HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

آئیے، ماضی میں چلیں!

پچھلے دنوں بھارتی جریدے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ میں سانحۂ مشرقی پاکستان کے سلسلے میں حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ شائع ہوئی۔  اس بارے میں ایک پریس کانفرنس میں جنرل پرویز مشرف سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ میں تجویز کردہ ٹرائل ہوں گے ؟ تو انھوں نے کہا: ’’نہیں۔  یقیناً نہیں۔  سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ دار فوجی ہی نہیں،  سیاست دان بھی ہیں۔  اس کیس میں ملوث اکثر وفات پا چکے ہیں۔  ماضی کے اس قصے کو بھول جانا چاہیے۔  یہی ہم سب کے لیے بہتر ہے۔‘‘ جنرل صاحب کی اس بات کے بعد ملک کے باشعور حلقوں کی جانب سے سخت ردِ عمل کا اظہار ہوا۔

بزرگ صحافی ارشاد احمد حقانی نے کہا: ’’افراد تو اپنے ماضی کے حادثات اور المیوں کو ’’ایک برا خواب‘‘ کہہ کر فراموش کر سکتے ہیں،  اقوام ایسا نہیں کر سکتیں اور جن اقوام نے ایسا کیا ہے انھوں نے نقصان اٹھایا ہے۔ ..... کوئی وجہ نہیں کہ ہم سانحۂ مشرقی پاکستان کو بالکل فراموش کر دیں اور اپنے قومی حافظے سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیں،  ایسا کرنا خود فریبی ہو گی۔‘‘

کالم نویس جاوید چودھری نے کہا: ’’جنرل صاحب،  شکست قوموں کا حافظہ ہوتی ہے۔  جو قومیں اپنی شکست،  اپنے زخم بھلا دیتی ہیں،  وہ کبھی فاتح کا رتبہ نہیں پا سکتیں اور ماضی تو ان چنگاریوں کا دفینہ ہوتا ہے جو دہک کر قوموں کا کل روشن کیا کرتی ہیں۔‘‘

کالم نویس ہارون عدیم نے لکھا: ’’کیا تاریخ میں رہنا گناہ یا جرم ہے ؟ اور کیا وہ قومیں زندہ رہ سکتی ہیں جو اپنی تاریخ کو بھول جائیں ؟‘‘

باشعور حلقوں کی جانب سے جنرل صاحب کی بات پر تنقید سو فی صد صحیح ہے۔  کسی بھی قوم کے لیے اپنی تاریخ کو بھلانا ناممکن ہے۔  اسی لیے کالم نویس عبد القادر حسن نے پاکستان کے ٹوٹنے کو بھ؛ا دینے کی مذکورہ حکومتی نصیحت کے حوالے سے لکھا:

’’روز کہتا ہوں بھول جاؤں اسے

روز  یہ بات بھول  جاتا   ہوں‘‘

  بالکل صحیح۔  اس بات کو بھولنابھی نہیں چاہیے۔  یہ کوئی بھول جانے والی بات نہیں ہے کہ ایک مسلمان ملک کے ایک حصے کے مسلمان دوسرے حصے کے مسلمانوں سے شدید نفرت کرنے لگے۔  انھوں نے ان سے الگ ہونے کی تحریک کو تحریکِ آزادی کا نام دے دیا۔  ہر سطح پر لبریشن کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔  لوٹنے،  آگ لگانے اور قتل کرنے کے لیے غیر بنگالی مسلمانوں کے گھروں پر سرخ نشان لگا دیے۔  سات گھروں کو مکینوں سمیت آگ لگا دی۔  پاکستانی پرچم جلا دیا۔  غیر بنگالیوں کی دکانوں کو تباہ کر دیا۔  ہزاروں پنجابی اور بہاری مسلمانوں کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔  بعض لڑکیوں کو قتل کر کے ان کی شرم گاہوں میں بنگلہ دیشی جھنڈے نصب کر دیے۔

