ترجمہ و تحقیق: محمد حسن الیاس
عَنْ عَائِشَةَ۱، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللهَ حِينَ يُرِيدُ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ يَبْعَثُ مَلَكًا، فَيَدْخُلُ الرَّحِمَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، مَاذَا؟ فَيَقُولُ: غُلامٌ أَوْ جَارِيَةٌ۲. أَوْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَخْلُقَ فِي الرَّحِمِ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، شَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ؟ فَيَقُولُ: شَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ. فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، مَا رِزْقُهُ؟ فَيَقُولُ: كَذَا وَكَذَا.فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، مَا أَجَلُهُ؟ فَيَقُولُ: كَذَا وَكَذَا.قَالَ: فَيَقُولُ: يَارَبِّ، مَا خَلْقُهُ؟ قَالَ: فَمَا شَيْءٌ إِلا يُخْلَقُ مَعَهُ فِي الرَّحِمِ».۳
ام المومنین سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ جب کسی کی تخلیق کا ارادہ کرتا ہے تو ایک فرشتہ بھیجتا ہے۔ وہ فرشتہ رحم میں داخل ہوتا اور کہتا ہے: پروردگار، یہ کیا ہے؟اللہ بتاتا ہے کہ لڑکا ہو گا یا لڑکی یا پھر جو کچھ اللہ رحم میں تخلیق کرنا چاہتا ہے۔ پھر فرشتہ پوچھتا ہے: پروردگار، یہ بدبخت ہوگا یا خوش بخت؟اِس پر بھی اللہ بتا دیتا ہے کہ وہ کیا ہو گا، بدبخت یا خوش بخت؟پھر وہ پوچھتا ہے:پروردگار، اِس کا رزق کیا ہوگا ؟اللہ وہ بھی بتا دیتا ہے کہ اتنا اور اتنا۔ پھر پوچھتا ہے: پروردگار، اِس کی موت کا وقت کیا ہے؟اللہ اِس کا جواب بھی دے دیتا ہے کہ فلاں اور فلاں۔ اِس کے بعد فرشتہ پوچھتا ہے کہ پروردگار، اِس کی فطرت کیا ہو گی؟اِس کے جواب میں اللہ فرماتا ہے: وہی جو اِس کے ساتھ رحم میں بنا دی جائے گی۔۱
________
۱۔ یہ علم الہٰی کا بیان ہے۔ اِس میں جو چیزیں مذکور ہیں، وہ سب اُسی قانون کے مطابق ظاہر ہوتی ہیں، جو دنیا میں انسان کے ابتلا کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ خوش بختی اور بدبختی، رزق، موت اور فطرت میں سے جو چیز بھی اِس قانون کی روسے انسان کے اختیار میں دی گئی ہے، اُس کا ظہور اُسی وقت ہوتا ہے، جب انسان اپنا یہ اختیار استعمال کرتا ہے۔ یہی اختیار اُس کا اصلی امتیاز ہے۔ یہ اُس کے پروردگار نے اُسے دیا ہے اور دنیا اور آخرت، دونوں میں وہ اِسی اختیار کی بنیاد پر مسئول ٹھیرایا جاتا ہے۔
۱۔اِس روایت کا متن مشکل الآثار،طحاوی،رقم ۳۲۷۸ سے لیا گیا ہے۔اِس کی راوی عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:
مسند اسحاق، رقم۷۵۴۔ الشریعۃ،آجری،رقم۳۹۴۔الابانۃ الکبریٰ،ابن بطہ، رقم ۸۱۰۔
