[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
ابن ہشام نے ان صحابہ كی تعداد چونتیس بتائی ہے جو جنگ بدركے بعد، حضرت جعفر كی واپسی سے پہلے مدینہ پہنچے۔ حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان، حضرت قیس بن عبد الله،ان كی زوجہ حضرت بركہ بنت یسار اور ان كی بیٹی حضرت آمنہ بنت قیس ان مہاجرین میں شامل تھے۔ دیگر اصحاب میں حضرت جابر بن سفیان ،حضرت جنادہ بن سفیان، حضرت شرحبیل بن حسنہ،ان كی والده حضرت حسنہ، حضرت رملہ بنت ابو عوف،حضرت سفیان بن معمر، حضرت عثمان بن عبد غنم اور حضرت عیاض بن زہیر قابل ذكر ہیں۔
وفات
مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،اسد الغابۃ(ابن اثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت قیس بن عبدالله كا تعلق بنو اسد بن خزیمہ سے تھا۔رئاب بن یعمر ان كے دادا، جب كہ غنم بن دودان ساتویں جدتھے۔ مشہور جاہلی شاعر امرؤ القیس بھی اسی قبیلے سے تعلق ركھتا تھا۔ خزیمہ بن مدركہ پر حضرت قیس بن عبدالله كا سلسلہ ٔ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرۂ مباركہ سے جا ملتا ہے۔ كنانہ بن خزیمہ آپ كے چودھویں جدتھے، جب كہ ان كے بھائی اسد بن خزیمہ حضرت قیس كے نویں جد تھے اور انھی كی نسبت سے وه اسدی كہلاتے ہیں۔
بنو عبد شمس بن عبد مناف (بنو امیہ) سے حضرت قیس كی محالفت تھی۔ان كی اہلیہ حضرت بركہ بنت یسار ابوسفیان کی باندی تھیں۔ابن حجر كہتے ہیں:حضرت قیس بن عبدالله عبیدالله بن جحش كے خادم تھے اور ان كی بیٹی حضرت آمنہ بنت قیس حضرت ام حبیبہ كی خدمت میں رہیں۔
حضرت قیس بن عبدالله ابتداے اسلام میں ایمان كی نعمت سےسرفر از ہوئے۔
حبشہ كی طرف پہلی ہجرت رجب ۵ ؍نبوی میں ہوئی۔گیاره مرد اورچار عورتیں كچھ سوار،كچھ پیدل بحر احمر كی بندرگاہ شیبہ پر پہنچے۔وہاں تاجروں كو لے جانے والی دو كشتیاں كھڑی تھیں جو انھیں نصف دینارفی كس كے عوض حبشہ لے گئیں۔
شوال ۵ /نبوی میں جب یہ افواه پھیلی كہ قریش مكہ بھی مسلمان ہو چكے ہیں اور انھوں نےمسلمانوں پر ظلم كرنے بند كر دیے ہیں تو انتالیس مسلمان مكہ لوٹ گئے۔وہاں جا كر معلوم ہوا كہ تعذیب كا سلسلہ جاری ہے تو ان میں سے كچھ نے اسی ماه حضرت جعفر بن ابو طالب كی قیادت میں دوباره دار ہجرت، حبشہ كا رخ كیا۔ حضرت قیس بن عبدالله كو اسی ہجرت ثانیہ میں حصہ لینے كا شرف حاصل ہوا۔ عبیدالله بن جحش اور حضرت ام حبیبہ كی بیٹی حبیبہ كی پرورش اور دودھ پلائی كی ذمہ داری حضرت قیس اور ان كی اہلیہ حضرت بركہ كے سپرد تھی، اس لیے میاں بیوی حبشہ جاتے ہوئے ان دونوں كو اور ان كی بیٹی حضرت آمنہ كو ساتھ لے گئے۔
