HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۲۲- ۱۲۵ (۲۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

يٰبَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِيَ الَّتِيْ٘ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّيْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ١٢٢ وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِيْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْـًٔا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ ١٢٣

اے[293]  بنی اسرائیل،  میری اُس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی تھی[294] اور اِس بات کو کہ میں نے  تمھیں دنیا والوں پر فضیلت دی تھی[295] اور اُس دن سے ڈرو [296]جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ اُس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ لوگوں کو کوئی مدد ہی ملے گی۔[297]۱۲۲ - ۱۲۳

وَاِذِ ابْتَلٰ٘ي اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّﵧ قَالَ اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاﵧ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْﵧ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ ١٢٤

اور یاد کرو،  جب ابراہیم کو اُس کے پروردگار نے چند باتوں[298] میں آزمایا[299] تو اُس نے وہ پوریکر دیں،[300] فرمایا: میں نے فیصلہ کیا ہے کہ  تمھیں لوگوں[301] کا امام بناؤں گا۔[302] عرض کیا: اور میری اولاد میں سے ؟ فرمایا: میرا یہ عہد اُن میں سے ظالموں کو شامل نہیں ہے۔[303] ۱۲۴

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاﵧ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّيﵧ وَعَهِدْنَا٘ اِلٰ٘ي اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّآئِفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ ١٢٥

ل  اور یاد کرو،  جب ہم نے (سرزمینِ عرب میں) اِس بیت الحرام[304]   کو لوگوں[305] کا مرجع اور اُن کے لیے پناہ کی جگہ قرار دیا اور  حکم دیا کہ ابراہیم کی اس قیام گاہ میں نماز کی ایک جگہ بناؤ[306]اور ابراہیم و اسمٰعیل کو اس بات کا پابند کیا[307] کہ میرے اِس گھر کو اُن لوگوں کے لیے پاک رکھو[308] جو (اِس میں) طواف کرنے،  اعتکاف کرنے اور رکوع و سجدہ کرنے کے لیے آئیں۔[309]۱۲۵


[293]۔  سورہ کی پہلی فصل آیت ۱۲۱ پر  ختم ہوئی۔  یہاں سے دوسری فصل شروع ہو رہی ہے،  لہٰذا نظم کے لحاظ سے آگے کا مضمون اب پچھلے کسی پیرے سے نہیں،  بلکہ پوری فصل کے ساتھ مربوط ہے۔ پچھلی فصل میں یہ حقیقت اچھی طرح واضح کر دی گئی ہے کہ اہلِ کتاب،  بالخصوص یہود کے لیے دینِ حق کی طرف آنے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اُن کا یہ زعم ہے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔  وہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت اور نجات اگر حاصل ہو سکتی ہے تو صرف اِسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ آدمی یہود و نصاریٰ میں سے کسی ایک کا دین اختیار کرے۔  اس دوسری فصل میں اہلِ کتاب کے انھی مزعومات کی تردید کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے فرزندوں کی سرگزشت کا وہ حصہ اُن کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے جس سے اُن کی تردید کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کی دعوت کی پوری پوری تائید بھی ہو رہی ہے۔  اہلِ کتاب کے لیے یہ مضمون گویا اتمامِ حجت کے اسلوب میں اِس بات کی دعوت ہے کہ یہودیت اور نصرانیت کے تعصبات کو چھوڑ کر وہ اِس دینِ ابراہیمی کی پیروی کریں جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم انھیں بلا رہے ہیں۔  پچھلی فصل کے پورے مضمون کو اس لحاظ سے یہ فصل اس کے نقطۂ عروج پر پہنچا دیتی ہے۔  اِس کی ابتدا اگر غور کیجیے تو انھی آیات (۴۷-   ۴۸) سے ہوئی ہے جو پچھلی فصل کے شروع میں ہم دیکھ چکے ہیں۔  یہ اعادہ سورہ کے مضمون میں اِس وصل و فصل کو بالکل نمایاں کر دیتا ہے۔

[294]۔     یعنی دنیا میں جو کچھ فضیلت بھی تمھیں حاصل رہی ہے،  محض اللہ تعالیٰ کی عنایت سے حاصل رہی ہے۔  اِس میں نہ تمھارے استحقاق کو کوئی دخل ہے اور نہ تمھاری خاندانی شرافت کو۔  اِس لیے اِس کے غرور میں مبتلا ہو کر اِس دعوت سے منہ نہ موڑو جو اِس وقت تمھارے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔

[295]۔     یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے اور اس اجمال کی وضاحت ہے جو لفظ نعمت میں موجود ہے۔  فضیلت سے مراد یہاں قوموں پر حق کی شہادت کا وہی منصب ہے جس پر بنی اسرائیل صدیوں فائز رہے ہیں۔

[296]۔     یعنی اس دعوت کو قبول کرو اور اِس کے معاملے میں اُس دن سے ڈرو جس میں   تمھیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔

[297]۔  یعنی اِس خیال میں نہ رہو کہ تم چونکہ ابراہیم اور اسحاق و یعقوب جیسے انبیا علیہم السلام کی اولاد ہو،  اس لیے روزِ قیامت تمھاری نجات کے لیے اُن بزرگوں کی نسبت ہی کافی ہے۔  یاد ر کھو،  وہاں عمل کے سوا کوئی چیز بھی تمھارے کام نہ آ سکے گی۔

[298]۔  اصل میں لفظ ’كلمٰت‘آیا ہے جو ’كلمة‘کی جمع ہے۔  یہ مفرد لفظ کے معنی میں بھی آتا ہے اور پوری بات کے لیے بھی۔  یہاں اِس سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ احکام ہیں جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ایمان و اسلام پر اُن کی استقامت کے امتحان کے لیے دیے گئے اور انھوں نے بغیر کسی تردد کے بے چون و چرا اُن کی  تعمیل کی۔  مثلاً،  خاندان اور قوم و وطن سے ہجرت اور دشتِ غربت میں اکلوتے فرزند کی قربانی۔  ان احکام کے لیے لفظ ’كلمة‘، اگر غور کیجیے تو نہایت موزوں استعمال ہوا ہے۔  اپنے معنی کے لحاظ سے یہ ایک قسم کے ابہام و اجمال کا حامل ہے۔  سیدنا ابراہیم کو اُن کے امتحان کے لیے جو احکام دیے گئے،  اُن کی نوعیت بھی یہی تھی کہ حکم تو دیا گیا،  لیکن اُس کا صلہ اور فلسفہ بیان نہیں کیا گیا۔  گویا ایک مجمل بات بغیر کسی وضاحت کے سامنے رکھ دی گئی کہ وہ اسے پورا کر دیں۔

[299]۔  اصل میں لفظ ’ابتلا‘استعمال ہوا ہے۔  اس کے معنی جانچنے اور امتحان کرنے کے ہیں۔  بندوں کی اخلاقی تربیت کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے۔  اِسی سے اُن کی چھپی ہوئی صلاحیتیں ابھرتی اور پروان چڑھتی ہیں اور اِسی سے اُن کے کھوٹے اور کھرے کو الگ کیا جاتا ہے۔

[300]۔  اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو جن امتحانوں میں ڈالا،  اُن میں سے ہر امتحان نہایت   کٹھن تھا۔  وہ ان سب میں پورے اترے،  لیکن بیٹے کی قربانی کا امتحان اِن سب سے بڑھ کر تھا۔  اس میں پورا اترنا تو الگ رہا،  اس کا تصور بھی ہماشما کے لیے آسان نہیں ہے۔  تاہم سیدنا ابراہیم اس میں بھی ہر لحاظ سے پورے اترے اور خدا کے حکم پر اپنے سیزدہ سالہ اکلوتے اور محبوب فرزند کو قربانی کے لیے ماتھے کے بل پچھاڑ دیا،  یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  ابراہیم تو نے تو خواب کو سچ کر دکھایا۔  یہی موقع تھا جب اللہ تعالیٰ نے اُن سے وعدہ کیا کہ میں  تمھیں لوگوں کا امام بناؤں گا۔

[301]۔  سیدنا ابراہیم علیہ السلام جن لوگوں کے امام بنائے گئے،  اُن کے لیے اصل میں لفظ ’الناس‘استعمال ہوا ہے۔  اس میں لام عہد کا ہے اور اس سے مراد ذریتِ ابراہیم ہے،  عام اس سے کہ وہ سیدنا اسحاق کی نسل سے ہوں یا سیدنا اسمٰعیل کی نسل سے۔  نبوت اسی ذریتِ ابراہیم پر  ختم ہوئی اور ایمان و ہدایت کی دولت دنیا نے انھی کے ذریعے سے پائی۔

