HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

غلط سوال

(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۶۵)

 

عن أبی هریر ة رضی اللہ عنه قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: یأتی الشیطان أحدکم، فیقول: من خلق کذا؟ من خلق کذا؟ حتی یقول: من خلق ربک؟ فإذا بلغه، فلیستعذ باﷲ و لینته.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کے پاس شیطان آتا ہے ۔ پھر وہ سوال کرتا ہے : اس کو کس نے پیدا کیا ؟ اس کو کس نے پیدا کیا ؟ یہاں تک کہ وہ یہ بھی پوچھتا ہے : تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ جب وہ اس بات تک پہنچے تو اللہ کی پناہ مانگو ۔‘‘

لغوی مباحث

فإذا بلغه: اس جملے کودو صورتوں میں کھولا جا سکتا ہے ۔ ایک یہ کہ ’فإذا بلغ أحدکم ھذا القول‘ دوسری یہ کہ ’فإذا بلغ الشیطان ھذا السؤال‘ ۔ سیاق و سباق کے مطابق دوسری صورت زیادہ موزوں ہے۔

متون

اس روایت کے متون میں فرق بھی محض لفظی ہیں ۔ مثلاً ایک روایت میں ’یأتی الشیطان أحدکم‘ کی جگہ ’یأتی العبد الشیطان‘ آیا ہے ۔ ایک دوسری روایت میں سوالات ’من خلق کذا و کذا‘کے مختصر اسلوب کے بجائے  ’ من خلق السماء؟  فیقول:  اﷲ عز و جل. فیقول:  من خلق الارض؟  فیقول: من خلق اﷲ‘کے تفصیلی اسلوب میں ہیں ۔اسی طرح روایت کے آخر میں  ’من وجد‘کے موقع پر ’فأذا أحس‘اور ’فلیستعذ باﷲ و لینته‘کے بدلے ’فلیقل آمنت باﷲ و برسله‘ الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔

مسند احمد میں اسی مضمون کی ایک دوسری روایت بیان ہوئی ہے ، اس روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب کوئی یہ سوال پوچھے تو اسے کیا جواب دیا جائے ۔ روایت کے الفاظ ہیں :

عن أبی ھریرة رضی اللہ عنه قال: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم یقول: لیسئلنکم الناس عن کل شئ حتی یقولوا: اﷲ خلق کل شئ فمن خلقه؟.....قال جعفر: بلغنی أن النبی صلی اﷲ علیه وسلم قال: إذا سألکم الناس عن ھذا، فقولوا: اﷲ کان قبل کل شئ واﷲ خلق کل شئ و اللہ کائن بعد کل شئ.(احمد ، مسند ابو ہریرہ)
  ’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ تم سے ہر چیز کے بارے میں پوچھیں گے ۔ یہاں تک کہ وہ یہ سوال بھی کریں گے کہ اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے ،پھر اس کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ ……جعفر کہتے  ہیں : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب لوگ تم سے اس کے بارے میں سوال کریں تو کہنا : اللہ ہر چیز سے پہلے تھا ۔ اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔ اور ہر چیز کے بعد وہی ہو گا ۔ ‘‘

اس روایت اور اس مضمون کی حامل دوسری روایات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو مختلف مواقع پر بیان کیا ہے ، تاکہ مسلمان ان سوالات کے شر پر متنبہ رہیں ۔

معنی

اللہ تعالیٰ کا خالق کون ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس سے ہر آدمی کو سابقہ پیش آتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں ایک بات تو یہ بیان کی ہے کہ اس سوال کا القا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ۔ اور وہ اس سوال تک پہنچانے میں ایک خاص ترتیب اختیار کرتا ہے ۔ دوسری بات یہ واضح کی ہے کہ جب تمھیں اس سوال سے سابقہ پیش آئے تو اس کے شر سے بچنے کا راستہ کیا ہے ۔

جب اس سوال کا باعث شیطان ہے تو یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ یہ سوال اپنے مصدرو منبع کے اعتبار سے بے اصل ہے ۔یعنی اس سوال کے پیچھے کوئی حقیقی علمی اشکال موجود نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں اس معاملے میں چند بنیادی باتیں بڑی صراحت کے ساتھ بتا دی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے مثل اور اس سے مشابہ کوئی شے موجود نہیں ہے ۔ اس کی ذات کو مخلوقات کے زمرے میں داخل کرنا قرآنِ مجید کی آیت ’لیس کمثله شئ‘(الشوریٰ ۴۲ :۱۱)کے واضح طور پر منافی ہے ۔ اسی طرح سورۂ اخلاص میں ’لم یلد ولم یولد‘ ، ’نہ وہ کسی کا باپ ہے اورنہ وہ کسی کا بیٹا‘( ۱۱۲ :۳)کے الفاظ میں بھی اس سوال کے ایک پہلو کا جواب دے دیا گیا ۔مزید دیکھیے ، ’ھوالاول و الآخر و الظـٰھر و الباطن‘، ’ وہ اول و آخر اور ظاہر و باطن ہے ‘  (الحدید ۵۷ : ۳)کا مفہوم بھی اس کے سواکچھ نہیں کہ مخلوقات کے برعکس اللہ تعالیٰ زمان و مکان سے بالا تر ہستی ہیں ۔قرآنِ مجید کی ان واضح نصوص کے ہوتے ہوئے یہ سوال اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے۔

اس روایت کا اصل مدعااس شیطانی وسوسے کے مقابلے کی راہ بتانا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے کہ جب شیطان اس سوال تک پہنچے تو اس سوال در سوال کے سلسلے کو فوری طور پر روک دینا چاہیے اور شیطانی وسوسوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے ۔

ہم اوپر والی روایت کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں کہ قرآنِ مجید میں شیطان کی در اندازیوں سے واضح طور پر متنبہ کیا گیا ہے ۔ شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لیے تعوذ کی تلقین اور تعوذ کے الفاظ بھی تلقین کیے گیے ہیں۔ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص نوعیت کے وسو سے کا ذکر کر کے قرآنِ مجید ہی کے تعلیم کیے ہوئے طریقے سے استفادے کی نصیحت کی ہے ۔

کتابیات

بخاری ، کتاب بدء الخلق ، باب ۱۸۔ مسلم ، کتاب الایمان ، باب ۶۰۔ ابوداؤد ، کتاب السنۃ ، باب۱۹۔ مسند احمد ، مسند ابوہریرہ۔

___________

B