(کتاب ’’ختم نبوت اور احمدی استدلال‘‘سے اقتباس)
پیغمبرانہ اسالیب کلام، جو بائیبل، قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب قابل اعتماد اخبار آحاد کے ذرائع سے ہمارے علم میں ہیں، ان سے مرزا صاحب کا مناظرانہ اسلوب دعوت کہیں میل کھاتا نظر نہیں آتا۔ پیغمبر اپنے مکذبین کے ساتھ مناظرہ و مباحثہ میں نہیں الجھتے تھے۔ وہ اپنا موقف بیان کرتے ، دلائل دیتے اور احسن طریقے سے مجادلہ کر تے ہیں۔ وہ اس سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔کج بحثی شروع ہونے پر اعراض کرلیتے تھے ۔ انبیا کا کلام نپا تلا، حشو وزوائد سے پاک اور استدلال دو ٹوک ہوتا کہ ایک عام آدمی کے لیے بھی اس کا ادراک مشکل نہیں ہوتا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے مقام و ثقافت سے جڑے ہونے کے باوجود انبیا کا کلام ایسے آفاقی اسالیب اختیار کرتا ہے کہ ہر دور اور ہر سماج کا شخص ان سے مستفیض ہو سکتا ہے۔ اپنے مخالفین کو وہ برسوں کے اتمام حجت کے بعد خدا کے حکم سے جب لعنت ملامت کرتے ہیں تو اس میں بھی ایک متانت اور وقار ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں بھی وہ اپنے ماحول کی بے ہودہ گوئی اور دشنام طرازی پر ہرگز نہیں اترتے۔
اس تناظر میں مرزا صاحب کے کلام کی نمایاں خصوصیات ملاحظہ کیجیے:
مرزا صاحب بے انتہا بسیار نویس تھے، تحریر میں مضامین کی تکرار بہت زیادہ پائی جاتی ہے، استدلال اکثر مبہم اور پیچ در پیچ مقدمات پر قائم، نکتہ آفرینیوں کا چیستاں ہوتا ہے۔ اسلوب مناظرانہ ہے۔ ان کا دور برصغیر میں مختلف مذاہب کے درمیان بحث و مناظرہ کا دور تھا۔ ان کی تحریر اور انداز اس ماحول کے اثرات کا ایک نمونہ ہے۔ مناظرانہ ماحول میں پرورش پانے والی طبیعت کی جو خصوصیات ہو سکتی ہیں، وہ سب ان میں موجود ہیں، مثلاً اپنے مخالفین پر لعن طعن کرنا، مناظرے کے چیلنج دینا، مقابلے میں فتح و شکست پر انعام رکھنا، مخالفین کو گالیاں اور بددعائیں دینا، گالیاں بھی وہ جو پست عوامی اور بازاری قسم کی ہیں، اپنے ہر مخالف کے لیے اپنی زندگی میں اس کی موت اور انجام بد کی پیشین گوئیاں کرنا، اور یہ سب انبیا کی برسوں پر مشتمل صبر آزما دعوت اور اپنی قوم کو بار بار سمجھانے کی سنت کے برعکس اپنے دعویٰ نبوت کے کچھ ہی عرصے میں کر ڈالنا، انھیں کسی طرح ایک پیغمبر باور ہونے نہیں دیتا۔ تنقیدی اور استدلالی اذہان اور سنجیدہ طبائع کے لیے یہ سب کسی عبرت انگیزی یا تاثیر کا کوئی سامان نہیں رکھتا۔
مرزا صاحب کےاستدلالات اپنی بنیاد اور بُنت میں نہایت کم زور ہیں۔ دلائل کی جگہ بھی وہ دعاوی کرتے ہیں، ثبوت کی جگہ وہ امکان ثبوت پر زور صرف کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنی نبوت کے اثبات میں ان کا بنیادی مقدمہ ہی داخلی تناقض کا ایک نمونہ ہے، یعنی یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا، مگر وہ شخص جو آپ کی سیرت میں فنا ہے، وہ نبی ہو سکتا ہے، یہ گویا کسی دوسرے نبی کی نہیں، خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی بعثت ہے۔ علم و استدلال کی دنیا میں یہ کوئی استدلال ہی نہیں جسے پیش کیا جا سکے۔ مرزا صاحب کا مسیح علیہ السلام اور دجال کی آمد کے بارے میں ہر طرح کی رطب و یابس روایات کو قبول کرلینا اور ضعیف روایات میں بیان کی گئی علامات کو دور از کار تاویلات سے خود پر اور دور حاضر پر منطبق کرنا محض نکتہ آفرینیاں ہیں، جن میں اکثر مضحکہ خیز ہیں۔ علم و استدلال کے میدان میں ان سے کوئی حجت قائم نہیں ہوتی۔
