البیان
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِﵧ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّهٗ٘ اِلٰي عَذَابِ النَّارِﵧ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ١٢٦
اور یاد کرو، جب ابراہیم نے دعا کی کہ اے پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا دے[310] اور اِس کے لوگوں میں سے جو اللہ اور قیامت کو ماننے والے ہوں، [311] اُنھیں پیداوار[312] کی روزی عطا فرما۔[313] (پروردگار نے) فرمایا: اور جو منکر ہیں، ( اِن چیزوں سے) چند روز کے لیے فائدہ اٹھانے کی مہلت تو میں اُنھیں بھی دوں گا، [314] پھر دوزخ کے عذاب میں پکڑ بلاؤں گا اور وہ بہت ہی برُا ٹھکانا ہے۔۱۲۶
وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُﵧ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاﵧ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١٢٧
اور یاد کرو، جب ابراہیم اور اسمٰعیل (میرے) اِس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔ (اُس وقت اُن کے لبوں پر التجا تھی کہ) پروردگار، تو ہماری طرف سے (یہ دعا) قبول فرما۔[315] اِس میں شبہ نہیں کہ تو ہی سننے والا ہے، جاننے والا ہے۔[316] ۱۲۷
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا٘ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَﵣ وَاَرِنَامَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَاﵐ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ١٢٨ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْﵧ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١٢٩
پروردگار، اور ہم دونوں کو تو اپنا فرماں بردار بنا[317] اور ہماری اولاد سے بھی اپنی ایک فرماں بردار امت[318] اٹھا اور ہم کو ہماری عبادت کے طریقے بتا[319] اور ہماری توبہ قبول فرما۔[320] اِس میں شبہ نہیں کہ تو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا، (اپنے بندوں پر) رحم فرمانے والا ہے۔ پروردگار، اور اُنھی میں سے تو اُن کے اندر ایک رسول[321] اٹھا جو تیری آیِتیں اُنھیں سنائے[322] اور اُنھیں قانون اور حکمت[323] سکھائے اور (اِس طرح)، اُنھیں پاکیزہ بنائے۔[324] اِس میں شبہ نہیں کہ تو بڑا ہی زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔[325] ۱۲۸ - ۱۲۹
وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗﵧ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَاﵐ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ ١٣٠ اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗ٘ اَسْلِمْﶈ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٣١
اور ابراہیم کے دین سے کون ہے جو انحراف کرے، ہاں، وہی جو اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کر لے۔[326] ہم نے اُس کو دنیا میں بھی اپنے لیے خاص کیا،[327] اور قیامت میں بھی وہ صالحین میں سے ہو گا۔ (وہی ابراہیم کہ) جب اس کے پروردگار نے اسے حکم دیا کہ اپنے آپ کو حوالے کر دو۔ اُس نے فوراً کہا: میں نے اپنے آپ کو پروردگارِ عالم کے حوالے کر دیا۔[328] ۱۳۰ - ۱۳۱
وَوَصّٰي بِهَا٘ اِبْرٰهٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُﵧ يٰبَنِيَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰي لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ١٣٢ﶠ
اور اسی دین کی نصیحت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو کی تھی اور اِسی کی نصیحت یعقوب نے کی تھی۔[329] (اُس نے کہا تھا کہ) میرے بچو، اللہ نے یہی دین[330] تمھارے لیے منتخب فرمایا ہے، اِس لیے اب موت کے وقت تک تمھیں ہر حال میں مسلمان ہی رہنا ہے۔[331] ۱۳۲
