میزان
جہاد کے معنی کسی جدوجہد میں پوری قوت صرف کر دینے کے ہیں۔ قرآن میں یہ تعبیر جس طرح اللہ کی راہ میں عام جدوجہد کے لیے استعمال ہوئی ہے، اسی طرح قتال فی سبیل اللہ کے لیے بھی جگہ جگہ آئی ہے۔ یہاں اس کا یہی دوسرا مفہوم پیشِ نظر ہے۔ امن اور آزادی انسانی تمدن کی ناگزیر ضرورت ہے۔ فرد کی سرکشی سے اس کی حفاظت کے لیے تادیب اور سزائیں ہیں، لیکن اگر قومیں شوریدہ سر ہو جائیں تو ہر شخص جانتا ہے کہ اُن کے خلاف تلوار اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ نصیحت اور تلقین جب تک کارگر ہو، تلوار اٹھانے کو کوئی شخص بھی جائز قرار نہ دے گا، مگر جب کسی قوم کی سرکشی اور شوریدہ سری اس حد کو پہنچ جائے کہ اسے نصیحت اور تلقین سے صحیح راستے پر لانا ممکن نہ رہے تو انسان کا حق ہے کہ اس کے خلاف تلوار اٹھائے اور اُس وقت تک اٹھائے رکھے، جب تک امن اور آزادی کی فضا دنیا میں بحال نہ ہو جائے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ تلوار اٹھانے کی یہ اجازت اگر نہ دی جاتی تو قوموں کی سرکشی اس انتہا کو پہنچ جاتی کہ تمدن کی بربادی کا تو کیا ذکر، معبد تک ویران کر دیے جاتے ہیں اور اُن جگہوں پر خاک اڑتی، جہاں اب شب و روز اللہ پروردگارِ عالم کا نام لیا جاتا اور اس کی عبادت کی جاتی ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا.(الحج ۲۲: ۴۰)
’’اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو خانقاہیں، گرجے، معبد اور مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے، سب ڈھا دیے جاتے۔‘‘
جہاد کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:
ایک ظلم و عدوان کے خلاف،
دوسرے اتمامِ حجت کے بعد منکرینِ حق کے خلاف ۔
پہلی صورت شریعت کا ابدی حکم ہے اور اس کے تحت جہاد اُسی مصلحت سے کیا جاتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ دوسری صورت کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانونِ اتمامِ حجت سے ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ انھی لوگوں کے ذریعے سے روبہ عمل ہوتا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ ’’شہادت‘‘ کے منصب پر فائز کرتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ حق کی ایسی گواہی بن جاتے ہیں کہ اس کے بعد کسی کے لیے اُس سے انحراف کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔ انسانی تاریخ میں یہ منصب آخری مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام کو حاصل ہوا ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا. (البقرہ ۲: ۱۴۳)
’’اور اسی طرح پیغمبر کے ساتھیو، ہم نے تمھیں درمیان کی جماعت[1] بنایا تاکہ تم دنیا کی اقوام پر (اِس دین کی) شہادت دینے والے بنو اور پیغمبر تم پر یہ شہادت دے ۔‘‘
اس قانون کی رو سے اللہ کی حجت جب کسی قوم پر پوری ہو جاتی ہے تو اس کے منکرین پر اسی دنیا میں عذاب آجاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہلِ حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی۔ پھر اس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں اور اُن کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی طرف سے اتمامِ حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی۔ چنانچہ انھیں جس طرح ظلم و عدوان کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسان کے ہاتھوں سے انجام پایا۔ اسے ایک سنتِ الہٰی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ انسانی اخلاقیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’یعذبھم اللہ بایدیکم‘[2] (اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے سزا دے گا) کے الفاظ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔
ذیل میں ہم جہاد کی ان دونوں صورتوں سے متعلق قرآن کے نصوص کی وضاحت کریں گے۔
(باقی)
ـــــــــــــــــــــ