HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘: توضیحی مطالعہ: قانون معاشرت (۶)

یک بارگی دی گئی تین طلاقوں  کا حکم

’’یہ طلاق کا صحیح طریقہ ہے ۔ اگر کوئی شخص اِس کے مطابق اپنی بیوی کو علیحدہ کرتایا علیحدگی کا فیصلہ کر لینے کے بعد اُس کی طرف مراجعت کرتا ہے تو اُس کے یہ فیصلے شرعاً نافذ ہو جائیں گے ، لیکن کسی پہلو سے اِس کی خلاف ورزی کر کے اگر طلاق دی جاتی ہے تو یہ پھر ایک قضیہ ہے جس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔‘‘ (میزان ۴۵۴)
’’تین طلاق کے الفاظ بیان عدد کے لیے بھی بولے جا سکتے ہیں اور فیصلے کی سختی ، اتمام اور قطعیت ظاہر کرنے کے لیے بھی۔ یہ دونوں احتمالات چونکہ زبان و بیان کی رو سے بالکل یکساں ہیں ، اِس لیے قائل کی وضاحت اِس معاملے میں بھی قابل قبول ہونی چاہیے ۔
تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ قرائن اِس کے خلاف بھی ہوں تو اِس طرح کی وضاحت ماننا ضروری ہے ۔ عدالت کو یہ حق یقیناً حاصل ہے کہ وہ اگر مطمئن نہیں ہو سکی تو اِسے ماننے سے انکار کر دے ۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں معلوم ہے کہ اُنھوں نے جب یہ دیکھا کہ لوگ پہلے کی طرح محتاط نہیں رہے تو اعلان کر دیا کہ اب کسی کا بیان بھی اِس معاملے میں تسلیم نہ ہو گا اور تین طلاق کو تین طلاق ہی مان کر نافذ کر دیا جائے گا ۔‘‘ (میزان ۴۵۵)

فقہا کے مابین اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا بہ یک وقت تین طلاقیں دینا جائز اور مشروع ہے یا نہیں۔ امام شافعی کے نزدیک ایسا کرنا بالکل جائز ہے اور شارع نے شوہر کو تین طلاقوں کا جو  حق دیا ہے، وہ  انھیں بہ یک وقت  استعمال کر سکتا ہے۔ تاہم دیگر فقہا کے نزدیک ایسا کرنا اصولاً جائز نہیں۔    اس طریقے کے جواز یا عدم جواز  میں اختلاف سے قطع نظر، جمہور فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو   شرعی طریقے کی خلاف ورزی پر سزا کے طور پر تینوں طلاقیں نافذ  مانی جائیں گی اور شوہر کو رجوع کے حق سے محروم کر دیا جائے گا۔ بعض تابعین سے اس ضمن میں مدخولہ اور غیر مدخولہ بیوی میں فرق کی راے منقول بھی ہے۔  ان کے نزدیک اگر  نکاح کے بعد بیوی سے ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دی جائیں تو وہ ایک شمار ہوگی، البتہ ہم بستری کے بعد  دی جانے والی تین طلاقیں  تین ہی تصور کی جائیں گی۔     تاہم جمہور فقہا اس تفریق کے قائل نہیں اور ان کا موقف یہ ہے کہ   اگر شوہر نے تین کا عدد بول کر  یا تین  کی نیت سے  بہ یک وقت اپنی بیوی کو طلاقیں دی ہوں تو وہ  نافذ ہو جائیں گی اور بیوی چاہے مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ، شوہر پر حرام ہو جائے گی۔    

جمہور فقہا کے برخلاف،   اہل علم کی ایک جماعت   کا رجحان یہ رہا ہے کہ تین طلاق کو اسی صورت میں تین  شمار کرنا چاہیے جب شوہر نے الگ الگ موقعوں پر صورت حال کا بغور جائزہ لے کر بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے  طلاق کا جو طریقہ اصلاً مشروع فرمایا ہے، وہ یہی ہے اور اس میں یہ حکمت ملحوظ ہے کہ طلاق کا فیصلہ کرنے کے بعد بھی  میاں بیوی میں مفاہمت کا امکان باقی رہے۔ اگر کوئی شخص اس طریقے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہ یک وقت تینوں طلاقیں دے دے تو قانون کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے رجوع کی گنجایش باقی رکھی جائے اور بہ یک وقت دی گئی تین طلاقوں کے عددکو بنیاد بنانے کے بجاے اس نکتے کو زیادہ اہمیت دی جائے کہ اس نے طلاق کا حق بہرحال ایک ہی موقع پر استعمال کیا ہے (طحاوی، شرح معانی الآثار ۳/ ۵۵)۔