[310]۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی ذریت کو مکہ میں آباد کیا تو اُس وقت یہ شہر نہ صرف یہ کہ تہذیب و تمدن اور آبادی و زرخیزی سے بالکل محروم تھا، بلکہ وحشی اور خانہ بدوش قبیلوں کی لوٹ مار سے بھی محفوظ نہ تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اسی بناپر یہ دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح قبول فرمایا کہ اولاً، اس سرزمین میں لڑنا بھڑنا اور جنگ و جدال یک قلم ممنوع قرار دیا۔ ثانیاً، اس کی طرف سفر کے لیے چار مہینے حرام قرار دیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے گردوپیش میں خطرناک سے خطرناک علاقے بھی ان مہینوں میں بالکل پرامن ہو گئے۔ ثالثاً، اس میں اپنے گھر کو ایسی ہیبت عطا فرمائی کہ اس پر باہر سے اول تو کسی نے حملہ آور ہونے کی جرأت ہی نہیں کی، لیکن اگر کبھی ایسا ہوا تو اس کے باشندوں کی اس طرح مدد کی کہ ان کی معمولی مزاحمت پر آسمان سے ان کے لیے اپنے جنودِ قاہرہ بھیج کر اس کے دشمنوں کو بالکل پامال کردیا۔
[311]۔ اس سے پہلے بیان ہواہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب امامت کے متعلق پوچھا تھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں یہ صاف جواب دیا گیا تھا کہ یہ منصب تمھاری اولاد میں سے صرف صالحین کے لیے ہے۔ چنانچہ اسی کے پیشِ نظر تسلیم ورضا کے اس پیکرنے جب رزق کی دعاکے لیے ہاتھ اٹھائے تو اس میں یہ قید بھی لگا دی کہ میں یہ درخواست صرف اپنی اولاد کے اہلِ ایمان کے لیے کر رہا ہوں۔
[312]۔ اصل میں ’من الثمرات‘ کے الفاظ آئے ہیں عربی زبان میں ’ثمرات‘ کا لفظ جس طرح پھلوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح غلہ ، جنس ، پھل اور اس طرح کی دوسری چیزوں کو شامل کر کے اس سے عام اور وسیع مفہوم میں بھی آتا ہے۔ سیدنا ابراہیم نے یہ دعا چونکہ بدوی زندگی کی بے اطمینانیوں کے مقابلے میں حضری زندگی کے سکون اور اطمینان سے بہرہ مند ہونے کے لیے کی تھی، اس لیے ہم نے اسے یہاں اس کے اسی وسیع مفہوم میں لیا ہے اور اس کا ترجمہ پھلوں کے بجائے پیداوار کے لفظ سے کیا ہے۔
[313]۔ یہ دعا بھی اس طرح پوری ہوئی کہ حج و عمرہ کی وجہ سے لوگوں کا رجوع اس سر زمین کی طرف بہت بڑھ گیا۔ اس سے تجارت اور کاروبار کو فروغ ہوا۔ باہر سے ہر قسم کی چیزیں اس شہر کے بازاروں میں پہنچنے لگیں۔ پھر حرم کی تولیت کے باعث قریش کو ایسی عزت حاصل ہوئی کہ اُن کے قافلے بغیر کسی تعرض کے دوسرے ملکوں میں جانے لگے۔ اس سے گلہ بانی اور شکار ہی پر گزر بسر کرنے والوں کی معیشت میں غیر معمولی تبدیلی آئی۔ چنانچہ ہر طرح کی اجناس اور پھل وغیرہ اس شہر میں فراوانی کے ساتھ میسر ہو گئے۔
[314]۔ سیدنا ابراہیم نے روزی کے لیے ایمان کی جو شرط اپنی دعا میں لگا دی تھی، یہ اس کے متعلق واضح فرمایا ہے کہ امامت اور معیشت کے معاملات کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ روزی تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ماننے والوں کو بھی دیتا ہے اور نہ ماننے والوں کو بھی۔ دینی امامت، البتہ صالحین کے لیے خاص ہے اور وہ ہمیشہ ایمان اور عملِ صالح کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔
[315]۔ اصل میں ’ربنا تقبل منا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ جملہ، ہمارے نزدیک اس پوری دعا کے لیے بطورِتمہید ہے جو آگے آ رہی ہے، لہٰذا ’تقبل ‘کا یہ مفعول ہم نے ترجمے میں کھول دیا ہے۔
[316]۔ یہ اللہ تعالی کی ان دو صفتوں کا حوالہ ہے جن پر اعتماد کر کے بندہ اپنے پروردگار سے دعا کرتا ہے۔ اس میں حصر کا اسلوب بندے کی طرف سے کامل سپردگی اور کامل اعتماد کے اظہار کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔
[317]۔ اصل الفاظ ہیں: ’ربنا واجعلنا مسلمین لک‘دعا کی ابتدا میں باپ بیٹے دونوں کی طرف سے اپنے مسلم بنائے جانے کی اس التجا سے جو حقیقتیں روشنی میں آتی ہیں، وہ استاذ امام نے اپنی تفسیر ’’تدبرِ قرآن‘‘ میں اس طرح واضح فرمائی ہیں:
’’ایک تویہ کہ ایمان و اسلام اور طلبِ خشیت و تقویٰ کی دعاؤں میں انسان سب سے پہلے اپنے آپ کو سامنے رکھے، یہ چیزیں ایسی نہیں جن سے کوئی بھی مستغنی ہو سکے، اگرچہ وہ کتنا ہی عالی مقام ہو۔ دوسری یہ کہ اسلام کے درجات و مراتب کی کوئی حدونہایت نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل جیسے مسلم کامل بھی، جن کے ذریعے سے دنیا اسلام کے نام اور اس کی روح سے آشنا ہوئی، اپنے مسلم بنائے جانے کے لیے دعا کرتے تھے۔ تیسری حقیقت جو خاص اس موقع سے تعلق رکھنے والی اور نظمِ کلام کو کھولنے والی ہے، یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اورحضرت ا سمٰعیل نے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ تار یخی موقع پر جب کہ وہ اپنے مشن کا مرکز تعمیر کر رہے تھے، اپنے لیے جس چیز کی دعا کی تھی، مسلم بنائے جانے کی تھی نہ کہ یہودی یا نصرانی بنائے جانے کی۔‘‘ (ج ۱ ص ۳۳۸)
