محمد اسلم نجمی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی دور میں مشرکینِ بنی اسماعیل اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ اسلام کی دعوت ایک کمزور دعوت ہے اس لیے یہ وقت کے ساتھ آپ سے آپ ختم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے پیروکاروں اور قرآنِ مجید کو طنزو تعریض اور استہزا و مذاق کا نشانہ بنانے پر اکتفا کیا۔ مگر بظاہر ناساز گار حالات کے باوجود، جلد ہی انھیں احساس ہو گیا کہ ان کا اندازہ غلط تھا۔ یہ دعوت نہ صرف یہ کہ پھیلتی جا رہی تھی بلکہ اس کا مستقبل بھی نہایت تاب ناک دکھائی دے رہا تھا۔ اس بنا پر انھوں نے اب سنجیدگی سے اسلام کے خلاف منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس کی اور اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی۔ اپنے اہالی و موالی کو پیغمبر اور اسلام کے اثرات سے بچانے کے لیے اب انھوں نے بہتان طرازیوں کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ہی ان غلاموں اور زیر دستوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی جنھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
مشرکینِ مکہ کی معاندانہ سرگرمیوں کے پیچھے اہلِ کتاب کی سازشیں کارفرما تھیں۔ نبوت بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں منتقل ہو جانے اور آخری نبی کے امیین میں سے مبعوث ہونے کو اہلِ کتاب اپنی تذلیل سمجھتے اور دل سے چاہتے تھے کہ اسلام قلوب و اذہان میں جگہ نہ بنا سکے۔ اس لیے انھوں نے ابتداً قریشِ مکہ کو آلۂ کار بنا کر اپنے عزائم پورے کرنے کی کوشش کی مگر ان کی سازش کامیاب نہ ہو سکی اور اسلام فطری رفتار سے آگے بڑھتا رہا۔ اسی دوران میں ہجرت کا وقت آن پہنچا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک فرماں روا کی حیثیت سے یثرب میں داخل ہوئے۔ اب اسلام کی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی تھی۔ اسلام کو فروغ پانے کے لیے اقتدار اور اہلِ ایمان کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے لیے ایک خطۂ زمین میسر آ گیا تھا۔ چنانچہ اہلِ کتاب کی در پردہ سازشوں میں اضافہ ہو گیا۔ ایک طرف اہلِ مکہ نے اسلام قبول کرنے والوں پر ظلم و ستم میں اضافہ کر دیا اور دوسری جانب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں ترمیم کرنے اور مشرکین بنی اسماعیل اور اہلِ کتاب کو مطمئن کرنے کے لیے ناجائز تجاویز پیش کرنا شروع کر دیں ۔
مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کو صبر و مصابرت اور (موقع ملتے ہی) ہجرت کی راہ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی اور اہلِ کتاب کو احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر سچے دل سے اسلام قبول کرلینے ہی میں ان کی عافیت ہے، مگر اسلام کے مخالف یہ دونوں گروہ نہ صرف اپنی پرانی روش پر قائم رہے بلکہ ان کی مخالفت میں مزید شدت پیدا ہو گئی۔ اسی دوران میں مشرکینِ مکہ کو مدینہ پر حملہ آور ہونے کا موقع میسر آگیا۔ اپنے تجارتی قافلے کی حفاظت کا بہانہ بنا کر انھوں نے مسلمانوں پر چڑھائی کر دی۔ غزوۂ بدر کا معرکہ برپا ہوا۔ یہ جنگ جیتنے کے لیے اہلِ مکہ نے اپنی ساری توانیاں صرف کیں اور پورے وسائل استعمال کیے مگر انھیں شکستِ فاش ہوئی۔ اس جنگ میں ان کی کم و بیش ساری لیڈر شپ قتل ہو گئی۔ انھوں نے شکست کا بدلہ لینے کے لیے پھر سے تیاری شروع کر دی۔ ۴ ہجری کو غزوۂ احد میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کا پھر آمنا سامنا ہوا۔ اس معرکے میں اگرچہ اہلِ مکہ کا پلہ بھاری تھا مگر وہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر مسلمانوں کی شکست کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر، عین حالتِ جنگ میں میدان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر گئے اور فتح کے واضح آثار کے باوجود وہ شکست خوردگی کے احساس کے ساتھ لوٹ گئے، جنگِ احد کے بعد انھوں نے محسوس کر لیا کہ تنہا مسلمانوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں، اس لیے انھوں نے اہلِ کتاب (بالخصوص یہود) کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر فیصلہ کن ضرب لگانے کی منصوبہ بندی کی۔ قریشِ مکہ، یہود اور دیگر عرب قبائل نے مل کر ۵ ہجری میں پھر مدینہ پر چڑھائی کر دی۔ مسلمان شہر کے گرد خندق کھود کر قلعہ بند ہو گئے۔ اس جنگ میں بھی اسلام دشمنوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ کے بعد مشرکینِ مکہ میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رہی البتہ یہودیوں میں ابھی دم خم باقی تھا مگر فتح خیبر کے بعد ان کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اسی دوران میں مکہ فتح ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فاتح کی حیثیت سے حرم کعبہ میں داخل ہوئے۔ رسولوں کے بارے میں اللہ کی سنت پوری ہو گئی اور جزیرہ نماے عرب میں اسلام کے سوا کسی اور دین کے لیے جاے پناہ باقی نہ رہی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے۔ ان کے دور میں بہت سے فتنے اٹھے جن سے بظاہر محسوس ہوتا تھا کہ اسلام کی ناؤ ڈانواں ڈول ہے مگر شورشی قبائل کی سرکوبی، مدعیانِ نبوت کے استیصال، خود سر مرتد امرا کی بیخ کنی اور منکرینِ زکوٰۃ کی تادیب کے بعد اسلام اور اہلِ اسلام اس بحرانی دور سے نہایت کامیابی کے ساتھ گزر گئے۔خلیفہ ثانی حضرت عمر کے دور میں اسلامی فتوحات کا دروازہ کھل گیا۔ انھی کے دور میں ایران فتح ہوا۔ ایرانی مجوسیوں کو اپنی ذلت آمیز شکست کا بڑا دکھ تھا۔ وہ اسلام کے مخالف ہو گئے ۔ مشرکینِ عرب کی قوت ختم ہو چکی تھی۔ اسلام کی مخالفت میں اہلِ کتاب تنہا رہ گئے تھے۔ ایران کی شکست کے بعد انھیں مجوسیوں کی شکل میں ایک اچھا حلیف میسر آ گیا۔ ان دونوں گروہوں کی پشت پناہی سے ایک مجوسی غم ابولولو فیروز نے خلیفہ ثانی حضرت عمر کو شہید کر دیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف شورش اور ان کی شہادت بھی یہود و مجوس کی ملی بھگت اور سازشوں کا نتیجہ تھی۔ حضرت علی کے دورِخلافت میں اسلامی قلم رو میں انتشار و بدامنی جنگِ جمل و صفین حضرت علی کی شہادت اور ان کے بعد سانحۂ کربلا جیسے واقعات انھی فتنہ پردازوں کی سازشوں کا نتیجہ تھے۔
اس ساری دراز نفسی کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اتنے جاں گسل اور ہنگامہ خیز حالات میں بھی مسلمانوں کا اجتماعی ملی تشخص پوری شان کے ساتھ برقرار رہا۔ منافقین، ملا حدہ اور یہود و مجوس نے ناسازگار حالات کے باوجود اسلام کی اصولی حیثیت میں ذرہ برابر فرق نہ آنے سے یہ نتیجہ نکالا کہ مسلمانوں میں انتشار کا بیج بونے، ان کی مرکزیت کو ختم کرنے اور انھیں مذہبی گروہ بندیوں کا شکار کرنے کے لیے انھیں قرآنِ مجید سے دور کرنا ضروری ہے۔ اللہ کی یہ رسی جب تک ان کے ہاتھوں میں رہے گی ان کا زوال پذیر ہونا ممکن نہیں۔ چنانچہ اپنے اس مذموم مقصد کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے نہایت غورو فکر کے بعد جو حکمتِ عملی ترتیب دی، اس کے تحت سب سے اہم بات جو انھوں نے پیشِ نظر رکھی وہ یہ تھی کہ مسلمانوں میں قرآن کی مرکزیت ختم کر دی جائے اور اس کی میزان اور فرقان ہونے کی حیثیت باقی نہ رہے۔ اس کے لیے یہ بات عام کر دی جائے کہ قرآن بعینہٖ وہ نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور اس میں کسی بھی درجے میں سہی کمی بیشی ضرور ہوئی ہے۔