 علامہ ابن رشد المالکی جمہور فقہا کے زاویۂ نظر  سے اپنے اختلاف  کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وكأن الجمهور غلبوا حكم التغليظ في الطلاق سدًا للذريعة ولكن تبطل بذلك الرخصة الشرعية والرفق المقصود في ذلك أعني في قوله تعالىٰ: لعل الله يحدث بعد ذلك أمرًا ..... ولذلك ما نرى والله أعلم أن من ألزم الطلاق الثلاث في واحدة فقد رفع الحكمة الموجودة في هذه السنة المشروعة. (بدایۃ المجتہد ۲/ ۶۲- ۶۳)
’’ جمہور فقہا نے سد ذریعہ کے طور پر، (یعنی تاکہ لوگ طلاق کے معاملے میں جری نہ ہو جائیں)، تین طلاقوں کے معاملے میں سختی کا طریقہ اختیار کیا (اور بہ یک وقت تین طلاقوں کو نافذ قرار دے دیا) ہے، لیکن اس سے وہ شرعی رخصت اور وہ آسانی جو شریعت کا مقصود ہے، فوت ہو جاتی ہے، یعنی جس کا ذکر اللہ تعالی ٰنے یوں کیا ہے کہ ہو سکتا ہے، اللہ اس کے بعد (موافقت اور مصالحت کی) کوئی راہ پیدا کر دے۔..... اسی لیے ہماری راے یہ ہے،  اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ جن حضرات نے یک بارگی دی گئی تین طلاقوں کو نافذ  قرار دیا ہے، انھوں نے اس حکمت کو فوت کر دیا ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر کیے گئے طریقے میں ملحوظ ہے۔‘‘

متاخرین حنابلہ میں سے  امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم نے اسی موقف کی پرزور تائید کی ہے اور  اس مسئلے کو ان کے ہاں جمہور کی فقہی آرا  سے اختلاف  کی ایک نمایاں مثال کی حیثیت حاصل ہے۔

اس بحث میں  عہد نبوی اور عہد صحابہ  سے استشہاد کے سلسلے میں  دو اہم روایتیں زیر بحث آتی ہیں:

پہلی روایت ابو رکانہ عبد یزید  کے واقعے سے متعلق ہے جو عہد نبوی میں پیش آیا۔    اس روایت کے مختلف طرق میں واقعے کی تفصیلات مختلف انداز سے بیان ہوئی ہیں۔  بعض طرق کے مطابق  ابو رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ، (یعنی  قطعی طلاق) دی تھی، جب کہ بعض کے مطابق اس نے تین طلاقیں دی تھیں۔   اسی طرح بیوی سے رجوع کے حوالے سے بعض طرق میں یہ بیان ہوا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورکانہ سے ان کی نیت دریافت کی اور ان کے اس بیان پر کہ ان کی مراد ایک ہی طلاق دینا تھی، ان سے کہا کہ وہ بیوی سے رجوع کرلیں۔   تاہم بعض دیگر طرق کے مطابق  آپ نے ابورکانہ کو ازخود یہ ہدایت فرمائی کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلیں اور جب انھوں نے کہا کہ میں نے تو اس کو تین طلاقیں دی تھیں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں، مجھے معلوم ہے، لیکن تم پھر بھی اس سے رجوع کر لو  (دیکھیے: ابو داؤد، رقم  ۲۱۹۶۔ ترمذی، رقم ۱۱۷۷) ۔

جمہور فقہا ومحدثین  ان میں سے طلاق بتہ کے طریق کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس صورت میں اس روایت کا زیربحث مسئلے سے تعلق نہیں بنتا۔  تاہم اگر تین طلاقوں کا طریق زیادہ درست ہو تو بھی جمہور کے موقف کے مطابق روایت کی یہ توجیہ ہو سکتی  ہے کہ ابو رکانہ نےتین کا عدد  استعمال نہیں کیا تھا، بلکہ طلاق کا کلمہ تین دفعہ دہرایا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وضاحت چاہی کہ ان کی نیت کیا تھی اور ان کے اس بیان پر کہ ان کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی،  انھیں رجوع کر لینے کی ہدایت فرمائی۔ جمہور فقہا بھی ایسی صورت میں  شوہر کے لیے وضاحت کا حق تسلیم کرتےہیں،  البتہ جب شوہر نے تین کا عدد استعمال کیا ہو یا اس کی نیت تین طلاقیں دینے ہی کی ہو تو  پھر   جمہور کے نزدیک وہ تین ہی شمار کی جائیں گی۔