وه صحابہ جو جنگ بدركے بعدمدینہ لوٹے، ان كی تعداد چونتیس بتائی جاتی ہے۔ حضرت قیس بن عبد الله،ان كی زوجہ حضرت بركہ بنت یسار ا ور ان كی بیٹی حضرت امیہ بنت قیس ان مہاجرین میں شامل تھے۔دیگر اصحاب میں حضرت جابر بن سفیان، حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان، حضرت شرحبیل، ان كی والده حضرت حسنہ، حضرت رملہ بنت ابو عوف، حضرت سفیان بن معمر،حضرت عثمان بن عبد غنم اور حضرت عیاض بن زہیربھی ان كے ساتھ تھے۔
حضرت جعفر بن ابوطالب سب سےآخرمیں چوبیس صحابہ كو دو كشتیوں میں سواركر كے شہر رسالت لائے۔
حضرت قیس بن عبدالله كی مدنی زندگی اور ان كے سن و فات كے بارے میں ہمارے پاس كوئی معلومات نہیں۔
حضرت قیس بن عبدالله سے كوئی حدیث مرو ی نہیں۔
مطالعۂ مزید:الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر(ابن سید الناس)، المنتظم فی تواریخ الملوك والامم (ابن جوزی)،hالاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)،البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت بركہ بنت یسار مكہ میں پیدا ہوئیں۔ ان كے والد یسار (یا افلح ) نام کے بجاے اپنی کنیت ابو فکیہہ سے مشہور ہیں۔ بنو ازد سے تعلق ركھتے تھے،كنده (وسطی عرب،حالیہ سعودی عرب)سے مكہ آئے اور قبیلہ ٔ بنوعبدالدار کی غلامی میں آگئے۔دوسری روایت كے مطابق وہ کٹر مشرک صفوان بن امیہ جمحی کے غلام تھے۔ حضرت ابوفكیہہ كے بھائی حضرت ابوتجراة بھی بنو عبدالدار كی غلامی میں رہے، جب كہ حضرت بركہ ابو سفیان بن حرب كی باندی تھیں۔ حضرت بركہ كے چچا حضرت ابو تجراة كا بیان ہے: ہم یمن سے مكہ آئے اور بنوعبدالدار سے محالفت كی۔كچھ اہل تاریخ نے حضرت بركہ كو حبشیہ قرار دیا ہے جو درست نہیں، اگرچہ انھوں نے ہجرت كے باره سال حبشہ میں گزارے۔ ابن اثیر اور ابن حجرنےحضرت بركہ حبشیہ كو ایك دوسری صحابیہ بتایا ہے اور انھیں حضرت بركہ بنت یسار كے بجاے حضرت ام حبیبہ كی انا قرار دیا ہے۔دوسری طرف ان دونوں مورخین نے حضرت بركہ بنت یسار كے شوہر حضرت قیس بن عبدالله اور ان كی بیٹی حضرت آمنہ بنت قیس كو حضرت ام حبیبہ كی بیٹی حبیبہ كی پرورش كا ذمہ دار بتایا ہے۔
حضرت بركہ بنت یسار بنو اسد بن خزیمہ كے حضرت عبدالله بن قیس كی زوجیت میں تھیں۔
حضرت بركہ كے والدحضرت ابوفکیہہ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ حضرت بلال اور انھوں نے ایک ساتھ اسلام قبول کیا۔حضرت بركہ نے اپنے والدكی طرح دین حق كی طرف لپكنے میں دیر نہ لگائی اور آفتاب اسلام طلوع ہوتے ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی بیعت كر لی۔
حضرت بركہ كے والد حضرت ابوفکیہہ قریش کی ایذاؤں کا نشانہ بننے والے مستضعفین میں شامل تھے۔سخت گرمیوں كی دوپہر میں بنوعبدالدار کے لوگ انھیں ننگے بدن، پاؤں میں لوہے کی بیڑیاں ڈال کرتپتے ہوئے کنکروں پر اوندھے منہ لٹا دیتے اور ان کی کمر پر بھاری پتھر رکھ دیتے۔ غلام ہونے کی وجہ سے کوئی انھیں چھڑانے والا نہ تھا۔ ایک بار امیہ بن خلف نے ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور گھسیٹتے ہوئے جلتی ریت پر ڈال دیا،پھر مرا ہوا سمجھ كر چھوڑ دیا۔اس موقع پر حضرت ابوبکر گزرے توانھیں خرید کر آزاد کر دیا۔
