بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِﵐ اِتَّخَذَتْ بَيْتًاﵧ وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ٤١ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍﵧ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٤٢ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِﵐ وَمَا يَعْقِلُهَا٘ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ ٤٣A
اللہ کے سوا جن لوگوں نے دوسرے کارساز بنا لیے ہیں، اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اُس نے ایک گھر بنایا اور کوئی شبہ نہیں کہ سب گھروں سے بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتاہے۔ اے کاش، یہ لوگ جانتے![58] اللہ کے سوا جن چیزوں کو بھی یہ پکارتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ اُنھیں اچھی طرح جانتا ہے[59] اور وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔[60] یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمایش کے لیے بیان کرتے ہیں، مگر اِن کو وہی سمجھتے ہیں جو علم والے ہیں۔[61] ۴۱- ۴۳
خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّلْمُؤْمِنِيْنَ٤٤ اُتْلُ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَﵧ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰي عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِﵧ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُﵧ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ٤٥l
زمین اور آسمانوں کو خدا نے برحق پیدا کیا ہے۔[62] اِس میں یقیناً بہت بڑی نشانی ہے، اُن کے لیے[63] جو ماننے والے ہوں۔ (یہ دھیان نہیں دے رہے تو اِن کی پروا نہ کرو، اے پیغمبر اور) اُس کتاب کو پڑھتے رہو[64] جو تمھاری طرف وحی کی گئی ہے اور نماز کا اہتمام رکھو۔[65] کچھ شک نہیں کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔[66] (یہ اللہ کی یاد ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی یاد بڑی چیز ہے۔[67] (تم اُس پر بھروسا رکھو، اِس لیے کہ) اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو۔[68] ۴۴ -۴۵
وَلَا تُجَادِلُوْ٘ا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُﵟ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَقُوْلُوْ٘ا اٰمَنَّا بِالَّذِيْ٘ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَاِلٰهُنَا وَاِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ٤٦
اور اہل کتاب (اِس دعوت کی طرف متوجہ ہوں تو اُن) کے ساتھ اُسی طریقے سے بحث کرو جو بہتر ہے،[69] سواے اُن کے جو اُن میں سے ظالم ہیں۔[70] (اُن کے ساتھ کسی بحث کی ضرورت نہیں ہے) ۔[71] تم اُنھیں بتاؤ کہ ہم اُسے بھی مانتے ہیں جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اور اُسے بھی جو تمھاری طرف نازل کیا گیا تھا۔[72] ہمارامعبود اورتمھارا معبود ایک ہی ہے اورہم اُسی کے فرماں بردار ہیں۔[73] ۴۶
وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ الْكِتٰبَﵧ فَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖﵐ وَمِنْ هٰ٘ؤُلَآءِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِهٖﵧ وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَا٘ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ ٤٧ وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ٤٨ بَلْ هُوَ اٰيٰتٌۣ بَيِّنٰتٌ فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَﵧ وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَا٘ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ ٤٩
