعتبار سے پہلی روایت سے مختلف بات نہیں ہے۔ شیطان سے پناہ مانگنے کا جذبہ ایمان کی تذکیر کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا ۔ پہلی روایت میں یہ بات ایک مضمر کی حیثیت سے موجود تھی ،یہاں اسے الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے ۔

قرآنِ مجید میں بھی شیطانی وساوس سے مقابلے کے لیے یاداور تعوذکا یہ تعلق پوری وضاحت سے بیان ہواہے ۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :

وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِﵧ اِنَّهٗ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ. اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ.(الاعراف ۷ :۲۰۰- ۲۰۱)
  ’’ جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی شیطانی چھوت لاحق ہونے لگتی ہے ، وہ خدا کا دھیان کرتے ہیں اور دفعۃً ان کے دل روشن ہو جاتے ہیں۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی وضاحت میں لکھا ہے :

’’فرمایا کہ جو لوگ جہالت کے بجائے تقوی کی روش اختیار کرتے ہیں جب کبھی انھیں جاہلوں کی جہالت اور شیاطین کی شیطنت کا جھٹکا لگتا ہے تو وہ اپنے رب کو یاد کرتے ہیں جس سے فوراً ان کا باطن روشن ہو جاتا ہے اوراشرار و معاندین کی ساری خاک بازی کے باوجود ان کی راہ ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے پاتی یہ گو یا اس استعاذہ کا طریقہ اور فائدہ بتا دیا گیا ہے جس کی اوپر والی آیت میں ہدایت ہوئی ہے کہ خدا کی پناہ میں داخل ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کو یاد کرے ۔ یہ چیز دل کے اندر ایسی قوت اور بصیرت پیدا کر دے گی کہ دفعۃً آنکھوں کے آگے سارا غبار چھٹ جائے گا ۔ ‘‘(تدبرِ قرآن ، ج ۳، ص ۴۱۲ ) 

بعض روایت میں ایمان کی تذکیر اور تعوذ کے کلمات یکجا بھی روایت ہوئے ہیں ۔

کتابیات

مسلم ، کتاب الایمان ، باب ۶۰۔ ابوداؤد ، کتاب السنۃ ، باب۱۹۔ مسند احمد ، مسند ابوہریرہ۔

___________

B