[302]۔  یہ ایک ہی وعدہ بیک وقت دو وعدوں پر   مشتمل ہے: ایک یہ کہ اُن کی نسل سے   عظیم قومیں پیدا ہوں گی،  دوسرے یہ کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اُن سب کے امام اور پیشوا ہوں گے۔  بائیبل کی کتابِ پیدایش میں اس وعدے کا ذکر اس طرح ہوا ہے:

’’اور خداوند کے فرشتے نے آسمان سے دوبارہ ابراہام کو پکارا اور کہا کہ خداوند فرماتا ہے کہ چونکہ تو نے یہ کام کیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے،  دریغ نہ رکھا۔  اس لیے میں نے بھی اپنی ذات کی قسم کھائی کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کر دوں گا اور تیری اولاد اپنے دشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہو گی اور تیری نسل کے وسیلے سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی،  کیونکہ تو نے میری بات مانی۔‘‘ (۲۲: ۱۵ - ۱۸)

[303]۔  اس سے مخاطبین کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ابراہیم سے تعلق کی بنا پر وہ اگر اپنے آپ کو ایمان و عمل کی ذمہ داری سے سبک دوش سمجھے ہوئے ہیں تو اُن کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔  اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جس دن ابراہیم کو امامت کا یہ منصب دیا تھا،  اسی دن یہ بات بھی اُن پر واضح کر دی تھی کہ تمھاری ذریت میں سے جو لوگ تمھارے طریقے پر قائم اور میری ہدایت کے پیرو رہیں گے،  اس امامت کے وارث بھی وہی ہوں گے۔  ان میں سے جو میرے ساتھ اپنا عہد توڑ کر شیطان کے راستے پر چل پڑیں گے،  اُن کے لیے اس امامت میں کوئی حصہ نہ ہو گا۔

[304]۔     اصل میں لفظ ’البيت‘آیا ہے۔  اس میں لام عہد کا ہے۔  اور اس سے مراد ام القریٰ مکہ کا بیت الحرام ہے۔  بائیبل میں اسے بیتِ ایل سے تعبیر کیا گیا ہے۔  ایل کے معنی عبرانی میں اللہ کے ہیں۔  پیدایش میں ہے:

 ’’اور ابرام اُس ملک میں سے گزرتا ہوا مقام سکم میں مورہ (مروہ) کے بلوط تک پہنچا۔  اُس وقت ملک میں کنعانی رہتے تھے۔  تب خداوند نے ابرام کو دکھائی دے کر کہا کہ یہی ملک میں تیری نسل کو دوں گا اور اس نے وہاں خداوند کے لیے جو اُسے دکھائی دیا تھا،  ایک قربان گاہ بنائی اور وہاں سے کوچ کر کے اُس پہاڑ کی طرف گیا جو بیتِ ایل کے مشرق میں ہے اور اپنا ڈیرا ایسے لگایا کہ بیتِ ایل مغرب میں اور عی مشرق میں پڑا اور وہاں اُس نے خداوند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور خداوند سے دعا کی۔‘‘ (۱۲ :۶-  ۸)

                     امام فراہی نے اپنے رسالہ ’’الرای الصحیح فی من ہو الذبیح ‘‘ میں بعض دوسرے اشارات و قرائن سے بھی یہ بات پوری قطعیت سے ثابت کر دی ہے کہ ابراہیم نے جو معبد بنایا،  وہ یہی بیت الحرام ہے۔  ذریتِ ابراہیم کی عبادت اور قربانی کا قبلہ،  عام اس سے کہ وہ بنی اسمٰعیل ہوں یا بنی اسرائیل ہمیشہ سے ام القریٰ مکہ کا بیت اللہ ہی ہے۔  یہود نے محض تعصب کی وجہ سے اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

[305]۔     لوگوں سے مراد یہاں بھی وہی ذریتِ ابراہیم ہے جس کا ذکر اوپر ’اني جاعلك للناس اماماً‘ میں ہوا ہے۔  دنیا کی تمام اقوام کے لیے اس گھر کی برکتیں انھی کی وساطت سے عام ہوئیں۔