غیر مسلم مناظرین کے مقابل جہاں مرزا صاحب نسبتاً بہتر انداز میں استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں بھی ان کے استدلال کی کم زوری ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ مثلاً یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اسلام کامل اور نقائص سے پاک دین ہے، وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے، بلکہ اس دعویٰ کے غلط نہ ہونے کے امکان پر بحث کرتے ہیں کہ خدا کے لیے ایسا کرنا ناممکن نہیں اور یہ کہ قرآن جیسی کوئی کتاب بنا کر دکھا دیں وغیرہ، لیکن دین کامل اور نقائص سے پاک کیسے ہے، اس پر وہ کوئی بات نہیں کرتے۔[1]مناظروں میں چونکہ مقابلہ بازی کا ماحول ہوتا ہے ، اس لیےاس قسم کے ’’دلائل‘‘ سے مخالف پارٹی پر کوئی حجت قائم ہو یا نہ ہو، اپنے لوگوں سے داد، البتہ مل جاتی ہے۔ ان کے شروع کے دور میں عوامی سطح پر ان کی پذیرائی کی وجوہات اسی قسم کی تھیں۔
مرزا صاحب کے لٹریچر میں ان کے دعوی ٰنبوت کے اثبات میں ایسا کوئی استدلال نہیں جو مسلمہ علمی و عقلی بنیادوں پر کسی منصف مزاج قاری کو مطمئن کر سکے۔ احمدیت کا شیوع اور اس کا اب تک کا قائم رہنا، افراد کی انفعالی طبائع کی زود اعتقادی اور احمدیت کی مظلومیت کے ردعمل کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔
یہ بات پوری دیانت داری سے کہی جا سکتی ہے کہ بالفرض انبیا کی آمد کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہوتا بھی تو مرزا صاحب اپنے اخلاق و کردار اور علم و فہم کے ساتھ نبی بننے کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکتے تھے۔
مرزا صاحب کی ’’نبوت‘‘ بھی ایک خطا کار نبوت تھی۔ مرزا صاحب سے کبھی وحی کے معنی متعین کرنے میں کئی برس مسلسل غلطی ہوتی رہی تو کبھی وحی سے ملنے والی پیشین گوئیاں غلط ثابت ہوتی رہیں، یہاں تک کہ وہ قرآن کی آیات کے مدعا و مصداق کو سمجھنے میں بھی فاش غلطیوں کے مرتکب ہوئے۔ اپنے دعویٰ نبوت کے بنیادی استدلال[2] میں ان سے زبان کے قواعد کی رو سے فاش غلطیاں سرزد ہوئیں، جیسا کہ ہم نے پیش تر دکھایا۔ جب ’’نبی‘‘ دین کے معاملے میں بھی معصوم عن الخطا نہ ہو تو اس کی رہنمائی کو بے خطا مان کر اس پر ایسا اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے جو ایک نبی کے بے خطا علم ہی پر کیا جا سکتا ہے؟
مرزا صاحب جن اصلاحات کےلیے اٹھے تھے ، یعنی مسیحیت کے فروغ کے خلاف بند باندھنا اور مسلمانوں کی اخلاقی اصلاح، وہ موجود دین کی تعلیمات کی اساس پر بہ خوبی انجام دی جا سکتی تھیں۔ اہل علم و فکر یہ کرتے رہے ہیں، اس کے لیے نئے نبی پر ایمان لا نے کی کشمکش برپا کرنا محض عبث تھا۔ اس سے اصل کام مرزا صاحب کی نبوت کو منوانے کے مناظرے اور فتوے، تکفیر اور منکرین کی تباہی کی پیشین گوئیوں کے شور میں دب کر رہ گیا۔
مرزا صاحب کے دعویٰ کے مطابق کہ مہدی منتظر بھی وہی تھے، لیکن مہدی سے متعلق وہ کوئی ایک کام بھی پورا نہ کر سکے۔ مثلاً ایک روایت کے حوالے سے وہ خود لکھتے ہیں:
’’مہدی کی تعریف میں لکھا ہے کہ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم اور جور سے بھری ہوئی تھی اور مسیح آخر الزمان کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دوبارہ ایمان اور امن کو دنیا میں قائم کر دے گا اور شرک کو محو کرے گا اور ملل باطلہ کو ہلاک کر دے گا۔[3] ‘‘[4]
مگر مرزا صاحب یہ سب کیے بنا ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔
احمدیت کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کوئی منفرد اور ذاتی پیغام نہیں ہے۔ عقائد و شریعت میں کسی اضافے کا امکان وہ خود رد کرتے ہیں۔ انیسویں صدی میں مسیحیت کی طرف سے اسلام کو پیش آنے والا چیلنج فرو کرنے میں بھی مرزا صاحب کو کوئی انفرادیت حاصل نہیں۔ یہ کام بغیر دعویٰ نبوت کے دیگر اہل علم نے بہ خوبی کیا اور کر بھی رہے ہیں۔
آج کا چیلنج الحاد جدیدہ کا چیلنج ہے۔ مسیحیت کے چیلنج مقابلے میں اس کا زور اور تاثیر کہیں زیادہ ہے۔ اس زیادہ بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اہل علم و فکر دین و عقل کے میسر ذرائع علم کے تحت مصروف ہیں اور کسی نئی نبوت و الہام کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ رہا معاملہ اخلاقیات کے بحران میں اصلاح اخلاق کے کام کا تو اس میدان میں بھی سیرت کا اعلیٰ نمونہ مرزا صاحب کو بنانا ممکن نہیں، یہاں پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیا کی سِیَر ہی پیش نظر رکھی جا سکتی ہیں ۔ اس بنا پر یہ کہنا بے جا نہیں کہ مرزا صاحب کی تعلیمات میں ایسا کچھ نہیں کہ جنھیں منہا کر دینے سے دین اور اس کی ہدایت کسی بھی لحاظ سے متاثر ہوتی ہوں۔ چنانچہ نبوت کا کشٹ عبث اٹھایا گیا۔
مشرقی دنیا کا مزاج ہمیشہ سے عجائب پسندی کا رہا ہے۔ ہندو دیو مالا کی تخیل پسندی، سادھو، سَنتوں کے ناقابل یقین قصے اور اس کے مقابل میں ’’اسلامی تصوف‘‘ کی دنیا کی عجب بیانی سے مسلمانوں میں عجائب پسندی کا وہ خمیر تیار ہوا جو عجائب پر مشتمل دعاوی کو لوگوں کے لیے قابل قبول، بلکہ مقبول بنا دیتا ہے۔ یہ سلسلہ اب بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔
خدا سے مکالمے اورالہام کے دعاوی تصوف کی دنیا کی مضبوط روایت ہے جو مسلسل چلی آتی ہے۔ ان دعاوی میں نبوت کا نام کبھی کھل کر اور کبھی دبے لفظوں لیا گیا۔ عوام کے کان ایسے دعاوی سے مانوس رہے ہیں۔
قرآن مجید میں زبان و بیان کے مسلمہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کر کے دور از کار تاویلات سے عجیب و غریب نکتہ آفرینیاں پیدا کرنے کا رجحان تفاسیری روایات، تفسیر اشاری اور باطنی میں ایک مستقل مکتب فکر کے طو رپر موجود ہے ۔
اس پس منظر کے ساتھ مرزا صاحب کو جو زمانہ ملا، وہ خاص طور پر مسلمانان برصغیر کے زوال اور نکبت کا دور تھا۔ سیاسی ابتری ، معاشی ناآسودگی اور غیر یقینیت کا دور دورہ تھا۔ عوام کی بڑی تعداد کسی ملہم اور موید من اللہ کی آمد کی گویا منتظر تھی۔ کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ تیرھویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے۔ مجلسوں میں زمانۂ آخر کے فتنوں اور واقعات کا چرچا تھا۔ شاہ نعمت اللہ ولی کشمیری کے طرز پر پیشین گوئیوں اور الہامات سے سہارا حاصل اور غم غلط کیا جاتا تھا۔[5]
ان سب عوامل نے عوام میں مرزا صاحب کے دعاوی کی قبولیت اور مقبولیت کے لیے پہلے سے راہ ہموار کر رکھی تھی۔ اس پرمرزا صاحب کی پہلی نمود اسلام کے مناظر اور محافظ کے روپ میں ہوئی جس نے اپنے وقت کے عوامی مناظروں میں عوامی طرز پر اپنے پر اعتماد انداز، نکتہ آفرینی اور منطقیانہ و مناظرانہ دلائل سے مخالف مناظرین کا خوب مقابلہ کیا۔ ایسی باتوں کا علمی پایہ بہت کم زور ہوتا ہے، لیکن عوامی پذیرائی خوب ملتی ہے۔ چنانچہ عوام اور عوامی خطبا میں مرزا صاحب کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔
مرزا صاحب اگر فقط الہام اور مکالمۂ خداوندی کے دعاوی تک محدود رہتے تو اس قسم کے دعاوی کی روایت سے مسلم سماج کے عوامی اور علمی حلقوں میں پائی جانے والی مانوسیت کے سبب کوئی خاص ردعمل متوقع نہیں تھا۔ مرزا صاحب کو ان کے ایسے دعاوی کے باوجود شروع میں ان کی مناظرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے مسلم حلقوں میں پذیرائی ملی بھی تھی ،لیکن جب ایک قدم آگے بڑھ کر انھوں نے مسلمانوں سے اپنی نبوت کا اقرار کرنے پر زور دیا اور ان کے انکار پر ان کی تکفیر کر ڈالی، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا،[6] ان سے مناکحت کا رشتہ، اہل کتاب کی طرح صرف ان کی خواتین تک محدود کرنے کا کہا ، اپنی جماعت کو عام مسلمانوں کے مقابلے میں ایک الگ امت قرار دیا، ایسے ہی جیسے امت محمدی، مسیحی اور یہودی امت سے الگ امت قرار پائی تھی ، تو عام مسلمانوں کے تمام حلقوں کی طرف سے ان کی شدید مخالفت کی گئی اور متفقہ طور پر مرزا صاحب اور جماعت احمدیہ کی تکفیر کر دی گئی۔
دوسری وجہ مرزا صاحب کا مناظرانہ انداز اور اپنے مخالفین کے لیے سب و شتم اور چیلنج کرنے کا طرز عمل تھا، جس کی وجہ سے ان کے خلاف ردعمل میں شدت در آئی۔
مرزا صاحب کو نبی مان لینے کا یہ بدیہی تقاضا تھا کہ احمدی کمیونٹی مرزا صاحب کی نبوت کا انکار کرنے والے عام مسلمانوں کو کافر سمجھیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے اپنی الگ بستیاں بسائیں، جس سے ایک ہی سماج میں رہتے ہوئے ان کے اور عام مسلمانوں کے درمیان اجنبیت کی دیواریں بڑھنے لگیں۔
مذہب کے معاملے میں ہمارے سماج میں پہلے سے پائی جانے والی عمومی جذباتیت کے لیے احمدیت کی مخالفت اور مخاصمت ایک مستقل ہدف قرار پائی۔ اس مہم میں سیاسی اور مذہبی زعما کی شمولیت نے اسے مزید انگیخت کر دیا۔ معاملہ آگے بڑھ کر احمدی کمیونٹی کے خلاف قانون سازی، جبر اور زیادتی اور سماجی مقاطعہ تک پہنچ گیا۔
سب سے بڑا گناہ، سب سے بڑی گستاخی، خدا کے مقابلے میں دوسرے خدا کھڑے کرلینا ہے۔ یہ ایسا جرم ہے کہ آسمان ٹوٹ پڑے اور زمین پھٹ جائے، مگر اس کے باوجود پروقار خدا یہ اجازت نہیں دیتا کہ توحید کا پرچار کرتے ہوئے دوسرے خداؤں کی نفی میں جوش طبیعت میں آکر انھیں گالیاں دی جانے لگیں۔ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور بتایا کہ گالی پلٹ کر آتی ہے۔ تم انھیں گالیاں دو گے تو وہ خدا کو گالیاں دینے لگیں گے۔ یوں دین کی دعوت کا میدان بھی ختم ہو جائے گا۔
یہ وہ تربیت ہے کہ جو ہمارا خدا ہمیں سکھاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی کوئی گنجایش کہاں ہے کہ کسی جھوٹے نبی، یا اپنے مسلک اور مشرب کے مخالف نمایندوں اور پیروکاروں یا محض علمی اختلاف کرنے والوں کو گالی دی جاسکے۔
یہ گالی پلٹ کر آتی ہے، کیونکہ بدتمیزی کے جملہ حقوق ’’اہل حق‘‘ کے لیے محفوظ نہیں۔ مقابل میں بھی ایسی ہی پست تربیت کے لوگ موجود ہوتے ہیں جو گالی کا جواب گالی میں دے کر اپنے موقف کے دفاع کا حق ادا کرسکتے ہیں۔ یہ گالم گلوچ محض نفس کی اکساہٹ اور پست تربیت کا نتیجہ ہے۔ اس پر خدا سے اجر یا گالی دینے والے کے لیے درجات کی بلندی کی توقع محض جہالت ہے۔
مسلمانوں کی طرف سے عام طور پراحمدی حضرات کے ساتھ جو شدید مخاصمانہ، بلکہ جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے، اس سے احمدیت کا مقدمہ ،جو استدلال کے میدان میں نہایت کم زور ہے، تاثر کے میدان میں ہم دردی حاصل کر رہا ہے۔ احمدیت کے خلاف اس رویے کا اسلام کے بتائے ہوئے ضابطۂ اخلاق اور دعوت دین کے مطلوب رویے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمدی کمیونٹی عام مسلمانوں کو مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں پر ظلم کرنے والے یہودیوں اورکفار مکہ کے روپ میں اور خود کو ان انبیا کے مظلوم پیروکاروں کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ اس سے نفسیاتی طور پر ان کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی نفسیاتی کیفیت میں دلائل بھی کام نہیں دیتے۔ یہ وہ نامسعود خدمت ہے جو مسلمانوں کی طرف سے دین کے دفاع یا غیرت دینی کے نام پر سرزد ہو رہی ہے۔r
