(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۶۴)
عن أبی ھریرة رضی اﷲ قال: جاء ناس من أصحاب رسول اﷲ إلی النبی صلی اﷲ علیه وسلم. فسألوہ: إنا نجد فی أنفسنا ما یتعاظم أحدنا أن یتکلم به. قال: أو قد وجدتموہ؟ قالوا: نعم. قال ذاک صریح الایمان.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگ آئے اور انھوں نے پوچھا : ہم اپنے دل میں ایسے خیالات پاتے ہیں جنھیں زبان پر لانا ہمیں بڑی بات لگتا ہے ۔ آپ نے پوچھا : کیا تم ایسا ہی پاتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا : یہ تو واضح ایمان ہے ۔‘‘
یتعاظم: کسی چیز کو بڑا دیکھنا ۔ اس سے یہاں سوالات کا دینی اعتبار سے اچھانہ ہونا مراد ہے ۔
صریح الایمان: یہ صفت کی موصوف کی طرف اضافت ہے ۔ یعنی یہ پختہ ایمان کی علامت ہے ۔
اس روایت کے دوسرے طرق لفظی فرق کے ساتھ ایک ہی مضمون کے حامل ہیں ۔ یعنی دوسرے متون مختلف ہونے کے باوجود کسی معنوی اضافے یا کمی کو بیان نہیں کرتے ۔ بہرحال ایک لفظی فرق یہ ہے کہ زیادہ متون میں سوال ایک جماعت کے سوال کے طور پر نقل کیا گیا ہے ۔ جبکہ مسند احمد کے ایک متن کے مطابق آپ کے پاس آنے والا آدمی ایک ہی تھا اور اسی نے یہ سوال کیا تھا ۔ دوسرا فرق سوال کے الفاظ کا ہے ۔ مثلاً ایک روایت میں سوال کے الفاظ یہ ہیں : ’نجد فی أنفسنا الشئ نعظم أن نتکلم به أو الکلام به ما نحب أن لنا و أنا تکلمنا به‘، ’ہم اپنے دل میں وہ چیز پاتے جسے بیان کرنا ہمیں ایک بڑی بات لگتا ہے۔ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ اس کی نسبت ہم سے ہو یا ہم اسے بیان کریں‘۔دوسری روایت میں یہی سوال ایک اور اسلوب میں ہے :’ إنی أحدث بنفسی لأن أخر من السماء أحب إلی من أن نتکلم به‘ ، ’میں دل میں وہ باتیں کرتا ہوں کہ مجھے انھیں بیان کرنے سے اپنا آسمان سے گرنا زیادہ پسند ہو گا‘یہ اور اس سے ملتے جلتے اور جملے بھی روایت ہوئے۔ لیکن ان سب کا مدعاا یک ہی ہے ۔
پہلا سوال یہ ہے کہ دل میں آنے والے خیالات کی نوعیت کیا ہے ۔ روایت کے متون اس معاملے کو واضح نہیں کرتے ۔ مسلم نے اس روایت کو لیاہے اور اسے اس باب میں درج کیا ہے جس کا عنوان : ’باب بیان الوسوسة فی الایمان...‘ہے ۔ اس باب میں انھوں نے خدا کی ذات کے بارے میں اٹھنے والے وسوسوں سے متعلق احادیث جمع کی ہیں ۔اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک اس روایت میں بیان کیا گیا سوال ذات ِ خداوندی کے بارے میں پیدا ہونے والے وسوسوں ہی سے متعلق ہے ۔ شارحین نے بھی اسے اسی معنی میں لیا ہے ۔اس کی و جہ غالباً اس روایت کا آخری جملہ ہے ، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان وسوسوں پر پریشان ہونے کو ’صریح الایمان‘ قرار دینا ، اس بات کا قرینہ ہے کہ وسوسے ایمان ہی سے متعلق تھے ۔یہ بات اس روایت کو صرف ایک نوعیت کے وسوسوں تک محدود کرنے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ ہر طرح کے خیالات جو دین ، ایمان اور اخلاق کے منافی ہوں ، اس روایت میں بیان کیے گئے اصول کے تحت ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ آدمی ان کے آنے پر اپنے عقیدہ و عمل کی صحت کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے تو یہ اس کے ایمان کے فعال ہونے کی دلیل ہے اور اسی پہلو کو بیان کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح الایمان کی تعبیر اختیار کی ہے ۔
اس روایت سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ غلط اور برے خیالات پر گرفت نہیں کی جائے گی ۔ دوسرے یہ کہ غلطی کو غلطی کی حیثیت سے دیکھنا ضروری ہے ۔ پہلی بات سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ غلط خیالات سے چھٹکارا پانے کی خواہش اچھی ہے ،لیکن ان سے بالکلیہ نجات کو ہدف بنا لینا ایک غیر فطری ہدف ہے ۔ اور دوسری بات سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ خیالات ہی کی سطح پر کیوں نہ ہو ، غلطی بہرحال غلطی ہے اس کے معاملے میں بے پروائی موزوں نہیں ۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ خیالات ہی خواہشات میں ڈھلتے اور خواہشات ہی ارادوں اور ارادے عمل کو وجود بخشتے ہیں ۔
قرآنِ مجید میں یہ مضمون براہِ راست زیرِ بحث نہیں آیا ،لیکن دونکات اس روایت میں بیان کیے گیے مضمون سے متعلق ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل چیز دل کا تقوی اوردل کی طہارت ہے ، چنانچہ واضح الفاظ میں شیطانی وساوس پر متنبہ رہنے کی تاکید اور ایسے موقع پر اللہ سے پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ برائی کے ظاہری اور باطنی مظاہر سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ باطنی مظاہر سے جہاں برائی کی طرف لے جانے والا ماحول یا مقدمات یعنی برائی کی طرف بڑھانے والے اعمال مراد ہیں ، وہیں اس سے برے خیالات بھی مراد ہیں ۔ ظاہر ہے ، جو بندۂ مومن یہ دونوں چیزیں پیشِ نظر رکھتا ہے ، وہ ’ذلک صریح الایمان‘کے اطمینان بخش جواب کا پوری طرح اہل ہے اور جو شخص اپنی باطنی طہارت کے معاملے میں بے پروا ہے ۔ اس نے اپنی باگیں شیطان کے ہاتھ میں دے دی ہیں اور وہ کسی بھی برائی میں پڑ سکتا ہے ۔
اس روایت سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو صرف دین و شریعت کے اصول و فروع ہی کی تعلیم نہیں دیتے تھے ، بلکہ ان کو درپیش عملی اور نفسیاتی مسائل میں بھی ان کی رہنمائی فرماتے تھے ۔
مسلم ، کتاب الایمان ، باب ۶۰۔ابوداؤد ، کتاب الادب ، باب ۱۱۸۔ مسند احمد مسند ابوہریرۃ۔
___________