۲۔مسند اسحاق کا جو حوالہ اوپر مذکور ہے ،اُس میں ’غُلامٌ أَوْ جَارِيَةٌ‘ کے بجاے یہاں ’ذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۳۔مسند اسحاق میں اِس جگہ یہ جملہ نقل ہوا ہے:’فَلَا يَقُولُ شَيْئًا إِلَّا فَعَلَهُ فِي الرَّحِمِ‘، یعنی وہی جو اُس نے رحم میں بنا دیا،وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہتا ۔ ملاحظہ ہو: رقم ۸۷۱۔
أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ حَدَّثَهُ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي سَرِيحَةَ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ۱، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ، يَقُولُ: «إِنَّ النُّطْفَةَ تَقَعُ فِي الرَّحِم۲ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً۳، ثُمَّ يَتَصَوَّرُ عَلَيْهَا الْمَلَكُ»۴، قَالَ زُهَيْرٌ: حَسِبْتُهُ، قَالَ: «الَّذِي يَخْلُقُهَا، فَيَقُولُ: يَارَبِّ، أَذَكَرٌ أَوْ أُنْثَى؟ فَيَجْعَلُهُ اللهُ ذَكَرًا أَوْ أُنْثَى، ثُمَّ يَقُولُ: يَارَبِّ أَسَوِيٌّ أَوْ غَيْرُ سَوِيٍّ؟ فَيَجْعَلُهُ اللهُ سَوِيًّا أَوْ غَيْرَ سَوِيٍّ، ثُمَّ يَقُولُ: يَارَبِّ، مَا رِزْقُهُ، مَا أَجَلُهُ، مَا خُلُقُهُ؟ ثُمَّ يَجْعَلُهُ اللهُ شَقِيًّا أَوْ سَعِيدًا». ۵
ابوطفیل بیان کرتے ہیں کہ میں ابو سریحہ حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو اُنھوں نے کہا : میں نے اپنے اِن دونوں کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: نطفہ چالیس راتیں رحم میں رہتا ہے ، پھر فرشتہ اُس کی صورت گری شروع کرتا ہے۔۱ زہیر کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ اُنھوں نے کہا : وہی فرشتہ جو اُس کی تخلیق پر مقرر ہے،۲ اور کہتا ہے : اے میرے رب، عورت ہو گی یا مرد ہو گا؟ پھر اللہ تعالیٰ اُس کے مردیا عورت ہونے کا فیصلہ کردیتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے : اے میرے رب، یہ ہر لحاظ سے درست ہو گا یا ناقص رہ جائے گا؟ پھر اللہ تعالیٰ اُس کے درست یا ناقص رہ جانے کا بھی فیصلہ کر دیتا ہے ، پھر وہ کہتا ہے: اے میرے پروردگار، اِس کا رزق کتنا ہو گا؟ اِس کی مدت حیات کتنی ہو گی اور اِس کا اخلاق کیسا ہو گا؟ اِس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اُس کے بدبخت یا خوش بخت ہونے کے بارے میں بھی طے کردیتے ہیں۔۳
________
۱۔ اِس سے معلوم ہوا کہ عالم طبیعی میں جو کچھ اُس کے قوانین کے مطابق ظاہر ہوتا ہے، اُس کی نگرانی بھی ہر مرحلے پر اللہ کے فرشتے کر رہے ہوتے ہیں۔ روایت میں چالیس دن کی جس مدت کا ذکر ہے،یہ کم و بیش وہی ہے جو ’نطفة‘ سے ’علقة ‘ تک گزرتی ہے۔سورۂ مومنون (۲۳) کی آیات ۱۲-۱۴میں بھی یہ اِسی طریقے سے مذکور ہے۔آگے کی روایتوں میں جو مراحل بیان ہوئے ہیں،وہ بھی قرآن کی آیات کے بالکل مطابق ہیں۔
۲۔یعنی تخلیق کے عمل کی نگرانی کررہا ہے۔
۳۔ یعنی فرشتوں کو بتا دیتے ہیں تاکہ آگے کے احوال میں جو کچھ وہ اپنے اختیار سے کرے گا، فرشتے اُس کے لحاظ سے اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکیں۔