ہم نے، (اے پیغمبر)، اِسی طرح یہ کتاب تمھاری طرف اتاری ہے۔[74] سو جن کو ہم نے (اِس سے پہلے) کتاب سے نوازا ہے،[75]وہ اِس پر ایمان لائیں گے اور اُن میں سے بعض اِس پر ایمان لا بھی رہے ہیں، اور ہماری آیتوں کا انکار تو وہی کرتے ہیں جو انکار کا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں۔ تم اِس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے، نہ اُس کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ جھٹلانے والے، البتہ شک میں پڑ سکتے تھے۔[76]نہیں، (اِس میں کسی شک کی گنجایش نہیں ہے)، بلکہ یہ قرآن تو کھلی ہوئی آیتیں ہیں اُن لوگوں کے سینوں میں جنھیں علم عطا ہوا ہے۔[77] اور ہماری آیتوں کا انکار تو وہی کرتے ہیں جو اپنی جانوں پرظلم ڈھانے والے ہیں۔[78]۴۷ -۴۹
وَقَالُوْا لَوْلَا٘ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖﵧ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِﵧ وَاِنَّمَا٘ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ٥٠ اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّا٘ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰي عَلَيْهِمْﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّذِكْرٰي لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ٥١ قُلْ كَفٰي بِاللّٰهِ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ شَهِيْدًاﵐ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵧ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللّٰهِﶈ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ ٥٢
یہ ( ظالم) کہتے ہیں کہ اِس کے پروردگار کی طرف سے اِس پر نشانیاں کیوں نہیں اتاری گئیں؟[79] اِن سے کہو، نشانیاں تو خدا ہی کے پاس ہیں، میں تو صرف ایک کھلا ہوا خبردار کرنے والا ہوں۔[80] کیا اِن کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر یہ کتاب اتاری ہے کہ اِنھیں پڑھ کر سنائی جارہی ہے؟[81] اِس میں یقیناً اُن لوگوں کے لیے رحمت ہے اور یاددہانی بھی جو ایمان لائیں ۔ (یہ انکار کا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں یا اِن پر فی الواقع حقیقت واضح نہیں ہوئی)؟ کہہ دو کہ ( اِس پر) میرے اور تمھارے درمیان اللہ گواہی کے لیے کافی ہے۔وہ جانتا ہے جو کچھ زمین اور آسمانوں میں ہے۔ (البتہ، یاد رکھو کہ) جو باطل پر ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کا انکار کر دیا ہے، وہی نامراد ہونے والے ہیں۔ ۵۰ -۵۲
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِﵧ وَلَوْلَا٘ اَجَلٌ مُّسَمًّي لَّجَآءَهُمُ الْعَذَابُﵧ وَلَيَاْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ٥٣ يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِﵧ وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌۣ بِالْكٰفِرِيْنَ ٥٤ﶫ يَوْمَ يَغْشٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَيَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٥٥B
یہ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں۔[82] اِن پر عذاب آجاتا، اگر اُس کے لیے ایک وقت مقرر نہ ہوتا۔[83] (اِن کا رویہ یہی رہا تو) یقیناً(ایک دن) وہ اچانک اِن پر آجائے گااور اِنھیں خبر بھی نہیں ہوگی۔ (اِن پر افسوس)، یہ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں، دراں حالیکہ جہنم اِن منکروں کو گھیرے میں لے چکی ہے۔[84] یہ اُس دن کا خیال کریں، جس دن عذاب اِن کے اوپر سے اور اِن کے پاؤں کے نیچے سے اِنھیں ڈھانک لے گا اور ارشادہو گا کہ اب چکھو اُس کا مزہ جو کرتے رہے ہو۔ ۵۳ -۵۵
يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ ٥٦ كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِﵴ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ ٥٧ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاﵧ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ ٥٨ﶦ الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ ٥٩ وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَاﵡ اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَاِيَّاكُمْﵠ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ٦٠ay