[318]۔ اس دعا کے موقع پر سیدنا ابراہیم کے ساتھ ان کی ذریت میں سے صرف اسمٰعیل علیہ السلام ہی تھے، اس لیے بالبداہت واضح ہے کہ یہ انھی کی اولاد سے متعلق تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کی دعوت کے نتیجے میں جماعتِ صحابہ کے ظہور سے یہ دعا حرف بہ حرف پوری ہو گئی۔ بائیبل کی کتابِ پیدایش (۲۲: ۱۸) میں فرزند کی قربانی کے بعد یہ الفاظ کہ ’’اور تیری نسل کے وسیلے سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی‘‘، اسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔
[319]۔ اصل الفاظ ہیں: ’ارنا مناسکنا‘۔ان میں ’ارنا‘ کے معنی ’ہمیں دکھا‘ کے ہیں۔ سیدنا ابراہیم نے یہ لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ عبادات سے متعلق جو سنن انبیا علیہم السلام نے قائم کی ہیں، ان کی تعلیم بالعموم اس طرح دی گئی کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان پر عمل کر کے رؤیا وغیرہ میں انھیں دکھا دیا۔ ’مناسک‘ کا لفظ اس آیت میں جمع ہے جس کا واحد ’منسک‘ ہے۔ اس کے معنی قربانی کے طریقہ کے بھی ہیں اور قربان گاہ کے بھی۔ اسی سے عام ہو کر یہ حج و عمرہ کے تمام مراسم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
[320]۔ اصل میں ’تب علینا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’علیٰ‘ کا صلہ دلیل ہے کہ رحمت کا مفہوم یہاں متضمن ہے۔ قرآن نے آگے ’انک انت التواب الرحیم‘کہہ کر اسے کھول دیا ہے۔
[321]۔ اس دعا میں رسول کا لفظ اہلِ کتاب، بالخصوص یہود کو یہ بتاتا ہے کہ سیدنا ابراہیم نے بنی اسمٰعیل میں جس نبی کی بعثت کے لیے دعا کی تھی، یہ وہی ہیں جن کا تعارف سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے تورات کی کتابِ استثنا (۱۸: ۱۵) میں ’میری مانند‘ کے الفاظ سے کرایا ہے۔ موسی علیہ السلام کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز تھے، لہٰذا ابراہیم علیہ السلام کی دعا بھی ایک صاحبِ رسالت نبی کے لیے تھی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے مطابق ایک رسول کی حیثیت سے مبعوث ہوئے ہیں۔
[322]۔ آیت عربی زبان میں اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز پر دلیل لائی جائے۔ قرآن کا ہر جملہ کسی نہ کسی حقیقت کے لیے دلیل و برہان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے آیت کا لفظ اسی رعایت سے اختیار کیا گیا ہے۔ آیتیں سنانے کے لیے اصل میں ’یتلوا علیھم‘کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اس زور و اختیار کو ظاہر کرتے ہیں جس کے ساتھ اللہ کا رسول اس کے سفیر کی حیثیت سے لوگوں کو اس کا فرمان پڑھ کر سناتا ہے اور پھر خدا کی عدالت بن کر اس کا فیصلہ ان پر نافذ کر دیتا ہے۔
[323]۔ اصل میں ’یعلمھم الکتاب والحکمة‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ’الکتاب‘ قرآن کی زبان میں جس طرح خط اور کتاب کے معنی میں آتا ہے، اسی طرح قانون کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ قرآن کے نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور ’الحکمة‘ جب اس طرح عطف ہو کر آتے ہیں تو ’الکتاب‘ سے شریعت اور ’الحکمة‘ سے دین کی حقیقت اور ایمان و اخلاق کے مباحث مراد ہوتے ہیں۔ یہاں بھی یہی صورت ہے اور اس سے آنے والے پیغمبر کی یہ خصوصیت واضح ہوتی ہے کہ اس کی دعوت قانون و حکمت دونوں کی جامع ہو گی۔ اس کے لیے ’یعلمھم ‘ کا فعل بالکل اسی طرح آیا ہے جس طرح ’الرحمٰن، علم القرآن ‘(۵۵: ۱- ۲) میں ہے، یعنی ان کے اندر وہ رسول اٹھا جو انھیں قانون و حکمت کا علم دے۔