۱۔اِس روایت کا متن صحیح مسلم،رقم ۴۷۹۰ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے:
الآثار،ابن وہب، رقم ۱۸، ۲۰، ۲۱۔مسند حمیدی، رقم۸۰۰۔مسند ابن ابی شیبہ،رقم۸۲۱۔صحیح مسلم ،رقم ۴۷۸۹، ۴۷۹۰۔ الآحاد و المثانی، ابن ابی عاصم، رقم ۹۲۰۔مشکل الآثار، طحاوی، رقم ۲۲۴۶، ۲۲۴۷۔ صحیح ابن حبان،رقم۶۳۱۱۔المعجم الکبیر،طبرانی،رقم۲۹۷۰۔السنن الکبریٰ،بیہقی،رقم۱۴۱۹۲، ۱۴۱۹۳۔
حدیفہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ یہی مضمون جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی نقل ہوا ہے۔اُن سے اِس کے مصادر یہ ہیں: مسند احمد،رقم۱۴۹۶۹۔ الآثار،ابن وہب ،رقم۱۷۔السنۃ،ابو عاصم،رقم۱۴۲۔ مشکل الآثار، طحاوی، رقم۳۲۷۷ ۔صحیح ابن حبان، رقم۶۳۱۲۔مسند ابی یعلیٰ،رقم۵۷۲۵۔
۲۔ابن وہب کی الآثار ،رقم۲۱ میں اِس جگہ یہ جملہ نقل ہوا ہے: ’إِنَّ اللهَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَ الْعَبْدَ، قَالَ الْمَلَكُ‘،یعنی اللہ جب اپنے بندے کو تخلیق کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے۔
۳۔آگے کی روایات سے واضح ہوتا کہ یہ چالیس چالیس دنوں کے تین مراحل کے بعد کی حالت کا بیان ہے۔ بعض روایتوں میں یہاں بیالیس یا پینتالیس دن کا ذکر بھی ہوا ہے۔یہ سیدنا حذیفہ کا بیان ہے یا کسی راوی کا تردد،اِس کے بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔اِس اختلاف کے لیے ملاحظہ ہو:مسند احمد،رقم ۱۵۸۰۵۔صحیح مسلم،رقم ۴۷۸۸۔
۴۔مشکل الآثار،طحاوی،رقم ۲۲۴۷میں اِس جگہ ’ثُمَّ بَعَثَ اللهُ إِلَيْهَا مَلَكًا، فَصَوَّرَهَا، وَخَلَقَ سَمْعَهَا، وَبَصَرَهَا، وَجِلْدَهَا، وَلَحْمَهَا، وَعِظَامَهَا‘ کا اضافہ نقل ہوا ہے،یعنی اللہ اُس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے ،وہ اُس کی صورت گری کرتا اور اُس کے کان، آنکھ، کھال، گوشت اور ہڈی بناتا ہے۔
۵۔مسند ابن ابی شیبہ،رقم ۸۲۱ میں اِس جگہ یہ اضافہ نقل ہوا ہے ’فَيَقْضِي اللهُ وَيَكْتُبُ الْمَلَكُ ثُمَّ تُطْوَى الصَّحِيفَةُ فَلا يُزَادُ فِيهَا وَلا يُنْقَصُ‘ ’ ’چنانچہ اللہ فیصلہ کرتا ہے اور اُسےفرشتہ لکھ لیتا ہے۔ پھر وہ صحیفہ لپیٹ دیا جاتا ہے ،جس کے بعد اُس میں نہ کچھ بڑھایا جا سکتا ہے ،نہ کم کیا جا سکتا ہے ۔“
أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ،۱ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «إِِذَا أَرَادَ اللهُ أَنْ يَخْلُقَ نَسَمَةً، قَالَ مَلَكُ الأَرْحَامِ مُعْرِضًا: يَا رَبِّ، أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى؟ فَيَقْضِي اللهُ أَمْرَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ، أَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ؟ فَيَقْضِي اللهُ أَمْرَهُ، ثُمَّ يَكْتُبُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَا هُوَ لاقٍ حَتَّى النَّكْبَةَ يُنْكَبُهَا».
عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جب کسی نفس کو تخلیق کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو رحم میں موجود فرشتہ سوال کے بعد سوال پوچھتا ہے، یعنی پروردگار، یہ مرد ہے یا عورت؟سو اللہ اُس کے جواب میں اِس کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ پھر وہ پوچھتا ہے کہ اے میرے رب، یہ نیک بخت ہوگا یا بد بخت؟ اللہ اِس کا بھی فیصلہ کر دیتا ہے۔ اِس کے بعد وہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ہر وہ چیز لکھ دیتا ہے جو اُس کو پیش آئے گی، یہاں تک کہ وہ مصیبت بھی جو اُسے لاحق ہوگی۔
________
۱۔ اِس لکھنے سے کیا مرا د ہے، اور فرشتے کس طرح اِسے پڑھتے ہیں؟ یہ امور متشابہات میں سے ہے۔ اِس طرح کے امور میں اللہ کا حکم یہی ہے کہ لوگ اِن کی حقیقت کے درپے نہ ہوں۔ یہ قیامت ہی میں سامنے آئے گی۔
۱۔ اِس روایت کا متن صحیح ابن حبان،رقم ۶۳۱۲ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:
الآثار،ابن وہب ،رقم۱۷۔السنۃ،ابو عاصم،رقم۱۴۲۔ مشکل الآثار،طحاوی،رقم۳۲۷۷۔صحیح ابن حبان، رقم ۶۳۱۲۔ مسند ابی یعلیٰ،رقم۵۷۲۵۔
عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَرَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ۱ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْعَزْلِ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ بَنِي الْمُصْطَلِقِ، فَأَصَبْنَا سَبْيًا مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ، فَاشْتَهَيْنَا النِّسَاءَ وَاشْتَدَّتْ عَلَيْنَا الْعُزْبَةُ وَأَحْبَبْنَا الْعَزْلَ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَعْزِلَ وَقُلْنَا نَعْزِلُ وَرَسُولُ اللهِ بَيْنَ أَظْهُرِنَا قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: «مَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا۲، مَا مِنْ نَسَمَةٍ كَائِنَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا وَهِيَ كَائِنَةٌ».۳
ابن محیریز نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ موجود ہیں۔ میں اُن کے پاس بیٹھ گیا اور اُن سے عزل کے متعلق سوال کیا۔ اُنھوں نے بتایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بنی المصطلق کے لیے نکلے۔ اِس غزوے میں ہمیں اہل عرب کے کچھ قیدی ملے۔ اُس وقت ہمیں عورتوں کی خواہش ہو رہی تھی اور اُن کے بغیر رہنا سخت مشکل ہو گیا تھا۔ اِس طرح کی صورت حال میں ہم عزل کو پسند کرتے تھے۔ چنانچہ اب بھی یہی ارادہ ہوا کہ عزل کر لیں گے۔
ن۱ لیکن پھر خیال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں تو آپ سے پوچھے بغیر عزل کر لیں؟اِس پر ہم نے آپ سے اِس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: تم نہ کرو تو پھر بھی کچھ حرج نہیں، اِس لیے کہ قیامت تک جو جان بھی پیدا ہونے والی ہے، وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔۲
________
۱۔ یعنی اگر قیدیوں میں لونڈیاں بھی ہوئیں اور لڑنے والوں کو دے دی گئیں تو اُن سے عزل کر لیں گے۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ لونڈی غلام اُس زمانے کی جنگوں میں اپنے آقاؤں کے ساتھ لازماً شریک ہوتے تھے۔