میرے بندو جو ایمان لائے ہو، (یہ تم پر ظلم و ستم سے باز نہیں آتے تو ہجرت کرکے یہاں سے نکل جاؤ) ۔[85] میری زمین، بے شک وسیع ہے، سو (جہاں رہ کر بن پڑے) تم میری ہی بندگی کرو۔ (یہ دنیا ہمیشہ کے لیے نہیں ہے، یہاں) ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے،پھرتم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤگے اور جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں،اُنھیں ہم ضرورجنت کے بالاخانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ کیا ہی اچھا صلہ ہے عمل کرنے والوں کے لیے ــــ جنھوں نے صبر کیا اور ہر حال میں اپنے پروردگار ہی پر بھروسا کرتے رہے۔ (یہ خیال نہ کرو کہ یہاں سے نکلے تو کھاؤ گے کہاں سے)۔ کتنے جانور ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے۔ اللہ ہی اُن کو روزی دیتا ہے اور تمھیں بھی اور وہ سمیع و علیم ہے۔[86] ۵۶ -۶۰
وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُﵐ فَاَنّٰي يُؤْفَكُوْنَ ٦١ اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗﵧ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ٦٢ وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۣ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُﵧ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِﵧ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ٦٣an
(حقیقت یہ ہے کہ اِن کی عقل ماری گئی ہے)۔
اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کررکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر کہاں سے اوندھے ہو جاتے ہیں![87] (کیا اِن کے معبود اِنھیں کھلاتے ہیں؟ ہرگز نہیں)، اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے، کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتا ہے، تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک، اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اور اگر تم اِن سے پوچھو کہ آسمان سے کس نے پانی برسایا، پھر اُس سے زمین کو اُس کے مردہ ہو چکنے کے بعد زندہ کر دیا تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو، شکر کا سزاوار بھی اللہ ہے،[88] لیکن اِن میں سے اکثر سمجھتے نہیں ہیں۔ ۶۱ -۶۳
وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا٘ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌﵧ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ٦٤
(اِس کا سبب یہ ہے کہ دنیا پر ریجھے ہوئے ہیں اور) حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی لہو و لعب کے سوا کچھ بھی نہیں۔[89] اصل زندگی کا گھر تو آخرت کا گھر ہے، اگر یہ جانتے! ۶۴
فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَﵼ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَي الْبَرِّ اِذَا هُمْ يُشْرِكُوْنَ ٦٥ﶫ لِيَكْفُرُوْا بِمَا٘ اٰتَيْنٰهُمْﵖ وَلِيَتَمَتَّعُوْاﶋ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ٦٦
پھر (یہی لوگ ہیں کہ گویا وہ مسافر ہیں کہ) جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں (اور وہ طوفان میں گھر جاتی ہے) تو اپنی اطاعت کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس کو پکارتے ہیں۔[90] پھر جب اللہ نجات دے کر اُنھیں خشکی کی طرف لے جاتا ہے تو نجات پاتے ہی شرک کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے جو نعمت اُن کو بخشی ہے، اُس کی ناشکری کریں اور (دنیا کی اِس زندگی سے) چند دن اور بہرہ مند ہو لیں۔[91] (اِس کا انجام کیا ہے)؟ اب آگے جان لیں گے۔ ۶۵ -۶۶
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْﵧ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَكْفُرُوْنَ ٦٧ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهٗﵧ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًي لِّلْكٰفِرِيْنَ ٦٨B