بعثت نبوی کے پانچویں سال ظلم وستم كایہ سلسلہ عروج کو پہنچ گیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: ”تم اللہ کی سرزمین میں بکھر جاؤ۔“ پوچھا: ”یا رسول اللہ، کہاں جائیں؟“ آپ نے حبشہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”وہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے، (وہاں اس وقت تک قیام کرنا) جب تک اللہ تمھاری سختیوں سے چھٹکارے کی راہ نہیں نکال دیتا۔“
حضرت بركہ بنت یسار نے اپنے خاوند حضرت قیس بن عبدالله كے ساتھ مہاجرین كے دوسرے گروپ میں حبشہ ہجرت كی۔ حضرت جعفر بن ابوطالب ان كے قائد تھے۔حضرت بركہ كی بہن حضرت فکیہہ بنت یسار، ان کے بہنوئی حضرت حطاب بن حارث،حضرت حطاب کے بھائی حضرت حاطب،ان کی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت مجلل اور دیگر اہل خانہ بھی شریك ہجرت تھے۔
ابن سعد،ابن اثیر اور ابن جوزی کہتے ہیں کہ حضرت بركہ كے والد حضرت ابوفکیہہ بھی مہاجرین حبشہ میں شامل تھے۔ ابن ہشام کی فہرست میں، البتہ ان کا نام نہیں ملتا۔
۶۲۶ء میں ہجرت مدینہ کو سات برس بیت گئے تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عمرو بن امیہ ضمری کو حبشہ بھیجا تاکہ وہ نجاشی کو اسلام کی دعوت دیں،حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان سے آپ کا نکاح کرائیں اور سرزمین حبشہ میں رہ جانے والے مہاجرین کو واپس لے آئیں۔چنانچہ سولہ اصحاب،تین صحابیات اورپانچ بچوں نے دو کشتیوں میں سوار ہو کر بحر قلزم (Red Sea)عبور كیا اور بولا (الرایس) کے ساحل پر اترنے كے بعد مدینہ تك خشكی كا سفر اونٹوں پر طے كیا۔حضرت بركہ بنت یسار،ان كے شوہرحضرت قیس بن عبدالله اور ان كی بہن حضرت فکیہہ بنت یساران مہاجرین میں شامل تھے۔حضرت جعفر بن ابو طالب كی قیادت میں آنے والے اس بحری قافلے میں ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس،ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن جعفر،حضرت خالد بن سعید كا كنبہ اورحضرت ابو موسیٰ اشعری بھی شریك تھے۔
مدینہ آمد كے بعد حضرت بركہ كی زندگی كیسے گزری اور وه كب تك زندہ رہیں؟ ہم قطعی لا علم ہیں۔
حضرت بركہ بنت یسار سے كوئی حدیث روایت نہیں کی گئی۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت عبدالله بن حارث كا تعلق قریش كے قبیلہ بنو سہم سےتھا،اس لیے قُرشی اور سہمی كہلاتے ہیں۔ ان كے دادا قيس بن عدی زمانۂ جاہلیت ميں قریش كے معزز ترین سرداروں میں شمار ہوتے تھے