اس مسئلے سے متعلق دوسری اہم روایت ابن عباس سے منقول ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کے ابتدائی عہد میں تین طلاقیں ایک ہی  مانی جاتی تھیں، لیکن سیدنا عمر نے اپنے دور میں   یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ لوگ  اس معاملے میں  توقف کے بجاے جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، اس لیے  ہم ان پر  تینوں طلاقوں کو نافذ  قرار دیں گے (مسلم، رقم ۱۴۷۲)۔ روایت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ سیدنا  عمر کے اس فیصلے سے پہلے  بہ یک وقت دی جانے والی تین طلاقوں کو قانونی طور پر ایک ہی شمار کیا جاتا تھا جسے سیدنا عمر نے تبدیل کر دیا۔ 

تاہم جمہور  اہل علم  اس روایت کو بوجوہ اس مسئلے میں    بنیادی اہمیت نہیں دیتے۔  اس کی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ  صحابہ وتابعین  کے آثار سے  عمومی طور پر   اس کی تائید نہیں ہوتی، بلکہ یہی معلوم ہوتا  ہے کہ  فقہاے صحابہ و تابعین  بہ یک وقت دی گئی تین طلاقوں کو موثر مانتے تھے اور  خود عبد اللہ بن عباس کے اپنے فتوے بھی اسی کے موید ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے اسی بنیاد پر اس روایت کو رد کر دیا کہ خود ابن عباس تین طلاقوں کو نافذ قرار دیتے تھے (اغاثۃ اللہفان ۵۷۵)  ۔

روایت کو درست ماننے کی صورت میں جمہور کی طرف سے اس کی متعدد توجیہات پیش کی گئی ہیں۔ ان میں سے بعض توجیہات کے مطابق سیدنا عمر نے  سرے سے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ روایت میں جس صورت حال کا ذکر ہے، وہ درحقیقت یہ تھی کہ عہد نبوی میں ابتداءًیہ فیصلہ کیا جاتا تھا کہ  تین طلاقوں کو ایک شمار کیا جائے گا، لیکن یہ طریقہ عہد نبوی میں ہی منسوخ   کر  دیا گیا اور اس کے بعد  تین طلاقوں کو تین  ہی قرار دیا جانے لگا، تاہم بعض حضرات غالباً اس نسخ سے واقف نہیں تھے  اور وہ سیدنا عمر کے دور تک پہلے فیصلے کے مطابق فتویٰ دیتے رہے۔ اس تناظر میں  سیدنا عمر نے  قانونی طور پر ابتدائی  فیصلے پر فتویٰ دینے کی ممانعت کر دی اور  بعد میں اختیار کیے جانے والے طریقے کی پابندی کو قانوناً لازم قرار دے دیا۔

اسی نوعیت کی ایک توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ اس روایت میں ابن عباس دراصل یہ بتا رہے ہیں کہ پہلے دور میں لوگ اکٹھی تین طلاقیں دینے کے بجاے ایک ہی طلاق دیتے تھے، لیکن سیدنا عمر کے دور میں انھوں نے تین طلاقیں اکٹھی دینا شروع کر دیں۔  اس تناظر میں انھوں نے  فرمایا کہ لوگ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، اس لیے ہم ان پر ان کے فیصلے کو نافذ کر دیں گے۔  گویا ابن عباس سیدنا عمر کی طرف سے قانون میں کسی تبدیلی کے بجاے لوگوں کے  طریقے میں واقع ہونے والی تبدیلی کو بیان کرنا چاہ رہے ہیں۔

بعض توجیہات میں  یہ تو تسلیم کیا گیا ہے کہ سیدنا عمر نے قانون میں تبدیلی کی تھی، تاہم  اس کا تعلق غیرمدخولہ بیوی کو دی جانے والی تین طلاقوں سے مانا جاتا ہے۔ یہ ایک اجتہادی معاملہ تھا جس میں  بعض اہل علم غیر مدخولہ بیوی کو دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی  قرار دیتے تھے، جب کہ بعض کے نزدیک اس میں مدخولہ اور غیر مدخولہ میں کوئی فرق نہیں تھا۔   اس تناظر میں سیدنا عمر   نے غیر مدخولہ بیوی سے متعلق یہ قرار دیا کہ اس کو دی گئی تین طلاقیں بھی تین ہی شمارکی جائیں گی۔[*]   

اسی نوعیت کی ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ اس فیصلے کا تعلق اس صورت سے تھا جب شوہر نے تین کا عدد بولنے کے بجاے، جو  اس کی نیت اور ارادے  پر بالکل واضح دلالت کرتا ہے،  تین دفعہ طلاق کا جملہ دہرایا ہو (بیہقی، السنن الکبریٰ ۷/ ۵۵۴)۔ ایسی صورت میں چونکہ  اس کا بھی احتمال ہے کہ وہ تاکید کے لیے الفاظ دہرا رہا ہو اور یہ بھی کہ وہ الگ الگ تین طلاقیں دینا چاہ رہا ہو،  اس لیے اس فیصلے سے پہلے  شوہروں کواپنی مراد واضح کرنے کا   حق دیا جاتا تھا۔ تاہم سیدنا عمر نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس معاملے میں لوگوں میں  بے احتیاطی عام ہوتی جا رہی ہے ،  یہ فیصلہ فرمایا کہ اب اس وضاحت کا موقع نہیں دیا جائے گا اور جو شخص بہ یک وقت تین دفعہ طلاق کے الفاظ ادا کرے گا، اس کی تین ہی طلاقیں نافذ مانی جائیں گی۔