کیا اِنھوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے ایک مامون حرم بنایا (جس میں یہ چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں)، دراں حالیکہ اِن کے گردوپیش لوگ اچک لیے جاتے ہیں؟[92] کیا پھر بھی باطل ہی کو مانتے ہیں اور اللہ کی اِس نعمت کی ناشکری کرتے ہیں؟ اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے[93] یا حق کو جھٹلائے،[94] جب کہ وہ اُس کے پاس آ چکا ہے؟ کیا ایسے منکروں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ہے! ۶۷ -۶۸
وَالَّذِيْنَ جٰهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاﵧ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ٦٩
(تم میرے بندوں کو بشارت دو، اے پیغمبر کہ) جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں جھیل رہے ہیں، اُن پر ہم اپنی راہیں ضرور کھولیں گے[95]اور کچھ شک نہیں کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو خوبی سے عمل کرنے والے ہیں۔[96]۶۹
[58]۔ یعنی اِس حقیقت کو جانتے کہ خدا کے سواجو سہارے یہ ڈھونڈتے ہیں، وہ سب جھوٹے سہارے ہیں۔ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد خدا کا فیصلہ جب بھی صادر ہوا ہے، یہ جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ چنانچہ آخرت میں بھی اِسی طرح جھوٹے ثابت ہوں گے۔ اپنے خیال میں جو قلعے اِنھوں نے بنا رکھے ہیں، اُن کی حقیقت مکڑی کے جالے سے زیادہ نہیں ہے۔
[59]۔ یعنی اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کتنے بے حقیقت ہیں۔ اِس اسلوب بیان میں جو طنز و تحقیر چھپی ہوئی ہے، اُسے ہر صاحب ذوق سمجھ سکتا ہے۔
[60]۔ یعنی زبردست ہے، لہٰذا کوئی اُسے دبا نہیں سکتا اور حکیم ہے، اِس لیے عدل و مجازات کے لیے جو قانون اُس نے بنا دیا ہے، اُسے کوئی باطل نہیں کر سکتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ مشرکین اپنے معبودوں کے متعلق یہ گمان رکھتے تھے کہ یہ خدا کے ہاں بڑا زور و اثر رکھنے والے ہیں، اِس وجہ سے یہ اپنی پرستش کرنے والوں کو، خواہ اُن کے اعمال کچھ بھی ہوں، خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے۔ یہ عقیدہ خدا کے عزیز و حکیم ہونے کی نفی کرتاہے، اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی اِن دونوں صفتوں کی یاددہانی کر کے اِس بے ہودہ عقیدے کی نفی کر دی۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۹)
[61]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی اصطلاح میں اصلی عالم وہی ہیں جو انفس و آفاق کی نشانیوں سے اُن حقائق تک پہنچ جائیں جن تک ہر سلیم الفطرت انسان کو پہنچنا چاہیے۔
[62]۔ اِس لیے یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ کائنات کسی با معنی انجام تک پہنچے بغیر یوں ہی چلتی رہے یا ختم ہو جائے۔ یہ اپنے وجود سے شہادت دے رہی ہے کہ اِس کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد پورا ہو کر رہے گا۔
[63]۔ یعنی اِس بات کی نشانی کہ زمین و آسمان کا خالق علیم و حکیم ہے، اِس وجہ سے لازم ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جس میں کامل عدل کا ظہور ہو اور اِس کی کہ لوگ اِسی دن کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کے تمام فیصلے کریں اور کبھی یہ خیال نہ کریں کہ خدا کے کوئی شریک بھی ہو سکتے ہیں جو اپنی شفاعت سے اُنھیں وہاں بچا لیں گے۔
[64]۔ یعنی خود بھی پڑھتے رہو اور دوسروں کو بھی پڑھ کر سناتے رہو۔