یہ کوئی بھول جانے والی بات نہیں ہے کہ   ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ کے ایک مرحلے پر بھارتی فوج کا میجر جنرل ناگرا ڈھاکہ کی دہلیز پر آ بیٹھا اور پاکستان کے لیفٹینٹ جنرل نیازی کو خط لکھا: ’’میرے پیارے عبد اللہ،  میں میر پور پل پر ہوں،  اپنا نمائندہ بھیج دو۔‘‘ جنرل نیازی کو یہ خط ۱۶  دسمبر کو ملا۔  ڈھاکہ کے پاکستانی محافظ جنرل جمشید کو میجر جنرل ناگرا کے پاس بھیجتے ہوئے اس کے افسران نے کہا: ’’جاؤ،  اور جو وہ کہتا ہے،  کرو۔‘‘..... اور پھر میجر ناگرا ایک گولی فائر کیے بغیر ڈھاکہ میں داخل ہو گیا..... بھارتی فاتحین کا استقبال کرنے کے لیے ایسٹرن کمانڈ کے پرانے ہیڈ کوارٹر کو جھاڑا پونچھا گیا۔ استقبال کے لیے اس ہیڈ کوارٹر کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ وہاں فرنیچر عمدہ تھا۔

یہ کوئی بھول جانے والی بات نہیں ہے کہ جب بریگیڈیر باقر صدیقی اپنے بھارتی ہم منصب (یعنی بھارتی ایسٹرن کمانڈ کے چیف آف اسٹاف) میجر جنرل جیکب کو لینے ایئر پورٹ گئے تو اس دوران میں جنرل نیازی اپنے ’’مہمان‘‘ میجر جنرل ناگرا کی لطیفوں سے تواضع کرتے رہے۔..... جیکب سقوط کی دستاویز(Instrument  Of  Surrender)  اپنے ساتھ لایا۔..... جیکب نے یہ کاغذات باقر صدیقی کو دیے جس نے جنرل فرمان کے سامنے رکھ دیے۔  کاغذات میں ’’ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ کمان‘‘ کے الفاظ درج تھے۔  جنرل فرمان نے کہا: یہ ’’ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ کمان‘‘ کیا چیز ہے ؟ ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔  اس پر جیکب نے کہا: ’’یہ دستاویز ایسے ہی تیار شدہ دہلی سے آئی ہے۔‘‘ (یعنی مجھے اس میں ردو بدل کا اختیار حاصل نہیں) انڈین ملٹری انٹیلی جنس کا کرنل کھیرا پاس ہی کھڑا تھا۔  وہ بولا: ’’یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘۔  ــــــ آہ! کس قدر تکلیف دینے والا ہے یہ جملہ: ’’یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔‘‘ــــــ  تھوڑی دیر بعد لیفٹینٹ جنرل نیازی بھارتی ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹینٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو لینے ڈھاکہ ائرپورٹ گئے۔

یہ کوئی بھول جانے والی بات نہیں ہے کہ جگجیت سنگھ اروڑہ اپنی فتح کی خوشی میں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لایا تھا۔  جونہی یہ میاں بیوی ہیلی کاپٹر سے اترے،  بنگالی مردوں اور عورتوں نے اس ’’نجات دہندہ‘‘ اور اس کی بیوی کا پرجوش استقبال کیا۔  انھیں پھولوں کے ہار پہنائے،  گلے لگایا،  بوسے دیے اور تشکر بھرے جذبات سے انھیں خوش آمدید کہا۔  جی ہاں،  یہ سب کچھ ’’پاکستانی‘‘ مسلمانوں نے کیا۔  جنرل نیازی نے بڑھ کر فوجی انداز میں سیلوٹ کیا اور پھر ہاتھ ملایا۔  فاتح اور مفتوح، بنگالی مسلمانوں کی موجودگی میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔  بنگالی مسلمانوں کے دلوں میں مفتوح مسلمانوں کے لیے نفرت اور فاتح غیرمسلموں کے لیے احسان مندی کے جذبات تھے۔

یہ کوئی بھول جانے والی بات نہیں ہے کہ نیازی اور اروڑہ ایئرپورٹ سے سیدھے ایک گراؤنڈ میں گئے،  جہاں سرِ عام جنرل نیازی سے ہتھیار ڈالوانے کی تقریب منعقد ہوئی۔..... ایک چھوٹی سی میز پر بیٹھ کر لاکھوں بنگالیوں کے سامنے جنرل نیازی نے سقوطِ مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کیے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا ریوالور نکال کر اروڑہ کو پیش کیا۔  اور یوں سقوطِ ڈھاکہ پر آخری مہر ثبت کر دی۔  اس موقع پر جنرل اروڑہ نے پاکستانی سپاہیوں کے ایک گارڈ آف آنر کا معاینہ کیا جو سقوطِ ڈھاکہ کے چشمِ دید گواہ بریگیڈیر صدیق سالک کے بقول اس بات کی علامت تھا کہ اب وہی ’’گارڈ‘‘ ہیں اور وہی ’’آنر‘‘ کے مستحق!