۲۔ مطلب یہ ہے کہ تمھاری یہ تدبیر خدا کے کسی فیصلے کو روک نہیں سکتی۔ اُس کی حکمت کا تقاضا اگر یہ ہوا کہ بچے کو دنیا میں آنا ہےتو وہ آکر رہے گا۔ تدبیر اور تقدیر کے تمام معاملات میں خدا کے پیغمبر کی یہی نصیحت ہے جو ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے۔ اِسی سے فکر و خیال اور علم و عمل میں وہ توازن پیدا ہوتا ہے جو اسلام میں مطلوب ہے۔
۱۔اِس روایت کا متن صحیح بخاری،رقم ۳۸۴۸ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں ۔اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:
حدیث مجاعۃ بن زبیر،رقم ۱۸۔مشیخۃ ابن طہمان،رقم۵۴ ،۹۳۔ موطا امام مالک، رقم ۹۰۹، ۱۲۳۰۔ حدیث اسماعیل بن جعفر، رقم ۳۴۳۔ مسند عبد اللہ بن مبارک، رقم ۱۸۷۔ مسند طیالسی، رقم ۲۲۷۵، ۲۲۷۷، ۲۲۹۳، ۲۳۰۷۔مصنف عبدالرزاق،رقم ۱۲۱۹۷، ۱۲۲۲۳۔مسند الحمیدی،رقم۷۲۱، ۷۲۲۔سنن سعید بن منصور، رقم ۹۱۸، ۲۰۶۲ ، ۲۰۶۳، ۲۰۶۴، ۲۰۶۵۔مسند ابن الجعد، رقم ۱۰۱۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۵۳۴، ۳۶۱۳۷۔ مسند احمد، رقم ۱۰۸۶۸، ۱۰۹۵۶، ۱۱۲۲۶، ۱۱۲۴۴، ۱۱۲۴۸، ۱۱۲۸۹، ۱۱۳۳۲، ۱۱۳۵۲، ۱۱۳۸۶، ۱۱۴۳۲، ۱۱۴۳۴، ۱۱۴۷۴، ۱۱۴۷۷، ۱۱۵۳۴، ۱۱۶۲۷، ۱۱۶۶۱، ۱۱۶۶۷، ۱۱۶۹۱۔سنن دارمی، رقم ۲۱۵۵، ۲۱۵۶۔صحیح بخاری،رقم ۲۰۸۷، ۲۳۶۸، ۳۸۴۸، ۴۸۳۵، ۶۱۴۱، ۶۸۸۴۔صحیح مسلم، رقم ۲۶۰۷، ۲۶۰۸، ۲۶۰۹، ۲۶۱۰، ۲۶۱۳۔سنن ترمذی، رقم ۱۰۵۳۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۱۹۱۶۔ سنن ابوداؤد، رقم ۱۸۵۸، ۱۸۵۹، ۱۸۶۰۔ السنن الکبریٰ،نسائی،رقم ۴۸۹۹، ۴۹۰۰، ۴۹۰۱، ۴۹۰۲، ۴۹۰۳، ۴۹۰۴، ۵۲۹۹، ۷۳۹۱، ۷۳۹۲، ۸۷۴۶، ۸۷۴۷، ۸۷۴۸، ۸۷۴۹، ۸۷۵۰، ۸۷۵۱، ۸۷۵۲، ۸۷۵۶۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۳۲۹۳۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۰۳۶، ۱۱۲۰، ۱۱۳۸، ۱۲۱۷، ۱۲۳۸، ۱۲۹۵۔ حدیث علی بن حجر، رقم ۷۴۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم۳۴۴۹، ۳۴۵۰، ۳۴۵۲، ۳۴۵۳، ۳۴۵۴ ،۳۴۵۵، ۳۴۵۶، ۳۴۵۷، ۳۴۵۸، ۳۴۵۹، ۳۴۶۰، ۳۴۶۱، ۴۳۵۱۔مشکل الآثار، طحاوی، رقم۱۶۴۸، ۱۶۴۹، ۳۱۵۱، ۳۱۵۳، ۳۳۱۵، ۳۳۱۶، ۳۳۱۷، ۳۳۱۸۔ شرح معانی الآثار، رقم ۲۷، ۲۷۹۳، ۲۷۹۸، ۲۸۰۳۔صحیح ابن حبان،رقم۴۲۸۲،۴۲۸۰۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۱۸۳۱۰، ۲۷۰۸۔مسند شامیین،طبرانی،رقم ۲۱۲۷، ۲۱۲۸، ۲۱۲۹، ۲۱۳۲، ۲۱۳۵۔معرفۃ الصحابہ، ابونعیم، رقم ۶۳۵۵۔ المسند المستخرج علیٰ صحیح مسلم، ابو نعیم، رقم ۳۱۰۳، ۳۱۰۴، ۳۱۰۵۔سنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۱۴۰، ۱۳۲۵۰، ۱۳۲۵۳۔
س ۲۔سنن ترمذی،رقم ۱۰۵۳ میں اِس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سوال بھی نقل ہوا ہے:’فَقَالَ: ’’لِمَ يَفْعَلُ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ‘‘‘یعنی تم میں سے کوئی یہ کام کیوں کرنا چاہتا ہے؟