امام طحاوی نے  ابن عباس کے اثر میں کسی قسم کی توجیہ یا تاویل کے بجاے اس کو ظاہری مفہوم میں لیا ہے اور یہ کہا ہے کہ  فی الواقع سیدنا عمر کے اس فیصلے سے پہلے اکٹھی دی جانے والی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا، لیکن سیدنا عمر نے اپنی راے اور اجتہاد سے اس طریقے کو تبدیل کر دیا اور چونکہ صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا، اس لیے  اس فیصلے کو صحابہ کی اجماعی راے کی حیثیت حاصل ہے جس نے پہلے طریقے کو  منسوخ کر دیا ہے۔  طحاوی کا کہنا ہے کہ (قضا وسیاسہ، یعنی اولو الامر کی صواب دید سے متعلق معاملات میں)  صحابہ نے اجماعاً‌ جو اجتہادی فیصلے کیے ہوں،  ان کی پابندی بعد والوں پر لازم ہے۔  اس کی مثال کے طور پر طحاوی شراب نوشی کی سزا ۸۰ کوڑے مقرر کیے جانے اور   ام ولد کو فروخت کرنے  پر پابندی جیسے معاملات کا ذکر کرتے ہیں۔  طحاوی کہتے ہیں کہ جیسے پہلے شراب نوشی کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی، لیکن صحابہ کے اجماعی فیصلے کے بعد     شرابی کو ۸۰ کوڑے ہی لگانا لازم ہے اور جیسے  سیدنا عمر کے فیصلے سے پہلے ام ولدکو فروخت کیا جا سکتا تھا، لیکن  ان کےدور میں صحابہ کے اتفاق سے اس پر  پابندی عائد کیے جانے کے بعد  اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح تین طلاقوں  کے باب میں بھی صحابہ کے فیصلے کی  یہی حیثیت ہے (شرح معانی الآثار ۳/ ۵۶)۔

امام ابن تیمیہ اور ابن القیم کا نقطۂ نظر اس روایت کے مفہوم کے حوالے سے بنیادی طور  پر وہی ہے جو امام طحاوی کا ہے، تاہم یہ حضرات  طحاوی کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہیں کہ سیدنا عمر کا یہ فیصلہ ناسخ کا درجہ رکھتا ہے جس کے بعد  پہلے طریقے کے مطابق فیصلے کی گنجایش باقی نہیں رہی۔  ابن تیمیہ اور ابن القیم کا موقف یہ ہے کہ یہ ایک اجتہادی معاملہ ہے جس میں حسب ضرورت ومصلحت تین طلاقوں کو ایک  یا تین شمار   کرنے کا اختیار اولو الامر کو حاصل ہے اور اس میں بھی اصل اور شرعی حکمت کے قریب تر طریقہ یہ ہے کہ ایسی  طلاقوں کو ایک شمار کیا جائے، البتہ   اجتہاداً‌ وسیاسۃً وہ طریقہ بھی اختیار کرنے کی گنجایش ہے جو سیدنا عمر نے کیا (ابن القیم، اغاثۃ اللہفان ۵۷۵)۔

مصنف  کا موقف اس بحث میں بعض پہلوؤں سے جمہور کے اور بعض پہلوؤں سے امام ابن تیمیہ کے نقطۂ نظر کے مطابق ہے۔  چنانچہ بہ یک وقت تین طلاقوں کے عدم جواز کے حوالے سے مصنف نے لکھا ہے:م

’’اسلامی شریعت میں بیوی کو طلاق دینے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے، اُس کی رو سے کسی شخص کو حق نہیں کہ وہ عدت کا لحاظ کیے بغیر بیوی کو طلاق دے، اشتعال کی حالت میں ’طلاق طلاق‘ کے الفاظ منہ سے نکال دے، طلاق پر گواہ نہ بنائے، بیوی ایام سے ہو یا کسی طہر میں اُس سے ملاقات ہو چکی ہو اور طلاق کا فیصلہ سنا دے، ایک ہی وقت میں دو طلاق یا تین طلاق کے الفاظ زبان سے کہہ دے یا لکھ کر بھیج دے۔ یہ سب طریقے سخت ناپسندیدہ ہیں۔‘‘ (مقامات۳۰۲)