   یہ سب بھول جانے والی باتیں نہیں ہیں۔  جب تک ہم احساس اور شعور سے بہرہ یاب ہیں کسی حکمران کے حکم کے باوجود  یہ باتیں نہیں بھلا سکتے۔

اگر ہم ہر سال ۶ ستمبر کے حوالے سے ماضی میں جا سکتے ہیں۔  ماضی کے قصوں کو یاد کر سکتے ہیں۔  اپنے کارنامے بیان کر سکتے ہیں۔  قوم میں فخر کی نفسیات پیدا کر سکتے ہیں،  تو اسی طرح ۱۶ دسمبر کے حوالے سے ماضی میں کیوں نہیں جا سکتے۔  ماضی کے ان قصوں کو یاد کیوں نہیں کر سکتے۔  اپنے جرائم کو بیان کیوں نہیں کر سکتے۔  اپنی حماقتوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے۔  قوم میں حقیقت پسندی کا رویہ پیدا کیوں نہیں کر سکتے۔

اس ماضی میں جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ماضی ہی کے ہو کر رہ جائیں،  ہم ذہن کے بجائے حافظے ہی کو استعمال کرتے رہیں،  بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کریں۔  حافظے میں موجود مواد پر ذہن لڑائیں۔  واقعات کے اسباب تلاش کریں۔  ماضی کی شکست سے عبرت پکڑیں اور آیندہ ایسی ذلت سے بچنے کی سعی کریں۔  گویا ماضی میں جانا درحقیقت اپنے حال کی تعمیر کرنا ہے،  اپنے مستقبل کی تشکیل کرنا ہے اور ترقی کے منازل طے کرنا ہے۔  غور کیجیے،  عالم کے پروردگار نے دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کفارِ مکہ کو ماضی یعنی تاریخ کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر یہ ہدایت فرمائی:

’’کیا انھوں نے زمین میں سفر نہیں کیا کہ دیکھتے کہ کیسا ہو چکا ہے انجام ان لوگوں کا جو ان سے پہلے گزرے ہیں حانکہ وہ قوت میں ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھے۔  اور آسمانوں اور زمین کی کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ وہ اللہ کے قابو سے باہر نکل سکے۔  وہ علم والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ ( الفاطر ۳۵: ۴۴)

   ان آیات میں زمین پر موجود پچھلی اقوام کی بربادی کے آثار دیکھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔  ذرا گہرائی میں اتر کر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہ اصل میں ماضی میں جانے ہی کی ترغیب ہے۔  زمین پر بکھرے ہوئے تاریخ کے اوراق پڑھنے ہی کی ترغیب ہے۔  ماضی سے اپنا حال اور     مستقبل سنوارنے ہی کی ترغیب ہے۔  اس بات سے انکار نہیں کہ ماضی انسانی زندگی کے گزرے ہوئے مردہ لمحات کا نام ہے، مگر ان مردہ لمحات سے  بھی زندگی کی رمق،  زندگی کی  تفہیم اورزندگی کی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

یہ دسمبر کا مہینا ہے۔  اس مہینے میں ہم ایک عظیم سانحے سے دوچار ہوئے۔  ذلت کے بدنما دھبے ہمارے چہروں پر لگے۔  شکست کے تیر ہمارے سینوں میں چبھے۔  شرمندگی سے سردشمن کے آگے جُھکے۔  آئیے،  ماضی میں چلیں۔  کتابِ تاریخ کے پچھلے اوراق دیکھیں۔  حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔  اس عظیم سانحے پر غور کریں۔  ان دھبوں کا مشاہدہ کریں۔  ان تیروں پر ذہن لڑائیں۔  ان جھکے ہوئے سروں کے بارے میں سوچیں۔  ان کے اسباب تلاش کریں اور ان اسباب کے خاتمے کے لیے پوری سرگرمی کے ساتھ سعی و جہد کریں۔

   ـــــــ  محمد بلال

ـــــــــــــــــــــ

B