۔عرب كی مشہور كاہنہ (غیب گو )غیطلہ بنت مالك ان كی دادی تھیں۔ مشہور ہے كہ انھوں نے ایك جن قابو كر ركھا تھا جو انھیں غیب كی خبریں دیتا اور وہ آگے لوگوں كو بتاتیں۔ان كی كہانت اس قدر مانی جاتی تھی كہ ان كی اولادغیاطل كہلانے لگی اور وه ام الغیاطل كے لقب سے شہرت پا گئیں(المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی)۔عمرو بن ہصیص حضرت عبدالله كے چھٹے(دوسری روایت:ساتویں) اور كعب بن لؤی آٹھویں (دوسری روایت: نویں) جد تھے۔ بنوكنانہ كی شاخ بنوشنوق سے تعلق ركھنے والی ام الجاج ان كی والده تھیں۔ حضرت بشر بن حارث،حضرت معمر بن حارث،حضرت سائب بن حارث،حضرت سعید بن حارث،حضرت تمیم بن حارث، حضرت حارث بن حارث، حضرت ابو قیس بن حارث اور حضرت حجاج بن حارث حضرت عبد الله كے بھائی تھے۔
حضرت عبدالله بن حارث شاعر تھے،یہ شعر كہنے پر مبرق (گرجنے والا ، دھمكانے والا)كے لقب سے مشہور ہو گئے۔
إذا أنا لم أبرق فلا يسعنني
من الأرض بر ذو فضاء ولا بحر
’’اگر میں بجلی كی طرح نہ كڑكوں تو مجھے كھلی ،پر فضا زمین اور گہرا سمندر بھی كشادگی نہیں دے سكتے ۔‘‘
وادیٔ بطحا میں اسلام كا سورج طلوع ہواتو حضرت عبدالله بن حارث اول اول ایمان لانے والے مسلمانوں میں شامل تھے۔
مكہ كے نیك فطرت نوجوان اسلام كی دعوت حق قبول كرنے میں سبقت كرنے لگے تو حضرت عبدالله كے والدحارث بن قیس كو جو قریش كے دس بڑے سرداروں میں سے ایك تھا، اپنی سیادت چھن جانے كا خوف ہوا اس لیے اسلام دشمنی میں سرگرم ہو گیا۔وه نبی برحق صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ كا استہزا كرنے میں پیش پیش تھا۔دوسر ے مشرك لیڈركم زور اہل ایمان كو ایذائیں دینے لگے۔ان كا ظلم وستم بڑھتا گیا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اصحاب كو امن كی سرزمین حبشہ كی طرف ہجرت كرنے كا مشوره دیا۔حضرت عبدالله بن حارث نے بھی سفر حبشہ كا عزم كیا اور حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں حبشہ جانے والے دوسرے قافلے میں شامل ہو گئے۔
قریش نے مہاجرین حبشہ كو بے دخل كرانے كے لیے شاه حبشہ نجاشی كے پاس عمرو بن العاص اور عبدالله بن ربیعہ پر مشتمل دو ركنی وفد بھیجاتوحضرت جعفر بن ابوطالب نے مہاجرین كی طرف سے خطاب كرنے كی ذمہ داری سنبھالی، تاہم حضرت عبدالله بن حارث نے یہ اشعار كہے ۔انھوں نے حبشہ میں پائے جانے والے امن وسكون پر اطمینان كا اظہار كر كے دیگر مسلمانو ں كو بھی حبشہ كی طرف ہجرت كرنے كی ترغیب دی:
یا راكبًا بلّغا عني مغلغلة
من كان یرجو لقاء الله والدین
’’اے سوار،میری طرف سے یہ تیز رفتار خط ہر اس شخص كو پہنچا دو جو الله سے ملاقات اور محاسبہ ٔ آخرت كی امید ركھتا ہے ۔‘‘
كل امرئ من عباد الله مضطهـدٍ
ببطن مكـة مقهـورٍ ومفتـونِ
’’وادیٔ مكہ میں بندگان خدا میں سے ہر كوئی ظلم وقہر كا شكار اور مصیبتوں كا مارا تھا۔‘‘
إنا وجدنا بلاد اللّٰه واسعـةً
تنجي من الذلِ والمخزاةِ والهونِ
’’ملك حبشہ میں ہم نےالله كی زمین كو وسیع پایاجس نے ہمیں ذلت ،رسوائی اور بے قدری سے بچا كر ركھا۔‘‘
فلا تقیموا علی ذل الحیاة ولاخز
ي الممات و عتب غیر مامون