یہ ایک کرب ناک حقیقت ہے کہ ان کی یہ سازش ایک درجے میں کامیاب ہو گئی اس کے لیے انھوں نے بڑا محتاط اور محفوظ راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے بڑی جامع منصوبہ بندی کی اور اپنے درپردہ مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے احادیث کے شعبے کو کمین گاہ بنا کر قرآن پر حملہ آور ہوئے۔ پہلے آثار و روایات کی ضرورت اور اہمیت کو اس قدر بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا کہ قرآن پس منظر میں چلا گیا۔ حدیث کی مشکلات کو قرآن کی روشنی میں حل کرنے کے بجائے قرآن کو روایات کی روشنی میں سمجھنے کا رجحان پیدا کیا گیا اور رفتہ رفتہ حدیث قرآن پر حَکم بنا دی گئی۔ اس کے بعد قرآن کو محرف ثابت کرنے کے لیے کثیر تعداد میں ایسی روایات وضع کر کے پھیلا دی گئیں جن میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بین الدفتین جمع نہ ہوا تھا۔ جمع قرآن جیسا اہم ترین کام آپ کی رحلت کے بعد دورِ صدِیقِ اکبر میں حضرت عمر کی تجویز پر صحابۂ کرام اور عامتہ المسلمین کے تعاون سے حضرت زید بن ثابت کے ذریعے سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اس لیے سورتوں اور آیات کی ترتیب و تدوین میں بعض جگہ ظن و تخمین اور اجتہاد سے کام لینا پڑا۔ بعض آیات بڑی مشکل سے ایک آدھ شخص کے پاس سے ملیں۔ کچھ صحابہ نے اپنے طور پر قرآن جمع کر رکھا تھا جو حضرت زید بن ثابت کے جمع کردہ نسخے سے مختلف تھا۔ انھوں نے اپنے مصاحف کے مقابل میں مصحف اکبر کی حیثیت عرفی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آیات کی تعداد اور سورتوں کی ترتیب میں بھی اختلافات تھے۔ یہ ساری تفصیلات ہمارے مستند مذہبی لٹریچر اور معتبر تاریخی کتب میں موجود ہیں، جنھیں اختلافِ قرا ء ت کے حسین لبادے میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان قرا ء توں میں اعراب، حروف، الفاظ اور جملوں کا ایسا اختلاف بیان ہوا ہے جس سے آیات کی ہیئت ترکیبی اور معانی میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک حدیث وہ ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن سات قرا ء توں میں نازل ہوا تھا۔ یہ روایت احادیث کے کم و بیش سبھی مستند ذخیروں میں موجود ہے۔ صحیح بخاری میں یہ روایت کتاب فضائل القرآن، کتاب التوحید اور کتاب استنابتہ المرتدین میں آئی ہے۔ روایت یہ ہے:
من ابن شھاب قال حدثنی عروة بن الذبیر ان المسور ابن المخرمة وعبد الرحمان بن عبد القاری حدثاه انھما سمعا عمر ابن الخطاب یقول سمعت ھشام بن حکیم یقرء سورة الفرقان فی حیاة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم. فاستمعت لقراته فاذا ھو یقرء علی حروف کثیرة لم یقرءنیھا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فکدت اساورہ فی الصلوة فتصبرت حتی سلم فلبیته بردائة فقلت من اقراک ھذه السورة التی سمعتک تقرء قال اقراءنیھا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقلت کذبت فان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قد اقرءنیھا علی غیر ما قرات فانطلقت به اقود الی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقلت انی سمعت ھذا یقرء بسورة الفرقان علی حروف لم یقرأنیھا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ارسله. اقرءیا ھشام قرءعلیه القراة التی اقرءنی فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کذالک انزلت ان ھذا القرآن انزل علی سبعة احرف فاقرءوا ما تیسر منه. (بخاری، کتاب فضائل القرآن)