[65]۔ دین پر قائم رہنے اور دعوت کی جدوجہد میں صبر و استقامت کے حصول کے لیے یہ ہدایت قرآن میں کئی جگہ کی گئی ہے۔ اِس راہ کے سالکین جانتے ہیں کہ اِس میں استقامت خدا کی معیت سے حاصل ہوتی ہے اور نماز خدا سے اِس درجہ قریب ہے کہ وہ دنیا میں گویا ہمارے لیے خدا کی قائم مقام ہے۔ سورۂ علق (۹۶) کی آیت(۱۹) ’وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ‘(سجدہ ریز ہو اور اِس طرح میرے قریب ہو جاؤ)میں یہی حقیقت واضح فرمائی ہے۔ لہٰذا اللہ کی راہ میں جدوجہد کے لیے اللہ کی معیت اگر حاصل ہو سکتی ہے تو اُس کی کتاب اور اُس کے حضور میں نماز ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے سب سے زیادہ اہمیت قیام اللیل، یعنی نماز تہجد کی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب انذار عام کا حکم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِس قول ثقیل کا تحمل اور اِس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا مقصود ہے تورات کی نمازوں میں قرآن کی تلاوت کی جائے۔اِس کی وجہ یہ بتائی کہ یہ وقت دل و دماغ کے فراغ اور فہم قرآن کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔استاذ امام کے الفاظ میں، یہ وقت چونکہ دماغ کے سکون اور دل کی بیداری کا خاص وقت ہے، اِس وجہ سے زبان سے جو بات نکلتی ہے، تیربہ ہدف اور ’ازدل خیزد بر دل ریزد‘ کا مصداق بن کر نکلتی ہے۔ آدمی خود بھی اُس کو اپنے دل کی گواہی کی طرح قبول کرتا ہے اور دوسرے سننے والوں کے دلوں پر بھی اُس کی تاثیربے خطا ہوتی ہے۔
[66]۔ یعنی ایک واعظ کی طرح نماز آدمی کو متنبہ کرتی ہے کہ جذبات کے غلبے ، شہوات کی یورش اور خواہشوں کے ہجوم میں اُسے یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایک دن خدا کو منہ دکھانا ہے اور اُس کے روبرو کھڑے ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... جو لوگ نماز کو اُس کے آداب و شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں، خواہ خلوت کی نماز ہو یا جلوت کی، اُن کی نماز اپنے ظاہر و باطن، دونوں سے، اُن کو اُن حقائق کی یاددہانی کرتی رہتی ہے جن کی یاددہانی زندگی کو صحیح شاہ راہ پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر خلوت کی نمازیں انسان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو اُس کی مثال اُس ڈرائیور کی ہے جو اپنی زندگی کی گاڑی پوری رفتار سے چلا تو رہا ہے، لیکن اُس کی رہنمائی کے لیے داہنے بائیں جو نشانات اُس کو صحیح راہ بتانے اور خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے لگے ہوئے ہیں، اُن سے وہ بالکل بے پروا اور بے خبر ہے۔ ایسا ڈرائیور، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اپنی گاڑی کس کھڈ میں گرائے۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۵۳)
اِس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ نماز ہی انسان کے دین پر قائم رہنے کی ضمانت ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ جو لوگ خدا کی یاد سے غافل ہو جاتے اور اُس سے اعراض کر لیتے ہیں، اُن پر ایک شیطان مسلط کر دیا جاتا ہے جو شب و روز کے لیے اُن کا ساتھی بن جاتا ہے۔ نماز اِسی غفلت اور اعراض سے انسان کو بچاتی اور شیطان کے حملوں سے اُس کی حفاظت کرتی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ حملے اِس کے باوجود جاری رہتے ہیں، لیکن نماز پر مداومت کے نتیجے میں شیطان کے لیے مستقل طور پر انسان کے دل میں ڈیرے ڈال دینا ممکن نہیں ہوتا۔ نماز اُسے مسلسل دور بھگاتی اور ایک حصار کی طرح انسان کے دل و دماغ کی حفاظت کرتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطرے کی حالت میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ پیدل یا سواری پر، جس طرح ممکن ہو، اِسے لازماً ادا کیا جائے۔
[67]۔ مطلب یہ ہے کہ اِسے کوئی معمولی بات یا طفل تسلی نہ سمجھو، خدا کی یاد فی الواقع بہت بڑی چیز ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِسی سے انسان کے دل کو حقیقی طمانیت و سکینت حاصل ہوتی ہے۔ ’اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘ (اچھی طرح سن لو کہ دلوں کو طمانیت اللہ کی یاد سے حاصل ہوتی ہے) اور دل ہی انسان کے اندر وہ چیز ہے جو تمام عزم و حوصلہ کامنبع ہے۔ اگر دل مضبوط ہے تو انسان سے زیادہ طاقت ور کوئی چیز نہیں، اور اگر دل کم زور ہے توانسان سے زیادہ ناتواں کوئی شے نہیں اور دل کو قوت دینے والی اصلی چیز خدا کی یاد ہے جس کی سب سے زیادہ بہتر، جامع اور موثر شکل نماز ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۳)