’’ذلت كی زندگی ، رسوائی كی موت اور غیر محفوظ حالات پر برقرار نہ رہو۔‘‘
إنا تبعنارسول اللّٰه وأطرحوا
قول النبي و عالوا في الموازین
’’ہم نے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی پیروی اختیار كر لی،انھوں نے نبی كے فرمان كو پرے پھینكا اور انصاف كی ترازو میں ڈنڈی مار دی۔‘‘
وتلك قریش تجحد اللّٰه حقه
كما جحدت عاد و مدین والحجر
’’یہ قریش كو تو دیكھو، الله كے حق كے انكاری ہیں جس طرح قوم عاد، مدین اور اہل حجر، یعنی ثمود نے الله كا كفر كیا ۔‘‘
فاجعل عذابك في القوم الذین بغوا
وعائذ بك أن یعلوا فیطغوني
’’اے رب، اپنا عذاب ان لوگوں پر نازل كر دے جنھوں نےسركشی اختیار كی ،میں تم سے پناه مانگتا ہوں كہ یہ مجھ پر غالب ہو كر جور و ستم ڈھانے لگیں ۔‘‘
مشہور روایت كے مطابق حضرت عبدالله بن حارث جنگ بدر كے بعد مدینہ لوٹ آئے۔رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انھیں مال غنیمت میں سے حصہ بھی عطا فرمایا۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت تمیم بن حارث سہمی حضرت بشر بن حارث ، حضرت سعید بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث اور حضرت سائب بن حارث كے بھائی تھے۔ان كے چھٹے بھائی حجاج بن حارث جنگ بدر میں مشركین كی فوج میں شامل تھے۔معركۂ فرقان میں شكست كھانے كے بعد مسلمانوں كے ہاتھوں اسیر ہوئے اور بعد میں اسلام قبول كر لیا۔ حضرت تمیم كا والد حارث بن قیس مسلمانوں كا كٹر دشمن تھا۔بسا اوقات اسے اپنی مشہور كاہنہ ماں غیطلہ بنت مالك سے منسوب كیا جاتا تھا۔حضرت سعید بن عمرو تمیمی حضرت تمیم بن حارث كے سوتیلے بھائی تھے۔ان دونوں كے نانا عامر بن صعصعہ كے پر پوتے حرثان بن حبیب تھے۔واقدی نے حضرت تمیم كا نام نمیر بتایاہے ۔
ابن اسحٰق اور ابن ہشام نےحضرت تمیم بن حارث كا نام مہاجرین حبشہ كی فہرست میں شامل نہیں كیا، جب كہ ابن عبدالبر اور ابن اثیر نے ان كا شمار مہاجرین حبشہ میں كیا ہے۔بلاذری كہتے ہیں: وه ہجرت ثانیہ میں حبشہ گئے۔
ابن ہشام نے حضرت تمیم بن حارث كی مدینہ واپسی كے بارے میں كوئی اطلاع نہیں دی۔ ان كا نام حضرت جعفر بن ابو طالب كے ساتھ آنے والے كشتی سواروں میں بھی شامل نہیں۔ قیاس ہے كہ وہ بھی غزوۂ بدر كے بعد كسی وقت مدینہ پہنچے ہوں گے۔
حضرت تمیم بن حارث نے شام كی سرزمین میں ہونے والی جنگ اجنادین میں جام شہادت نوش كیا۔ ان كے ماں جاے حضرت سعید بن عمرو تمیمی بھی اسی معركے میں شہید ہوئے۔ابن كثیر نے معركہ ٔ اجنادین كے شہدا میں حضرت سعید بن عمرو كے بجاے حضرت سعید بن حارث كا نام لكھا ہے۔
حضرت تمیم بن حارث سے كوئی حدیث روایت نہیں كی گئی۔
مطالعۂ مزید: الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)،جمل من انساب الاشراف(بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)،اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