۳۔صحیح مسلم ،رقم ۲۶۱۲ میں اِس جگہ ’لَيْسَتْ نَفْسٌ مَخْلُوقَةٌ إِلَّا اللهُ خَالِقُهَا‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں،یعنی کوئی بھی جان جو پیدا ہونی ہے ، اللہ تعالیٰ اُسے پیدا کر کے رہے گا۔ سنن سعید بن منصور ،رقم ۲۰۶۵ میں اِس جگہ ’لا عَلَيْكُمْ أَلا تَفْعَلُوا، إِنْ يَكُنْ مِمَّا أَخَذَ اللهُ عَلَيْهِ الْمِيثَاقَ فَكَانَتْ عَلَى هَذِهِ الصَّخْرَةِ، أَخْرَجَهَا اللهُ‘ کا اضافہ نقل ہوا ہے ،یعنی ،تم نہ کرو تو پھر بھی کچھ حرج نہیں ،کیونکہ اگر وہ اُن میں سے ہوا جن پر اللہ نے میثاق لے رکھا ہے،اور اِس چٹان پر بھی ہوا تو اللہ اُس کو نکال لائے گا ۔اِسی کتاب کے ایک دوسرے طریق میں ’ أَخْرَجَهَا اللّٰهُ‘ کے بجاے ’لَنُفِخُ فِيهَا الرُّوحُ‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں،یعنی اُس میں روح پھونکی جائے گی۔ملاحظہ ہو: رقم ۹۱۸ ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ۱، قَالَ: ذُكِرَ الْعَزْلُ عَنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقَالَ: «وَمَا ذَاكُمْ؟»، قَالُوا: الرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْمَرْأَةُ تُرْضِعُ، فَيُصِيبُ مِنْهَا وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ مِنْهُ، وَالرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْأَمَةُ فَيُصِيبُ مِنْهَا، وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ مِنْهُ، قَالَ: «فَلَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا ذَاكُمْ، فَإِنَّمَا هُوَ الْقَدَرُ».
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عزل کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: تم یہ کیوں کرتے ہو؟صحابہ نے عرض کیا: آدمی کے پاس ایسی عورت بھی ہوتی ہے جو دودھ پلاتی ہے۔ وہ اُس سے صحبت کرلیتا ہے تو ڈرتا ہے کہ اُسے حمل نہ ٹھیر جائے۔ اِسی طرح کسی کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اُس سے صحبت کرلے تو وہ بھی نہیں چاہتا کہ اُسے حمل ٹھیرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس پر فرمایا: تم نہ کرو تو اِس میں بھی کوئی مضایقہ نہیں، اِس لیے کہ یہ سب تو تقدیر کے معاملات ہیں۔۱
________
۱۔ وہی مضمون ہے جس کی وضاحت پیچھے ہو چکی ہے۔ اِس میں تدبیر سے روکنا مقصود نہیں، بلکہ اِس بات کی یاددہانی مقصود ہے کہ تدبیر کے ساتھ خدا کے فیصلوں کی بالاتری بھی ہمیشہ مستحضر رہے، اِس لیے کہ اللہ کے پیغمبر اِسی استحضار کی تذکیر کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔
۱۔اِس روایت کا متن صحیح مسلم،رقم ۲۶۱۱ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے اِس روایت کے مصادر یہ ہیں:مسند احمد، رقم ۱۰۸۶۸، ۱۱۴۳۲۔مستخرج ابی عوانہ، رقم ۳۴۵۴، ۳۴۵۵ ۔ السنن الکبریٰ،نسائی،رقم۱۳۳۶، ۱۴۴۲، ۲۴۹۲۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ۱، قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ عَلَقَةً ۲مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ بِكَتْبِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ فَوَالَّذِي لَا إِلٰهَ غَيْرُهُ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلاَّ ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلاَّ ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا».
عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا ــــــ اور آپ صادق بھی تھے اور مصدوق بھی ــــــ آپ نے فرمایا:یہ حقیقت ہے کہ تم میں سے ہر آدمی کی خِلقت اُس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی صورت میں جمع رہتی ہے۔ پھر اتنی ہی مدت میں لہو کی پھٹکی ہو جاتی ہے، پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کی بوٹی بن جاتی ہے۔ اِس کے بعد فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور وہ اُس میں روح پھونکتا ہے۔ اُسے چار چیزوں کا حکم دیا جاتا ہے،یعنی اِس کا کہ اُس کی روزی لکھے، اُس کی عمر لکھے، اُس کا عمل لکھے اور یہ لکھے کہ وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت۔ سو میں قسم کھاتا ہوں اُس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ لاریب، تم میں سے کو ئی جنتیوں کے کام کرتا ہے، یہاں تک کہ اُس میں اور جنت میں ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے، لیکن پھر یہی نوشتہ اُس پر غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے کام کرنے لگتا ہے، لہٰذا دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح تم میں سے کوئی عمر بھر دوزخیوں کے کام کرتا ہے، یہاں تک کہ اُس میں اور دوزخ میں ہاتھ بھر سے زیادہ کا فرق نہیں رہ جاتا، لیکن پھر یہی نوشتہ غالب آ جاتا ہے، اور وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے، لہٰذا جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔۱
________
۱۔ مطلب یہ ہے کہ علم الٰہی کبھی غلط نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انسان کی خلقت کے وقت فرشتوں کو بتا دیا تھا، بالآخر وہی ہو کر رہتا ہے۔ تاہم جو کچھ ہوتا ہے، انسان کے ارادہ و اختیار سے ہوتا ہے۔ یہ ارادہ و اختیار اُسی پروردگار کا دیا ہوا ہے۔ انسان اگر خدا کے ہاں مسئول ہے تو اِسی ارادہ و اختیار کی بنا پر ہے اور اُسے یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر بھی رکھنی چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اِن روایتوں کی نسبت اگر صحیح ہے تو آپ نے یہ حقائق اِسی مقصد سے بیان فرمائے ہیں۔
۱۔اِس روایت کا متن صحیح بخاری،رقم ۶۱۳۳ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں ۔اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:
جامع معمر بن راشد،رقم۶۹۸۔مسندطیالسی،رقم۲۹۳۔مسند حمیدی،رقم۱۲۵۔مسند ابن جعد، رقم ۲۲۶۳۔ مسنداحمد،رقم ۳۴۹۳ ، ۳۸۰۳ ،۳۹۵۱ ،۴۳۲۲۔ صحیح بخاری، رقم ۲۹۸۷ ،۳۱۰۵ ،۶۱۳۳، ۶۹۲۴۔صحیح مسلم، رقم ۴۷۸۷، ۴۷۸۹۔سنن ابوداؤد، رقم ۴۰۸۷۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۷۳۔ مسند بزار، رقم ۱۳۹۹، ۱۴۷۴، ۱۵۸۸۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۰۷۳۳۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۵۰۹۶۔ مشکل الآثار، طحاوی، رقم ۳۲۷۳، ۳۲۷۴، ۳۲۷۵۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۴۶۷۱۔ مسند شاشی، رقم۶۲۴، ۶۲۶، ۶۲۷، ۶۲۸، ۶۳۰۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۳۰۸۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۰۲۹۱۔ المعجم الصغیر، طبرانی، رقم ۱۹۹، ۴۴۳۔ المعجم الاوسط، طبرانی،رقم۱۷۵۳، ۴۷۰۰۔
ا
۲۔مسند احمد،رقم ۳۴۲۲ میں اِس جگہ ’عَلَى حَالِهَا، لَا تَغَيَّرُ‘ کا اضافہ نقل ہوا ہے، یعنی وہ اِسی حالت میں رہتا ہے اور (اگلے مرحلے تک) کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
ابن حبان، أبو حاتم بن حبان. (۱۴۱۴هـ/۱۹۹۳م). نصحیح ابن حبان. ط۲. تحقیق: شعیب الأرنؤوط. بیروت: مؤسسة الرسالة.
