قصور کے نواحی گاں دھار بوال میں مختار نامی ایک شخص نے سبزی فروش محمد حسین سے سبزی خریدی جو خراب نکلی۔ مختار نے محمد حسین کو سبزی واپس کرنے کے لیے کہا، مگر محمد حسین نہ مانا۔ اس پر دونوں میں تکرار ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد تکرار نے جھگڑے کی صورت اختیار کرلی۔ اسی دوران میں صلح صفائی کرانے کی غرض سے مختار کا بھائی اللہ دتہ آگے بڑھا، مگر محمد حسین نے اپنے بھائیوں اور ایک ساتھی کی مدد سے کلہاڑیوں کے وار کر کے اللہ دتہ کو قتل اور اس کی بیوی کو زخمی کر دیا۔
لاہور، بھاٹی چوک میں ہوٹل کا ایک ملازم ضمیر خان چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کے ساتھی ملازم محمد ریاض نے اس سے کہا: میں اکیلا کام کر رہا ہوں، چارپائی چھوڑو اور میرے ساتھ کام کرو۔ ضمیرخان نے اٹھنے سے انکار کر دیا، جس پر دونوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جھگڑے نے شدت اختیار کر لی۔ ضمیر خان اپنے جذبات کے ہیجان کو قابو میں نہ رکھ سکا، اس نے ریاض کے نازک حصوں پر اس طرح ٹھوکریں ماریں کہ اس کی حالت غیر ہوگئی۔ پولیس فوری طور پر موقع پر پہنچ گئی۔ ریاض کو ہسپتال لے جایا گیا، لیکن اس نے راستے ہی میں دم توڑ دیا۔
جذبات کے دریاے ہیجان کے آگے تنکے کی طرح بہ جانے والوں کے یہاں صرف دو واقعات درج کیے گئے ہیں۔ ورنہ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے ہاں چھوٹی سی بات پر تکرار کرنا، تکرار سے جھگڑے پر اتر آنا اور جھگڑے سے لڑائی مار کٹائی، حتیٰ کہ قتل و غارت گری جیسی حرکات کا ارتکاب کر بیٹھنا بہت عام ہے۔ ایسے رویوں پر مبنی کئی واقعات ہیں جو روزانہ اخبارات کے ’’جرائم‘‘ کے صفحات سیاہ کرتے ہیں۔
غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ایسے واقعات کا ایک سبب یہ ہے کہ ہمارے اندر خود انضباطی (self-control) کا فقدان ہے۔ ہم اپنے اندر اٹھنے والے شدید جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی زبان اور اعضا کو حدود کے اندر نہیں رکھ پاتے۔
رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایک پہلو سے دیکھیں تو اس مہینے میں ہمیں ایک سخت قسم کے ڈسپلن کی تربیت دی جاتی ہے۔ کھانا ہمارے سامنے ہوتا ہے، بھوک کا جذبہ ہمارے اندر آگ لگائے ہوئے ہوتا ہے، جی چاہتا ہے بغیر کسی توقف کے کھانا کھا لیا جائے، مگر ہم بھوک کے اس شدید جذبے کو قابو میں رکھتے ہیں اور کھانا کھانے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسے ہی پیاس اور جنس کے معاملات میں اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں۔
دوسرے پہلو سے سوچیں، ہم سحری کے وقت نرم اور گرم بستر پر گہری اور میٹھی نیند توڑتے ہیں اور بھوک اور معمول کا وقت نہ ہونے کے باوجود کھانا کھاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک کام کرنے کے لیے دل میں شدید خواہش پیدا ہوتی ہے، مگر ہم وہ کام نہیں کرتے۔ اس طرح دل میں کسی کام کی خواہش نہیں ہوتی، مگر اس کے باوجود ہم وہ کام کرتے ہیں۔
اگر ہم رمضان میں صحیح شعور کے ساتھ روزے رکھیں تو اس کا یہ لازمی نتیجہ نکلے گا کہ رمضان کے بعد بھی ہم زندگی کے مختلف معاملات میں اپنے جذبات کے ہیجان کو قابو میں ر کھیں، مگر افسوس! ایسا بالعموم نہیں ہوتا۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر بے قابو ہو جاتے ہیں، اپنے اعضا و جوارح کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں اور دین و شریعت کے حدود کو پھلانگ بیٹھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر روزہ رکھنے کے مقاصد کو پامال کر بیٹھتے ہیں۔
غور کیجیے، سورۂ بقرہ میں روزے کا مقصد بیان کرتے ہوئے عالم کے پروردگار نے فرمایا ہے:
’’اے ایمان والو، تم پر بھی روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔‘‘( ۲: ۱۸۳)
تقویٰ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے جذبات کے اظہار پر قابو پائیں تاکہ زندگی کے مختلف معاملات میں خود کو اللہ کے قائم کیے گئے حدود کے اندر رکھ سکیں۔ جب ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا اورقتل و غارت گری کا ارتکاب کرتے ہیں تو دراصل تقویٰ کے منافی طرزِعمل اختیار کرتے ہیں۔ سورۂ مائدہ میں ہے:
’’اور تم نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو، گناہ اور عدوان میں تعاون نہ کرو۔‘‘( ۵: ۲)
اس آیت میں تقویٰ کے تقابل میں عدوان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عدوان کے معنی اپنے حدود سے آگے بڑھ جانے کے ہیں۔ اسی طرح سورۂ فتح میں ہے:
’’اس وقت کا خیال کرو جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی: جاہلیت کی حمیت۔ تو اللہ نے اپنی طمانیت نازل فرمائی اور اپنے رسول اور ایمان والوں پر ان کو پابند رکھا تقویٰ کی بات کا اور یہ اس کے حق دار اور سزا وار تھے۔‘‘ (۴۸: ۲۶)
یہ اس وقت کی بات ہے جب حدیبیہ کے مقام پر کفارِ مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو بیت اللہ کا حج کرنے سے روک دیا تھا۔ اس وقت مسلمان کمزور نہ تھے اور پھر کفار نے مسلمانوں کے ساتھ بہت اہانت انگیز رویہ اختیار کیا تھا۔ اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ بہت دب کر صلح کی، جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس موقع پر مسلمان بہت مشتعل ہو رہے تھے۔ وہ اس صلح پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے، مگر انھوں نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنے جذبات کے ہیجان کو قابو میں رکھا، جس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی طمانیت نازل کی، اسے کلمۂ تقویٰ سے تعبیر کیا اور مسلمانوں کی تحسین فرمائی کہ وہ اس کلمے کے حق دار قرار پائے۔
آئیے، اس رمضان میں ہم خدا سے اور اپنے آپ سے یہ عہد کریں کہ اس مہینے میں ہم خود کو حدودِ الہٰی کا پابند رکھنے، عدوان سے بچنے اور جذبات کے ہیجان پر قابو پانے کی جو تربیت حاصل کریں گے اس پر آیندہ زندگی کے مختلف مراحل میں عمل بھی کریں گے۔
ـــــــ محمد بلال
ـــــــــــــــــــــ