جہاں تک بہ یک وقت تین طلاقوں کی تنفیذ  کا تعلق ہے تو مصنف کا اصولی موقف امام ابن تیمیہ کے نقطۂ نظر کا موید ہے۔ مصنف اس مسئلے کو  قضا سے متعلق قرار دیتے ہیں جس میں عدالت حسب مصلحت تین طلاقوں کو تین یا ایک قرار دینے کا  اختیار رکھتی ہے۔  رکانہ کی روایت اور ابن عباس کے اثر کی توضیح بھی مصنف نے اسی زاویے سے کی ہے۔ چنانچہ رکانہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ کی یہ وضاحت  قبول فرما لی کہ ان کا ارادہ درحقیقت ایک ہی طلاق دینے کا تھا ، جب کہ سیدنا عمر نے اپنے دور میں  لوگوں کی عدم احتیاط کے پیش نظر اس وضاحت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔  مصنف کے نزدیک چونکہ یہ قضا کا مسئلہ ہے، اس لیے  مسلمانوں کے اولو الامر  اپنے حالات کے لحاظ سے کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتے ہیں، تاہم بہتر یہی ہے کہ ’’ علماو فقہا اور عدالتیں غلط طریقے سے دی گئی طلاق کو نافذ قرار دینے کے بجاے وہی طریقہ اختیار کریں جو اِس طرح کے مقدمات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا‘‘  (مقامات۳۰۵) ۔

تیسری طلاق کی عدت میں بیوی کا نان ونفقہ

’’...’فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ‘ کے الفاظ بالکل صریح ہیں کہ حمل کا امکان ہو تو عدت شوہر کی طرف سے بیوی پر ایک حق واجب ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ تیسری طلاق کے بعد شوہر کے لیے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ، لیکن اِس کے نتیجے میں اگر کوئی چیز ختم کی جا سکتی ہے تو وہ اکٹھا رہنے کی پابندی ہے ، بیوی کو رہنے کی جگہ اور نان و نفقہ فراہم کرنے کی ذمہ داری کسی حال میں بھی ختم نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ یہ بالکل قطعی ہے کہ عدت خواہ تین حیض ہو یا تین مہینے یا وضع حمل تک ممتد ہو جائے ، شوہر پر یہ ذمہ داری ہر حال میں عائد ہو گی۔‘‘ (میزان۴۵۸)

سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اگر اپنی بیویوں کو طلاق دیں تو فوراً انھیں ان کے گھروں سے نکال نہ دیں، بلکہ دوران عدت میں انھیں اپنی استطاعت کے مطابق رہایش مہیا کریں (الطلاق  ۶۵:  ۱،  ۶) ۔

ز اسلوب سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عام ہدایت ہے اور عدت گزارنے والی تمام خواتین اس عرصے میں رہایش کی، اور چونکہ رہایش کے ساتھ نفقہ بھی عادتًالازم ہوتا ہے، اس لیے اس کے ساتھ نفقہ کی بھی حق دار ہیں۔ تاہم فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ ان کے خاوند نے انھیں تین طلاقیں دے دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ عدت کے دوران میں ان کا نفقہ خاوند کے ذمے نہیں ہے۔ آپ نے فاطمہ سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر کے بجاے عبد اللہ بن ام مکتوم کے گھر میں عدت مکمل کریں (ابوداؤد، رقم ۲۲۹۱)۔ فاطمہ بنت قیس کی یہ روایت فقہاے صحابہ وتابعین کے مابین خاصے اختلاف کا باعث رہی ہے۔ مثلاً سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سورۂ طلاق کی مذکورہ آیت کا حوالہ دیتے ہوئے اس روایت کو درست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ہم کتاب اللہ کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑ سکتے جس کو پتا نہیں بات یاد بھی رہی یا نہیں۔ ایسی عورت کو رہایش بھی ملے گی اور نفقہ بھی (مسلم، رقم ۳۷۱۰)۔ یہی موقف صحابہ وتابعین کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا۔

فقہاے احناف کا موقف بھی یہ ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف ہے جس میں شوہروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ طلاق کے بعد عدت کے دوران میں اپنی طاقت کے مطابق بیویوں پر خرچ کریں (الطلاق ۶۵: ۶)۔ نفقہ بھی چونکہ رہایش کے ساتھ لازم وملزوم ہے، اس لیے آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ دوران عدت میں بیوی کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے، لہٰذا مذکورہ حدیث کو قبول نہیں کیا جا سکتا (اصول السرخسی ۱/ ۳۷۵) ۔

