HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

مہنگی کتابیں یا سستا ذوق

معروف اشاعتی ادارے ’’مقبول اکیڈمی‘‘ کے سربراہ ملک مقبول احمد صاحب نے کہا ہے:

’’یہ کہنا غلط ہے کہ کتابیں مہنگی ہونے کی وجہ سے مطالعہ میں کمی واقع ہوئی ہے۔  جب لوگ ایک برگر کھانے کے لیے کئی سو روپے خرچ  کر سکتے ہیں تو اچھی کتاب کیوں نہیں خرید سکتے۔  اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔  پہلے کتابوں کے خریدار زیادہ تھے،  کتابیں کم تھیں،  آج کتابیں زیادہ ہیں لیکن خریدار کم ہیں۔‘‘ ’دن، ۲۴ ستمبر ۲۰۰۰)

   مقبول صاحب کی یہ بات بالکل صحیح ہے۔  واقعی آج اگر کھانے پینے کی دکانوں پر جائیں تو لوگوں کی بے حد بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔  کھانے پینے کا کام کرنے والے بھی مالی اعتبار سے بہت خوش حال ہوتے ہیں،  مگر کتابوں کی دکانوں اور لائبریریوں میں لوگوں کی اس طرح بھیڑ دکھائی نہیں دیتی۔  اسی طرح پڑھنے لکھنے کا کام کرنے والے بھی بالعموم مالی اعتبار سے تنگ دست ہی ہوتے ہیں۔  یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ ہمارے ملک میں پڑھنے لکھنے کی طرف لوگوں کا رجحان کم ہو رہا ہے ۔

دکانوں میں خواتین کی بے ہودہ تصاویر اور گھٹیا مواد پر مبنی بہت سے رسائل لٹکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔  ان رسائل میں اشتہارات کی بھی بھرمار ہوتی ہے۔  لوگ ایسے رسائل خریدتے بھی بڑے شوق سے ہیں۔  ایسے رسائل مالی اعتبار سے بھی بہت اچھے ہوتے ہیں،  مگر دینی،  اخلاقی اور علمی موضوعات پر مبنی کم و بیش تمام رسائل دکانوں پر اس طرح دکھائی نہیں دیتے،  انھیں اشتہارات بھی اس طرح نہیں ملتے اور پھر لوگ انھیں اعزازی طور پر ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔  یعنی بے ہودہ رسائل کے قارئین اپنے گھٹیا شوق کی تکمیل کے لیے خوشی سے پیسے خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں،  مگر دینی اور علمی لوگ اپنے اعلیٰ ذوق کی تکمیل کے لیے پیسے خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔

ایک دفعہ میں ایک بہت امیرآدمی سے ملا۔  ان کاتین یا چار کنال پر   مشتمل گھر تھا۔  ان کے باورچی خانے نے جتنا رقبہ گھیرا ہوا تھا،  اتنے رقبے میں ایک غریب گھرانا زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔  ان کا لان اتنا وسیع تھا کہ اس پر غریب لوگوں کے سات آٹھ کوارٹر بن سکتے تھے۔  کھانے کے وقت انھوں نے میز پر کئی قسم کے کھانے سجا دیے،  مگر مجھے ’’اشراق‘‘ کے حوالے سے یہ کہا: ’’پہلے آپ مجھے اعزازی رسالہ بھیجا کرتے تھے،  پھر آپ لوگوں نے بند کر دیا۔[1] اس کے بعد میں نے ’’اشراق‘‘ نہیں پڑھا۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ لوگ خوش حال ہونے کے باوجود مہینے میں ۱۵ یا ۲۰ روپے خرچ کرنے کو پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں،  مگر کھانے،  پینے،  پہننے اور رسوم و رواج پر سیکڑوں،  ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کر ڈالنے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔  چنانچہ ہم بھی یہ بات کہنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے کہ کتب اور رسائل مہنگے نہیں ہوئے،  درحقیقت لوگوں کے ذوق و شوق سستے ہو گئے ہیں۔  لوگوں کے پاس وسائل موجود ہیں،  مگرعلم و آگہی کے معاملے میں وہ ’’غریب‘‘ ہو گئے ہیں۔

انا للہ وانا الیہ راجعون۔

   ـــــــ  محمد بلال

ـــــــــــــــــــــ

[1]۔  ’’اشراق‘‘ مالی اعتبار سے گرم سرد حالات سے دوچار رہتا ہے۔ جب حالات خراب ہوتے ہیں تو بسااوقات ’’اشراق‘‘ کی اعزازی ترسیل بند کرنا پڑتی ہے۔

B