(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث : ۶۳)
عن أبی ھریرة رضی اﷲ عنه قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: إن اﷲ تعالٰی تجاوز عن أمتی ما وسوست به صدورھا، ما لم تعمل به أو یتکلم به.
’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیال کے معاملے میں درگزر کا معاملہ کیا ہے ۔ جب تک وہ اس پر عمل نہ کر ڈالیں یا اسے زبان سے ادا نہ کر دیں ۔‘‘
تجاوز عن: یہ فعل اس صلے کے ساتھ کسی شے کو نظر انداز کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔ اس سیاق میں اس سے عفو و در گزر مراد ہے۔
وسوست: جو بات دل میں آئے یا دل میں ڈالی جائے ۔ یہاں یہ خیال آنے کے معنی میں آیا ہے۔
یتکلم: لغوی مطلب تو بات کرنا ہے لیکن یہاں اس سے خیال پر عمل کرنا ہی مراد ہے ۔ کچھ برائیوں کا تعلق ہاتھوں اور پاؤں سے ہے اور کچھ کا تعلق زبان سے ۔ یہاں بولنے سے یہ دوسری قسم ہی مراد ہے ۔
یہ روایت اگرچہ متعدد کتب ِحدیث میں آئی ہے،لیکن اس کے متون میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے اور جو فرق پایا جاتا ہے اس کی نوعیت بھی محض لفظی فرق کی ہے ۔ معنی کے تعین میں اس فرق کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ مثلاً دیکھیے ایک روایت میں ’ماوسوست به صدورھا ‘ کی جگہ’ ماحدثت به أنفسھا‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ دونوں جملے بالکل ہم معنی ہیں ۔ایک دوسری روایت میں ’ما لم تعمل به أو تکلم‘ کے واحد کے صیغوں کے بجائے ’ما لم یتکلموا أو یعملوا به‘کی صورت میں جمع کے صیغے روایت ہوئے ہیں ۔ ان سے بھی روایت کے معنی میں کچھ اضافہ نہیں ہوتا ۔اسی طرح ایک روایت میں ’إن اﷲ تجاوز‘کے موقع پر مجہول کا صیغہ ’تُجَوَّزُ‘ آیا ہے ۔ یہ فرق بھی غیر اہم ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ معروف کا اسلوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ بیان سے زیادہ موافقت رکھتا ہے ۔ لہٰذا حضور کے اپنے الفاظ یہی ہوں گے ۔ اس بات کی تائید اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ اس روایت کے ایک ہی متن میں مجہول کا اسلوب آیا ہے ۔ باقی پندرہ سے زیادہ متون میں معروف صیغہ ہی روایت ہوا ہے۔
مسلم کی ایک روایت میں قتادہ رحمہ اللہ کا ایک اثر بھی مذکور ہے ۔ غالباً انھوں نے اس روایت سے استشہاد کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جب تک طلاق کے الفاظ منہ سے نہ نکالے جائیں ، طلاق نہیں ہوتی ۔ دل میں طلاق کے خیال کے آنے کی کوئی حیثیت نہیں ۔ ان کا قول ہے : ’إذا طلق فی نفسه فلیس بشئ‘(جب (کوئی )دل میں طلاق دیتا ہے تو یہ کوئی چیز نہیں)۔
انسانی نفس میں اچھے اور برے ہر طرح کے خیالات آتے رہتے ہیں ۔ بسا اوقات آدمی پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور بعض اوقات وہ اپنے خیالات کی رو میں کافی آگے نکل جاتا اور یہ خیال خواہش اور ارادے کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں خبر دی ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت تک کوئی گرفت نہیں ہو گی ، جب تک بندہ اس کو عملی جامہ نہیں پہنا دیتا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی رحمت کا معاملہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برائی کے بارے میں سوچنا بھی ایک برائی ہے ۔ چنانچہ اس پرکچھ نہ کچھ گرفت کی جاتی تویہ غلط نہ ہوتا ۔ بطورِ خاص وہ غلط خیالات جن کا باعث شیطان کی وسوسہ اندازی نہیں ہوتی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے بندوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں رحمت ہی کو ترجیح دی ہے ۔ لہٰذا دل میں آنے والے خیالات کو اس وقت تک قابلِ گرفت قرار نہیں دیا جب تک وہ عمل میں نہ ڈھل جائیں ۔ در حقیقت خیال سے آگے خواہش ، ارادے اور عمل کے مراحل ہوتے ہیں ۔ جب تک عمل کا مرحلہ نہیں آتا ، اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ بندہ اپنی اس خواہش اور ارادے سے باز آجائے ۔ جب وہ باز آجاتا ہے تو یہ چیز اس کے دل میں یہ توقع پیدا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ برائی سے رک جانے کو عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے اس کوتاہی کا ازالہ قرار دیں گے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسی عفو و درگزر کا معاملہ کیا ہے ۔
اس روایت میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ قول و فعل کی دونوں صورتیں عمل ہی قرار پائیں گی، جو برائیاں زبان کی برائیاں ہیں وہ زبان سے ادا کرنے کی صورت میں اور جو برائیاں عمل کی برائیاں ہیں وہ عمل کی صورت میں ڈھلتے ہی آدمی کو گناہ گار بنا دیں گی ۔
بخاری ، کتاب العتق ، باب ۶ ۔ کتاب الطلاق ، باب ۱۱۔ کتاب الایمان و النذور ، باب ۱۵ ۔ مسلم ، کتاب الایمان ، باب ۵۸ ۔ سنن ترمذی ، کتاب الطلاق واللعان ، باب ۸ ۔ سنن نسائی ، کتاب الطلاق ، باب ۲۷ ۔ ابو داؤد ، کتاب الطلاق ، باب ۱۴ ۔ابنِ ماجہ ، کتاب الطلاق ، باب۱۴ ۔ احمد، مسند ابوہریرہ۔
___________