[306]۔     اصل الفاظ ہیں: ’واتخذوا من مقام ابراهيم مصلّٰي‘۔یہ اوپر والے جملے ہی کی مزید وضاحت ہے  اس کے ساتھ ’قال‘ یا اس طرح کا کوئی دوسرا لفظ اسی وجہ سے نہیں آیا۔  پہلے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو ذریتِ ابراہیم کا قبلہ ٹھیرایا۔  پھر وضاحت کی ہے کہ اسی فیصلے کو روبہ  عمل کرنے کے لیے ابراہیم اور اس کی ذریت کو حکم ہوا کہ ابراہیم کی اس قیام گاہ کے ایک حصے میں نماز کی جگہ بناؤ۔  بیت اللہ کو یہاں ’مصلّٰي‘ یعنی نماز کی جگہ سے اس لیے تعبیر کیا ہے کہ یہود پر یہ حقیقت واضح کی جائے کہ خدا کا یہ گھر درحقیقت ایک مسجد ہی کی حیثیت سے تعمیر کیا گیا تھا اور اب خدا کا پیغمبر اس کی اسی حیثیت کی تجدید کے لیے مبعوث ہوا ہے۔  اسی طرح مکہ کے لیے ابراہیم کی قیام گاہ کی تعبیر اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ یہود نے مروہ کی قربان گاہ اور بیت اللہ سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا تعلق بالکل کاٹ دینے کے لیے اپنی کتابوں کے بیانات میں جگہ جگہ تحریفات کر دی تھیں۔  قرآن نے یہ لفظ استعمال کر کے انھی تحریفات کی تردید کی ہے۔  امام فراہی نے اپنے اسی رسالہ میں جس کا ذکر اوپر ہوا ہے،  یہود کی ان تحریفات کا پردہ خود انھی کی کتابوں کے دلائل سے بالکل چاک کردیا ہے۔  استاذ امام اپنی تفسیر ’’تدبرِ قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’انھوں نے تورات ہی کے بیانات سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے وطن سے نکلنے کے بعد حضرت اسحاق کی والدہ کو تو کنعان میں چھوڑا اور خود حضرت اسمٰعیل اور اُن کی والدہ کے ساتھ بیر سبع کے بیابان میں قیام کیا۔  یہ جگہ ایک غیر آباد جگہ تھی۔  اس وجہ سے انھوں نے یہاں سات کنوئیں کھودے اور درخت لگائے۔  یہیں ان کو اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم صادر ہوا اور وہ حضرت اسمٰعیل کو لے کر مروہ کی پہاڑی کے پاس آئے اور اس حکم کی تعمیل کی۔  اسی پہاڑی کے پاس انھوں نے حضرت اسمٰعیل کو آباد کیا۔  پھر یہاں سے لوٹ کر وہ بیرسبع گئے اور اپنے قیام کے لیے ایسی جگہ منتخب کی جو خانہ کعبہ کے قریب بھی ہو اور جہاں سے وقتا ً فوقتا ً حضرت اسحٰق کو دیکھنے کے لیے جانا بھی آسانی سے ممکن ہو سکے۔‘‘(ج ۱  ص ۳۳۰)

[307]۔  اصل میں ’عهدنا الي ابراهيم‘ کے الفاظ آئے ہیں۔  ان میں ’عهد‘کے ساتھ ’الي‘کا صلہ دلیل ہے کہ یہاں یہ ذمہ داری ڈالنے اور پابند کرنے کے معنی میں ہے۔

[308]۔     یعنی غلاظت،  لہو و لعب،  اصنام و اوثان اور اس طرح کی کوئی ظاہری اور باطنی نجاست اس گھر میں نہیں ہونی چاہیے۔

[309]۔     طواف نذر کے پھیرے ہیں جو اپنا جان و مال اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کر دینے کی علامت کے طور پر معبد کے اردگرد لگائے جاتے ہیں۔  اس کی ابتدا حجرِ اسود کے استلام سے ہوتی ہے۔  یہ عہد و میثاق کی علامت ہے۔  اعتکاف دھیان گیان اور ذکر و فکر کے لیے کیا جاتا ہے اور رکوع و سجود نماز کی تعبیر ہے۔  قرآن کے اس بیان سے واضح ہے کہ یہ دینِ ابراہیمی کی قدیم عبادات ہیں۔ مسلمان جس طرح اب ان سے واقف ہیں،  قرآن کے مخاطبین بھی اسی طرح ان سے واقف  تھے۔ قرآن نے ان کا ذکر کسی نئے حکم کے طور پر نہیں،  بلکہ پہلے سے معلوم اور متعارف عبادات کی حیثیت سے کیا ہے۔ لہٰذا ان کا نام ہی اس کے مخاطبین کو ان کا مصداق سمجھانے کے لیے کافی ہے،  اس کے لیے کسی تفصیل اور وضاحت کی ہر گز کوئی ضرورت نہ تھی۔

(باقی)

ـــــــــــــــــــــ

B