[68]۔ اوپر خطاب صیغۂ واحد سے تھا، لیکن یہ آخر میں جمع کا صیغہ آگیاہے۔ اِس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ خدا کے پیغمبر کو تو ہر حال میں اِس راستے پر چلنا ہے، لیکن یہی ہدایات اُن سب لوگوں کے لیے بھی ہیں جو خدا کے دین کو اختیار کریں،اُس پر قائم رہنا چاہیں اور اُس کی دعوت کے لیے اُٹھیں یا اٹھنے والوں کے مددگار بنیں۔ چنانچہ فرمایاہے کہ تمھارا پروردگار تمھارے ہر عمل سے واقف ہے، لہٰذا اُس پر بھروسا رکھو، وہ خلوت و جلوت میں تمھاری کسی محنت کو ضائع نہیں جانے دے گا، بلکہ اُس کا بھرپور صلہ عطا فرمائے گا۔
[69]۔ اِس کی وضاحت آگے کر دی ہے کہ پہلے اُن چیزوں کو پیش کیا جائے جو تمھارے اور اُن کے درمیان مشترک ہیں۔ اِس کے بعد اُنھی اقدار مشترکہ کے لوازم و مقتضیات کی طرف توجہ دلائی جائے جو باعث نزاع ہو سکتے ہیں اور اُنھیں شایستہ اور مہذب زبان میں، معقول دلائل کے ساتھ اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ کے ساتھ پیش کیا جائے۔ تمھارا کلام حکیمانہ کلام ہونا چاہیے، نہ کہ مناظرانہ۔ اِس لیے کہ بحث و گفتگو کا یہی طریقہ ہے جس سے کسی کی انانیت کو ٹھیس نہیں لگتی اور مخاطب سلیم الطبع ہو تو بات پر غور کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔
[70]۔ یعنی شریر، کج بحث اور مناظرہ باز ہیں۔
[71]۔ قرآن کے دوسرے مقامات میں ہدایت کی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ الجھنے کے بجاے اُن سے اعراض کر لیا جائے۔داعی حق کے لیے صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ الزام کا جواب الزام سے اوراینٹ کا جواب پتھر سے دینا شروع کر دے۔ اُس کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سلام کرکے اُن سے جدا ہو جائے۔
[72]۔ مطلب یہ ہے کہ ہم کسی تعصب میں مبتلا نہیں ہیں۔ہم نے حق کو حق کی حیثیت سے دیکھا ہے اور اُسے جہاں پایا ہے، اُس کی تصدیق کر دی ہے۔ ہماری کتاب اور تمھاری کتابوں میں اصل کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اُن کا منبع و ماخذ ایک ہی ہے اور وہ ایک ہی دین کی دعوت دیتی ہیں۔ لہٰذا تم بھی اگر تعصبات سے بالاتر ہو کر غور کرو گے تو ہماری طرح یہی کہو گے کہ ہم اُسے بھی مانتے ہیں جو ہماری طرف نازل کیا گیا تھا اور اُسے بھی جو اب تمھاری طرف نازل کیا گیا ہے۔
[73]۔ یعنی معبود ایک ہی ہے، لہٰذا ہم تمھیں کسی دوسرے خدا کو ماننے کی دعوت نہیں دے رہے، بلکہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح ہم نے اُس پر ایمان اور اُس کی اطاعت کے باب میں بالکل یک سو ہو کر اپنے آپ کو اُس کے حوالے کر دیا ہے، تم بھی اُسی طرح اُن سب باتوں کو چھوڑ کر جو اُس کی توحید کے منافی ہیں، تنہا اُسی کے فرماں بردار بن جاؤ۔
[74]۔ یعنی اُسی اصول پر اتاری ہے جو اوپر بیان ہوا کہ خدا کا دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ تمام کتابیں اُسی دین کی دعوت پیش کرتی ہیں اور اُس میں ایک ہی خدا پر ایمان اور اُس کی عبادت و اطاعت کا تقاضا کیا گیاہے۔
[75]۔ اِس سے مراد عام اہل کتاب نہیں ہیں، بلکہ اُن کے اندر کے وہ لوگ ہیں جو اِس سے پہلے بھی اپنی کتابوں کی تعلیمات پر پوری سچائی کے ساتھ قائم تھے۔ ’الَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ‘ کے الفاظ میں قرآن بالعموم اِنھی کا ذکر کرتا ہے۔