’’ابنِ شہاب سے روایت ہے: عروہ بن زبیر نے مجھے بتایا کہ مسور بن مخرمہ اور عبد الرحمان بن عبد القاری نے حضرت عمر بن الخطاب سے سنا، وہ بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں، میں نے ہشام بن حکیم کو سورۂ فرقان پڑھتے سنا۔ میں نے ان کی قرا ء ت غور سے سنی تو معلوم ہوا کہ وہ متعدد ایسی طرزوں سے پڑھ رہے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائی تھیں۔ میں نماز ہی میں ان پر جھپٹنا چاہتا تھا (مگر میں ایسا نہیں کر سکا) اور میں نے بمشکل ضبط کیا یہاں تک کہ انھوں نے سلام پھیرا۔ میں نے انھی کی چادر ان کے گلے میں ڈالی اور پوچھا کہ یہ سورت جو میں نے تمھیں پڑھتے سنا ہے یہ تمھیں کس نے پڑھائی تھی ؟ انھوں نے جواب دیا کہ یہ مجھے رسول اللہ نے پڑھائی تھی۔ میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس طرز سے مختلف انداز میں پڑھائی تھی۔ جس طرزسے تم نے پڑھی ہے پھر میں ان کو کھینچتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا اور عرض کی کہ اس شخص کو میں نے سورۂ فرقان ایسی طرزوں سے پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائی تھیں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کو چھوڑ دو (اور پھر ارشاد فرمایا) اے ہشام پڑھو: ہشام نے اسی طرح پڑھا جس طرح میں نے انھیں پڑھتے سنا تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ پھر فرمایا: عمر تم پڑھو۔ میں نے آپ کو اسی طرح پڑھ کر سنایا جیسے آپ نے مجھے پڑھایا تھا۔ اس پر رسول اللہ نے فرمایا: یہ سورہ اسی طرح نازل ہوئی (اس کے بعد آپ نے مزید ارشاد فرمایا) یہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے اس میں سے جتنا میسر ہو سکے پڑھ لیا کرو۔‘‘
پہلے اس روایت کی سند کو لیجیے: مسلم اور ترمذی میں بھی اس کی سند یہی ہے۔ دوسری کتب حدیث میں اس کی مویدات عام طور پر کمزور سندوں کے ساتھ روایت ہوئی ہیں۔ اس لیے کسی دوسرے واسطے سے اس روایت کو زیادہ تقویت نہیں ملتی۔ لہٰذا اس حدیث کا قوی ترین طریق یہی ہے۔
اسے روایت کرنے والے مسور بن مخرمہ (صحابی) اور عبد الرحمان بن عبد القاری (تابعی) ہیں۔ حیرت ہے کہ اتنی اہم بات وہ اپنے شاگردوں میں سے کسی اور کے سامنے بیان نہیں کرتے اور عروہ کی احتیاط کا عالم یہ ہے کہ وہ ادراج، ارسال اور تدلیس کی صفات کے حامل ابنِ شہاب زہری ہی کو اپنا محرم راز بتاتے ہیں اور ان کے سواکسی دوسرے کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے۔ البتہ ابنِ شہاب نے اپنے تمام معتمد علیہ شاگردوں (مثلاً عقیل، شعیب، یونس، مالک، معمر وغیرہ) کے سامنے پورے اعتماد کے ساتھ یہ حدیث بیان کی اور انھوں نے حقِ شاگردی ادا کرتے ہوئے اس روایت کو عام کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔
ابنِ شہاب زہری نے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز کی وفات کے بعد دوسری صدی ہجری میں جمعِ حدیث کے کام کا آغاز کیا۔ گویا یہ روایت دوسری صدی ہجری میں پہلی مرتبہ منصۂ شہود پر آئی۔ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن اگر سات قرا ء توں پر نازل ہوا تھا تو قرا ء تِ عامہ کے علاوہ باتی چھ قرا ء توں کا دور دور تک پتا کیوں نہیں ملتا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ قرا ء تیں کیا ہوئیں اور کہاں گئیں؟ ان سوالوں کا جواب مشہور مورخ اور مفسر ابنِ جریر طبری نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں دیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خلیفۂ ثالث حضرت عثمانِ غنی نے قرآن میں اختلافات سے بچنے کے لیے بتقاضاے مصلحت صحابۂ کرام کے مشورے سے قرآن مجید کو لغت قریش پر باقی رکھا اور اس کے سوا دوسری قرا ء توں سے امت کو روک دیا اور ان مصاحف کو بھی ضائع کرا دیا جو قرا ء تِ عامہ کے سوا دیگر قرا ء توں میں تھے، اس لیے چھ قرا ء تیں دنیا سے محو ہو گئیں اور صرف ایک ہی قرا ء ت باقی رہی جو معروف و متداول ہے۔ ابنِ جریر ۳۱۰ ہجری میں فوت ہوئے گویا دوسری صدی ہجری میں اس انکشاف کے باوجود کہ قرآن سات قرا ء توں پر نازل ہوا، تیسری صدی ہجری تک ایک ہی قرا ء ت رائج تھی۔ لوگ قرا ء تِ عامہ کے سوا کسی دوسری قرا ء ت سے واقف نہ تھے۔
ابنِ جریر کی یہ توجیہ اگرچہ بجائے خود محلِ نظر ہے مگر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ اگر امرِ واقعہ میں ایسا ہی ہے تو سوال یہ ہے کہ حضرت عثمان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ (’ما انزل من ربک‘میں سے) چھ قرا ء توں کو منسوخ کر دیں جب کہ یہ حق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہ تھا۔
ابنِ جریر کی وضاحت میں مصلحتِ وقت اور صحابۂ کرام کے مشورے کو قرا ء توں کا ناسخ قرار دیا گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس تاویل سے تحریفِ قرآن کے قائلین کے موقف کو موکد کرنا پیشِ نظر ہو؟
حدیث کے متن پر غور کیجیے تو کچھ اور سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
۱۔ روایت میں بیان ہوا ہے کہ قرآن سات قرا ء توں پر اترا۔ اس کے لیے متن میں ’انزل‘ کا صیغہ نقل ہواہے۔ بعینہٖ اسی صیغے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی ذمہ داری بیان ہوئی ہے۔
يٰ٘اَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا٘ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَﵧ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ . (المائدہ ۵: ۶۷)
’’اے رسول جو چیز تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے، اس کو اچھی طرح پہنچا دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔‘‘
قرآن اگر فی الواقع سات قرا ء توں میں نازل ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منصبی ذمہ داری تھی کہ وہ قرآن ہی کی طرح اس کی سات قرا ء توں کو امت تک منتقل کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ قرا ء ت سبعہ کے قائلین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قرا ء تِ عامہ کے سوا باقی قرا ء توں کا دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ رسالت کی ذمہ داریاں پوری ہو گئیں ؟ اور کیا آپ نے اللہ کا پیغام تمام لوازم و لواحق کے ساتھ بلا کم و کاست پہنچا دیا ؟
