(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۶۲)
عن حذیفة رضی اﷲ عنه قال: إنما النفاق کان علی عهد رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم. فأما الیوم، فإنما ھو الکفر أو الایمان.
’’ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ منافقت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پائی جاتی تھی ۔ آج صرف کفر ہے یا ایمان ۔‘‘
النفاق: وہ رویہ جس میں ظاہر کچھ ہو اور باطن کچھ۔
الیوم: آج ۔ اصل میں زمانۂ حاضر مراد ہے ۔
حضرت حذیفہ سے اس کے برعکس مضمون کی حامل ایک اور روایت بخاری ہی نے روایت کی ہے ۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عن حذیفة بن الیمان رضی اﷲ عنه قال: إن المنافقین الیوم شر منھم علی عھد النبی صلی اﷲ علیه وسلم کانوا یومئذ یسرون والیوم یجھرون.(بخاری ، کتاب الفتن ، باب ۲۰)
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آج کے منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے منافقین سے زیادہ برے ہیں ۔ وہ ان دنوں چھپایا کرتے تھے اور یہ ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
یہ روایت اور زیرِ بحث روایت دونوں بخاری ہی نے روایت کی ہیں ۔ اور بخاری میں بھی ان کا ایک ایک متن ہی درج ہوا ہے ۔ لہٰذا ان کے متن کے اختلاف کا کوئی سوال نہیں ہے ۔
البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منافقت کا معاملہ بعض دوسری روایات میں ضمناً بیان ہو گیا ہے ۔مثلاً مسلم کی ایک روایت میں قرب ِقیامت میں دجال کے خروج کے موقع پر مدینہ کے حالات کا ذکر ہوا ہے ۔ اس روایت میں ’یخرج إلیه منھا کل کافر و منافق‘،’فیخرج إلیه کل منافق و منافقة‘[1] ( اس کی طرف نکلیں گے کافر اور منافق اس کی طرف نکلیں گے منافق اور منافقہ) کے الفاظ سے واضح ہے کہ منافقت کے حضور کے زمانے کے ساتھ خصوص کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک خطبے میں اس امت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اندیشے کاذکر ہوا ہے ۔ اس میں بھی منافق ہی زیرِ بحث ہیں ۔ آپ کے الفاظ ہیں : ’’إن أخوف ما أخاف علی ھذہ الامة کل منافق علیم اللسان‘‘ (اس امت کے بارے میں سب سے زیادہ خوف ناک چیز یہ ہے کہ ہر منافق بہت زبان آور ہوتا ہے ۔ )[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے ذریعے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تذکیر واضح کر دیتی ہے کہ ان کے نزدیک بھی منافقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔
متون کی تفصیل میں ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ اس معاملے میں حضرت حذیفہ سے متضاد باتیں مروی ہیں ۔ ایک میں حضرت حذیفہ بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے زمانے میں منافقین کے وجود کی نفی کررہے ہیں ۔ اور دوسری میں وہ خود ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے منافقین کے مقابلے میں آج کے منافقین زیادہ برے ہیں ۔ کیونکہ وہ اپنی منافقت کو چھپاتے تھے اور یہ علی الاعلان منافقانہ روش اپنائے ہوئے ہیں ۔
لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے یہ دونوں بیانات ایک ہی موقع کے ہیں ۔ ان کا باہمی تعلق دعوے اور استدلال کا ہے ۔ یعنی حضرت حذیفہ کے نزدیک دین کی دشمنی اگر دل میں ہو اور اس کے اظہار یعنی دین کو نقصان پہنچانے کی کوششیں بھی خفیہ رکھی جائیں تو یہ نفاق ہے ۔ اگر یہ کام علی الاعلان کیا جا رہا ہو تو یہ نفاق نہیں بلکہ کفر ہے اور اس زمانے میں ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ دین کے دشمن دین کے خلاف سرگرمیوں میں کھلے بندوں مصروف ہیں ۔ لہٰذا انھیں مسلمانوں میں شمار کرکے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی طرح مسلمانوں کے حقوق دینے کے بجائے ان کے اوپر ارتداد[3] کاقانون نافذ کرنا چاہیے ۔
یہ روایات دو الگ موقع کی روایات بھی ہوسکتی ہیں ۔ اس صورت میں زیرِ بحث روایت کا تعلق اس قانون کے نفاذ سے ہو گا ، جو منافقین کے حوالے سے سورۂ توبہ میں بیان ہوا ہے ۔سورۂ توبہ کی آیت ۳۸ سے آیت ۹۰ تک منافقین کا کردار اور ان کے ساتھ معاملہ کی نوعیت زیرِ بحث ہے۔ بطورِخاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے استیصال کا حکم دیا گیا ہے اوران کے لیے دعاے مغفرت سے روک دیا گیا ہے۔ممکن ہے حضرت حذیفہ نے کسی موقع پر یہ بات بیان کی ہو کہ اب کسی مسلمان کو منافق قرار دے کر سورۂ توبہ کی ان آیات کا اس پر اطلاق درست نہیں ہے ۔ یہ احکام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھے ۔ اس لیے کہ منافقین کے بارے میں وحی کی وجہ سے وہی یہ متعین کر سکتے تھے کہ فلاں آدمی منافق ہے ۔ اب اس کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا ۔ لہٰذا اب کسی کو منافق قرار دینا درست نہیں ہے ۔
بخاری ، کتاب الفتن ، باب ۲۰ ۔ مسلم ، کتاب الفتن و اشراط الساعہ ، باب ۲۴ ۔ احمد ، مسند عمر بن الحطاب۔
___________