[76]۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں یہ وہی استدلال ہے جو اِس سے پہلے سورۂ یونس (۱۰) میں گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس سے پہلے اگر اِنھوں نے تم کو لکھتے پڑھتے اور مختلف علوم و فنون کا اکتساب کرتے دیکھا ہوتا تو کہہ سکتے تھے کہ نوح و ابراہیم سے لے کر مسیح و کلیم تک کے یہ تمام خزائن حکمت تم نے کتابیں پڑھ کر اور اُن سے اخذ و اکتساب کرکے لکھ لیے ہیں اور اب اُنھیں پڑھ کر سنا رہے ہو ، لیکن اِنھیں معلوم ہے کہ تم نے عمر بھر نہ کوئی کتاب کبھی پڑھی ہے، نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیاہے تو سوچتے کیوں نہیں کہ تمھارے اوپر وہ تمام علوم آخر کہاں سے برس پڑے ہیں جو اِس وقت یہ تمھاری زبان سے سن رہے ہیں؟ آسمانی کتابوں کی تعلیمات، انبیاے سابقین کے حالات اور قانون و حکمت کے اسرار و غوامض کا یہ اظہارایک امی کی زبان سے آخر کس طرح ہونے لگا ہے؟
[77]۔ یعنی جن کے پاس حقیقی علم ہے، اُن کے لیے تو یہ قرآن ایک جانی پہچانی اور موعود و منتظر چیز ہے، اِس لیے کہ جو کچھ یہ بیان کررہا ہے، وہ اِسی وضاحت کے ساتھ اُن کے سینوں میں پہلے سے موجود ہے۔ وہ اِس کتاب کو نہیں پڑھ رہے، وہ تو درحقیقت اپنے دلوں کی الواح پر لکھی ہوئی خدا کی آیتیں پڑھ رہے ہیں جو اِس سے پہلے وہ کبھی کتاب فطرت میں اور کبھی تورات، زبور اور انجیل میں پڑھتے رہے ہیں۔
[78]۔ اِس سے مراد وہی بد بخت ہیں جن کے بارے میں اوپر فرمایا ہے کہ اُن سے کسی بحث کی ضرورت نہیں ہے، اُن کا مرض لا علاج ہو چکا ہے۔
[79]۔ یہ اعتراض بالعموم اہل کتاب کی طرف سے اٹھایا جاتاتھا جسے قریش لے اڑتے تھے اور لوگوں کو یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بد گمان کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ اگر یہ خدا کی طرف سے آئے ہیں تو اِن کو اُس طرح کے معجزے کیوں نہیں دیے گئے جو اِن سے پہلے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کو دیے گئے تھے؟
[80]۔ یہ اُن کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... نشانیوں اور معجزات کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے۔ میں اِس معاملے میں کوئی دخل نہیں رکھتا۔ وہ اگر چاہے گا تو کوئی نشانی دکھا دے گا اور نہیں چاہے گا تونہیں دکھائے گا۔ میں توصرف ایک نذیر مبین ہوں، مجھے حکم ہے کہ تمھیں آنے والے خطرات سے اچھی طرح آگاہ کر دوں، سو یہ فرض میں ادا کر رہا ہوں۔ باقی تمام امور اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ میں نے رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے، خدائی کا دعویٰ نہیں کیا ہے کہ تمھاری طلب کے مطابق معجزے دکھا دوں۔ ‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۸)
[81]۔ یہ دوسرا جواب ہے کہ یہ اگر غور کریں تو خدا کی سب سے بڑی نشانی تو خدا کی کتاب ہے جو اِن کے لیے اتار دی گئی ہے۔ وہ اپنے ہر دعوے پر خود حجت اور ایک برہان قاطع ہے۔ اُس کا حرف حرف گواہی دیتا ہے کہ وہ کسی انسان کی تصنیف نہیں ہو سکتی۔ اِس کے بعد کسی اور نشانی کی ضرورت کہاں رہی!
[82]۔ یعنی جب اِن کے کرتوتوں پر اِنھیں خدا کی گرفت سے خبردار کیا جاتا ہے تو مذاق اڑانے کے لیے جلدی مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ پھر لے آؤ اپنا عذاب، وہ کہاں رہ گیا ہے؟ اُس کے آنے میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے؟
[83]۔ یعنی سنت الٰہی کے مطابق اُس کے بارے میں طے نہ ہوتا کہ اُسی وقت آئے گا، جب اِن لوگوں پر خدا کی حجت ہر لحاظ سے پوری ہو جائے گی۔
[84]۔ یہ اعادہ اظہار تعجب کے لیے ہے کہ آگ میں کھڑے ہوئے آگ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ کر رہے ہیں، وہی ایک دن اِن کے لیے جہنم کا ایندھن بننے والا ہے؟ یہ اپنے اعمال سے واقف ہیں اور اِس کے باوجود عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔
[85]۔ بندۂ مومن کے لیے کسی جگہ اپنے پروردگار کی عبادت پر قائم رہنا جان جوکھم کا کام بن جائے، یہاں تک کہ اپنے دین کو ظاہر کرنا ہی ممکن نہ رہے تو ہجرت ایمان کا تقاضا بن جاتی ہے،اگرچہ اُس کے لیے اپنا گھر بار اور مال و اسباب،سب چھوڑنا پڑے۔ قرآن نے دوسری جگہ واضح کر دیا ہے کہ اِس کے بجاے انسان اگرغیر اللہ کی بندگی گوارا کر لے تو یہ ایمان کھو کر خدا کے حضور آنا ہے جس کا انجام جہنم ہے۔