۲۔ قرآن کے سات قرا ء توں پر نازل ہونے کا صاف مطلب یہ ہے کہ محدود مدت کے لیے ہی سہی، ان قرا ء توں کے مطابق لازماً قرآن پڑھا گیا ہو گا۔ کیا اس معاملے میں کسی ایک آیت کی سات قرا ء تیں پیش کی جا سکتی ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن کی عظمت اور اس کے شرف کو بیان کرتے ہوئے دو پہلوؤں کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے۔ ایک یہ کہ قرآن ہر اعتبار سے محفوظ ہے اس کے بھیجنے والے اللہ تعالیٰ لانے والے جبرئیلِ امین، وصول کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اخذو وحکایت کرنے والے خلق کے پاکیزہ ترین اخیار و صالحین ہیں۔ ان میں کہیں بھی شیطان (یا کسی اور) کی دراندازی کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ اس کی حفاظت کا انتظام خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ قرآنِ مجید میں یہ مضمون ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۣ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖﵧ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ. (حٰم السجدہ ۴۱: ۴۲)
’’اس میں باطل نہ اس کے آگے سے داخل ہو سکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے، یہ (کتاب) خداے حکیم و حمید کی طرف سے نہایت اہتمام کے ساتھ اتاری گئی ہے۔‘‘
اس پر مستزاد یہ کہ اس کی حفاظت و ترتیب کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لی ہے:
لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ. اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ. فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ. ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ . (القیامہ ۷۵: ۱۶ - ۱۹)
’’اس کو جلدی سیکھ لینے کے لیے اس کے پڑھنے پر اپنی زبان کو تیز حرکت نہ دو، ہمارے ذمہ ہے اس کو جمع کرنا اور اس کو سنانا تو جب ہم اس کو سنا چکیں تو اس سنانے کی پیروی کرو پھر ہمارے ہی ذمہ ہے اس کی حفاظت کرنا۔‘‘
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ . (الحجر ۱۵: ۹)
’’ یہ یاددہانی ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘
جب قرآن کی حفاظت کا معاملہ یہ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر قرآن کی چھ قرا ء تیں کیسے ضائع ہو گئیں۔
۳۔ قرآنِ مجید میں کسی بھی قسم کے تغیر کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْﵐ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰ٘ي اِلَيَّﵐ اِنِّيْ٘ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ. (یونس ۱۰: ۱۵)
’’کہہ دو مجھے کیا حق ہے کہ میں اس (قرآن) میں اپنے جی سے ترمیم کر دوں میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر آتی ہے اگر میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو بے شک میں ایک ہول ناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘
قرآن میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے بارے میں اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کا یہ عالم ہے تو پھر ان کے سوا اور کون ہے جس نے قرآن کی چھ قرا ء توں کو منسوخ قرار دینے کی جسارت کی اور اسے نسخ کا یہ اختیار کہاں سے ملا ؟
۴۔ زیرِ بحث روایت میں مذکور واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہشام بن حکیم کے ایک نماز کی امامت کرتے ہوئے سورۂ فرقان کی تلاوت سے قرا ء تِ عامہ کے علاوہ دوسری قرا ء توں کا انکشاف ہوا۔ ہشام فتح مکہ کے بعد ایمان لائے، فتح مکہ کے بعد ہجرت کرنا واجب نہ رہا تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت چند مہینے ہی میسر آئی ہو گی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمر کی رفاقت کا عرصہ کم و بیش بیس برسوں پر محیط ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفر و خضر کے جان نثاروں کو چھوڑ کر کسی خلوت گاہ میں ہشام جیسے نو مسلم کو قرآن کی نادر قرا ء تیں سکھائیں؟
