سفرنامه
محمد بلال
یہاں سے ہم ٹیکسی میں جنت المعلیٰ کی طرف گئے۔ جنت المعلیٰ کیا ہے ؟ اس کے بارے میں مولانا وحید الدین کہتے ہیں:
’’مکہ جس زمین پر آباد ہے وہ ایک طرف نیچی اور دوسری طرف اونچی ہے۔ نچلے علاقہ کو مسفلہ اور اونچے علاقہ کو معلیٰ کہتے ہیں۔ اونچائی والے علاقہ میں ایک قدیم قبرستان ہے۔ اس کا نام جنت المعلیٰ ہے۔ یہ مکہ سے منیٰ کے رخ پر واقع ہے۔ اس قبرستان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی قبر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادہ ابراہیم اور آپ کی والدہ آمنہ بنت وہب کی قبر ہے۔ آپ کے چچا ابو طالب اور آپ کے دادا عبدالمطلب کی قبریں بھی یہیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر جیسا صحابی اور ابو جعفر منصور جیسا حکمران بھی یہیں مدفون ہیں۔.....عرب میں قبوں اور پختہ تعمیرات والے قبرستان نہیں ہوتے۔ وہاں کی قبریں گویا ہموار میدان میں کچھ ابھرے ہوئے نشانات ہوتے ہیں۔.....جنت المعلیٰ عرب کا ایک ایسا ہی قبرستان ہے۔ جنت المعلیٰ ایک ایسا قبرستان ہے جو انسانی اضافوں سے پاک ہے۔ یہاں فطرت کا سادہ ماحول ہے نہ کہ انسان کا بنایا ہوا مصنوعی ماحول۔‘‘ ( نشری تقریریں، ص۱۰۹)
یعنی جنت المعلیٰ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد دفن ہیں ۔ ہم جب یہاں پہنچے تو میں نے دیکھا کہ وہاں ہموار بنجر زمین کو چھوٹی چھوٹی چار دیواریوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ دیواروں پر سفیدی کی ہوئی ہے۔ ہر چار دیواری میں کچھ پتھر پڑے ہوئے ہیں جو قبر کی نشانی کے طور پر رکھے گئے ہیں۔
اس بات کی رہنمائی کہیں سے حاصل نہیں ہو رہی تھی کہ کس شخصیت کی کون سی قبر ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے بھی وہاں ایسی کوئی رہنمائی نہیں تھی۔ شرک اور بدعت کے معاملے میں اس قسم کی حساسیت سمجھ میں نہ آئی۔ وہاں ایک طرف کچھ بنگلہ دیشی ملازم بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے ان سے اس ضمن میں کچھ پوچھا تو انھوں نے کچھ بتانے سے صاف انکار کر دیا۔ وہیں کچھ سیڑھیاں چڑھیں تو اوپر بھی ایک قبرستان موجود تھا۔ شاید وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج، بیٹیوں اور بیٹے کی قبریں تھیں۔ اس قبرستان کے اندر جانا ممکن نہ تھا۔ اس قبرستان کے بند گیٹ کے پاس ایک ایرانی بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے اس سے کچھ سوالات کیے اس نے بڑے مناسب طریقے سے اپنی معلومات کے مطابق جواب دیے۔ اس کے پاس ایک فارسی زبان کا کتابچہ تھا جس میں ان شخصیات کے نام لکھے ہوئے تھے جو وہاں دفن تھیں۔
وقت بہت کم تھا چنانچہ یہاں سے ہم نے حرم کا رخ کیا۔ ٹیکسی لی۔ ٹیکسی والا مقامی سعودی ہی تھا۔ اسے بھی جلدی تھی اس لیے اس نے تیز گاڑی چلائی، جب حرم کے قریب گاڑی پہنچی تو اندر عصر کی جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ ٹیکسی والے کو ہم نے پانچ ریال دینے تھے، مگر ابوبکر کے پاس دس ریال کے نوٹ ہی تھے۔ ٹیکسی والے نے جب یہ صورتِ حال دیکھی تو کہا: ’’نماز پڑھیں پیسے بعد میں سہی۔‘‘ ابوبکر کو معلوم تھا کہ حرم میں نماز ادا کرنے کے بعدکسی آدمی کو ڈھونڈنا کس قدر مشکل کام ہے۔ لہٰذا ابوبکر نے اس کی اس فراخ دلی سے خوش ہو کر اسے دس ریال پکڑا دیے۔ پھر ہم حرم کی طرف بڑھ گئے۔
نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد ابوبکر نے میرے لیے ایک دکان سے مکہ اور مدینہ کی زیارتوں کی ایک دستاویزی فلم خریدی۔ پھر ہم ہوٹل کی طرف بھاگے۔ گھر والے سامان قریب رکھے ہوٹل کے استقبالیہ میں ہمارا انتظار کررہے تھے۔ ہم نے تیزی سے اپنے حصے کا سامان پکڑا اور جدہ جانے کے لیے باہر نکلے۔ ایک کار نما ٹیکسی والے کے ساتھ معاملہ طے ہوا۔ جب ہم ٹیکسی میں بیٹھ رہے تھے تو ایک بلندی پر تھے، اس وقت میرے بڑے بھائی غلام مصطفیٰ صاحب نے نیچے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ وہ قبرستان ہے جہاں عرب زندہ بچیوں کو دفن کر دیا کرتے تھے۔ میں نے فوراً ادھر دیکھا۔ وہ قبرستان بھی ایک بنجر میدان تھا۔ چند پتھر ادھر اُدھر پڑے ہوئے تھے۔ خیال آیا : اسلام نے آ کر بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم ہی کو دفن کر دیا۔ اسی لیے ایسے قبرستان مزید نہیں بن پائے۔
تھوڑی دیر کے بعد ہم ٹیکسی میں بیٹھ چکے تھے۔ ڈرائیور کی خواہش تھی کہ روزہ گھر جا کر افطار کیا جائے، اس لیے ٹیکسی بہت تیزی کے ساتھ جدہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جیسے جیسے میں بیت اللہ سے دور ہو رہا تھا میرے اندر اداسی کی ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ اصل میں چند ’’ملاقاتوں‘‘ ہی میں بیت اللہ سے ’’انس‘‘ ہو گیا تھا۔
۱۳ دسمبر ۱۹۹۹ کی بات ہے۔ جدہ ہی میں مقیم میرے دوسرے بڑے بھائی انور جلال صاحب کا فون آیا۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان سے میرا ایک دوست عمرہ کرنے یہاں آیا ہے، اس نے مجھے آج عشا کے بعد صفا کے قریب ملنے کے لیے کہا ہے، اس لیے میں حرم جا رہا ہوں۔ مجھے جب یہ بات معلوم ہوئی تو میرا بھی جی للچانے لگا۔ میں نے انور صاحب سے بات کی اور کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے جائیں۔ آپ اپنے دوست کو ملیں، میں وہاں اپنا کام کرتا رہوں گا۔ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ شام کو میں اور انور صاحب ٹیکسی کے ذریعے سے جدہ کے اس مقام پر پہنچے جہاں سے حرم جانے والی بسیں اور ٹیکسیاں چلتی ہیں۔ ہم جب وہاں پہنچے تو ٹیکسی ڈرائیور ٹیکسی سے سر باہر نکالے آوازیں لگا رہے تھے: مکہ! مکہ!۔ ہم ایک نوجوان سعودی کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ یہ گاڑی ٹیکسی کی طرح پیلی تو نہیں تھی، عام کار تھی، مگر سعودی ہونے کی وجہ سے وہ بلاتکلف اسے ٹیکسی کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ اس ’’ٹیکسی‘‘ میں دو انڈین مسلمان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے انور صاحب سے کہا : پاکستان اور ہندوستان کے لوگ یہاں اپنے روزگار کے سلسلے میں آئے ہوئے ہیں، مگر یہ لوگ یہاں کے لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں۔ کیسی دلچسپ بات ہے۔ اس سعودی نے ۱۴۰ کی رفتار سے گاڑی چلائی اور بہت کم وقت میں ہمیں حرم کے سامنے پہنچا دیا۔
