HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

تبصرۂ کلچر

حال ہی میں ایک کانفرنس کے دوران میں بار بار مجھے اِس کا تجربہ ہوا کہ لوگ عام طورپر اکٹھا ہوکر منفی تبصرے کررہے ہیں۔ کوئی امت کی زبوں حالی پر تبصرہ کررہا ہے اور کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ علما آج کل صرف فتوے عائد کرتے ہیں، اِس کے سوااب اُن کا اور کوئی کام باقی نہیں رہا۔ میں نے سوچا کہ علما کا کام اگر فتویٰ طرازی ہے تو عوام اور دانش ور طبقے کاکام اب شاید صرف منفی تبصرہ بن کر ر ہ گیا ہے۔

غیر ضروری تبصرے کرناآج کل لوگوں کا عام مزاج بن گیا ہے۔یہ ایک انتہائی ہلاکت خیز ظاہرہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’إذا قال الرّجلُ: ھَلَکِ الناسُ، فھُوَ أھْلَکُھُمْ‘ (مسلم، رقم  ۲۶۲۳)، یعنی جب کوئی شخص لوگوں کی ہلاکت پر منفی تبصرہ کرے تو بلاشبہ خود وہی شخص سب سے زیادہ ہلاکت میں مبتلا ہے (أشدُّھُمْ ھَلاکًا) ۔

 جب کسی مقام پرمختلف اہل علم جمع ہوں ، تو یہ باہمی تبا دلۂ خیال کے ذریعے سے اپنے علم وعمل میں اضافے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ ایسے نادر موقع کو محض غیر ضروری تبصروں میں ضائع کرنا یقیناً سب سے زیادہ ’ہلاکت ‘ کی بات ہوگی۔اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ پانے کے موقع کو ہم نے محض کھونے کا ایک موقع بنا دیا۔ سقراط نے بجا طورپر کہا تھا کہ اعلیٰ دماغ کے لوگ افکار پرگفتگو کر تے ہیں، متوسط لوگ واقعات پر، جب کہ پست ذہن کے افراد کا موضوع گفتگو صرف’ لوگ‘ ہوا کرتے ہیں:

Strong minds discuss ideas, Average minds discuss events, Weak minds discuss people.

 منفی تبصروں کے پیچھے اکثر اپنی بے عملی پر پردہ ڈالنے کی نفسیات کارفرما ہوتی ہے تا کہ آدمی بڑی بڑی باتیں کرکے بڑے عمل کا کریڈٹ لے سکے، مگر ایسا کرنا صرف اپنی ہلاکت میں مزید اضافہ کرنا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں کسی آدمی کو مثبت عمل کا کریڈٹ صرف اُسی وقت مل سکتا ہے، جب کہ حقیقتاً وہ اپنے وقت اور توانائی کو بہتر اور نتیجہ خیز کاموں میں صرف کرنے کا عملی ثبوت دے سکے۔

 منفی تبصروں کا ایک مہلک نقصان یہ ہے کہ ایسا آدمی خود اپنی اصلاح اور اپنے علمی اور اخلاقی ارتقا سے غافل ہوکر رہ جاتا ہے، اور یقیناً ایک آدمی کے لیے اِس سے بڑا اور کوئی نقصان نہیں۔

[لکھنؤ، ۲۰ / اکتوبر ۲۰۲۱ء]

ـــــــــــــــــــــــــ

B