۵۔ حدیث کے الفاظ ’’سبعہ احرف‘‘ کا مطلب کیا ہے ؟ ’’احرف‘‘ حرف کی جمع ہے، عربی میں یہ لفظ کنارے، دھار اور نوکیلے سرے کے معنوں میں آتا ہے۔ اس کی واحد معقول توجیہ (معروف سے ہٹ کر) یہ ہو سکتی تھی کہ اسے مختلف عرب قبائل کی لغات اور لہجوں پر محمول کیا جائے (یہ اگرچہ اس لفظ کا نادر استعمال ہے) لیکن روایت کا متن، ان معنوں کو بھی قبول نہیں کرتا۔ حضرت ہشام اور حضرت عمر دونوں قریشی ہیں لہٰذا ان کے لہجوں میں اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
امام سیوطی نے اپنی کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں ’’سبعہ احرف‘‘ کے معنی کی تعیین میں چالیس کے قریب اقوال نقل کیے ہیں اور ہر ایک پر تنقید کر کے ان کی کمزوری واضح کر دی ہے۔ اس کے بعد اپنی موطا امام مالک کی شرح تنویر الحوالک میں بالآخر انھوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ ’’سبعہ احرف‘‘ کے معنی متشابہات میں سے ہیں اس کی مراد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہ لکھتے ہیں:
وارجھا عندی قول من قال ان ھذا من المتشابه الذی لا یدری تاویله.(باب : ماجا فی القرآن ج ۱ ،ص ۱۵۹ )
’’میرے نزدیک سب سے بہتر رائے اس معاملے میں انھی لوگوں کی ہے جو کہتے ہیں کہ یہ روایت ان امورِ متشابہات میں سے ہے جن کی حقیقت کسی طرح نہیں سمجھی جا سکتی۔‘‘
۶۔ عربوں میں لہجوں اور لغات کے اختلاف کے باعث یہ تو ہو سکتا تھا کہ مختلف قبیلوں کو اپنے اپنے لہجوں میں قرآن پڑھنے کی اجازت دے دی جاتی لیکن یہ کہنا کہ قرآن نازل ہی سات قرا ء توں میں ہوا تھا، قرآن ہی کی صریح نص کے خلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن قریش کی ٹکسالی زبان (Sandard Language) میں نازل ہوا تھا:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ . (الدخان ۴۴: ۵۸ )
’’پس ہم نے اس قرآن کو تمھاری زبان میں نہایت خوبی سے آراستہ کیا تاکہ وہ (مشرکین بنی اسماعیل) یاددہانی حاصل کریں۔‘‘
’تیسیر‘عربی زبان میں کسی چیز کو کسی مقصد کے لیے موزوں اور سازگار بنانے اور محکم و استوار کرنے کو کہتے ہیں۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے اور تعلیم و تذکیر کے لیے یہ تمام ضروری لوازم سے آراستہ ہے، قرا ء ت سبعہ کو مان لینے سے ایک تو ’تیسیر‘ختم ہو جاتی ہے اور دوسرے ان قرا ء توں کے لیے ’انزل‘ کا فعل کسی طرح بھی موزوں نہیں ہے۔
۷۔روایت کے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تبصرے کی صورت میں ’فاقروا ما تیسر منه‘(اس میں سے جتنا میسر ہو سکے پڑھ لیا کرو) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ یہ جملہ بعینہٖ سورۂ مزمل میں نقل ہوا ہے جہاں اس سے مراد قرآنِ مجید ہے لیکن روایت میں چونکہ قرا ء توں کا معاملہ زیرِ بحث ہے اس لیے اس جملے کا مصداق لازماً ’’سبعہ احرف‘‘ کو ہونا چاہیے مگر منہ کی ضمیر غائب مذکر ہے اور اس کا مرجع ’’سبعہ احرف‘‘ کو قرار دینا ممکن نہیں (اس کے لیے ’منه‘ کے بجائے ’منها‘ ہوتا تو گوارا تھا)۔ سوال یہ ہے کہ ’منه‘ کی ضمیر مذکر (غائب) کا مرجع کیا ہے اگر ’سبعہ احرف‘ کی طرف راحج ضمیر لانا مقصود تھا تو ’با‘ کے صلے کے ساتھ زیادہ موزوں ہوتا یعنی قواعدِ عربیت کی رو سے ’منه‘ کے بجائے ’بها‘ ہونا چاہیے تھا۔ اس مشکل کا حل کیا ہے ؟
یہ سوالات ایسے نہیں ہیں جنھیں نظر انداز کر دیا جائے۔ اہلِ علم سے درخواست ہے کہ وہ ان سوالات پر غور کریں اور دنیاے علم کو اپنے جواب سے آگاہ کریں۔
ـــــــــــــــــــــ