تاہم امام شافعی فرماتے ہیں کہ فاطمہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قرآن کے ظاہر کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے عین مطابق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں دوران عدت میں بیویوں کو گھر سے نہ نکالنے کی ہدایت تو سب عورتوں کے متعلق دی ہے اور یہ حکم عام ہے، لیکن نفقہ ادا کرنے کی پابندی صرف حاملہ عورتوں کے حوالے سے لازم کی ہے۔ پہلا حکم سورہ کی ابتدا میں ’لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۣ بُيُوْتِهِنَّ‘ کے الفاظ سے دیا گیا ہے۔ پھر اس کے بعد حاملہ اور غیر حاملہ، دونوں طرح کی خواتین کے لیے عدت کے احکام بیان فرمائے ہیں اور شوہروں کو پابند کیا ہے کہ وہ دونوں کو دوران عدت میں رہایش فراہم کریں، لیکن نفقہ کی ہدایت دیتے ہوئے صرف حاملہ عورتوں کا ذکر کیا ہے۔ یوں قرآن مجید کی دلالت اس پر واضح ہے کہ حاملہ مطلقہ کے علاوہ کوئی دوسری مطلقہ دوران عدت میں نفقہ کی حق دار نہیں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو نفقہ کا حق دار تسلیم نہ کرنا قرآن مجید کے عین مطابق ہے۔ البتہ آپ نے اس کو شوہر کا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ عدت گزارنے کا حکم اس لیے دیا کہ فاطمہ زبان کی تیز تھیں اور ان کے سسرال والے ان کی زبان درازی سے تنگ تھے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑے اور بدمزگی سے بچنے کے لیے ازروے مصلحت فاطمہ کو وہاں عدت گزارنے سے منع فرمایا، تاہم اصل قانون قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق یہی ہے کہ ایسی مطلقہ کو بھی دوران عدت میں رہایش مہیا کی جائے گی  (الام  ۶ /۲۸۰-  ۲۸۱ )۔

ن امام طحاوی کی راے میں فاطمہ کی روایت  اپنے ظاہری مفہوم میں تو قرآن اور سنت کے خلاف ہے اور سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کا اسے قبول نہ کرنے کا فیصلہ بالکل درست تھا  (شرح معانی الآثار ۳/۷۰)۔ البتہ فاطمہ کی روایت کی ایک احتمالی توجیہ ایسی کی جا سکتی ہے جس سے قرآن کے ساتھ اس کا تعارض ختم ہو جائے۔ طحاوی فرماتے ہیں کہ جس طرح اس بات کا امکان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو شوہر کے گھر میں رہایش نہ دلوانے کا فیصلہ اس کی تیز مزاجی اور زبان درازی کی وجہ سے فرمایا ہو، اسی طرح اسے نفقہ نہ دلوائے جانے کی وجہ بھی اسی چیز کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی چونکہ وہ ناشزہ تھی اور اپنے رویے کی وجہ سے اسے رہایش کی سہولت سے محروم کیا جا رہا تھا، اس لیے اسی اصول کے تحت اس کے شوہر کو اسے نفقہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سے بھی بری کیا جاسکتا تھا۔ یوں یہ پورا واقعہ ایک خاص استثنائی نوعیت کا حامل بن جاتا ہے جس سے مطلقہ ثلاثہ کے لیے نفقہ و سکنیٰ کا عمومی شرعی حکم تو اخذ نہیں کیا جا سکتا، البتہ ایک تعزیری نوعیت کے فیصلے کے طور پر اس کی توجیہ کی جا سکتی ہے (شرح معانی الآثار ۳/۷۱)۔

مصنف  نے اس مسئلے میں سیدنا عمر اور فقہاے احناف کی راے کی تائید کی ہے اور  ا س کے لیے بطور خاص قرآن مجید کی اس تعبیر کا حوالہ دیا کہ ’فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا‘ (الاحزاب  ۳۳: ۴۹)، جس سے واضح ہوتا ہے کہ حمل کا امکان ہونے کی صورت میں عدت گزارنا دراصل شوہر کا حق ہے جو بیوی پر واجب ہوتا ہے۔ جب بیوی اس عرصے میں شوہر کے حق کے لیے محبوس ہے تو پھر شوہر سے ’’بیوی کو رہنے کی جگہ اور نان و نفقہ فراہم کرنے کی ذمہ داری کسی حال میں بھی ختم نہیں کی جا سکتی ‘‘ (میزان ۴۵۸)۔ اس نکتے کی روشنی میں مصنف نے فاطمہ بنت قیس کی روایت کو ناقابل قبول قرار دیا اور اس پر نقد کے ضمن میں سیدنا عمر اور سیدہ عائشہ کے آثار کا حوالہ دیتے ہوئے  یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’یہ اس روایت کی حقیقت ہے، لہٰذا کسی شخص کو اب بھی اسے قابل اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے‘‘ (میزان ۴۵۹)۔