قرآن مجید میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ دین و عقائد کے معاملے میں اختلاف رکھنے والا آپ کا دشمن نہیں، مدعو ہے۔ اسے حکمت، اچھی نصیحت اور شایستہ مباحثے کے طریقوں سے اپنی دعوت پیش کرنی چاہیے:
اُدْعُ اِلٰي سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُﵧ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ.(النحل ۱۶: ۱۲۵)
’’اے نبی، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے۔‘‘
کسی کو زبردستی مسلمان بنانا یا کوئی نقطۂ نظر قبول نہ کرنے والوں پر ان کے لیے عرصۂ حیات تنگ کردینا، یہ اسلام کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ یہ حرکتیں تو ہمیشہ سے باطل کا طرۂ امتیاز رہی ہیں۔ سماجی مقاطعہ کفار مکہ کا حربہ تھا۔ اپنی ملت میں بالجبر واپسی کا مطالبہ قوم شعیب کے جابر سرداروں کے طرز عمل کے طور پر بیان ہوا ہے:
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا٘ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَاﵧ قَالَ اَوَلَوْ كُنَّا كٰرِهِيْنَ.(الاعراف ۷: ۸۸)
’’اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا کہ اے شعیب، ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں، اپنی بستی سے نکال دیں گے، ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا، شعیب نے جواب دیا: کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا، خواہ ہم راضی نہ ہوں؟‘‘
دعوت کے جواب میں گھیراؤ، جلاؤ کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مخالف ان پروہتوں کا رد عمل تھا جو دلیل کے میدان میں ان سے شکست کھا گئے تھے:
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَانْصُرُوْ٘ا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ.(الانبیاء۲۱: ۶۸)
’’انھوں نے کہا: جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمھیں کچھ کرنا ہے۔‘‘
عقیدے کی تبدیلی پر سرکاری پابندی لگانا فرعون کا اقدام تھا۔ اسے اصرار تھا کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اپنا عقیدہ بھی تبدیل نہیں کر سکتا:
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ.(طٰہٰ ۲۰: ۷۱)
’’فرعون نے (موسیٰ پر ایمان لے آنے والے جادوگروں سے) کہا: تم ایمان لے آئے ،قبل اس کے کہ میں تمھیں اس کی اجازت دیتا؟‘‘
مذہبی جبر کوقرآن مجید میں فتنہ کہا گیا ہے ۔ اسے قتل جیسے گھناؤنے جرم سے بھی بڑافساد قرار دیا گیا ہے:
وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ.(البقرہ: ۲: ۱۹۱)
’’فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے۔‘‘
المیہ یہ ہے کہ مذہبی جبر کا یہی فتنہ دین اسلام کے نام پر خود مسلم سماج نے برپا کر رکھا ہے۔ اسلام دین حق ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو یہ بھی حق ہے کہ دین کی بنیاد پر اختلاف کرنے والوں سے جبر کا معاملہ کریں۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا ایک بنیادی فریضہ سماج سے مذہبی جبر کا خاتمہ بتایا ہے۔ عقیدے کے انتخاب کی آزادی خدا کو اس قدر مطلوب ہے کہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے جنگ کرنی پڑے تو کریں اور اسے اس وقت تک جاری رکھیں جب تک یہ ختم نہیں ہو جاتا:
وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ.(الانفال ۸: ۳۹)
’’(ایمان والو)، تم اِن سے برابر جنگ کیے جاؤ، یہاں تک کہ فتنہ، (یعنی دین میں جبر) باقی نہ رہے۔‘‘
عقیدے کی آزادی خدا کی آزمایش کی اسکیم کی ایک بنیادی قدر ہے، مذہبی جبر خدا کی اس اسکیم کی مخالفت ہے:
اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا. (الدھر ۷۶: ۳)
’’ہم نے اُسے خیر و شر کی راہ سجھا دی۔ اب وہ چاہے شکر کرے یا کفر کرے۔‘‘
دین اور عقائد کے رد و قبول کے معاملے میں دین کا اصل الاصول جبر کی نفی ہے:
لَا٘ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِﵐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ.(البقرہ ۲: ۲۵۶)
’’(یہ جو رویہ چاہیں، اختیار کریں)، دین کے معاملے میں (اللہ کی طرف سے) کو ئی جبر نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت (اِس قرآن کے بعد اب) گم راہی سے بالکل الگ ہو چکی ہے۔‘‘
اگر یہ خدشہ ہے کہ احمدیت کو سماج سے کاٹ کر نہ پھینکا گیا تو عوام ان کےعقائد سے متاثر ہوتے جائیں گے تو اس کا علاج اپنے گھر کے دروازے بند کر لینا نہیں، یہ تو بےاعتمادی کی دفاعی نفسیات کا خاصہ ہے۔ دین کے مضبوط دلائل کے ہوتے ہوئے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس مسئلے کا حل لوگوں کو دین کی تعلیم سے روشناس کرانا ہے۔ اس مثبت کام کے بجاے نفرت اور پراپیگنڈے کا سہارا لینا اپنے لیے بلا وجہ کم زور پوزیشن اختیار کرلینا ہے۔
احمدیت کے ساتھ مکالمہ کی فضا اگر قائم رہتی تو گمان غالب یہ ہے کہ قرآن مجید کے محکم دلائل کی مدد سے ختم نبوت کے باب میں ان کے استدلالات کی کم زوری ان پر عیاں ہو جاتی اور کم از کم ان کی آیندہ نسلوں کی غلط فہمیاں دور ہو جاتیں ۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دین کے معاملے میں ہمارا کام فقط دلائل سے اپنی بات پیش کرنا ہے۔ کفر و ایمان کے فیصلے کرنا اور اس پر سزا دینا خدا کا کام ہے، جس میں اس نے کسی دوسرے کو شریک نہیں کیا:
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۲۵)
’’اِس میں کچھ شک نہیں کہ (اب) تیرا پروردگار ہی قیامت کے دن اُن کے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔‘‘
آخر میں دعا ہے:
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًﵐ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ. رَبَّنَا٘ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِﵧ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ. (آل عمران ۳: ۸-۹)
’’پروردگار، تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اِس کے بعد اب تو ہمارے دل نہ پھیر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ لا ریب، تو ہی عطا فرمانے والا ہے۔ پروردگار، تو یقیناً سب لوگوں کو ایک ایسے دن کی پیشی کے لیے جمع کر کے رہے گا جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ تفصیل کے لیے، مثلاً، دیکھیے مرزا صاحب کی کتاب: ’’کشتی نوح‘‘۔
[2]۔ سورۂ جمعہ (۶۲) کی آیت ۲ اور ۳ کے حوالے سے۔
[3]۔ مرزا قادیانی،’’تحفہ گولڑیہ‘‘، روحانی خزائن ۱۷ / ۱۱۵۔
[4]۔ مہدی سے متعلق اس مفہوم کی تمام روایات ضعیف ہیں،مگر مرزا صاحب کے ہاں روایات کے ضعف کےبارے میں عدم اعتنا پایا جاتا ہے۔
[5]۔ ابو الحسن علی ندوی ،قادیانیت مطالعہ و جائزہ ۱۲۔
[6]۔ ابو الحسن علی ندوی ،قادیانیت مطالعہ و جائزہ ۶۴۔