[86]۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی زمین بھی وسیع ہے اور اُس کا خوان کرم بھی۔ پھر وہ سمیع و علیم ہے۔ تمھار ی ہر فریاد اُس تک پہنچے گی اور تمھاری کوئی پریشانی اُس سے چھپی نہ رہے گی۔ اِس لیے اگر اُس پر ایمان کا تقاضا ہے کہ اپنا وطن اور اپنے اموال و جایداد، سب چھوڑکر نکل جاؤ تو بغیرکسی تردد کے ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہو اور یہ مت سوچو کہ آگے کیا کھاؤ گے اور کیا پہنو گے؟ اپنے رب پر بھروسا رکھو، وہی تمھیں کھلائے گا اوروہی پہنائے گا۔
سیدنا مسیح علیہ السلام نے بھی اپنے حواریوں سے ٹھیک یہی بات فرمائی تھی۔ اُن کا ارشاد ہے:
’’ تم خدا اور دولت ،دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اِس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں، نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمھارا آسمانی باپ اُن کو کھلاتا ہے۔ کیا تم اُن سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے ہیں، نہ کاتتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے اُن میں سے کسی کی مانند ملبس نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی، ایسی پوشاک پہناتا ہے تو، اے کم اعتقادو، تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟ اِس لیے فکرمند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟ کیوں کہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمھارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راست بازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لیے فکر نہ کرو کیوں کہ کل کا دن اپنے لیے آپ فکر کر لے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔‘‘ (متی ۶: ۲۵- ۳۴)
[87]۔ یعنی کہاں سے بھٹک جاتے ہیں کہ دوسروں کو ماویٰ و مرجع بنا کر اُن کو پوجتے اور اُن سے استغاثہ و استرحام کرنے لگتے ہیں۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ تو اپنے منہ سے خود اپنے مسلمہ کی تردید ہے۔
[88]۔ مطلب یہ ہے کہ جب ہر چیز کا خالق اللہ ہے اور ہر چیز اُسی کے حکم کی پابند ہے اور تمام نعمتیں بھی اُسی کی بخشی ہوئی ہیں تو پھر شکر کے حق دار دوسرے کس طرح ہو سکتے ہیں کہ اُن کی عبادت یا اطاعت کی جائے؟
[89]۔ یعنی آخرت کے مقابل میں، اِس لیے کہ اِس کی ہر چیز عارضی اور ایک محدود مدت کے لیے ہے۔ انسان اِس سے خالی ہاتھ اٹھتااور موت کے دروازے سے گزر کر دوسری دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ گویا وہی معاملہ ہے کہ بچے تھوڑی دیر کے لیے کھیلیں کودیں اور پھر اپنے اپنے گھروں کو سدھار جائیں۔ یہاں بڑے سے بڑے بادشاہ کو جو کچھ میسر ہے، اُس کی حقیقت بھی اِس سے زیادہ نہیں ہے۔
[90]۔ یعنی اُس وقت کوئی شریک یاد نہیں رہتا اور خدا سے مخلصانہ اطاعت کا عہد کرتے ہوئے دست بد عا ہو جاتے ہیں۔
[91]۔ یعنی ہماری دی ہوئی مہلت سے فائدہ اٹھالیں۔
[92]۔ مطلب یہ ہے کہ اُس کشتی میں بیٹھے ہوئے ہیں جو گردوپیش کی غارت گری اور بدامنی کے طوفان میں اِن کے لیے سفینۂ نجات بنی ہوئی ہے۔
[93]۔ یعنی شرک کرے۔
[94]۔ یعنی خدا کے پیغمبر اور اُس کی کتاب کا انکار کر دے۔
[95]۔ یہ بشارت دین، دنیا اور آخرت، سب کی راہوں کے لیے ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یعنی اِن کے لیے دین کی راہیں بھی کھلیں گی، اِن کی دنیا کی مشکلات بھی حل ہوں گی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ اِن کی رہنمائی صراط حمید کی طرف فرمائے گا۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۶۶)
[96]۔ یعنی اُن کے ساتھ ہے جو دنیا کی رغبات اور راہ حق کی مشقتوں اور مصیبتوں کے باوجود صبر و استقلال اور عزیمت و استقامت کے ساتھ اُس پر گام زن رہتے ہیں۔ یہ بہت بڑی بشارت ہے ۔ استاذ امام کے الفاظ میں، اِس لیے کہ جن کو اللہ کی معیت حاصل ہو، شمس و قمر، سب اُن کی راہ میں گرد ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