حاملہ بیوہ کی عدت

’’... مطلقہ اور بیوہ کے لیے عدت کا حکم چونکہ ایک ہی مقصد سے دیا گیا ہے ، اِس لیے جو مستثنیات اوپر طلاق کی بحث میں بیان ہوئے ہیں، وہ بیوہ کی عدت میں بھی اِسی طرح ملحوظ ہوں گے ۔ چنانچہ بیوہ غیرمدخولہ کے لیے کوئی عدت نہیں ہو گی اور حاملہ کی عدت وضع حمل کے بعد ختم ہو جائے گی ۔ بخاری اور مسلم ، دونوں کی روایت (رقم ۵۳۱۸، ۳۷۲۳) ہے کہ ایک حاملہ خاتون ، سبیعہ رضی اللہ عنہا نے جب اپنا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے یہی فیصلہ فرمایا۔ ‘‘ (میزان ۴۶۳)

قرآن مجید میں بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن(البقرہ ۲ :۲۳۴) اور حاملہ عورت کی عدت، جسے طلاق دے دی جائے، وضع حمل بیان کی گئی ہے (الطلاق ۶۵ :۴) ۔ لیکن اگر کوئی خاتون حاملہ ہونے کی حالت میں بیوہ ہو جائے تو اس کے لیے کیا حکم ہوگا؟ آیا وہ بچہ جنم دینے کے بعد عدت سے فارغ ہو جائے گی یا اسے چار ماہ دس دن پورے ہونے تک مزید انتظار کرنا ہوگا؟ فقہا کے مابین اس حوالے سے اختلاف راے پایا جاتا ہے۔ ایک گروہ کی راے یہ ہے کہ ایسی عورت کی عدت، وضع حمل ہے اور اس کے فوراً بعد وہ نکاح کر سکتی ہے، جب کہ دوسرے گروہ کا کہنا یہ تھا کہ چونکہ وہ حاملہ بھی ہے اور بیوہ بھی، اس لیے اس کے لیے دونوں عدتیں پوری کرنا لازم ہے۔ یہ اختلاف عہد صحابہ میں ہی رونما ہو گیا تھا جس میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود نے پہلا، جب کہ سیدنا علی نے دوسرا موقف اختیار کیا۔

عبد اللہ بن مسعود کا استدلال یہ تھا کہ سورۂ طلاق میں حاملہ کے لیے وضع حمل کو عدت مقرر کرنے کی ہدایت، سورۂ بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس نے بیوہ کے لیے چار ماہ دس دن کی عدت کے حکم میں جزوی ترمیم کر دی ہے (بخاری، رقم ۴۹۱۰)۔ گویا ان کے فہم کے مطابق سورۂ بقرہ میں اللہ نے بیوہ کے لیے کسی تفصیل کے بغیر مطلقاً یہ حکم بیان کیا تھا، لیکن سورۂ طلاق میں حاملہ کی عدت بیان کر کے یہ واضح کر دیا کہ حاملہ کا حکم سابقہ ہدایت سے مختلف ہے۔

‘‘: مزید برآں، بنو اسلم کی خاتون سبیعہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا کہ اگر حاملہ عورت بیوہ ہو جائے تو بچے کی پیدایش کے بعد اس کی عدت مکمل ہو جائے گی، یعنی اسے نئے نکاح کے لیے چار ماہ دس دن پورے ہونے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا (بخاری، رقم ۵۳۱۸)۔ متعدد صحابہ مثلاً سیدنا عمر اور عبد اللہ عباس  نے، جن کی راے پہلے بیوہ حاملہ کو دو عدتوں کا پابند قرار دینے کی تھی، یہ روایات سامنے آنے کے بعد اپنی راے سے رجوع کر لیا (مصنف عبد الرزاق،  رقم ۱۱۷۱۷، ۱۱۷۲۵)۔  تاہم صحابہ وتابعین کی ایک جماعت ایسی عورت کے لیے دونوں عدتیں لازم ہونے کے موقف پر قائم رہی۔ روایات میں اس کی تفصیل منقول نہیں کہ یہ حضرات سبیعہ اسلمیہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی کیا توجیہ کرتے تھے، تاہم بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس روایت کی صحت کے بارے میں عدم اطمینان  کا اظہار کرتے تھے    (بخاری، رقم ۴۹۱۰)۔

مصنف   نے اس بحث میں  سبیعہ اسلمیہ کے واقعے کی روشنی میں  عبد اللہ بن مسعود کی راے کی تائید کی ہے۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ سبیعہ اسلمیہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ فرمایا، وہی حکم کی علت کا تقاضا تھا ۔ عدت کی اصل علت استبراء رحم ہے۔ چونکہ بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دینے کی ہدایت کی گئی جس میں شوہر نے اس سے ہم بستری نہ کی ہو، جب کہ بیوہ کے لیے اس طرح کا کوئی ضابطہ بنانا ممکن نہیں، اس لیے قرآن مجید نے احتیاطاً اس کی عدت کی مدت میں، مطلقہ کے مقابلے میں ایک ماہ دس دن کا اضافہ کر دیا ہے۔ جب دونوں صورتوں میں عدت کی علت ایک ہی ہے تو وضع حمل کی صورت میں حکم کا مقصد بھی دونوں صورتوں میں پورا ہو جاتا ہے۔