ابن حجر، علی بن حجر أبو الفضل العسقلاني. (۱۳۷۹هـ). کفتح الباري شرح صحیح البخاري. (د.ط). تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار المعرفة.
ابن قانع، ابوالحسین عبد الباقی. (۱۴۸۱هـ/۱۹۹۸م). معجم الصحابة. ط۱. تحقیق:حمدي محمد. مکة المکرمة: نزار مصطفی الباز.
ابن ماجة، ابو عبد اللّٰه محمد بن یزید القزویني. (د.ت). سنن ابن ماجة. ط۱. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار الفکر.
ابن منظور، محمد بن مکرم بن الأفریقي. (د.ت). یلسان العرب. ط۱. بیروت: دار صادر.
أبو نعیم، احمد بن عبد اللّٰه اصفهانی (د.ت). معرفة الصحابة. ط۱. تحقیق: مسعد السعدني. بیروت: دارالکتاب العلمیة.
أحمد بن محمد بن حنبل الشیباني. (د.ت). تمسند أحمد بن حنبل. ط۱. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.
البخاري، محمد بن إسمٰعیل. (۱۴۰۷هـ/ ۱۹۸۷م). الجامع الصحیح. ط۳. تحقیق: مصطفی دیب البغا. بیروت: دار ابن کثیر.
بدر الدین العیني ابو محمد محمود بن احمد. عمدة القاري شرح صحیح البخاري. (د.ط). بیروت: دار إحیاء التراث العربي.
البیهقي، أحمد بن الحسین البیهقي. (۱۴۱۴هـ/۱۹۹۴م). لالسنن الکبری. ط۱. تحقیق: محمد عبد القادر عطاء. مکة المکرمة: مکتبة دار الباز.
السیوطي، جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابوبکر السیوطي. (۱۴۱۶هـ/ ۱۹۹۶م). الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج. ط ۱. تحقیق: أبو إسحٰق الحویني الأثري. السعودیة: دار ابن عفان للنشر والتوزیع.
الشاشي، الهیثم بن کلیب. (۱۴۱۰هـ). مسند الشاشي. ط۱. تحقیق: محفوظ الرحمٰن زین اللّٰه. المدینة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.
محمد القضاعي الکلبي المزي. (۱۴۰۰هـ/۱۹۸۰م). تهذیب الکمال في أسماء الرجال . ط۱. تحقیق: بشار عواد معروف. بیروت: مؤسسة الرسالة.
مسلم، مسلم بن الحجاج. (د.ت). الجامع الصحیح. ط۱. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.
النسائي، أحمد بن شعیب. (۱۴۰۶هـ/۱۹۸۶م). االسنن الصغری. ط۲. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدة. حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیة.
النسائي، أحمد بن شعیب. (۱۴۱۱هـ/۱۹۹۱م). السنن الکبری. ط۱. تحقیق: عبد الغفار سلیمان البنداري، سید کسروي حسن. بیروت: دار الکتب العلمیة.
ـــــــــــــــــــــــــ