[324]۔ اس مفہوم کے لیے عربی زبان کا جو لفظ قرآن نے اختیار کیا ہے، وہ تزکیہ ہے۔ اس کے معنی کسی چیز کو آیشوں سے پاک کرنے کے بھی ہیں اور نشوونما دینے کے بھی۔ انبیا علیہم السلام انسانوں کو جس قانون و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اس سے یہ دونوں ہی چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ سیدنا ابراہیم کا مدعا یہ ہے کہ آنے والا انھیں وہ قانون اور وہ حکمت سکھائے جس سے ان کا علم و عمل تمام آلایشوں سے پاک ہو کر صحیح سمت میں نشو ونما پانے لگے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو تزکیہ قانون و حکمت سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ انھی دونوں کا حاصل ہے جسے قرآن نے عربیت کے اسلوب پر بیان کی واؤ سے ان پر عطف کر دیا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ دین درحقیقت دو ہی چیزوں کا مجموعہ ہے: ایک قانون، دوسرے حکمت، اور اس کا مقصد انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تزکیہ ہے۔ انسان جب اس قانون و حکمت کو پوری طرح اختیار کر لیتا ہے تو تزکیہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر اسے حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے کہیں اور جانے اور کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
[325]۔ یعنی تو زبردست ہے، اس لیے تیرا حق ہے کہ تو لوگوں کو اپنا قانون دے اور صاحب حکمت ہے، لہٰذا تیری اس صفت کا تقاضا ہے کہ تو انھیں بھی حکمت عطا فرمائے۔
[326]۔ اشارہ یہود کی طرف ہے اور اسلوب میں تعجب بھی ہے اور افسوس بھی۔ مطلب یہ ہے کہ دینِ ابراہیمی کے تنہا اجارہ دار بنے ہوئے ہیں، لیکن وہی دین جب اس کی صحیح صورت میں ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو اس سے گریز اور فرار کے راستے تلاش کرنے لگتے ہیں۔
[327]۔ یعنی اپنے دین کی امامت اور پیشوائی کے لیے خاص کیا۔ اس کا ذکر اسی سلسلۂ بیان میں اوپر گزر چکاہے۔
[328]۔ اصل میں ’اسلم‘ اور ’اسلمت‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان کا صحیح مفہوم حوالے کر دینے ہی سے ادا ہوتا ہے۔ یہاں ان سے سیدنا اسمٰعیل کی قربانی کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ ابراہیم علیہ السلام اسی امتحان میں کامیابی کے بعد امامت کی عزت سے نوازے گئے۔ یہ اپنے آپ کو پوری طرح سپرد کرنے کا ایسا تقاضا تھا کہ اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں تعبیر یہی ہو سکتی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے معنی اپنے آپ کو ہر لحاظ سے اپنے پروردگار کے حوالے کر دینے کے ہیں۔ سیدنا ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے اسی اسلام کا حکم دیا تھا، انھوں نے اسے ہی اختیار کیا اور ان کو جو امامت حاصل ہوئی، وہ اسی کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ یہودیت یا نصرانیت سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا اور نہ یہ عزت انھیں مفت میں حاصل ہوئی تھی، جس طرح کہ یہود اسے حاصل کرنا چاہتے تھے۔
[329]۔ اصل الفاظ ہیں: ’ ووصّٰی بھا ابراھیم‘۔ان میں ’توصیة‘ کے معنی تلقین و نصیحت کرنے کے ہیں، عام اس سے کہ یہ تلقین و نصیحت مرتے وقت کی جائے یا زندگی کے کسی دوسرے مرحلے میں، اور ’بھا‘ میں ضمیر کا مرجع وہی ’ملة ابراھیم‘ ہے جس کا ذکر اوپر کی آیت میں ہوا ہے۔ سیدنا یعقوب کی اس سے ملتی جلتی ایک وصیت تالمود میں بیان ہوئی ہے، لیکن ابراہیم علیہ السلام کی وصیت کا ذکر یہود کے صحیفوں میں کہیں نہیں ملتا۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ یہ اصلاً انھی کی روایت تھی جسے سیدنا یعقوب نے بھی قائم رکھا۔ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ بنی اسرائیل براہِ راست انھی کی اولاد تھے، اور یہاں انھی کو بتانا مقصود ہے کہ تمھارے یہ آبا اسلام ہی کے پیرو تھے۔ انھوں نے اپنی اولاد کو کبھی یہودیت یا نصرانیت کی وصیت نہیں کی۔
[330]۔ اصل میں لفظ ’الدین‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں لام عہد کا ہے اور اس سے مراد وہی دینِ ابراہیمی، یعنی اسلام ہے جس کی وصیت کا ذکر اس سے پہلے ہوا ہے۔
[331]۔ یعنی اس راہ کی ہر آزمایش اور اس میں شیطان کی ہر دراندازی کے باوجود مہد سے لحد تک تمھیں اسی دین کے لیے جینا اور اسی کے لیے مرنا ہے۔
(باقی)
ـــــــــــــــــــــ