بچوں کی حضانت

’’...مطلقہ اور اُس کے شوہر میں بچوں کی حضانت پر بھی جھگڑا ہو سکتا ہے ، لیکن اِس کا فیصلہ چونکہ بچے کی مصلحت اور والدین کے حالات کی رعایت ہی سے کیا جا سکتا ہے اور یہ مختلف صورتوں میں مختلف ہو سکتا ہے ، اِس لیے شریعت نے اِس معاملے میں کوئی ضابطہ متعین نہیں کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں سے، البتہ اِس نوعیت کے مقدمات میں ارباب حل و عقد کو بہت کچھ رہنمائی مل سکتی ہے ۔‘‘ (میزان۴۶۱)

مصنف نے اس ضمن میں جن دو واقعات کا حوالہ دیا  ہے، وہ حسب ذیل ہیں:

ایک مقدمے میں طلاق یافتہ میاں بیوی بچے کی پرورش کا دعویٰ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے۔ آپ نے ان سے کہا کہ وہ قرعہ ڈال لیں۔ اس پر بچے کے والد نے کہا کہ میرے بچے میں اور کون میرے مقابلے میں حق دار بن سکتا ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے سے فرمایا کہ یہ تمھارا باپ ہے اور یہ تمھاری ماں، ان میں سے جس کے ساتھ چاہو، چلے جاؤ۔ چنانچہ بچے نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اسے لے گئی (ابو داؤد، رقم ۲۲۷۷) ۔

دوسرے واقعے میں ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور کہا کہ یا رسول اللہ، میں نے اپنے بچے کو اپنے پیٹ میں سنبھالا اور اپنی گود میں پالا اور اپنی چھاتیوں سے دودھ پلایا ہے اور اب اس کا باپ چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے چھین لے۔ آپ نے فرمایا: ب تک تم دوسرا نکاح نہ کر لو، اس پر تم زیادہ حق رکھتی ہو(ابو داؤد، رقم ۲۲۷۶)۔

اس ضمن میں حنفی فقہا کا نقطۂ نظر دوسرے واقعے کی روشنی میں یہ ہے کہ بچہ جب تک نابالغ ہو اور خاص طور پر دودھ پینے کی عمر میں ہو تو اس کی ماں اسے اپنی پرورش میں رکھنے کی زیادہ حق دار ہے۔ جہاں تک بچے کو ماں یا باپ کے مابین اختیار دینے کا واقعہ ہے تو حنفی فقہاا سے بچے کے بالغ ہونے پرمحمول کرتے ہیں، جب وہ والدہ کی پرورش اور نگہداشت سے بڑی حد تک بے نیاز ہو چکا ہوتا ہے (جصاص، شرح مختصر الطحاوی ۵/ ۳۲۵)۔   حنابلہ کے ہاں باپ کو بچے کی پرورش کا زیادہ حق دار تصور کیا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ بات کسی پہلو سے بچے کے لیے خلاف مصلحت نہ ہو۔ تاہم  جمہور فقہا کا رجحان یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی طریقہ  ایک لازمی شرعی ضابطے کی حیثیت  نہیں رکھتا۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ بچے کی پرورش کے سلسلے میں باپ یا ماں میں کسی ایک کو ترجیح دینے کے ضمن میں شارع نے کوئی عمومی حکم بیان نہیں کیا، بلکہ ترجیح دینے کی بنیاد اس پر ہے کہ بچے کی بہتری کس میں ہے۔ اگر باپ بچے کی حفاظت اور نگہبانی کا فریضہ بہتر انجام دے سکتا ہو تو بچہ اس کی پرورش میں دیا جائے گا اور باپ اس ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا نہ کر سکے تو ماں کو ترجیح ہوگی۔ اسی طرح اگر بچے کا باپ کسی دوسری عورت سے نکاح کر لے تو بچے کو سوتیلی ماں کے پاس چھوڑنے کے مقابلے میں اس کی حقیقی ماں کی پرورش میں رکھنا اس کے لیے بہتر ہے (مجموعۃ الفتاوی ۳۴/  ۸۱)۔

جیسا کہ اقتباس سے واضح ہے،مصنف کا موقف بھی اس مسئلے میں یہی ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[*] ان توجیہات کی تفصیل کے لیے دیکھیے، مولانا محمد سرفراز خان صفدر، عمدۃ الاثاث فی الطلقات الثلاث ۷۹ -  ۹۶۔


B