جب ہم وہاں پہنچے تو نمازِ تراویح ادا کی جا رہی تھی۔ پہلے ہم نے حرم کے بیرونی صحن میں نمازِ عشا ادا کی۔ پھر ہم اندر گئے اور نمازِ تراویح کی جماعت میں شامل ہو گئے۔ اتفاق سے امام صاحب کے بالکل پیچھے جگہ ملی۔ بیت اللہ کا وہ حصہ ہمارے سامنے تھا جہاں حجرِ اسود نصب تھا۔ جب تراویح کی دو رکعات کے بعد سلام پھیرا تو سامنے بیت اللہ کو پایا۔ بیت اللہ کو دیکھتے ہی ایک کیفیت ضرور مجھ پر طاری ہوتی۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اپنے آپ کو بار بار یقین دلانا پڑتا کہ یہ خواب نہیں حقیقت ہے۔ جب میں اپنے آپ کو یقین دلا لیتا کہ یہ حقیقت ہے تو شکرِ خداوندی کے جذبات کی ایک لہر میرے اندر اٹھتی اور نمی بن کر آنکھوں میں ابھر آتی ۔
پروگرام کے مطابق نمازِ تراویح سے فارغ ہونے کے بعد ہم صفا کی جانب بڑھ رہے تھے کہ ایک سپاہی نے مجھے ہلکا سا دھکا دے کر ایک طرف کیا۔ میں نے سامنے دیکھا تو امام صاحب سپاہیوں کے جلو میں تشریف لا رہے تھے۔ یہ قاری سدیس تھے۔ سپاہی لوگوں کو ان کے راستے سے ہٹا رہے تھے۔ وہ بالکل شاہانہ انداز سے حرم سے باہر نکل رہے تھے۔
جلد ہی انور صاحب کو ان کا دوست مل گیا۔ وہ دونوں حضرات صفا کے قریب ایک جگہ پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے اور میں صفا پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اب بھی صفا پر مرد، عورتیں اور بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ کوئی وہاں قرآن پڑھ رہا تھا اور کوئی کسی ہموار جگہ پر نماز ادا کر رہا تھا۔ میں اس پر بیٹھ کر سامنے بیت اللہ کی جانب دیکھنے لگا، اور بڑی دیر تک دیکھتا رہا ۔
اس کے بعد ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ آج بھی بیت اللہ کے اوپر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ حسبِ معمول حطیم لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ملتزم کے ساتھ لوگ چپکے ہوئے تھے۔ حجرِ اسود کو بوسہ دینے والوں کی قطاریں بنی ہوئی تھیں۔ حجرِ اسود کے پاس کھڑا سپاہی بڑی جاں فشانی سے اپنے فرائض ادا کر رہا تھا۔ وہ بوسہ دینے والوں کو تیزی سی آگے بڑھنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ اگر کوئی بوسہ دینے والا بزرگ ہو یا تیزی سے کام نہ لے تو سپاہی اسے کندھے سے پکڑ کر آگے دھکیل دیتا تھا۔ شاید ان سپاہیوں کو معلوم نہیں تھا کہ انسان کی عزت بیت اللہ سے بڑھ کر ہے۔
طواف کے بعد ہم باہر آ گئے۔ رات کے دو بج چکے تھے، مگر باہر اتنی رونق تھی جیسی ہمارے ہاں رات ۸ بجے کسی بڑے بازار میں ہوتی ہے۔ پھر ہم ایک بس میں بیٹھے اور سحری سے پہلے جدہ اپنے گھر پہنچ گئے۔
پاکستان آ کر جب میں بیت اللہ سے متعلق اپنے تاثرات بیان کر رہا تھا تو میرے ایک کزن منظورمحمد نے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ جنھوں نے یہ مقامات نہیں دیکھے، وہ انھیں دیکھنے کو ترستے ہیں اور جو لوگ ان مقامات کو دیکھ لیتے ہیں وہ انھیں دوبارہ دیکھنے کے لیے تڑپتے ہیں۔ میں نے کہا: بالکل صحیح۔ آج میں واقعی ان مقامات کو دوبارہ دیکھنے کے لیے اپنے اندر ایک تڑپ محسوس کرتا ہوں۔
لب دعا گو ہیں کہ عالم کا پروردگار اب حج کے موقع پر بیت اللہ کو دیکھنے اور اس کا طواف کرنے، حجرِ اسود کو چھونے اور اس کا بوسہ لینے، آبِ زم زم پینے اور صفا و مروہ کے مابین سعی کرنے کی استطاعت اور توفیق عطا فرمائے۔
___________